انیس امروہوی
(آخری قسط )
29دسمبر،2024
فلم ’مدرانڈیا‘ سے سنیل دت کی زندگی کا ایک اہم واقعہ بھی جڑا ہوا ہے جس نے سنیل دت کی زندگی کو بدل کر رکھ دیا۔ اسی فلم میں اُس وقت کی مقبول اداکارہ نرگس کلیدی رول ادا کر رہی تھیں اور سنیل دت نے ان کے چھوٹے بیٹے کا رول ادا کیا تھا۔ فلم کے ایک منظر میں گائوں کا سرمایہ دار کنہیالال، سنیل دت کی کٹی ہوئی فصل میں آگ لگوا دیتا ہے اور سنیل دت بھی اسی فصل میں چھپا بیٹھا ہے۔ نر گس کو معلوم ہے کہ اس کا بیٹا بھی آگ کے انہی شعلوں میں موجود ہے لہٰذا وہ بیقرار ہوکر ’برجو برجو‘ کہتی ہوئی اپنے بیٹے کو تلاش کرتی آگ اور دھوئیں میں بھاگتی دوڑتی پھر رہی ہے۔
شوٹنگ کے دوران نرگس کو برجو تو نہیں ملتا مگر وہ خود چاروں طرف لگی آگ میں گھِر جاتی ہے۔ تب سنیل دت کو معلوم ہوتا ہے کہ نرگس آگ اور دھوئیں میں گھِر گئی ہیں، وہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے اس آگ میں کود جاتا ہے اور نرگس کو بچا لاتا ہے۔ اس واقعہ سے نرگس اتنی زیادہ متاثر ہوئیں کہ انہوں نے لوگوں کی مخالفت کو نظرانداز کرتے ہوئے، خود سے عمر میں کافی چھوٹے سنیل دت سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ سنیل دت نے تذبذب کے ساتھ نرگس کے سامنے شادی کی تجویز رکھی اور آخرکار ۱۱؍ مارچ ۱۹۵۸ء کو دونوں نے شادی کرلی۔
نرگس کے بڑے بھائی اختر حسین اس شادی کے خلاف تھے مگر چھوٹے بھائی انور حسین کو کوئی اعتراض نہیں تھا۔ شادی کے روز نرگس اپنے گھر سے یہ کہہ کر نکلیں کہ وہ اپنی کسی سہیلی سے ملنے جا رہی ہیں۔ ہندو مسلم شادیاں اس وقت اور بھی زیادہ مشکل تھیں، خواہ وہ فلم اسٹار ہی کیوں نہ ہو۔ سنیل دت سے ملنے کا وقت شام ۷؍ بجے کا تھا۔ لنکنگ روڈ پر آریہ سماج کے قریب سنیل دت کھڑے نرگس کا انتظار کر رہے تھے۔ ۷؍بجے، ۸؍ بجے، ۹؍ بجے.... حتیٰ کہ رات کے۱۰؍ بجے تک نرگس کا کہیں پتہ نہیں تھا۔ وہاں سے ہٹ کر سنیل دت فون تک کرنے نہیں جا سکتے تھے، کیونکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ وہاں سے ہٹیں اور نرگس آئیں اور سنیل کو خاص مقام پر نہ پاکر لوٹ جائیں۔ وہ اسی ادھیڑبن میں رہے کہ کہیں نرگس نے اپنا ارادہ تو نہیں بدل دیا؟ دوسری جانب نرگس ٹریفک میں پھنس گئی تھیں۔ اُسی دن پوپ جان پال ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ بمبئی میں اس سے قبل اتنا زبردست ٹریفک جام نہیں ہوا تھا۔ نرگس ٹیکسی بھی نہیں چھوڑ سکتی تھیں کیوں کہ ٹریفک کی وجہ سے دوسری ٹیکسی نہیں ملی تو....؟ اور نہ ہی وہاں پارکنگ کی کوئی گنجائش تھی۔ یہ سنیل دت کا ہی حوصلہ تھا کہ اپنے مقام پر ڈٹے رہے اور انتظار کرتے رہے.... دس بجے کے بعد نرگس وہاں پہنچیں اور پھریہ شادی ہو سکی۔ بعد میں سنیل دت اور نرگس کی یہ شادی فلمی دنیاکی ایک مثالی شادی ثابت ہوئی اور نرگس نے ہر اچھے بُرے وقت میں سنیل دت کا ساتھ ایک بہترین دوست اور ایک غم گسار بیوی کے روپ میں دیا۔
نرگس سے شادی کے بعد سنیل دت کی کامیابیوں کا سلسلہ تیزی سے شروع ہو گیا۔ ان کی ایک کے بعد ایک فلم کامیابی حاصل کرتی چلی گئی۔ ’’سادھنا، سجاتا، انسان جاگ اُٹھا، ایک پھول چار کانٹے، میں چپ رہوں گی اورگمراہ‘ جیسی فلموں کی کامیابی نے انہیں ہیرو سے اسٹار بنا دیا۔ وہ ایک باہمت، جواں حوصلہ اور مردانہ شخصیت کا نام تھا۔ ’مدر انڈیا‘ کے آگ کے واقعہ کی طرح ہی ایک فلم ’ہمالیہ سے اونچا‘کی لداخ میں شوٹنگ کے دوران فلم کی ہیروئین برفانی طوفان میں گھر گئی تھی۔ انہوں نے ہمت اور حوصلہ سے کام لیتے ہوئے اُسی طوفان میں ہیروئین کو تلاش کیا اور اس کی زندگی بچائی۔ اداکار کےطور پر اپنی اہمیت منوانے کے بعد انہوں نے ’اجنتا آرٹ گروپ‘ کے نام سے نہ صرف فلمسازی و ہدایتکاری شروع کی بلکہ ملک اور قوم کی خدمت کیلئے بہت سے چیریٹی پروگرام بھی پیش کئے اور ۱۹۶۲ء میں ہند چین کی جنگ کے وقت ملک کی سرحدوں پر جاکر اپنے فوجی بھائیوں کی حوصلہ افزائی، دلجوئی اور تفریح کیلئے دلچسپ پروگرام بھی پیش کئے۔ حالانکہ کئی بار ان کو خطرناک برفیلے علاقوں میں بھی ایسے پروگرام کرنے کیلئے جانا پڑا۔ جب ملک پر کوئی مصیبت آئی، سنیل دت ہمیشہ ملک کی خدمت کے لئے پیش پیش رہے ہیں۔
’مدرانڈیا‘ میں سنیل دت نے نگیٹیو رول نہایت کامیابی کے ساتھ ادا کیا تھا مگر اپنی ہیرو کی امیج کو توڑکر فلم ’پڑوسن‘ میں پہلی بارسنیل دت نے ایک کامیڈی کردار ادا کیا، حالانکہ اس فلم میں محمود اور کشور کمار جیسے کامیڈین بھی موجود تھے مگر اپنے بھولے پن اور احمقانہ حرکتوں والے اس کردار میں سنیل دت نے بہترین اداکاری پیش کی۔ نرگس کے انتقال کے بعد انہوں نے ایک بار پھر اپنی امیج کو توڑا اور ویلن اور اینگری مین کے کردار ادا کئے۔ فلم ’زخمی انسان‘ اور ’بھائی بھائی‘ میں انہوں نے اینگری مین کا کردار ادا کیا اور بی آر فلمز کی فلم ’۳۶؍گھنٹے‘ میں انہوں نے ویلن کا کردار ادا کیا۔ اسی طرح فلم ’گیتا میرا نام‘ میں بھی وہ اینگری مین اور ویلن کے ملے جلے کردار میں نظر آئے۔ یہ سب کوشش انہوں نے اپنی کردار نگاری اور اداکاری میں تنوع پیدا کرنے کے لئے کی تھی۔ سنیل دت نےفلمی زندگی میں کئی تجربے بھی کئے۔ انہوں نے بازار کی پروا نہ کرتے ہوئے فلم ’یادیں ‘ بنائی۔ اس فلم میں سنیل دت تنہا اداکار تھے اور باقی ان کے چاروں طرف بکھری ہوئی آوازیں تھیں، جو اُن کی یادوں سےمتعلق تھیں۔ ’یادیں ‘ کا پریمیئر ’مراٹھا مندر‘ سنیما میں ہوا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے راجستھان کی خشک زندگی پر ایک تجرباتی فلم ’ریشما اور شیرا‘ بنائی۔ ان دونوں فلموں کی تعریف دلیپ کمار نے بھی کی تھی۔ فلموں میں سنیل دت کی کامیابی اور مقبولیت کی خاص وجہ تھی اُن کی شخصیت اور دلوں کی گہرائی میں اترتی ہوئی ان کی آواز۔ ان کے مکالموں کی ادائیگی اتنی صاف اور پُراثر ہوتی تھی کہ فلم بینوں کی توجہ پوری طرح ان کی طرف مرکوز رہتی تھی۔ اس کی ایک خاص وجہ ان کی اردو دانی تھی۔ وہ آخر تک اردو ہی میں اسکرپٹ لیتے تھے اور خود بھی اپنا اسکرپٹ اردو ہی میں لکھتے تھے۔
درمیان میں کچھ وقت ایسا بھی آیا جب سنیل دت کی مارکیٹ ویلیو کم ہوئی اور ان کی شہرت میں بھی کمی آئی۔ اس کے کچھ ہی برسوں بعد فلم ’ہیرا‘ اور’پران جائے پر وَچن نہ جائے‘ میں وہ ایک نئے روپ میں لوٹ کر آئے۔ ان فلموں کے ہٹ ہوتے ہی سنیل دت ایک بار پھر فلم انڈسٹری پر چھا گئے۔ اُسی دوران فلم ’سیتا اور گیتا‘ میں لوگوں نے سنیل دت کو ایک الگ انداز میں دیکھا اور جونی کے کردار میں انہوں نے پھر سے انڈسٹری پر یہ ثابت کر دیا کہ وہ صرف ایک اسٹار ہی نہیں بلکہ اداکار ہیں۔ بعد میں فلم ’ناگن‘ کی بے پناہ کامیابی نے سنیل دت کو شہرت کی اسی بلندی پر پہنچا دیا تھا جہاں وہ پہلے تھے۔ ان کی آخری فلم ’مُنّا بھائی ایم بی بی ایس‘ تھی جس میں ان کے بیٹے سنجے دت نے ہیرو کا کردار ادا کیا تھا۔
سنیل دت نے ایک ذمہ دار باپ کا کردار ادا کرتے ہوئے ۱۹۸۱ء میں اپنے بیٹے سنجے دت کیلئے فلم ’راکی‘ بنائی۔ انہوں نے سنجے دت سے صاف الفاظ میں کہہ دیا تھا کہ اس کے بعد وہ ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے اور اُسے خود اپنی صلاحیتوں کے سہارے ہی فلم انڈسٹری میں اپنا مقام بنانا ہوگا۔ نرگس کی بڑی تمنا تھی کہ وہ فلم ’راکی‘ مکمل ہونے پر بیٹے کو سنہرے پردے پر دیکھیں مگر ’راکی‘ مکمل ہونے سے قبل ہی نرگس دت کی زندگی مکمل ہو گئی اور وہ یہ فلم نہیں دیکھ سکیں۔ حالانکہ ’راکی‘ اور اس کے بعد کی کئی فلمیں سنجے دت کو زیادہ کامیابی نہ دے سکیں مگر بعد میں جب اس نے نشہ کی عادت سے توبہ کر لی اور اپنی ساری توجہ اداکاری پر مرکوز کی، تب وہ ایک کامیاب اداکار کے طور پر خود کی پہچان قائم کر سکا۔
دلیپ کمار کے بعد سنیل دت ہی فلمی دُنیا کی دوسری شخصیت ہیں جن کو بمبئی کے شیرف کے عہدہ کیلئے نامزد کیا گیا اور انہوں نے سچے دل اور لگن کے ساتھ اپنے فرائض کی ادائیگی بھی کی۔ نرگس کو جب کینسر کے علاج کیلئے امریکہ جانا پڑا تو سنیل دت نے ان کی خدمت اور تیمارداری میں دن رات ایک کر دیا تھا۔ سنیل دت عزم اور حوصلہ کا دوسرا نام تھا۔ ۱۹۸۱ء میں جب کینسر کے موذی مرض سے نرگس کا انتقال ہو گیا تو وہ جیسے ٹوٹ سے گئے مگر جلد ہی انہوں نے خود پر قابو پایا اور اسی موضوع پر فلم’درد کا رشتہ‘ بنائی۔ سنیل دت نے اس فلم کی تمام آمدنی کو کینسر اسپتال کیلئے عطیہ کردیا تھا۔ اس کے علاوہ ٹاٹا میموریل اسپتال میں کینسر وارڈ کو نرگس کے نام پر کھلوایا تاکہ کینسر سے حتی الامکان جنگ جاری رکھی جا سکے۔
سیاسی میدان میں آئے تو یہاں بھی پیچھے نہیں رہے۔ ۱۹۸۷ء میں جب پنجاب ایک بڑے بحران سے جوجھ رہا تھا، تو سنیل دت نے اپنی بیٹی پریہ دت کے ساتھ ممبئی سے پنجاب ۲؍ ہزار کلومیٹر کا ایک طویل پدیاترا کیا تھا۔ یہ سفر ۹۶؍ دنوں میں طے ہوا تھا۔ ۱۹۸۴ء میں وہ پہلی بار لوک سبھا کاالیکشن لڑے اور کامیاب ہوئے۔ وہ لگاتار ۵؍ مرتبہ ایم پی منتخب ہوئے۔ اس دوران مرکزی وزیر کے طورپر بھی ذمہ داریاں نبھائیں۔
۲۵؍مئی ۲۰۰۵ء کی صبح تقریباً ۱۱؍ بج کر۴۰؍ منٹ پر سنیل دت کو نیند میں دل کا دورہ پڑا۔ اس کی وجہ سے ایک فنکار، ایک سماجی خدمتگار اور کئی فلموں کا خالق اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔
29 دسمبر،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sunil-dutt-films-politics-social-fields/d/134200
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism