نیو ایج اسلام اسٹاف رائیٹر
19 جون،2024
گزشتہ چندبرسوں میں یوروپ
میں مہاجرین کی تعداد میں تشویشناک حد تک اضافے نے وہاں کی معیشت ، سیاست اور سماجی
تانے بانے پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں اور عوام کی طرف سے غیر قانونی مہاجرت کے مسئلے
کو حل کرنے کا مطالبہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔ غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ اب یوروپی
ممالک کے انتخابات میں ایک اہم موضوع بن چکا ہے۔ گزشتہ سال نیدرلینڈ کے انتخابات میں
دائیں بازو کے سیاست داں گیرٹ وائلڈرس نے مسلم مہاجرین کا مسئلہ اٹھاکر الکشن میں اکثریت
حاصل کی حالانکہ الکشن میں جیتحاصل کرنے کے بعد انہوں نے مسلمانوں کے خلاف اپنے روئیے
میں نرمی پیدا کرلی اور دیگر قومی مسائل پر زیادہ توجہ دینی شروع کی گویا مسلم مہاجرت
کا مسئلہ انہوں نے صرف الکشن میں اکثریت حاصل کرنے کے لئے اٹھایا تھا۔ اسی طرح اس سال
کے آخر میں برطانیہ میں بھی منعقد ہونے والے الکشن میں غیر قانونی مہاجرین کا مسئلہ
چھایا ہوا ہے اور وزیراعظم رشی سونک نے غیرقانونی مہاجرین کو برطانیہ سے نکالنے کا
وعدہ کیا ہے۔ اس مقصد کے تحت ان کی حکومت نے گزشتہ اپریل میں ایک بل بھی پاس کیا ہے
جس کے تحت برطانیہ میں رہنے والے غیر قانونی مہاجرین اور نئے غیر قانونی مہاجرین کو
مرکزی افریقہ کے ملک روانڈا منتقل کردیا جائیگا۔ اس مقصد کے تحت ان کی حکومت نے حکومت
روانڈا کے ساتھ ایک معاہدہ بھی کرلیا ہے ۔ اس معاہدے کے تحت روانڈا برطانیہ کے غیر
قانونی مہاجرین کو اپنے یہاں بسائے گا۔اس منصوبے کو روانڈا اسکیم یا روانڈا پناہ گزیں
پلان کہا جاتا ہے۔ رشی سونک حکومت کا یہ پلان گزشتہ دو برسوں سے کئی قانونی اڑچنوں
کی وجہ سے تاخیر کاشکار ہوا۔ یوروپین یونین کی حقوق انسانی عدالت نے اس پلان کو غیر
قانونی قرار دیا تھا۔نیز برطانیہ کی سپریم کورٹ نے بھی روانڈا کو پناہ گزینوں کے لئے
غیر محفوظ قرار دیا تھا۔ بہر حال رشی سونک کی حکومت نے آخر کار تمام قانونی اڑچنوں
کو دور کرکے اس بل کو برطانیہ کے پارلیامنٹ سے پاس کروانے میں کامیابی حاصل کرلی۔ اب
جولائی وسط سے غیر قانونی مہاجرین کو ہوائی جہاز میں بٹھاکر روانڈا منتقل کرنے کا سلسلہ
شروع ہو جائے گا۔ اس مقصد کے تحت لندن اور دوسرے شہروں میں پولیس اور امیگریشن محکمے
نے چھاپے مار کر غیر قانونی مہاجرین کی گرفتاری کا سلسلہ بھی شروع کردیا ہے۔ ہنگامی
طور پر 5700 غیر قانونی مہاجرین کی شناخت کی گئی ہے لیکن چھاپہ ماری شروع ہوتے ہی
3000 سے زیادہ غیر قانونی مہاجرین روپوش ہوگئے اور پولیس صرف دوہزار افراد کو ہی گرفتار
کرپائی۔
ایک اندازے کے مطابق برطانیہ
میں تقریباً دس لاکھ غیر قانونی مہاجرین ہیں اور ہر سال تقریباً 40 ہزار غیر قانونی
مہاجرین برطانیہ پہنچتے ہیں۔ یہ مہاجرین یا پناہ گزیں فرانس کے راستے انگلش چینل کو
چھوٹی کشتیوں کے ذریعہ پار کرتے ہیں۔ان مہاجرین میں زیادہ تر افراد مسلم اکثریتی ممالک
جیسے افغانستان ، سیریا ، البانیہ ، بنگلہ دیش اور پاکستان کے ہوتے ہیں۔ ان میں اکثریت
افغانستان اور البانیہ کے مہاجرین یا پناہ گزینوں کی ہوتی ہے۔
روانڈا برطانیہ کے مہاجرین
کو اپنے یہاں بسانے کے عوض تقریباً تین ہزار کروڑ روپئے برطانیہ سے وصولے گا۔ اگر قانونی
یا سیاسی اسباب سے برطانیہ مہاجرین کو روانڈا منتقل نہ بھی کرپایا تو اسے یہ رقم روانڈا
کو دینی پڑے گی۔ اس لئے یہ پلان رشی سونک کے لئے ایک بڑا سیاسی داؤ ہے جس کی کامیابی
مشکوک ہے۔ یہ ضرور ہے کہ ٹھیک الکشن سے پہلے غیر قانونی مہاجرین کے لئے روانڈا بل کو
پاس کرواکر اور مہاجرین کی گرفتاری کا سلسلہ شروع کرکے رشی سونک اپنے حریف پر سبقت
لے جانے کی کوشش کررہے ہیں اور عوام کو یہ یقین دلانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ اس مسئلے
کے تئیں سنجیدہ ہیں لیکن یہ بیل مینڈھے چڑھتی نظر نہیں آتی کیونکہ دس لاکھ غیر قانونی۔مہاجرین
کو ہوائی جہازوں میں بھر کر بھیجنا قانونی طور پر آسان بھی نہیں ہے اور بہت مینگا بھی
ہے۔اس پلان پر عمل درآمد کے لئے سونک حکومت کو پرائیویٹ ائیرلائینز اور دیگر خدمات
مہیا کرنے والے اداروں کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ چونکہ عالمی حقوق انسانی اداروں اور
تنظیموں نے سونک کے اس پلان کو حقوق انسانی اور مہاجرین کے حقوق کی خلاف ورزی قرار
دیا ہے اس لئے پابندی کے ڈر سے یہ ادارے اور تنظیمیں سونک حکومت کے ساتھ تعاون کرنے
سے ہچکچائینگی۔
حقوق انسانی تنظیمیں اور خود
یوروپین یونین سونک کے اس پلان کا مخالف ہے جس کا برطانیہ ایک حصہ ہے کیونکہ روانڈا
ایک ایسا افریقی ملک ہے جہاں مختلف قبائل کے درمیان تصادم ہوتا رہتا ہے۔ 1994ء میں
یہاں توتسی قبیلے کا قتل عام ہوا تھا اور اس قتل عام کو بھڑکانے میں وہاں کے ریڈیو
روانڈا نے مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ ہی وجہ ہے کہ یوروپین یونین اور برطانیہ کے سپریم
کورٹ نے روانڈا کو مہاجرین کے لئے غیر محفوظ قرار دیا ۔
۔انہی سب وجوہات اور خدشات کی بنا پر یوروپین یونین اور دیگر حقوق انسانی
تنظیمیں سونک کے اس پلان کی مخالفت کررہی ہیں اور اسے برطانیہ کے کلچر اور اس کی شاندار
روایات پر ایک دھبہ قرار دے رہی ہیں۔
آج برطانیہ اور دیگریوروپی
ممالک مسلم ممالک سے غیر قانونی مہاجرین اور پناہ گزینوں کی آمد سے جن معاشی اور تہذیبی
مسائل کا سامنا کررہے ہیں وہ دراصل ان کے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں۔برطانیہ نے امریکہ کے
ساتھ مل کر اسلامی ممالک میں اپنے اقتصادی اور فوجی مقاصد کے لئے جو خانہ جنگی اور
سیاسی عدم استحکام پیدا کیا ہے اسی کے نتیجے میں ان ممالک کے اجڑے ہوئے لوگ برطانیہ
جرمنی فرانس اٹلی اور نیدرلینڈ میں پناہ لے رہے ہیں۔ گزشتہ بیس برسوں میں امریکہ کے
ساتھ ملکر یوروپی ممالک نے عراق ، شام ، لیبیا ، افغانستان ، اور پاکستان میں خانہ
جنگی اور سیاسی عدم استحکام کی صورت حال پیدا کی جس کے نتیجے میں وہاں کے عوام بڑی
تعداد میں اجڑ گئے اور پناہ اور روزی روئی کی تلاش میں امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ،
جرمنی ، نیدرلینڈ وغیرہ میں قانونی یا غیر قانونی طور پر داخل ہوئے اور یہ سلسلہ جاری
ہے۔ اس لئے اگر برطانیہ اور یوروپی ممالک واقعی مہاجرین کے مسئلے کو ختم کرنا چاہتے
تو انہیں اپنی خارجہ پالیسی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی لانی ہوگی اور کمزور اور غریب
ممالک کے استحصال اور ان کے قدرتی وسائل پر قبضے کی سامراجی سیاست کو ترک کرنا ہوگا۔
اگر رشی سونک واقعی مہاجرین کی کشتیوں کو روکنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں دوسرے ممالک
کے داخلی معاملات میں مداخلت کی پالیسی ترک کرنی ہوگی۔اگر وہ واقعی برطانیہ میں فلسطین
کی حمایت میں احتجاج اور مظاہرے ختم کرانا چاہتے ہیں تو انہیں غزہ میں اسرائیی بربریت
اورفلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت اور اسرائیل کو فوجی اور مالی امداد بند کرنی ہوگی۔اگر
وہ ایسا نہیں کرتے تو مہاجرین کے بحران کو حل کرنے کے لئے ان کا روانڈا پلان تو کیا
کوئی بھی پلان کامیاب نہیں ہوگا۔
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism