New Age Islam
Thu Nov 14 2024, 11:25 PM

Urdu Section ( 28 Aug 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Bengaluru Muslim Violence over Blasphemy توہین رسالت پر بنگلور میں مسلم تشدد- علمائے کرام ذمہ دار جو مسلمانوں کو توہین رسالت پر قانون ہاتھ میں لینے پر اکساتے ہیں


سلطان شاہین ، بانی ایڈیٹر ، نیو ایج اسلام

ہر حال میں واجب القتل ہے شاتم رسول

غیرت مسلم کا ہے یہ ازل ہے اصول

محبوب ربانی کا ایک گساخ بھی رہا اگر زندہ

اللہ کے ہاں تمہاری کوئی عبادت نہیں قبول

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہی وہ اشعار ہیں جن کے ساتھ ایک معزز دیوبند عالم دین اور اردو اخبارات کے باقاعدہ کالم نگار مولانا ندیم الواجدی نے جون ۲۰۱۱ میں پاکستانی پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے بہیمانہ قتل کے بعد اپنے لکھے گئے دو قسطوں پر مشتمل مضمون کا اختتام کیا۔ سلمان تاثیر کو ان کے اپنے محافظ ممتاز قادری نے قتل کیا تھا ، جو کہ سلمان تاثیر کی طرف سے پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین کی مخالفت سے متفق نہیں تھے۔ جب قادری ملزم کی حیثیت سے عدالت پہنچے تو سیکڑوں وکلا نے ان کی تعریفیں کرتے ہوئے ان پر گلاب کی پتیاں برسائیں ۔

Pakistani Muslims offer noon prayers at the tomb of Mumtaz Qadri, who was hanged in February 2016 for the murder of a governor who criticized Pakistan's blasphemy law and defended a Christian woman, in Bara Kahu on the outskirts of Islamabad on March 1, 2017, on the last day of a period marking the anniversary of his hanging. | AAMIR QURESHI / AFP

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستانی جج نے غیر معمولی ہمت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ممتاز قادری کو قتل کا مجرم قرار دیتے ہوئے پھانسی دینے کا حکم سنایا اور پھر پاکستانی عدالت کی طرف سے قادری کو قتل کے جرم میں پھانسی دے دی گئی، مگر پاکستان کے لاکھوں مسلمانوں نے ان کے لئے ایک درگاہ تعمیر کی اور اسے ولی کا درجہ بھی دے ڈالا ۔ ہزاروں افراد اپنی منتوں اور خواہشات کی تکمیل کی خاطر ممتاز قادری کے وسیلے سے دعائیں مانگنے کے لیے ان کے مزار پر حاضر ہوتے ہیں۔ وہ اسے ایک شہید کا درجہ دیتے ہیں ، ایسے شہید جو ان کی نگاہ میں مردہ تصور نہیں کیے جاتے  اور جس کے پاس ان کی منتوں اور خواہشات پورا کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔

Malik Bashir Awan, father of Mumtaz Qadri, who was hanged last year for the murder of a governor who criticized Pakistan’s blasphemy law and defended a Christian woman, at his son’s shrine on the outskirts of Islamabad.

Image Credit: AFP

-----

 بہت سے ہندوستانی مسلمان بھی اگر ممکن ہوجائے تو اس کی قبر پر تشریف لانا پسند کریں گے ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر مولانا ندیم الواجدی اور ان کے رفقاء کو موقع مل جائے تو ان کے مزار کی زیارت کرنا پسند کریں گے۔ قاتل ممتاز قادری برصغیر پاک و ہند میں بہت سارے مسلمانوں کا آئکن بن گیا ہے، چونکہ اس نے ایک شخص کا قتل کیا جس کا وہ خود محافظ تھا صرف اس بات پر کہ اس نے ایک ایسی عیسائی خاتون کے ساتھ ہمدردی ظاہر کی تھی جس پر توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ توہین رسالت کے الزام میں ملزم آسیہ بی بی کو پاکستانی عدالتیں رہا کر چکی ہیں اور چونکہ پاکستان میں اس خاتون کے لیے زندگی گزارنا ناممکن تھا اسی لیے کینیڈا چلی گئی ۔

Activists say the blasphemy laws are often used to settle petty disputes and personal vendettas

-----

میں جون 2011 میں لکھے گئے اپنے تبصروں کے ساتھ، مولانا ندیم الواجدی کے دو قسطوں پر مشتمل اردو مضمون کو دوبارہ پیش کر رہا ہوں۔ میں مسلمانوں کے کندھے پر اس بحث کی ذمہ داری چھوڑ رہا ہوں کہ کیا وہ توہین رسالت کے معاملات میں علمائے کرام کو تشدد کا باعث بننے دیں گے ۔ کیا کسی بھی بہانے سے لوگوں کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟ پرامن احتجاج ایک الگ چیز ہے حتی کہ ہمارا آئین بھی اس کی اجازت دیتا ہے ، لیکن کیا تشدد کی تشہیر کی جاسکتی ہے اور کسی بھی صورت حال میں تشدد کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے؟

قرآن پاک میں توہین رسالت کی سزا کی کوئی اساس نہیں ہے۔ در حقیقت ، قرآن مجید اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ اللہ کی وحدانیت کی تبلیغ کے لئے مکہ مکرمہ میں اپنی نبوت کے پہلے عشرے کے دوران رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کس طرح اذیت دی گئی تھی ۔ لیکن نبی علیہ السلام کا رد عمل تو محض یہ تھا کہ وہ مکہ والوں کے لئے راہ ہدایت پر آنے کی دعا کرتے اور مذہب کی آزادی اور آزادی اظہار کو قبول کرتے۔ انہوں نے دفاع میں کبھی بھی اپنے ہتھیار نہیں اٹھائے اور نہ ہی اپنے پیروکاروں کو ایسا کرنے دیا۔ خدا نے بھی صبر ، استقامت ، ہم آہنگی اور پرامن بقائے باہمی کا مشورہ دیا۔ یہ صرف مدینہ منورہ کی بات ہے جہاں حملہ آور فوج کے خلاف مسلح دفاع کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں تھا تو لڑائی کی اجازت دی گئی ۔

بنگلور تشدد نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ یہ وقت برباد کرنے کا نہیں ہے بلکہ کم از کم مسلمانوں کو اس مسئلے پر بحث شروع کر دینا چاہئے۔ انہیں علماء کو کسی بھی حالت اور کسی بھی بہانے تشدد کی ترغیب دینے کی اجازت نہیں دینی  چاہئے۔

سلطان شاہین ، بانی۔ ایڈیٹر ، نیو ایج اسلام

25 اگست ، 2020

پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین: ہندوستانی علما کچھ کم انتہا پسند اور دقیانوس نہیں ہیں

سلطان شاہین ، بانی۔ ایڈیٹر ، نیو ایج اسلام

19 جون 2011

چونکہ متعدد اردو اخبارات میں شائع کردہ دیوبندی عالم دین مولانا ندیم الواجدی کےمضمون کی مندرجہ ذیل قسطوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان میں نام نہاد علمائے کرام بھی اپنے خیالات میں کچھ کم انتہا پسند اور دقیانوس نہیں ہیں۔ وہ پاکستانیوں ہی کی طرح توہین رسالت پر قتل کا جواز پیش کرتے ہیں اور پاکستانی پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر اتنے ہی خوش ہوئے جتنا ان کے پاکستانی ہم خیال خوش ہوئے تھے۔

ان مضامین سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلم پریس میں اس قتل کا جواز پیش کیا جارہا ہے۔ عام ہندوستانی مسلمانوں کے ذہنوں کو اسی طرح زہر آلود کیا جارہا ہے جس طرح پاکستان میں ہوا ہے۔ ظفر علی خان ظفر کے اقتباس سے اتفاق کرتے ہوئے مولانا نے جس طرح اسے پیش کیا ہے اس سے یہ سمجھنا آسان ہے کہ وہ کس طرح کی ذہنیت رکھتے ہیں ۔حسب ذیل وہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :

ہر حال میں واجب القتل ہے شاتم رسول

غیرت مسلم کا ہے یہ ازل ہے اصول

محبوب ربانی کا ایک گساخ بھی رہا اگر زندہ

اللہ کے ہاں تمہاری کوئی عبادت نہیں قبول

یقینا توہین رسالت کے مرتکب کے خلاف کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ عدالتیں یا میڈیا کو بھی اجازت نہیں کہ وہ الزام لگانے والے سے توہین رسالت پر مبنی الفاظ کو دہرانے کی مکروہ فعل کا ارتکاب کریں ۔ حالت یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی نام نہاد مسلمان کسی پر بھی توہین رسالت کا الزام لگاتا ہے تو ملزم واجب القتل ہو جاتا ہے اور چونکہ جدید عدالتیں ، حتی کہ پاکستان میں بھی ، ثبوت کی عدم موجودگی میں ایسا نہیں کرسکتی ہیں، لہذا نام نہاد مسلمان قانون اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں اور اپنے ‘‘عقیدے’’ کے ذریعہ منظور شدہ سزائے موت کی کاروروائی کو انجام دیے ڈالتے ہیں ، یعنی زیادہ واضح الفاظ میں یوں سمجھیں کہ ان کےاس طرح کے عقیدے کی ترجمانی دقیانوس ملاوں کے ذریعے ہوئی ہے ۔  

 یہی وہ نظریہ ہے جس کی نشرو اشاعت وسیع پیمانے پر کی جا رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ مولانا واجدی یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ اسلام امن و رفاقت کا مذہب ہے جو 21 ویں صدی میں کثیر الادیان اور کثیر الثقافتی معاشروں میں بھی پھلنے پھولنے کے لیے مناسب ہے ۔

ہم امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے کہ ہندوستان کے اعتدال پسند مسلم دانشور ہندوستانی مسلم معاشرے کی بڑھتی ہوئی انتہا پسندی سے آگاہ ہیں اور مستقبل کے در پیش مسائل کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں ،کیونکہ بہت سے لوگ یہ مضامین اردو پریس میں نہیں پڑھتے، اس لیے ہم انگریزی ترجمہ فراہم کررہے ہیں۔ (یہ مضمون انگریزی کا ترجمہ ہے )

----------

پاکستان کے توہین رسالت کے قوانین: ہندوستانی علما کچھ کم انتہا پسند اور دقیانوس نہیں ہیں – قسط ۲

سلطان شاہین ، بانی۔ ایڈیٹر ، نیو ایج اسلام

20 جون 2011

اپنے مضمون کی دوسری قسط میں مولانا ندیم الواجدی نے اپنی وحشت کا اظہار اس حقیقت پر کیا ہے کہ پاکستانی پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر نے "نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والی ایک مسیحی خاتون کے ساتھ ہمدردی محسوس کی اور یہاں تک کہ ان سے ملنے کے لئے جیل بھی گئے"۔ یقینا مولانا کے پاس اس خاتون کے متعلق کسی ثبوت کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس پر محض کسی قسم کی توہین رسالت کا الزام لگایا گیا ہے –کس طرح کی گستاخی آسیہ بی بی نے کیا اسے کوئی نہیں جانتا ہے کیوں کہ کوئی بھی الزام لگانے والی عورت جس سے اس کا پہلےفیملی جھگڑا ہو چکا تھا اس سے یہ سوال نہیں کر سکتا کہ وہ گستاخانہ بیان کو دہرائے ۔

مولانا کے مشورے اور ان خیالی گستاخوں کے بارے میں سخت انتباہ جن کے خلاف شواہد کا کوئی ٹکڑا بھی موجود نہیں جو ایک مہذب عدالت قانون میں قابل سماع ہو :

‘‘اس واقعے سے وہ لوگ سبق لیں جنہوں نے اہانت رسول کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے،ہم یہ بات پھر دوہرا ئیں گے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت برداشت نہیں کرسکتا ،اگر قانون ایسے مجرم کو سزا نہیں دے گا تو وہ خود اس کو سزا دینے پر مجبور ہوگا، اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جب قانون نے اپنا فرض ادا نہیں کیا تو مسلمان نے آگے بڑھ کر مجرم کو یہ احساس دلادیا کہ اس کا جرم ناقابل معافی ہے۔’’۔مجھے حیرت ہے کہ کیا ایسی دھمکیاں اس سرزمین کے کسی قانون کی طرف راغب ہے ۔

Cops investigating the social media post by Naveen, which sparked the violence, said they had found that most posts in his timeline had been of a balanced nature. The post under questions was unlike others, they said.

----

لیکن مولانا خوش ہیں کہ ‘‘" آج سلمان تاثیر زیرو بن کر زیر زمین جاسوئے ہیں اور ممتاز قادری ہیرو بن کر کڑوڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا ہے،اسلام آباد کی انسد اد دہشت گردی کورٹ میں کیس شروع ہوچکا ہے ،تین سو وکیلوں نے یہ کیس مفت لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، ہوسکتا ہے عدالت ممتاز قادری کے خلاف فیصلہ دے اور اس کے لیے سزائے موت تجویز کرے ، مگر اس کی موت کو شہادت بننے سے کوئی روک نہیں سکتا ، غازی علم الدین کو جرأت کو سلام پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا کاش یہ کام وہ خود کرتے، آج بالکل یہی جذبات پاکستان کےہر عالم، بلکہ ہر مسلمان کے ہیں’’۔

مسابقتی انتہا پسندی کے لہجے میں، چونکہ سلمان تاثیر کے قتل کا "اعزاز" بریلوی جماعت کے سر ہے ، ایسی جماعت جو کہ روادار ی اور قوت برداشت اور وسعت قلبی کے لیے جانی جاتی تھی، مولانا کہتے ہیں: ‘‘علما ئے دیوبند بھی اہانت رسول کے مرتکب کو مرتد اور واجب القتل قرار دیتے ہیں ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :‘‘ انبیا علیہم السلام کی شان میں گستاخی واہانت کرنا کفر ہے’’( امداد الفتاوی: 5/393) حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تووہ کافر ہے’’ (اکفار الملحدین ،ص :119) حضرت مولانا فضی کفایت اللہ دہلویؒ کا فتویٰ ہے ‘‘جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شان میں گستاخی کرنے والا یا گستاخی کرنے والے سے ناراض نہ ہونے والا کافر ہے’’۔(کفایۃ المفتی : 1/31) مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ فرماتے ہیں :‘‘شریعت اسلامیہ کا کھلا فیصلہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہونے کی سزا قتل ہے’’

مولانا مبینہ طور پر توہین رسالت کرنے والے کے لیے موت کا اپنا فتویٰ سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ‘‘علمادین کا اس پر اتفاق ہے کہ اہانت رسول کا مجرم بدترین سزا کا مستحق ہے،قرآنی آیات سے احادیث سے تاریخ اسلام کے بے شمار واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ا س طرح کے مجرم کو زندہ نہیں چھوڑا جاسکتا ،یہ محض جذبات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ عقیدے کا معاملہ ہے، علامہ ابن تیمیہؒ نےاپنی مشہور کتاب ‘‘ الصارم المسلول فی حکم الرسول’ میں اس طرح کے تمام نقلی اور عقلی دلائل جمع کردئے ہیں، سلمان رشدی نے جب اپنی بدنام زمانہ کتا ب لکھی اور اس کے خلاف قتل کے فتوے جاری ہوئے تب بھی یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ مسلمان اپنے رسول کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو واجب القتل کیوں سمجھتے ہیں، اس موقع پر پاکستان سے ایک کتاب ‘‘تحفظ ناموس رسالت اور گستاخ رسول کی سزا’’ شائع ہوئی ، تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب مسئلے کے تمام پہلوؤں پر روشیس ڈالتی ہے ،جو لوگ اس سلسلے میں کسی شک کا شکار ہیں انہیں یہ کتاب ضرور پڑھ لینی چاہئے ۔’’

توہین رسالت کے ملزم پر واجب القتل کا حکم لگانے میں مولانا واجد تنہا نہیں ہیں۔ پاکستان میں اپنے ہم منصب کی طرح بھارت میں اردو پریس بھی روزانہ اسی انداز میں نئی نئی تحریر پیش کر رہی ہے۔ اب ان لوگوں کے لئے حقیقت کا جائزہ لینے کا وقت آگیا ہے جو اس وہم کو فروغ دیتے ہیں کہ سیکولر آئین کے تحت کثیر الثقافتی معاشرے میں رہنے سے ہمارے ملاؤں پر اثر پڑا ہے اور انہیں کسی حد تک مہذب کردیا گیا ہے۔ اس کے بر عکس حتی کہ ہمارا پریس بھی ان جاہلوں کو بے حد جگہ مہیا کرتا ہے۔ اردو رسائل میں ادارتی اسپیس عملی طور پر اس طرح کی تکمیل کے لئے مخصوص ہے۔ سازش کے نظریہ ساز اور تہذیب کے دیگر دشمن کامل واکمل طور پر راج کرتے ہیں۔

شکر ہے کہ ابھی بھی کچھ مسلمان ایسے ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ اسلام تہذیب وثقافت کا مذہب ہے۔ ایک زمانہ تھا جب اسلام نے غیر متزلزل عرب اور دنیا کے دیگر حصوں میں نظم و ضبط پیدا کرد یا ۔ اس نے حکومت قانون کی حمایت کی۔ آئیے امید کرتے ہیں کہ ایسے لوگ مولانا کی دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیں اور مل کر اسلام کو ان گستاخوں سے بچانے کے طریقے پر غور وفکر کریں حتی کہ اس حملے سے خود کو زندہ بچانے کی تدبیریں کریں جو پاکستان کی طرح  بھارت میں بھی واقع ہو رہی ہے۔

آئیے یہ بھی امید کرتے ہیں کہ یہ جہلاء ہندو رائٹ ونگرز کی بھی اب مزید حوصلہ افزائی نہیں کریں گے جو کئی دہائیوں سے ہندو مذہب کو مسلمان بنانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کیونکہ جبکہ مولانا کے پاس ایک پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو خدا نہیں جبکہ ہندوؤں کے پاس 330 ملین دیوتا ہیں اور متعدد طریقوں سے یہ مولانا ان کے تعلق سے یا کم از کم ان کی تصاویر کے تئیں حقارت کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو الاعلا مودودی چاہتے تھے کہ ہندوستان ہندو ریاست ہو کیونکہ وہ پاکستان کو ایک مسلم ریاست کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کا نظریہ بالکل واضح تھا کہ ہندوستان میں ہندوؤں کو بھی مسلمانوں کے ساتھ وہی مکروہ سلوک کرنے کے لئے آزاد ہونا چاہئے جس طرح پاکستان کے مسلمان ہندوؤں کے ساتھ سلوک کرتے ہیں۔ ان کا وژن پاکستان میں درست ثابت ہوا ہے۔ آئیے امید کرتے ہیں کہ وہ ہندوستان میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔ سلطان شاہین ، بانی۔ ایڈیٹر نیو ایج اسلام

توہین رسالت کی سزا اور پاکستان کا قانون، قسط ۱


مولانا ندیم الواجدی

مسلمان عملی اعتبار سے کتنا ہی گیا گزرا کیوں نہ ہو اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کرسکتا، یہ حقیقت ایک بارپھر اس وقت ساری دنیا پر منکشف ہوگئی جب پاکستان کے صوبہئ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اس حفاظتی دستے کے ایک گارڈ ملک ممتاز قادری نے گولی مار کر ہلاک کردیا، سلمان تاثیر برسراقتدار پیپلز پارٹی کے لیڈر تھے، اور پاکستان میں اس وقت جو سیاسی اتھل پتھل جاری ہے اس میں اپنا کردار ادا کرنے کیلئے لاہور سے اسلام آباد آئے ہوئے تھے، اپنی سیاسی مصروفیات سے فارغ ہوکر وہ اپنے ایک دوست کے ساتھ اسلام آباد کی کہسار مارکیٹ میں واقع ٹیبل ٹاک نامی ریستوران میں دو پہر کا کھانا کھانے کے لئے پہنچے کھانے سے فارغ ہوکر جیسے ہی وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھے ممتاز قادری نے اپنی سروس بندوق کا رخ ان کی طرف کردیا اس سے پہلے کہ سلمان تاثیر کو خطرے کا احساس ہوتا بندوق سے نکلی گولی نے ان کا کام تمام کردیا۔ ان کے قتل کی خبر عام ہوتے ہی دوطرح کے ردّ عمل سامنے آئے،میڈیا کے لوگوں نے اور حکمران طبقے کے افراد نے اس قتل کی شدید مذمت کی اور اسے افسوس ناک واقعہ قرار دیا، دوسری طرف ملک بھر کے عوام نے اس واقعے پر اپنی خوشی کا اظہار کیا، دیکھتے ہی دیکھتے ممتاز قادری قومی ہیرو بن گیا۔ جس وقت اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا وہاں موجود ہزاروں افراد نے ممتاز قادری پر پھول نچھاور کئے اور زندہ باد کے نعرے لگائے۔ سلمان تاثیر با اثر لیڈر تھے، پارٹی میں ان کی نمایاں حیثیت تھی، ایک گورنر کی حیثیت سے ان کی حفاظت کا دائرہ وسیع بھی تھا اور سخت بھی، اس کے باوجود وہ دن دہاڑے موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے،اور یہ قتل کسی او رنے نہیں ان کے مسلح محافظ نے کیا جو ان کی حفاظت پر مامور تھا، پاکستانی عوام قتل کے محرکات سے اچھی طرح واقف تھے، مگر دنیا کے لوگ قتل کی خبر پڑھ کر حیران رہ گئے، انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ سلمان تاثیرنے خود ہی اپنے قتل کا سامان کرلیا تھا، پاکستانی عوام کو اس انہونی کا یقین تھا، گورنر لگارتار اشتعال انگیز بیانات دے رہے تھے، اور مسلمانوں کا پیمانہ صبر لبریز ہوتا جارہا تھا،کیونکہ وہ ایک گورنر تھے، حکومت اور عدالت دونوں کی دسترس سے باہر مگر انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ ان دونوں سے بھی اور ایک عدالت اور ایک حکومت ہے جہاں ان کا فیصلہ ہوچکا ہے۔

یہ واقعہ کیوں پیش آیا، اس کے لئے ہمیں ماضی میں جانا ہوگا،غیر منقسم ہندوستان میں قادیانیت کا فتنہ ابھر ا جس کے سدّ باب کے لیے علماء نے علمی او رعملی ہر سطح پر کوشش کی، مرزا غلام احمد قادیانی مدعی نبوت تھا، اس کا دعوی تھا کہ وہ نبی آخر الزماں ہے،اس کا یہ دعویٰ اسلام کے بنیادی عقائد کے سراسر خلاف تھا، علماء میدان میں آئے، عدالتوں میں کیس چلے،حق کو فتح ہوئی، اس فتنے کو انگریزوں کی سرپرستی حاصل تھی اس لیے قادیانیوں کے بال و پر نکلتے رہے اور وہ ملک بھر میں پھلتے پھولتے رہے،یہاں تک کہ ملک تقسیم ہوگیا، اس فتنے نے پاکستان میں بھی پاؤں پسارے، بدقسمتی سے اس ملک کا جو حکمراں ملے وہ عقیدہئ وعمل دونوں میں کمزور تھے، ان کی اس کمزوری سے فائدہ اٹھا کر بہت سے قادیانی حکومتوں میں بھی دخیل رہے،مگر علماء کی جدوجہد مملکت خداداد پاکستان میں بھی جاری رہی، بہت سے علماء کو شہادت کا مرتبہ ملا،بہت سو ں کو قید وبند کی سزا سنائی گئی، انہوں نے کسی بھی مرحلے پر ہار نہیں مانی،ان کا مطالبہ تھا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم تسلیم کیا جائے اور اسلام او رمسلمانوں کے خلاف ان کی سرگرمیوں پرپابندی عائد کی جائے،پاکستان میں اگر کسی مسئلے پر سب سے زیادہ پرجوش،مؤخر او رملک گیر تحریک چلی تو وہ یہی مسئلہ ہے،پہلے 1953 ء میں اور دوبارہ 1974 ء میں تحریکیں چلیں۔پاکستان کے حکمرانوں کو بہت تاخیر کے بعد اس بات کا احساس ہوا کہ توہین رسالت کا معاملہ اتنامعمولی نہیں ہے کہ اسے یوں نظر انداز کیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو اس مطالبے کی تکمیل کے وعدے پر منتخب ہوکر اقتدار تک پہنچے،انہوں نے اپنا وعدہ پورا کیا،یوں قادیانی غیر مسلم اقلیت پر تہمت لگادی،کبھی قرآن کو برا کہہ دیا،کبھی سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے خلاف زبان طعن دراز کردی، مسلمان طبقے کے خلاف بھی سینہ سپر رہے،عدالتوں اور قید خانوں سے گزرے،کئی بدزبانوں کی کیفرکردار تک بھی پہنچا یا،مگر یہ طبقہ پوری طرح ختم نہ ہو سکا،آج بھی اس نسل کے لوگ سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین کی شکل میں موجود ہیں، پاکستان میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اسلام کے بنیادی عقائد کے حوالے سے مسلمانوں کے جذبات بر انگیختہ کرتے رہتے ہیں،انگریزوں کے دور حکومت میں اس طرح کی اشتعال انگریزی قانوناً جرم نہیں تھی،بعد میں بھی بدزبانوں کی زبانوں پر قانون لگام کسنے میں ناکام رہا،یوں پاکستان کے بعض شوریدہ سر عناصر اپنے کام میں لگے رہے،علما ء اور عوام کے مطالبے پر پاکستانی پارلیمنٹ نے 1980 ء میں اتفاق رائے کے ساتھ قانونی انسداد توہین رسالت (296-C) منظور کیا تھا، اس بل کی رو سے دعویٰ نبوت قابل گردن زدنی جرم قرار پایا، اور اس شخص کے لئے موت کی سزا تجویز کی گئی جو اپنے کسی قول یا عمل سے اہانت رسول کا مرتکب ہوتا ہے اس وقت بھی پاکستان کے بعض نام نہاد دانشوروں نے اس قانون کی مخالفت کی تھی، انسانی حقوق کے نام نہاد ٹھیکیدار عاصمہ جہاں گیر نے اس قانون کی منظوری کے بعد یہ بدبختانہ ردّ عمل ظاہر کیاتھا کہ اس ”ترقی یافتہ دور میں بھی مسلمان ایک اُمّی کی امت ہونے پر فخر کرتے ہیں“ پاکستان میں برسراقتدار طبقے کی نام نہاد روشن خیالی نے عاصمہ جہانگیر کو کھلی چھوٹ دی ورنہ انسداد توہین رسالت قانون کی پہلی شکار اسی عورت کو ہوناچاہئے تھا، اس بدبخت عورت نے اُمّی لفظ کو جہالت کے ہم معنی لے کر توہین رسالت کا کھلا ارتکاب کیا تھا، حالانکہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اُمّی کا لقب اسی تناظر میں استعمال کیا جاتا ہے کہ آپ دنیا میں کسی استاذ کے شاگرد نہیں رہے،ورنہ قرآن کی آیت وَعَلمک مالم قکن تعلم کہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو دنیا و آخرت کے تمام علوم سکھلائے ہیں، بھلا آپ سے بڑھ کر حقیقی معنوں میں عالم اور مکمل تعلیم یافتہ کون ہوسکتا ہے،عاصمہ جہانگیر کی روایت کا تسلسل سلمان تاثیر کی شکل میں سامنے آیا اور حکومت اس شخص کوبھی سزا نہیں دے سکی۔

مگر حاکم حقیقی کو گوارانہ ہوا کہ ایک بدبخت شخص اہانت رسول کا ارتکاب کرے ا ور کیفر کردار کو نہ پہنچے۔ سلمان تاثیر کے قتل کا سبب بننے والا واقعہ 2جون 2009 ء کا ہے، اس واقعے کا کردار ایک عیسائی خاتون آسیہ بی بی ہے جس نے ننکانہ صاحب میں اسٹاپ والی کے مقام پرفالسے کے باغ میں پھل اتار نے کی مزدوری کے دوران دو خواتین عافیہ اور عاصمہ کے گلاس میں پانی پی لیا، ان دونوں نے زبان سے تو کچھ نہیں کہا،البتہ اس گلاس کو درکنار کرکے انہوں نے دوسرے گلاس میں پانی پیا، عافیہ اور عاصمہ کی یہ حرکت آسیہ مسیحی سخت ناگوار گزری۔ اگر وہ ردّ عمل میں ان دونوں کو کچھ کہہ دیتی تو کوئی حرج نہ ہوتا، اس کے برعکس اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذات مبارک،ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ اور قرآن کریم کے حوالے سے توہین آمیز کلمات کہے، اس موقع پر باغ کا مالک بھی آگیا،آسیہ نے اس کے سامنے بھی وہی باتیں کہیں، یہاں تک کہ جب اس کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج کرائی گئی اور تحقیقات کا آغاز ہوا تب بھی ایس پی کی موجودگی میں گاؤں والوں کے سامنے اس نے وہی سب کچھ کہا جو وہ دو مرتبہ کہہ چکی تھی، اس کے اعتراف جرم،گواہوں کے بیانات اور تحقیقاتی رپورٹ کے بعد عدالت کے سامنے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اس قانون انسداد توہین رسالت کے تحت موت کی سزا سناتی، عدالت نے ایسا ہی کیا، ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت نے واقعاتی شہادتوں او ر گواہوں کے بیانات کی بنیاد پر ملزمہ آسیہ ملعونہ کو سزائے موت اور ایک لاکھ روپے کا جرمانہ ادا کرنے کا فیصلہ سنادیا۔

اب انسانی حقوق کے نام پر ٹھیکیداروں کا کام شروع ہوا، کہا جانے لگا کہ عدالت کا فیصلہ ظالمانہ ہے،امریکہ اور برطانیہ کی حکومتوں نے احتجاج کیا، عیسائیوں کے مذہبی سربراہ نے بھی اپیل کی کہ آسیہ کو رہا کر کے کسی مغربی ملک میں بھیج دیا جائے، اندرون پاکستان جن لوگوں نے اس عدالتی فیصلے پر تنقید کی ان میں گورنر پنجاب سلمان تاثیر بھی تھے، انہوں نے اس واقعے سے چراغ پا ہوکر انسداد توہین رسالت قانون کو کالاقانون کڑوڑوں مسلمانوں کے دلوں کی آواز ہے،انہوں نے اسی پر اکتفانہیں کیا بلکہ وہ توہین رسالت کی مرتکب آسیہ مسیح کی دل دہی کے لیے اپنی بیوی او ربیٹی کو ہمراہ لے کر جیل بھی پہنچ گئے،وہاں پہنچ کر انہوں نے آسیہ کے سر پر ہاتھ رکھا اور اس سے معافی کی درخواست لکھوائی اور یہ وعدہ کیا کہ وہ صدر مملکت سے اس کی معافی دلوا کر رہیں گے، انہوں نے جیل سے باہر آکر پریس کانفرنس بھی کی اور اپنے عزم کو دوہرایا کہ وہ اس کالے قانون کو ختم کرائیں گے، دیکھا جائے تو سلمان تاثیر بھی آسیہ سے کم مجرم نہیں تھے بلکہ وہ تو اس بھی بڑے مجرم تھے، انہوں نے تو ہین عدالت کا ارتکاب کیا کہ آسیہ کی سزا کو غلط ٹھہرایا جس کی سزا ان کی ہی عدالت نے ان ہی کے قانون کے مطابق تجویز کی تھی،پھر انہوں نے اس سزا کو غلط ٹھہرانے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ اپنی حکومت کی مقرر کردہ ایک عدالت کے فیصلے پراپنی ناگواری ظاہر کرنے کے لیے جیل کے دروازے تک جا پہنچے،آج تک اتنے اہم سرکاری منصب پر فائز کسی شخص نے ایسا قدم نہیں اٹھایا تھا،یہی نہیں انہوں نے انسداد توہین عدالت قانون کا کالا قانون کہہ کر یہ بھی ثابت کیا کہ ان کے دل میں عظمت مصطفی نہیں ہے، ان کے بیانات نہ صرف یہ کہ دل آزار تھے بلکہ ملکی قانون کے خلاف بھی تھے،توہین رسالت کے مرتکب کی حمایت بھی توہین رسالت ہے، یہ حرکت کوئی بھی کرے کوئی عام آدمی کرے یا گورنر اور صدر مملکت کرے،سزا سب کے لیے یکساں ہوتی ہے، سلمان تاثیر نے جرم کیا، انہیں سزا نہیں دی گئی کیونکہ وہ صدر مملکت کے رفیق اور بااثر شخصیت کے مالک تھے، ان کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے تھی جو نہیں ہوئی، ان حالات میں اگر لوگ مشتعل ہوجائیں،اپنے جذبات پرقابو کھودیں،فوری اشتعال کی کیفیت یا مذہبی جوش کے تحت کوئی اقدام کر بیٹھیں تو انہیں موردالزام کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے،یہ تو ہونا ہی تھا، ممتاز قادری یہ کام نہ کرتا توکوئی اورکرتا، سلمان تاثیر کے بیانات کے خلاف اور آسیہ کی سزا کی حمایت میں پاکستانی عوام نے 31دسمبر کو ہڑتال کر کے اس مسئلے پراپنی یک جہتی اور اتحاد کامظاہرہ کیا تھا اور ساری دنیا کو بتلا دیا تھا کہ مسلمان اپنے گروہی مفادات اور سیاسی خیالات میں ایک دوسرے سے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن حُبِّ رسول کے معاملے میں ان کا نظریہ بالکل یکساں ہے۔(جاری)

(مصدر : ہمارا سماج )

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/blasphemy-laws-of-pakistan--indian-clerics-are-no-less-extremist-and-obscurantist---part-1/d/3963

 

سلمان تاثیر کا قتل اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم، قسط ۲


مولانا ندیم الواجدی

 آج پاکستان میں سلمان تاثیر کی رسوا کن موت پر خوشی کے شادیا نے بج رہے ہیں، لوگ ممتاز قادری اور غازی علم الدین کو تلاش کررہے ہیں، جس نے غیر منقسم ہندوستان میں راج پال کو رنگیلا رسول کی اشاعت پر کیفر کردار کو پہنچا دیا تھا، بلا شہ سیشن کورٹ نے غازی علم الدین کو موت کی سزا سنائی اور پاکستان کی لکھپت رائے جیل کے اندر انہیں پھانسی دیدی گئی ، لیکن وہ کڑوڑوں مسلمانوں کےدلوں میں محب رسول اور شیدائے ناموس رسول کی حیثیت سےزندہ رہ گئے،ہو سکتا ہے کہ ممتاز قادری کو بھی سزائے موت ہو ، کیوں کہ پاکستانی حکمرانوں کی اس کی یہ حرکت پسند نہیں آئی ،ان سے بھی بڑھ کریورپ کے آقاؤں کو بھی یہ واقعہ بہت ناگوار گزارتب ہی تو امریکہ ،برطانیہ سمیت بہت سے یورپین ملکوں نے سلمان تاثیر کے قتل پر افسوس اظہار کیا ہے، پاکستان میں متعین امریکی سفیر کیمرون نے ان کے قتل پر دکھ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ رواداری کےعلم بردار تھے ،امریکہ کے نظر میں اصل رواداری وہ ہے جو اللہ کے محبوب ترین پیغمبر محسن اعظم سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخی کرنے والوں کے تئیں رکھی جاتی ہے۔

Salman Taseer

----------

 اگر سلمان تاثیر صحیح معنوں میں روادار ہوتے تو وہ عافیہ صدیقی کے ساتھ بھی اظہار ہمدردی کرتے جو امریکہ کی جیل میں ناکردہ گناہوں کی سزا جھیل رہی ہے، پاکسا ن میں کتنی بے گناہ خواتین بند ہوں گی، سلمان تاثیر کو کبھی ان کا خیال نہیں آیا ،ان میں سےکتنی ہی خواتین سزائے موت کا فیصلہ سن چکی ہیں، سلمان تاثیر نے ان کے متعلق کبھی کچھ نہیں کہا ، انہیں اگر ہمدردی ہوئی تو آسیہ مسیحی سے ہوئی جس نے توہین رسالت کاجرم کیا تھا ،وہ اس سے ملنے جیل پہنچے ،اس کی درخواست لے کر وہ ایوان صدر کادروازہ کھٹکھٹانے والے تھے،کیوں آخر کیوں ،پاکستانی اخبارات لکھ رہے ہیں وہ امریکین نواز تھے ، انہوں نے یہ قدم مغرب کو خوش رکھنے کے لیے اٹھایا ،اگر چہ ان کا تعلق ایک مسلم خاندان سے تھا مگر فکر وذہن کے اعتبار وہ خالص مغربی تھے، یہ حیرت انگیز واقعہ ہے کہ ان کے والد محمد دین تاثیر سچے پکے مسلمان تھے ، یہ وہی شخص جب غازی علم الدین کو موت کی سزا سنائی گئی تو انہوں نے روتے ہوئے علامہ اقبال کو اس کی اطلاع دی تھی، غازی علم الدین کی سزا پر عمل ہوا ، حکومت چاہتی تھی کہ ان کی لاش خاموشی سے دفن کردی جائے، یہ محمددین تاثیر تھے جن کی کوششوں سے مسلمانوں کو عاشق رسول کی لاش ملی اور یہ بھی اتفاق ہے کہ جس چارپائی پر غازی علم الدین شہید کی لاش رکھ کر جیل سے باہر لائی گئی وہ محمد دین تاثر کے گھر سے آئی تھی، افسوس آج اسی کے گھر کا ایک فرد تو ہین رسالت کے جرم کے ارتکاب کی سزا میں قتل کردیا گیا،تاریخ میں ایک ہی گھر کے یہ دونوں کردار ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگئے۔

 سلمان تاثیر کا جنازہ لاہور لایا گیا ،لاش وصول کرنے کے لیے گھر کے چند افراد اور فوجی حکام کے علاوہ کوئی موجود نہ تھا، پہلے ان کو عوامی قبرستان میں دفنانے کا پروگرام تھا لیکن ان کے خلاف عوامی غصے کی لہر کو دیکھتے ہوئے بالکل آخری لمحات میں طے کیا گیا کہ ان کو فوجی قبرستان میں دفن کیا جائے، حکام کو بجا طور پر خدشہ تھا کہ عوام کسی مسلم قبرستان میں ان کو دفن نہیں ہونے دیں گے ،اس سے پہلے جب گورنر ہاؤس میں نماز جنازہ پڑھنے کا پروگرام ہوا تو فوجی حکام کو کوئی ایک عالم بھی ایسا نہیں ملا جو نماز پڑھانے کے لیے آمادہ ہوتا، آج سلمان تاثیر زیرو بن کر زیر زمین جاسوئے ہیں اور ممتاز قادری ہیرو بن کر کڑوڑوں مسلمانوں کے دلوں کی دھڑکن بن گیا ہے،اسلام آباد کی انسد اد دہشت گردی کورٹ میں کیس شروع ہوچکا ہے ،تین سو وکیلوں نے یہ کیس مفت لڑنے کا فیصلہ کیا ہے، ہوسکتا ہے عدالت ممتاز قادری کے خلاف فیصلہ دے اور اس کے لیے سزائے موت تجویز کرے ، مگر اس کی موت کو شہادت بننے سے کوئی روک نہیں سکتا ، غازی علم الدین کو جرأت کو سلام پیش کرتے ہوئے علامہ اقبال نے کہا تھا کاش یہ کام وہ خود کرتے، آج بالکل یہی جذبات پاکستان کےہر عالم ،بلکہ ہر مسلمان کے ہیں۔ بعض پاکستانی اخبارات میں یہ سوال کیا جارہا ہے کہ کیا ممتاز قادری کا یہ اقدام حق بہ جانب تھا،ایک منظّم مملکت میں قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا غلط ہے یا نہیں ،اسی کے ساتھ اسلامی نقطہ نظر پر بھی سوال کھڑے کئے جارہے ہیں ۔

 جہاں تک ممتاز قادری کے اس اقدام کا تعلق ہے ظاہر ہے اسے آئینی نہیں کہا جاسکتا لیکن آئین اور قانون کا سوال وہاں پیدا ہوتا ہےجہاں آئین اور قانون پر عمل کیا جارہا ہو، پاکستان میں اہانت رسول کےمجرم کے لیے قتل کی سزا ہے ، سلمان تاثیر برابر یہ جرم کرتے رہے ،مگر نہ عدالت نے ان کے خلاف کوئی نوٹس لیا، نہ حکومت نے ۔ انہیں عدالت میں تو کیا گھسیٹا جاتا انہیں ان کے منصب سے بھی برطرف نہیں کیا گیا، ایسے حالات میں اگر جذبہ بر انگیختہ نہیں ہوں گے تو کیا ہوگا، یقیناً یہ قتل اضطراری حالت میں اشتعال کی کیفیت میں اور مذہبی جوش و جذبے کے تحت ہوا ہے، اس واقعے کو ٹالا جاسکتا تھا۔ اگر سلمان تاثیر کی زبان بند کردی جاتی ، اس واقعے سے وہ لوگ سبق لیں جنہوں نے اہانت رسول کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے،ہم یہ بات پھر دوہرا ئیں گے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے لیکن وہ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت برداشت نہیں کرسکتا ،اگر قانون ایسے مجرم کو سزا نہیں دے گا تو وہ خود اس کو سزا دینے پر مجبور ہوگا، اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جب قانون نے اپنا فرض ادا نہیں کیا تو مسلمان نے آگے بڑھ کر مجرم کو یہ احساس دلادیا کہ اس کا جرم ناقابل معافی ہے۔ علمادین کا اس پر اتفاق ہے کہ اہانت رسول کا مجرم بدترین سزا کا مستحق ہے،قرآنی آیات سے احادیث سے تاریخ اسلام کے بے شمار واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ ا س طرح کے مجرم کو زندہ نہیں چھوڑا جاسکتا ،یہ محض جذبات کا معاملہ نہیں ہے بلکہ عقیدے کا معاملہ ہے، علامہ ابن تیمیہؒ نےاپنی مشہور کتاب ‘‘ الصارم المسلول فی حکم الرسول’ میں اس طرح کے تمام نقلی اور عقلی دلائل جمع کردئے ہیں، سلمان رشدی نے جب اپنی بدنام زمانہ کتا ب لکھی اور اس کے خلاف قتل کے فتوے جاری ہوئے تب بھی یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ مسلمان اپنے رسول کی شان میں گستاخی کرنے والوں کو واجب القتل کیوں سمجھتے ہیں، اس موقع پر پاکستان سے ایک کتاب ‘‘تحفظ ناموس رسالت اور گستاخ رسول کی سزا’’ شائع ہوئی ، تقریباً آٹھ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب مسئلے کے تمام پہلوؤں پر روشیس ڈالتی ہے ،جو لوگ اس سلسلے میں کسی شک کا شکار ہیں انہیں یہ کتاب ضرور پڑھ لینی چاہئے ۔

علما ئے دیوبند بھی اہانت رسول کے مرتکب کو مرتد اور واجب القتل قرار دیتے ہیں ، حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ فرماتے ہیں :‘‘ انبیا علیہم السلام کی شان میں گستاخی واہانت کرنا کفر ہے’’( امداد الفتاوی: 5/393) حضرت علامہ سید انور شاہ کشمیریؒ فرماتے ہیں: مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ جس نے اللہ یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی تووہ کافر ہے’’ (اکفار الملحدین ،ص :119) حضرت مولانا فضی کفایت اللہ دہلویؒ کا فتویٰ ہے ‘‘جناب رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا حضرت عائشہ صدیقہؓ کی شان میں گستاخی کرنے والا یا گستاخی کرنے والے سے ناراض نہ ہونے والا کافر ہے’’۔(کفایۃ المفتی : 1/31) مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی ؒ فرماتے ہیں :‘‘شریعت اسلامیہ کا کھلا فیصلہ ہے کہ مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہونے کی سزا قتل ہے، آیات قرآنیہ کے بعد احادیث نبویہ کا ایک بڑا دفتر ا س حکم کا صاف بولنے والا اگر چہ معانی حقیقتاً مراد نہیں لیتا بلکہ معنی مجاز اً مراد لیتا ہے تاہم ایہام گستاخی واہانت واذیت پاک حق تعالیٰ شانہ اور جناب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خالی نہیں کہ اس میں گستاخی اہانت اور اذیت کا وہم پایا جاتا ہے اور یہی سبب ہے کہ حق تعالیٰ شانہ نے لفظ راعنا بولنے سے منع فرمایا اور انظر نا کا لفظ عرض کرنا ارشاد فرمایا، پس ان کلمات کفر کے بکنے والے کو منع امرشد ید کرنا چاہئے اگر مقدور ہو او ربازنہ آئے تو قتل کردیا جائے کہ موذی حق تعالیٰ شانہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے’’۔

یہ وہی موقف ہے جو سعوی علما نے اختیار کیا ہے، ایک استفتا کے جواب میں امام کعبہ بن محمد عبداللہ السبیل سمیت تما م سعوی علما عرب نے فتویٰ جاری کیا‘‘ گستاخ رسول کا قتل کرنا واجب ہے اور یہ بالکل صحیح ہے کیوں کہ گستاخ رسول اگر مسلمان ہے تو وہ اس سے مرتد ہوجاتا ہے اور مرتد کی سزا بالا جماع قتل ہے اور گستاخ رسول اگر غیر مسلم ذمی ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی سے اس کا عہد ٹوٹ جاتا ہے اور اس کا قتل واجب ہوجاتا ہے ، قاضی عیاض فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں عیب لگانے والے ان کو گالی دینے والے کے قتل پر اجماع امت ہے۔ (گستاخ رسول کی سزا،ص :473) مشہور شاعر ظفر علی خان ظفر نے یہ دوشعر اس وقت کہے تھے جب راجپال نے ‘‘رنگیلا رسول’’ لکھی تھی، اس و اقعے سے مسلمانوں کے دل سخت مجروح اور جذبات نہایت بر نگیختہ تھے، یہ اشعار آج بھی اپنا پیغام پہنچارہے ہیں، آپ بھی سن لیجئے :

ہر حال میں واجب القتل ہے شاتم رسول

غیرت مسلم کا ہے یہ ازل ہے اصول

محبوب ربانی کا ایک گساخ بھی رہا اگر زندہ

اللہ کے ہاں تمہاری کوئی عبادت نہیں قبول

(مصدر : صحافت ، نئی دہلی)

URL for Part 1:  https://www.newageislam.com/urdu-section/blasphemy-laws-of-pakistan--indian-clerics-are-no-less-extremist-and-obscurantist---part-1/d/3963

URL for Part 2:  https://www.newageislam.com/urdu-section/سلطان-شاہین-،-ایڈیٹر-،-نیو-ایج-اسلام-ڈاٹ-کام/blasphemy-laws-of-pakistan-indian-clerics-are-no-less-extremist-and-obscurantist-–-part-2/d/3968

URL for English article: https://www.newageislam.com/islamic-sharia-laws/bengaluru-muslim-violence-blasphemy-responsibility-ulema-muslims-law-own-hands-prophet-mohammad-vilified/d/122718

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/bengaluru-muslim-violence-blasphemy-/d/122737


New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism


Loading..

Loading..