It began back in the mid-80s, when I was staying at a Pakistani friend’s home in Nottingham in Britain. One day, I overheard the kids of this family conversing with a friend of theirs about Islam. This friend belonged to the Ahl-e Hadith sect, who is known for their stern literalism, being almost identical to the Saudi Wahhabis. This is a sect massively promoted by petrodollars and may even be termed Petrodollar Islam. I heard him telling the kids that the Ahl-e Hadith alone were true Muslims and that the other Muslims were not just really non-Muslims but that, in fact, they were the biggest and the first enemies of Islam. I asked him what he proposed to do with the “first and the foremost enemies of Islam,” that is something like 99 percent of Muslims who are not Ahl-e-Hadees. He said: “Kill them!!!” – Sultan Shahin, Editor, New Age Islam tells Yoginder Sikand
To read the full texts of the English article please click on the link below:
اس لڑکے نے کہا جو اہل حدیث نہیں ہیں سب کو مارو
سلطان شاہین
نئی دہلی میں مقیم سینئر صحافی سلطان شاہین اسلامی اور مسلم معاملات کے ایک معتبرتبصرہ نگار ہیں ۔ وہ مقبول ویب میگزین نیو ایج اسلام چلاتے ہیں ۔یوگیندر سکندر کے ساتھ اس انٹرویو میں وہ عصری ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل اور اپنے کام کے متعلق بتارہے ہیں ۔
سوال: اپنے بارے میں مختصر طور پر بتائیں؟
جواب: میں 1949میں اورنگ آباد ،بہار کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا ۔میرے والد ایک مولوی تھے ایک سرکاری مڈل اسکول میں ٹیچر تھے۔ ہماراخاندان مولویوں کا تھا اور میرے والد خاندان کی روایت کےمطابق ایک مقامی مسجد میں امامت کا فریضہ بھی نبھاتے تھے اور مدرسہ میں بھی پڑھاتے تھے ۔
ابتدائی برسوں میں میں نے گھر میں ہی تعلیم حاصل کی پھر گیارہویں جماعت تک میں نے ایک مقامی ہندی اسکول میں پڑھائی کی۔ میرے والد مجھے کالج نہیں بھیج پائے ا س لئے اس کے بعد میں نے گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹانا شروع کردیا۔ میں بکریاں چراتا اور لکڑیاں کاٹ کر لاتا ایک دن میری ایک دوست کے ساتھ اس بات پر بحث ہوئی کہ دنیا کا مشکل ترین کام کون سا ہے ۔ کافی غور وخوص کے بعد ہم لوگ اس نکتہ پر پہنچے کے انگریزی سیکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ اسی دن میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں انگریزی سیکھونگا ۔میرے والد نے مجھے ایک ڈکشنری خرید دی اور میں خود انگریزی سیکھنے لگا۔
کچھ برسوں بعد میرا کنبہ اورنگ آباد شہر منتقل ہوگیا جہاں میں نے ٹیوشن دینا شروع کیا جس سے مجھے ہر طالب علم پر دس روپئے ماہانہ مل جاتے تھے ۔ میں نے پٹنہ یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا اور 1972میں دلّی آگیا ۔ پٹنہ میں ایک اخبار سرچ لائٹ کے لئے لکھنا تھا جو طلبا کے مسائل پر روشنی ڈالتا تھا۔ دلّی آکر میں نے جماعت اسلامی کے ترجمان رسالے ریڈینس (Radiance) میں ملازمت کرلی یہیں سے میرا صحافتی کیرئیر اور مسلم معاملات پر میری تحریرو ں کی شروعات ہوئی۔
سوال: اس کے بعد آپ کس طرح آگے بڑھے؟
جواب: میں ریڈینس کے ساتھ چند مہینے ہی جڑا رہا۔ کسی نظریاتی گروہ کے ساتھ کام کرنے کا یہ پہلا موقع تھا اور جلد ہی میں دقتیں محسوس کرنے لگا حالانکہ ریڈینس دفتر کے بہت سے لوگ نہایت ہی اچھے انسان تھے۔ پھر بھی مجھے ان کا روّیہ مثال کے طور پر عورتوں کے تئیں بہت تنگ ذہنی پر مبنی بلکہ اسلامی نقطہ نظر سے بھی بے معنی اور بکواس تھا۔ رفتہ رفتہ مجھ پر یہ عقیدہ کھلا کے ریڈینس جس ایجنڈے کو لے کر جماعت اسلامی کے ساتھ چل رہا ہے میں اس کی حمایت نہیں کرسکتا لہٰذا میں نے اس رسالے کو چھوڑ دیا اور پھر کی برسوں تک مختلف اخبارات اور نیوز ایجنسیوں کے لئے کام کرتا رہا اور فری لانس صحافی کی حیثیت سے لندن میں بھی کام کیا۔ میں سن 1990کے اوائل میں دلّی واپس آیا جہاں میں نے ایک سال کیلئے ‘‘ونین اینڈ وورلڈ’’ کے لئے کام کیا جو بادی النظر میں ترقی پسند مسلمانوں کے گروپ کے ذریعہ قائم کیا گیا تھا لیکن ایک ہی سال ک اندر مجھے ملازمت چھوڑ دینی پڑی کیونکہ اس کے انتظامیہ اس حقیقت کو قبول نہیں کرسکی کی میری اہلیہ ،میرے بچوں کی ماں ایک ہندوہیں اور انہوں اسلام قبول نہیں کیا ہے۔ انہوں نے مجھے اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ میں اسے مسلمان بننے پر مجبور کروں لیکن میں نے اس سے انکار کردیا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ مذہب کسی کا ذاتی معاملہ ہے۔ میرے انکار پر مجھے ملازمت سے برطرف کردیا گیا۔
سوال :آپ لمبے عرصے سے اسلامی انتہا پسندی او رعدم تحمل کے خلاف لکھ رہے ہیں۔ اس کی شروعات کیسے ہوئی؟
جواب: میں مسلم معاملات پر 1973میں اپنے صحافی کیرئیر کی شروعات سے ہی لکھ رہا ہوں لیکن اسلامی کٹرپسندی سے پیدا ہونے والے خطرات کا احساس آگے چل کر ہوا۔1980کے وسط میں جب میں بر طانیہ کے ناٹنگھم میں ایک پاکستانی دوست کے مکان پر ٹھہرا ہوا تھا، جو اہل حدیث فرقہ سے وابسطہ تھا اورجو سعودی وہابیت سے بہت مشابہ ہے اور اپنی سخت گیری کے لئے مشہور ہے۔ یہ فرقہ پیٹرو ڈالر کی مدد سے تیزی سے پھل پھول رہا ہے اس لیے اسے پیٹرو ڈالر اسلام بھی کہا جاتا ہے۔ میں نے اسے بچوں سے یہ کہتے سنا کہ صرف اہل حدیث ہی سچے مسلمان ہیں اور نہ صرف یہ کہ باقی سبھی دوسرے فرقوں سے وابستہ مسلمان غیر مسلم ہیں بلکہ اسلام کےاولین دشمن ہیں ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ اسلام کے ان اولین دشمنو ں یا ننانوے فیصد مسلمانوں کے لئے جو اہل حدیث نہیں ہیں، کیا سزا تجویز کرتا ہے۔ اس نے کہا ‘‘انہیں قتل کردو’’ یہ سن کر آپ میری ذہنی کیفیت کا اندازہ لگاسکتے ہیں ۔ تو یہ پاکستانی نوجوانوں کا ایک حلقہ تھا جویہاں ناٹنگھم یونیورسٹی میں اپنا شاندار مستقبل تعمیر کرسکتے تھے لیکن اس کے بجائے وہ لوگ نفرت، قتل اور اس طرح کی دوسری چیزوں کی بات کررہے تھے۔ یہ بچے ۔یقیناً نہیں تھے ۔ اس وقت برطانیہ کے بے شمار مسجدوں سے وابسطہ طبقوں اور برطانوی یونیورسٹیوں مسلم انجمنوں کو وہابیوں اور دیگر انتہا پسند گروہوں نے اربوں پیٹرو ڈالر کی مدد سے کٹرّ پسند بنا دیا تھا۔ اپنی تقریر وں کے ذریعہ اپنی نفرت کا زہر اگلنے والا شاطر اسلامی عالم بکری محمد جہاں بھی تقریر کرتا برطانوی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اسے سننے کے لئے پہنچ جاتی۔ مسلم کتب خانہ وہابیت سے متاثر اور سعودیوں کے ذریعہ شائع کی گئی کتابوں سے بھری ہوئی تھی جن میں غیر مسلموں کے لئے حقارت اور نفرت بھری ہوئی تھیں۔
ان سب باتوں نے اچانک مجھے اس بات کا احساس دلایا کہ اسلام کے نام پر یہ نفرت دوسری جگہوں پر بھی آسانی سے پھیل سکتی ہے۔اور اگر اسکا موثر ڈھنگ سے فوری طور پر مقابلہ نہیں کیا گیا تو یہ نفرت ہندوستان میں بھی ہمارے دروازوں پر دستک دے سکتی ہے اور ہمارے گھروں میں داخل ہوسکتی ہے۔ یہ دوسروں سے زیادہ خود مسلمانوں میں دہشت اور تباہی کا باعث ہوسکتی ہے۔
اس لئے میں نے ان موضوعات پر لکھنا شروع کیا تاکہ میں اسلام کی انتہائی پسندانہ تعبیر وتشریح کا مقابلہ کروں اور میری نظر میں جو دین کی صحیح تعلیمات تھیں ان کو پیش کرسکوں۔ مجھے اس بات کا خوف تھا کہ اگر انتہا پسندانہ تعلیمات کو پھیلنے دیا گیا تو اس سے خود مسلمانوں پر تباہی آئیگی اور انہیں نفرت اور تشددکی آگ نگل لے گی۔ یہ صرف اسلام کی شبیہ کو بچانے کی کوشش نہیں تھی بلکہ میں ایسا اس لئے کررہا تھا کہ والدین اپنے بچوں کو اصل اور سچے اسلام کے نام پر نفرت کے مبلغین اور نظریہ سازوں کے ہاتھوں تباہ ہونے سے بچاسکے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو اشتعال دلانے والے واقعات پہلے سے ہی کافی ہیں اس لئے اسلام کی ان غلط اور انتہا پسندانہ تشریحوں کی مدد سے انہیں مزید اشتعال دلانا مناسب نہیں تھا۔
1991میں دی نیشن اینڈ دی ورلڈ (The Nation and the world) سے برطرفی کے بعد میں شدید افسردگی ومایوسی میں مبتلا رہا۔ میرے لئے یہ بات حددرجہ تکلیف دہ تھی کہ اس رسالے کی پشت پر جو لوگ تھے وہ باظاہر ہندوستانی مسلمانوں کے ترقی پسند حلقے کے ‘‘کریم ’’تھے۔ اگر یہی لوگ اس طرح کی فرقہ پرستی او تنگ ذہنی اور اسلامی تعلیمات کی عدم تفہیم کا مظاہرہ کریں گے تو پھر آنے والے وقت میں ہماری قوم کا کیا ہوگا۔
میں تقریباً چھ مہینے صاحب فراش رہا۔ یہ عرصہ میرے لئے خود احتیابی کا رہا ۔ بلآخر جب میں بستر سے اٹھا تو یہ پختہ عزم لے کر اٹھا کہ میں اسلام کے نام پر انتہائی پسندی اور نفرت کی اشاعت کا مقابلہ کرنے کے لئے جو بھی کرنا ہوگا کروں گا اور موجودہ تناظر میں اسلام کی بہتر تفہیم پیش کروں گا۔ تب سے میں ان مسائل وموضوعات پر مختلف اخبارات مثلاً ٹائمز آف انڈیا ، ہندوستان ٹائمز ،انڈین ایکسپریس ، ایشین ایج اور دوسرے ویب سائٹ کے لئے لکھتا رہا ہوں۔
اپنے اس مشن کو جاری رکھنے کا میرا عزم ہر روز مضبوط تر ہوتا ہے جب میں اپنے آس پاس انٹرنیٹ پر اخبار ات اور ٹی وی پر دیکھتا ہوں کہ کس طرح مذہبی نظریہ ساز اسلام کے نام پر زہر اگلتے ہیں اور اس طرح اسے بدنام کرتے ہیں اور میں جب یہ دیکھتا ہو کہ دہلی میں ہندوستان کے ایک عظیم صوفی حضرت نظام الدین اولیاؒ کے قرب جوار میں ہی اہل حدیث کے ملاّؤں اور ذاکر نائک جیسے اسلامی نژاد پرستوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں جن میں صوفیوں کو کافر اور تصوف کو کفر قرار دیا گیا ہے۔ کوئی بھی اس زہر پروپیگنڈے کا توڑ نہیں کررہا ہے۔
سوال: نیو ایج اسلام کے جاری کرنے کے پیچھے کون سے محرکات تھے؟
جواب: 2005میں میری اہلیہ ثقافتی اطاشی کی حیثیت سے سرینام میں تعینات تھیں۔ اس لیے میں بھی وہیں مقیم تھا۔ ہم وہاں تین سال رہے ۔ میں ایک ‘‘گرہست’’ تھا اور میرے پاس کافی وقت تھا ۔ اس لئے میں نے مسلمانوں اور اسلام پروسیع تر تناظر میں وہ کتابیں پڑھنی شروع کیں جو میں پہلے خرید چکا تھا مگر پوری پڑھ نہیں پایا تھا۔ وہیں میرے ذہن میں ویب جریدہ شروع کرنے کا خیال آیا تاکہ میں اسلام او رمسلمانوں پر ترقی پسندانہ نظریات کی اشاعت کرسکوں اور اسلام کے نام پر نفرت اور انتہا پسندی کا مقابلہ کرسکوں کیونکہ باقاعدہ کسی رسالے یا اخبار کی اشاعت کافی مہنگی تھی۔ اور اس طرح دوسال قبل جب میں سر ینام میں ہی تھا ‘‘نیو ایچ اسلام کا قیام’’ عمل میں آیا۔
سوال : آپ کے ویب میگزین کا بنیادی مقصد کیا ہے؟
جواب:نیو ایج اسلام کا مقصد روایتی مسلم موضوعات پرتجدید نظر کو فروغ دینا ہے تاکہ وہ آج کی بنیاد سے ہم آہنگ ہوسکیں ۔ ہم ان بنیادی موضوعات ومسائل پر گفت وشنید کرتے ہیں جیسے اسلام درحقیقت کیا ہے۔ یا مسلمان کو ن ہے یا ایک باعمل مسلمان کی تعریف کیا ہے یا کیا ہونی چاہئے اور اسلام درحقیقت حقوق نسواں ، آزادی، جمہوریت ،قوم پرستی ، امن، انصاف، جنگ، سیاست، اور مملکت کے ساتھ تعلقات جیسے موضوعات پر کیا کہتا ہے ۔ یہ ویب سائٹ اس موضوع پر بھی بحث کرتا ہے کہ مسلمانوں کو اقلیت کی حیثیت سے ریاست کے ساتھ اور غیر مسلم اکثریت کے ساتھ کسی طرح رویہ رکھنا چاہئے ۔ یہ مسلم اکثریت اور غیر مسلم اکثریت والے ممالک دونوں میں حقوق انسانی کی پامالیوں کو بھی اٹھاتا ہے۔
ہمارا ویب سائٹ ایک کھلا فورم ہے۔جہاں مختلف نظریات وموضوعات پر مختلف الرائے شرکا ءکی بحث و ممتیص ہوتی ہیں۔یہ مسلمانوں کو خود احتسابی کی تلقین کرتا ہے اور انہیں مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنی خامیوں اور غلطیوں کے لئے دوسروں کو الزام دنہ دیں، اور قول وعمل میں غلطیوں کا اعتراف کریں۔ ہندوستان کے خصوصی تناظر میں نیو ایج اسلام مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کے مسلم میڈیا کے ذریعہ دیئے گئے تاثر کے برعکس ہمیں بلاشبہ دیگر شہریوں کی طرح ہی حقوق حاصل ہیں۔ ہم اس نقطے کو واضح طور پر پیش کرتے ہیں کہ بیش ترمسلم ممالک میں غیر مسلموں کو یا پھر خود مسلمان کو ہی جتنے حقوق حاصل ہیں ا س سے کہیں زیادہ حقوق ہندوستان میں مسلمانوں کو حاصل ہیں۔
ہمیں ان باتوں پر اور اسلام کی نژاد پرست ، جارح اور معتصب تشریح وتعبیر پر گفت وشنید کرنی ہے کیونکہ عمو ماً مسلم میڈیا ان مسائل سے بحث کرنے سے بیزاری کا مظاہرہ کرتاہے۔
ہم ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوستانی سماج میں اپنی پوزیشن پر تجدید نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس ملک میں جو کچھ حاصل ہے اس کے لئے ہمیں ممنوع ہوناچاہئے جو کہ مسلم ممالک میں خصوصاً ہمارے پڑوسی ملک میں غیر مسلم اقلیت سے زیادہ ہے ہمیں اس پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرناچاہئے کہ ہندوستان اسلام کا دشمن ہے۔ اور مسلمانوں کا شدید دشمن ہے، یہ امیج اردو پریس کے ایک حصے کا تخلیق کردہ ہے۔ ہمیں یہ باور کرانا چاہئے کہ ہم اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں حالانکہ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مملکت ہند جمہوریت اور رواداری کے تئیں اپنے عہد پر پورا نہیں اترتی ، اس مثبت پہلوؤں کی ستائش کرنا چاہئے اور شکر گزار ہونا چاہئے ۔اسلام ہمیں آزمائشوں میں بھی صبر وشکر کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتا ہے۔ فرقہ وارانہ اور جارحانہ نظریات کی تبلیغ واشاعت کے پیچھے پاکستانی حکومت کے پوشیدہ مقاصد کو سمجھاجاسکتا ہے۔ ہندوستانی سماج اور سیاست سے پوری طرح ہم آہنگ مسلم طبقہ کو دیکھ کر ان کی غیرت مجروح ہوتی ہے اور ان کے پاکستان کے وجہ قیام پر ہی سوال کھڑا ہوجاتا ہے ۔ راولپنڈی کے وہ جنرل جن سے میں بیشتر انگلینڈ میں مل چکا ہوں جن کا خواب ہندوستان پر فتح حاصل کرنا اور لال قلعے پر پرچم لہرائیں گے ہندوستان میں مسلمانوں کو تشدد اور بدامنی میں گھسیٹیں گے ۔ لیکن مسلم میڈیا اور دانشوروں کا ایک طبقہ خود ہندوستانی ریاست کو ان کے دشمن کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اور اس کے خلاف تصادم کا ماحول بناتا ہے ۔ یہ حقیقت کے بالکل خلاف اور انتہائی غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اسلام کی ترقی پسند تفہیم پیش کرنا ہے جو بین مذہبی مکالمے ، دوستی اور ہم آہنگی پرمبنی ہو۔ ہمیں اپنے ہندو بھائیوں کے ساتھ بقائے باہم کا سر سیکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں ‘‘ناپاک کافر’’ اور دشمن سمجھنے کی جیسا کے کچھ مسلمان کرتے ہیں۔ ہمیں بہر حال اس ملک میں جینا اور مرنا ہے اور ایک اقلیت کی حیثیت سے ہمیں ایک ہندو کادل جیتنے کو کوشش کرناچاہئے ۔ کسی بھی حملے کی صورت میں ہمارے ہندو ہمسائے ہی ہماری حفاظت کریں گے ہمارے یہ فرقہ پرست لیڈریا پھر وزیر داخلہ بھی نہیں ۔ اسلام ہمسائے کے حقوق کی بڑی تلقین کرتا ہے اس لئے ہمیں اپنے ہندو ہمسائے کے ساتھ دوستی او رواداری کے تعلقات قائم کرنے کی اشد وفوری ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں اہل کتب کے متعلق روایتی مسلم فہم کی بھی تجدید نظر کرنی چاہئے۔ ہندو مقدس صحیفوں میں پوری عبارتیں قرآن کی عبارتوں سے مثل ہیں ۔قرآن کریم خود کہتا ہے کہ اللہ نے ہر فرقے میں پیغمبر بھیجے اور یہ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں پیغمبر تشریف لائے۔
بہت سے ہندو ایسے ہیں جو ایک نراکار بھگوان کو مانتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اسلام نژاد وپرستی کے تصور کو بھی چیلنج کرنے کی ضرورت ہے اور اس بات کو بھی واضح طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ‘‘مسلمان’’، باعمل مسلمان ’غیر ’’ سے ہم کیا مراد لیتے ہیں ۔ کئی دہائیوں قبل حکومت پاکستان کے ذریعہ قائم کئے گئے میز کمیشن نے مختلف مسلم فرقوں کے رہنماؤں سے انٹر ویو لئے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ کوئی بھی دورہنما لفظ ‘‘مسلمان’’ کی تعریف میں متفق نہیں ہوپایا اور ہر ایک نے دوسرے کو گمراہ بلکہ اسلام سے خارج قرار دیا۔ ان مذہبی علما نے ظاہری وضع قطع اتنا زیادہ زور دیا کہ وہ شاید بھول گئے ایک خدا میں یقین ،نیکی، اور بندوں کے حقوق سچے مسلمان کی شناخت اور اسلام کی مرکزی بنیاد ہیں۔
سوال : آپ کا ویب میگزین کتنا کامیاب ہے۔ کیا اس نے اپنا کوئی نقش چھوڑا ہے؟
جواب: ہم نے جب سے اسے شروع کیا تب سے بہت تھوڑے عرصے میں ہی اس نے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ فی الحال پوری دنیا میں اس کے ایک لاکھ ستر ہزار ممبر ہیں جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہیں جنہیں ہم روز تازہ شمار ے بھیجتے ہیں ۔ ہمارے آرکاؤیر میں دو ہزار نوسو مضامین ہیں۔ ان میں صرف چند ہی میرے ہیں کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ اسے ذاتی پروپیگنڈہ سائٹ کی حیثیت سے دیکھاجائے ۔ بلکہ یہ سنجیدہ اور کھلے مباحثے کے لئے ایک فارم ہے۔ اس سائٹ کی ابتدائی صحافت پر بھی اختلافی آرا کا خیر مقدم ہے۔ اس سے قطع نظر تبصروں کا کالم ہے جس میں ہر طرح کی رائے کو جگہ دی جاتی ہے ۔ میں گالی گلوج کو چھوڑ کر ہر طرح کی تنقید او ر تبصروں کو جگہ دیتا ہوں۔
سوال :آپ کی رائے میں مذہب (صرف اسلام نہیں بلکہ عمومی طور پر تمام مذاہب) کے نام پر نفرت اور انتہا پسندی کا مقابلہ کس طرح کیا جاسکتا ہے؟
جواب :کٹر اسلام پسندی یا ہندو تو اوپر پابندی لگا کر مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ۔آر ایس ایس پر تین بار پابندی لگائی جاچکی ہے پھر بھی ایک تنظیم اورنظریے کی حیثیت سے آج بھی طاقتور ہے۔ اس پرپابندی سے کوئی بھی مقصد حاصل نہیں ہوا سوائے اس کے کہ اسے اور شہرت مل گئی ۔اسیطرح اسٹوڈینٹ اسلامک موومنٹ آف انڈیا پر حکومت ہند کے ذریعہ پابندی لگائے جانے سے قبل کم لوگ اسے جانتے تھے ۔ ایک نظریئے کامقابلہ ایک نظریئے سے ہی کیا جاسکتا ہے اور یہی بات مذہبی انتہا پسندی کے تعلق سے بھی درست ہے۔
سوال :آپ شاید یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صرف میڈیا کی سنسنی پسندی یا مسلم مخالف تعصب ہی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف گہرے تعصب کے لئے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ نفرت اور اسلامی نژاد پرستی اور خود ساختہ اسلامی گروہوں کی حرکتیں بھی اس کےلئے ذمہ دار ہیں؟
جواب :با لکل ۔۔میں تو یہاں تک کہتا ہوں کہ ہم مسلمان اپنی خراب امیج کے لئے غیر مسلم میڈیا سے زیادہ ذمہ دار ہیں حالانکہ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ بدقسمتی سے میڈیا بھی استثنا ئی واقعے کی تعمیر اور سنسنی خیزی کو پسند کرتا ہے۔ مسلمانوں کی خراب شبیہ کے لئے بہت حد تک ان کی اسلامی نژاد پرستی ذمہ دار ہے۔
جسے اسلام کی تائید حاصل نہیں ہے۔ اس سلسلے میں ایک چھوٹی اور اہم مثال پیش کرتا ہوں حال ہی میں پٹنہ اپنے ایک مسلم دوست کے گھر گیا ۔میرے دوست کے لڑکے کا ایک ہندو لڑکے سے جھگڑا ہوگیا اس نے آکر مولوی سے اس کی شکایت کی۔مولوی کا جواب تھا۔‘‘ارے وہ تو کافر ہے۔ تم اسے مارنا چاہئے تھا ’’۔اپنی بات کی وضاحت کے لئے میں ایک دوسرا واقعہ پیش کرتا ہوں۔
یہ مسلمانوں کو خود احتسابی کی تلقین کرتا ہے اور انہیں مشورہ دیتا ہے کہ وہ اپنی خامیوں اور غلطیوں کے لئے دوسروں کو الزام نہ دیں،اور قول وعمل میں غلطیوں کا اعتراف کریں۔ ہندوستان کے خصوصی تناظر میں نیو ایج اسلام مسلمانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ مسلم میڈیا کے ذریعہ دیئے گئے تاثر کے برعکس ہمیں بلاشبہ دیگر شہریوں کی طرح ہی حقوق حاصل ہیں۔ہم اس نقطے کو واضح طور پر پیش کرتے ہیں کہ بیش تر مسلم ممالک میں غیر مسلموں کو یا پھر خود مسلمان کو ہی جتنے حقوق حاصل ہیں اس سے کہیں زیادہ حقوق ہندوستان میں مسلمانوں کو حاصل ہیں۔
ہمیں ان باتوں پر اور اسلام کی نژاد پرست ، جارح اور معتصب تشریح وتعبیر پر بھی گفت وشنید کرنی ہے کیونکہ عموماً مسلم میڈیا ان مسائل سے بحث کرنے سے بیزاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
ہم ہندوستانی مسلمانوں کوہندوستانی سماج میں اپنی پوزیشن پرتجدید نظر کرنے کی ضرورت ہے۔ہمیں اس ملک میں جو کچھ حاصل ہے اس کے لئے ہمیں احسان مندہونا چاہئے جو کہ مسلم ممالک میں خصوصاً ہمارے پڑوسی ملک میں غیر مسلم اقلیت سے زیادہ ہے ہمیں اس پروپیگنڈہ کا مقابلہ کرنا چاہئے کہ ہندستان اسلام کا دشمن ہے ۔ اور مسلمانوں کا شدید دشمن ہے ،یہ امیج اردو پریس کے ایک حصے کا تخلیق کردہ ہے ۔ ہمیں یہ باور کرانا چاہئے کہ ہم اس ملک کا اٹوٹ حصہ ہیں حالانکہ ہم یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مملکت ہند جمہوریت اور رواداری کے تئیں اپنے عہد پر پورانہیں اترتی، اس مثبت پہلوؤں کی ستائش کرنا چاہئے اور شکر گزار ہونا چاہئے۔ اسلام ہمیں آزمائشوں میں بھی صبر وشکر کے ساتھ رہنے کی تعلیم دیتا ہے ۔فرقہ وارانہ اور جارحانہ نظریات کی تبلیغ واشاعت کے پیچھے پاکستانی حکومت کے پوشیدہ مقاصد کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ہندوستانی سماج اور سیاست سے پوری طرح ہم آہنگ مسلم طبقے کو دیکھ کر ان کی غیرت مجروح ہوتی ہے اور ان کے پاکستان کے وجہ قیام پر ہی سوال کھڑا ہوجاتا ہے ۔ راولپنڈی کے وہ جنرل جن میں سے بیشتر سے میں انگلینڈ میں مل چکا ہوں جن کا خواب ہندوستان پر فتح حاصل کرنا او ر لال قلعے پر سبز پرچم لہرانا اور ہندوستان میں مسلمانوں کو تشدد اور بدامنی میں گھسیٹناہے۔ لیکن مسلم میڈیا اور دانشوروں کا ایک طبقہ خود ہندوستانی ریاست کو ان کے دشمن کی حیثیت سے پیش کرتا ہے اوراس کے خلاف تصادم کا ماحول بناتا ہے ۔ یہ حقیقت کے بالکل خلاف اور انتہائی غیر دانشمندانہ رویہ ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اسلام کی ترقی پسند تفہیم پیش کرنا ہے جو عین مذہبی مکالمے ،دوستی اور ہم آہنگی پر مبنی ہو۔ ہمیں اپنے ہندو بھائیوں ساتھ بقائے باہم سر سیکھنے کی ضرورت ہے نہ کہ انہیں ‘‘ناپاک کافر’’ اور دشمن سمجھنے کی جیسا کے کچھ مسلمان کرتے ہیں ۔ہمیں بہر حال اس ملک میں جینا اور مرنا ہے اور ایک اقلیت کی حیثیت سے ہمیں ایک ہندو کا دل جیتنے کو شش کرنا چاہئے ۔ کسی بھی حملے کی صورت میں ہمارے ہندو ہمسائے ہی ہماری حفاظت کریں گے ہمارے فرقہ پرست لیڈر یا پھر وزیر داخلہ بھی نہیں۔ اسلام ہمسائے کے حقوق کی بڑی تلقین کرتا ہے اس لئے ہمیں اپنے ہندو ہمسائے کےساتھ دوستی اور رواداری کے تعلقات قائم کرنے کی اشد وفوری ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں ہمیں اہل کتاب کے متعلق روایتی مسلم فہم کی بھی تجدید نظر کرنی چاہئے۔ ہندو مقدس صحیفوں میں پوری عبارتیں قرآن کی عبارتوں مثلاًہیں ۔ قرآن کریم خود کہتا ہے کہ اللہ نے ہرفرقے میں پیغمبر بھیجے اور یہ ظاہر ہے کہ ہندوستان میں پیغمبر تشریف لائے۔
سوال: حالیہ برسوں میں ہندوستان کی مسلم تنظیموں کی ایک بڑی تعداد نے صف اول کے مدرسوں میں ہر طرح کی دہشت گردی بشمول مسلم گروہوں کی دہشت گردی کی مذمت کی ہے۔ ان کے اس ردّے عمل کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
جواب: میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح سمت میں اٹھایاہوا ایک قابل قدر قدم ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے کہ کیونکہ جیسا کہ ظاہر ہے اس سے خاطر خواہ اثر نہیں پڑا ہے۔ ان کو ان افراد اور اسلامی گروہوں کا نام لے کر ان کی مذمت کرنا چاہئے جو اسلام کے نام پر دہشت گردی کا فروغ دے رہے ہیں۔وہ عالمانہ سطح پر ان حدیثوں اور قرآنی آیات کی کٹّر پسنداور انتہا پسندانہ تشریح وتقصیر کا بھی تجزیہ کریں جن کاغلط استعمال یہ کٹر پسند گروہ دہشت گردی کو جائز ٹھہرانے اور فروغ دینے کے لئے کرتے ہیں۔ یہ اس بات کا بھی تقاضا کرے گا کہ ان آیات کا اطلاق صرف ایک خصوصی تاریخی پس منظر میں ہوا تھا۔ان سب کے لئے ہمیں اور بھی زیادہ ترقی پسند اور سماجی طور پر متحرک عالموں کی ضرورت ہے جو فی الحال ہمارے پاس نہیں ہیں۔ اس طرح کے عالموں کو آگے لانا ہی نیو ایج اسلام کا ایک اہم مقصد ہے۔