New Age Islam
Wed Mar 22 2023, 09:48 PM

Urdu Section ( 26 Jan 2016, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

India Is Tolerant, I’m Proud to Be Indian ہندوستان ایک روادار ملک ہے اور مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے: ذاکر حسین

 

سوگندھا اندلکر

25 جنوری، 2016

ذاکر حسین ہندوستان کے مشہور تبلا باز ہیں۔ سوگندھا اندلکر کے ساتھ بات کرتے ہوئے ذاکر حسین نے رواداری کے بڑے بحث و مباحثے پر گفتگو کی اور اس بات پر اظہار رائے کیا کہ کیوں انہیں یہ لگتا ہے کہ میڈیاکو آواز بلند کرنے میں راہ اعتدال اختیار کرنا چاہیے:

ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس وقت رواداری اور عدم رواداری پر کافی بحث و مباحثہ کا بازار گرم ہے –کیا ہندوستان ایک روادار ملک ہے؟

جی ہاں، ہندوستان ایک روادار ملک ہے۔ ہندوستان کو معلوم ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ پر امن طریقے سے کس طرح رہنا چاہیے۔ ہندوستان ایک متنوع ملک ہے اور ہم نے اپنے تنوع میں امن اور ہمدردی کے تصور کو تلاش کر لیا ہے۔

مجھے ہندوستانی ہونے پر فخر ہے۔ میری بیوی ایک امریکی ہے۔ میں امریکی پاسپورٹ حاصل کر سکتا ہوں لیکن میں نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ میں ایک ہندوستانی ہوں میرا اس پر یقین ہے اس لیے کہ اس ہندوستانی ثقافت و تہذیب کے ساتھ ہمارا ایک گہرا ربط ہے جس سے ہم ایک لمبے عرصے سے واقف ہیں۔

تقسیم کے وقت بہت سے لوگ پاکستان چلے گئے تھے لیکن ہم یہیں رہے اس لیے کہ ہم یہ جانتے تھے کہ ہم ہندوستانی ہیں، یہ وقعی ایک اہم بات ہے کہ ہمارا یہ خوبصورت ملک کثیر ثقافتی ملک ہے۔

ہم امن سے محبت کرنے والے ہیں –اور ہمیں اس ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔

ہمیں کسی کو بھی ایک دوسرے کے خلاف ہم سب کو کھڑا کرنے کا موقع نہیں دینا چاہئے۔

لیکن ہم متعدد متضاد نظریات کا سامنا کر رہے ہیں۔ کیا خود آپ کو کبھی عدم روداری کا سامنا کرنا پڑا ہے؟

بالکل نہیں۔ میں ممبئی کا ایک بہترین انسان ہوں۔ میری پرورش ماہم میں ہوئی ۔ میرے والد ایک بہترین تبلا باز تھے۔ ان کی تربیت اور لگن بہت متاثر کن تھی۔ میرے والدین اسلام کے زبردست پیروکار تھے۔ گھر میں اپنی صبح کی نماز اور ریاض کے بعد میں ایک مدرسہ جاتا اور وہاں دعاء کرتا تھا۔

وہاں سے میں سینٹ مائیکل اسکول جاتا تھا جس سے پہلے میں گرجا گھر جاتا اور وہاں دعا اور مناجات کرتا تھا۔ شام کو میں ایک مندر میں حاضری دیتا اور اس کے بعد گھر واپس آکر پھر تبلا سیکھتا تھا۔

کسی بھی پادری یا ملا نے مجھے وہ کرنے سے نہیں روکا جو میں نے کیا، خدا کے ہر گھر میں میرا خیر مقدم کیا گیا۔ اور ہر جگہ مجھے خدا کی رحمت ملی۔ میری پرورش اس کثیر مذہبی عقیدے پر ہوئی ہے۔

ہم آہنگی ہمارے اندر ہے۔ جب ہم باہر کی دنیا کو ہمارے داخلی امن میں خلل ڈالنے کی اجازت دیتے ہیں تب ہم ایک دوسرے سے دور محسوس کرتے ہیں۔

ممبئی میں غلام علی کا غزل کنسرٹ ناکام رہا، کیا سیاسی جماعتوں کو موسیقی کے لئے حدود متعین کرنا چاہئے؟

موسیقی کی نوعیت آفاقی ہے –دراصل یہ مذہب یا قوم کی حدود سے بالا تر ہے۔

سیاسی جماعتوں کو حل کرنے کے لیے بہت سے دوسرے مسائل و معاملات ہیں۔ اور دکھ کی بات تو یہ ہے کہ کبھی کبھی اس حقیر سیاست کے دائرے سے باہر کے لوگوں کو بھی یہ جھیلنا پڑتا ہے۔

ابھی حالات سخت ہیں اس لیے کہ معاشرے کے مخصوص عناصر ہندوستانیوں کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کر رہے ہیں، جو کہ بالکل غلط ہے۔ میڈیا اکثر اپنی (TRP) میں اضافہ کرنے کے لئے اس آگ کو ہوا دیتا ہے، اور اسی کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔

آپ کی زندگی میں مذہب کیا کردار ادا کرتا ہے؟

مذہب ایک نظام زندگی ہے۔ موسیقی میرے لئے زندگی ہے- لہذا، یہ میرا مذہب ہے۔ اور یہ دین دنیا کے تمام مذاہب کو شامل ہے۔

میرے والد کہا کرتے تھے کہ میں ماں سرسوتی کا پجاری ہوں۔ میں اس سے محبت کرتا ہوں اور وہ مجھ سے محبت کرتی ہیں۔ انہوں نے مجھے بھگوان شو کی ڈمرو اور بھگوان گنیش کی پکھاواج سے متعارف کرایا۔

ہر مذہب یہ تعلیم دیتا ہے کہ 'اپنے پڑوسی سے محبت کرو'۔ میرا یقین ہے کہ اگر آپ اپنے ارد گرد کے لوگوں پر مہربان ہو تو آپ اپنے مذہب پر عمل کرر ہے ہیں۔

آپ نے اپنے فن کو ایک عالمی اسٹیج پر پہنچایا ہے۔ آپ نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں کن کن چیلنجز کا سامنا کیا ہے؟

جی ہاں، سب سے پہلا چیلنج جس کا سامنا ہر فن کار کو کرنا پڑتا ہے وہ فن میں خستگی پر قابو پانا ہے۔ تبلا کی بنیاد بے ساختگی پر ہے۔ کبھی کبھی اس میں ایک تخلیقی رکاوٹ پیش آتی ہے جس پر قابو پانا مشکل ہو سکتا ہے۔

اسٹیج پر بے لوث ہونا ایک اور چیلنج ہے، آپ کو معلوم ہے کہ سامعین آپ کی دھن سننے کے لئے جمع ہوئے ہیں لیکن اپنے ساتھی فنکاروں کو اپنا بہترین فن پیش کرنے کا موقع دینا بھی اتنا ہی اہم ہے۔

ایک ماہر فنکار کے لئے ایک اور چیلنج یہ جاننا ہے کہ آپ سب سے بہتر نہیں ہیں- میں مسلسل اپنے آپ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔

آپ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے سب سے ماہر استاذ تھے، کیا ابھی آپ سے بھی بہتر کوئی ہے ؟

‘تھے’ سے آپ کا کیا مطلب ہے؟ میں ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کا اصل استاذ آج بھی ہوں!

میں یہ نہیں چاہوں گا کہ کوئی بھی نوجوان موسیقار میری طرح بنیں- انہیں مجھ سے بھی بہتر بننا ہوگا۔ میں دنیا بھر میں سامعین کے سامنے اپنا بہترین ہنر پیش کرنے کی پوری کوشش کرتا ہوں۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ آج ایسے بہت سے نوجوان تبلا باز ہیں جو مجھ سے بہتر اپنا ہنر پیش کر سکتے ہیں، ہندوستانی موسیقی ہر ایک کو اپنی شناخت بنانے کا ایک موقع فراہم کرتی ہے۔

ماخذ:

blogs.timesofindia.indiatimes.com/the-interviews-blog/india-is-tolerant-im-proud-to-be-indian-and-im-still-musics-original-heart-throb-zakir-hussain

URL for English article: https://newageislam.com/interview/india-tolerant,-i’m-proud-be/d/106111

URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/india-tolerant,-i’m-proud-be/d/106121

New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Womens in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Womens In Arab, Islamphobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism,

 

Loading..

Loading..