ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
5 جولائی 2025
بر صغیر پاک و ہند میں صوفیاء کرام نے یہاں کے زمینی حقائق اور معاشرتی قدروں کے مطابق اپنے کردار اور رویوں کو برتا تاکہ سماج میں امن و محبت قائم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم صوفیاء کرام کے کارناموں اور ان کی علمی ،فکری اور روحانی سرگرمیوں کو دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے انہوں نے غیر مسلموں کے ساتھ نہایت روادارانہ اور مشفقانہ برتاؤ کیا ۔
اسی حسن سلوک کی وجہ ہے کہ آج بھی کتنے ہندو ،مسلم صوفیاء اور بزرگوں سے عقیدت رکھتے ہیں ۔ صوفیاء کے اس رویہ نے ثقافتی ولسانی لین دین کو بھی فروغ دیا۔ اکتنے مسلم صوفیاء ہیں جنہوں نے ہندوؤں کی مذہبی زبان سنسکرت کو سیکھا اور پھر ان کے مذہب کا مطالعہ بھی کیا ۔اسلامی تاریخ میں بعض صوفیاء کرام ایسے بھی گزرے ہیں جنہوں نے سنسکرت زبان میں مہارت حاصل کی اور ہندو مسلم اتحاد، بین المذاہب ہم آہنگی، اور روحانیت کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ ان صوفیاء نے نہ صرف سنسکرت زبان سیکھی بلکہ سنسکرت میں موجود مذہبی اور فلسفیانہ کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا، جس کے ذریعے وہ ہندوستانی مذاہب کے ماننے والوں سے مکالمہ کرنے کے قابل ہوئے۔ اس لیے یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ سنسکرت سیکھنا صوفیاء کرام کا یقینی طور ایک مثبت کارنامہ تھا اور اس کے سماج پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ بھی غیر معمولی ہیں ۔ مسلم صوفیاء سنسکرت جیسی مشکل زبان سیکھ کر ہندو اسکالرس سے علمی و فکری مکالمہ کی بنیاد ڈالی تو وہیں ہندو دھرم کی مذہبی کتابوں کا مطالعہ کرکے اور ان میں روحانی نکات کو سمجھ کر اسلامی تصوف سے موازنہ کیا ۔ مقامی زبانوں اور روایات سے واقف ہو کر صوفیاء نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے جسے تاریخ سے مٹایا نہیں جاسکتا ہے ۔ صوفیا کرام نے لسانی و ثقافتی ہم آہنگی جیسے پالیسی سے ہندوستانی تہذیب و تمدن کو بھی مستحکم کیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ہندوستانی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی معنویت محض تاریخی وراثت یا ثقافتی مظاہر تک محدود نہیں بلکہ یہ تہذیب انسانی اقدار، کثرت میں وحدت، مذہبی رواداری، لسانی و فکری ہم آہنگی اور روحانی گہرائی کی نمائندہ ہے۔ہندوستانی تہذیب کا بنیادی ستون روحانیت ہے۔ وید، اُپنشد، بھگوت گیتا، بدھ مت، جین مت، اسلام، سکھ مت، عیسائیت، اور دیگر مذاہب یہاں نہ صرف پروان چڑھے بلکہ ایک دوسرے سے فکری و اخلاقی اثرات بھی قبول کیے۔ یہاں صوفیاء اور سنتوں نے امن، محبت، اور انسانیت کا پیغام دیا۔ صوفیا کرام کثیر لسانی اور کثیر ثقافتی عناصر کا حسین امتزاج ہیں ۔ ہر علاقہ اپنی مخصوص زبان، لباس، موسیقی، رقص، ادب اور رسومات کے ذریعے ہندوستانی تہذیب کو مزید رنگ بخشتا ہے۔ہندوستانی تہذیب نے ذات پات، قبائل، مذاہب، اور فرقوں کے باوجود ایک مشترکہ سماجی ہم آہنگی کو فروغ دیا۔ ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوستانی تہذیب کو یہاں کے تمام مذاہب کے افراد نے مل کر پروان چڑھایا جو اپنے دامن میں بہت ساری خصوصیات رکھتی ہے جیسے "وحدت میں کثرت (Unity in Diversity) تاریخ شاہد ہے کہ اس تنوع کو صوفیاء کرام نے اپنے کردار و عمل سے نہ صرف باقی رکھا بلکہ فروغ بھی دیا۔ یہ تہذیب فلسفہ، ریاضی، طب، فلکیات، اور ادب کے میدانوں میں گہرے اثرات رکھتی ہے۔ سنسکرت، اردو، فارسی، ہندی، تمل، تیلگو جیسی زبانوں میں علم و حکمت کا خزانہ موجود ہے۔ یہاں کی صوفی یا بھگتی تحریکوں نے مل جل کر جو اثرات سماج پر مرتب کیے اس کی معنویت ہمیں فنِ تعمیر، مصوری، مجسمہ سازی، اور دستکاری میں بھی دکھائی دیتی ہے۔ تاج محل، قطب مینار، اجنتا ایلورہ، سونا مندر، گول کنڈہ، اور لال قلعہ جیسے شاہکار اس کا عملی ثبوت ہیں۔بزرگوں کا احترام، مہمان نوازی، خاندانی نظام، اور سماجی ہم آہنگی اس تہذیب کی بنیادی اقدار ہیں۔ صوفیاء کرام کی تحریک نے انسان کو انسان سے جوڑنے اور باہمی تعلقات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ملی جلی ثقافت و تہذیب سے جو نتیجہ برآمد ہوا اس کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی تہذیب صرف ماضی کی میراث نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے لیے بھی ایک فکری و اخلاقی رہنما ہے۔ اس کی معنویت عالمی سطح پر امن، ہم آہنگی اور انسان دوستی کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
صوفیاء کی تعلیمات کا مرکز و محور انسان کی باطنی اصلاح و تربیت ہوتا ہے اسی وجہ سے صوفیاء نے عوامی زبان میں بات کی، چاہے وہ ہندی ہو، برج بھاشا، پنجابی یا اردو۔ حضرت بابا فرید گنج شکرؒ نے پنجابی میں شاعری کی، جبکہ حضرت نظام الدین اولیاؒ اور حضرت امیر خسروؒ نے ہندی اور فارسی کو ملا کر عوامی زبان کو فروغ دیا۔ اس میل جول سے اردو جیسی زبان وجود میں آئی، جو آج مشترکہ تہذیب کی علامت ہے۔صوفی خانقاہیں صرف عبادت گاہیں نہیں تھیں بلکہ معاشرتی ہم آہنگی، فلاحی خدمات، اور تعلیم کا مرکز تھیں۔ ہر مذہب، ذات اور طبقے کے لوگ وہاں آتے، عزت پاتے اور روحانی سکون حاصل کرتے۔قوالی، بھجن، لوک گیت، صوفی موسیقی — سب پر صوفی اثرات نمایاں ہیں۔ صوفیاء کی شاعری، موسیقی اور ذکر کی محافل میں تمام مذاہب کے افراد شریک ہوتے۔ یہ فنون مشترکہ ثقافت کی واضح علامت ہیں ۔
صوفیاء کرام کا مطالعہ مذاہب
یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی ہے کہ صوفیاء کرام نے ہندوستان کی تکثیری تہذیب اور یہاں کی روایتوں کی نہ صرف قدر کی بلکہ ہندوؤں کی مذہبی کتابوں کی زبان تک سیکھی ۔ یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک تہذیب، ایک تاریخ، اور ایک قوم کی فکری شناخت کا مظہر ہوتی ہے۔ سنسکرت، جسے دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں شمار کیا جاتا ہے، نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری انسانی تہذیب کی علمی، فکری، اور روحانی وراثت کی نمائندہ ہے۔ یہ زبان ویدوں، اپنشدوں، مہابھارت، رامائن، شاستروں ، پرانوں اور درجنوں ادبی متون کی اصل زبان ہے۔ سنسکرت کی سماجی اہمیت صرف ماضی تک ہی محدود نہیں بلکہ آج کے عہد میں بھی یہ زبان تعلیمی، روحانی، اور تہذیبی حوالوں سے غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ سنسکرت زبان نے سماج پر بھی گہرے اثرات چھوڑے ہیں جن کی بدولت انسانی فکر کو ایک وسعت ملی۔ یہ زبان قدیم ہندوستان کے تمام تعلیمی و تحقیقی مراکز — نالندہ، تاکششیلا، اُدّنت پوری — میں تدریس و تحقیق کی زبان رہی ہے۔سنسکرت محض ہندو مذہب کی زبان نہیں بلکہ بدھ مت، جین مت، اور یہاں تک کہ بعض مسلم صوفیاء نے بھی اس زبان کو روحانی مقاصد کے لیے اختیار کیا۔ سنسکرت کے ذریعہ عالمگیر اخلاقی تعلیمات، مراقبہ، اور آتما کی کھوج جیسے موضوعات کو عام انسان تک پہنچایا گیا۔ سنسکرت نے ایک مشترکہ ثقافتی اور تہذیبی دھارا تشکیل دی۔ بھارت کے مختلف خطے، جن کی زبانیں اور رسم و رواج الگ تھے، سنسکرت کے ذریعے ایک تہذیبی دھارے میں جُڑتے چلے گئے۔ یہی وجہ ہے کہ اسے "بھارتی تہذیب کی رگِ جاں" کہا جاتا ہے۔ گویا سنسکرت زبان ہندوستانی تہذیب کی اساس ہے۔ اس نے نہ صرف ماضی میں علمی، فکری، روحانی اور تہذیبی ترقی کو فروغ دیا بلکہ آج کے سماج میں بھی یہ زبان رواداری، فکری وسعت، اور انسانیت کے مشترکہ ورثے کی علامت بن سکتی ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سنسکرت کو صرف مذہبی یا قدیم زبان کے خانے میں قید کرنے کے بجائے اسے ایک زندہ، فعال، اور بامعنی علمی و تہذیبی وسیلہ سمجھا جائے۔
برصغیر کی تہذیبی تاریخ میں سنسکرت اور اسلام، بظاہر دو مختلف تہذیبی روایات ہیں، لیکن جب ہم صوفیاء کی حیات و تعلیمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ حقیقت واضح طور پر نظر آتی ہے کہ سنسکرت زبان اور مسلم صوفیاء کے درمیان ایک فکری و روحانی مکالمہ موجود رہا ہے۔ صوفیاء کرام نے جہاں اسلامی روحانیت کو عام فہم انداز میں پیش کیا، وہیں انہوں نے مقامی زبانوں، رسوم و رواج، اور سنسکرت ادب سے بھی استفادہ کیا تاکہ وہ عوام کے دل و دماغ تک پہنچ سکیں۔
1. حضرت امیر خسرو دہلوی (1253–1325)
اگرچہ فارسی اور ہندوی کے ماہر تھے، مگر ان کی تحریروں میں سنسکرت الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔
انہوں نے ہندو مسلم اشتراک کی بنیاد رکھی اور بعض سنسکرت اشعار کو اپنے کلام میں شامل کیا۔
2. حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری (1009–1077)
لاہور میں مقیم اس صوفی بزرگ نے اپنی مشہور کتاب کشف المحجوب میں ہندوستانی فلسفے اور رسوم و رواج کا ذکر کیا۔نیز وہ سنسکرت اصطلاحات سے واقف تھے۔
3. حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز (1321–1422)
انہوں نے دکنی ہندوی میں کئی کتابیں لکھیں اور سنسکرت کے اثرات ان کی نثر میں ملتے ہیں۔
بعض ماخذوں کے مطابق وہ سنسکرت سے واقف تھے اور ہندو فلسفے پر گفتگو کرتے تھے۔
4. حضرت شرف الدین یحییٰ منیری (1263–1381)
بہار کے عظیم صوفی جنہوں نے ہندوستانی مذاہب اور سنسکرت فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کی۔
ان کے خطوط اور ملفوظات میں ہندو مذہب کے حوالے سے سنجیدہ مکالمہ ملتا ہے۔
5. حضرت نظام الدین اولیاء (1238–1325)
اگرچہ براہِ راست سنسکرت میں ماہر ہونے کے شواہد کم ہیں، مگر ان کے حلقۂ ارادت میں ایسے افراد تھے جو سنسکرت جانتے تھے، جیسے امیر خسرو۔
6. حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ (م. 1236ء)
خواجہ صاحب نے ہندومت کے بنیادی اصولوں کا مطالعہ کیا۔راجپوت حکمرانوں اور ہندو علماء سے خطاب کے دوران سنسکرت اصطلاحات سے واقفیت کا ثبوت ملتا ہے۔
ان کی تعلیمات میں "سب کا بھلا" اور "روحانی مساوات" جیسے تصورات ہندومت کے ساتھ مطابقت رکھتے ہیں۔
7. حضرت نصیر الدین چراغ دہلویؒ (م. 1356ء)
دہلی میں قیام کے دوران ہندو پنڈتوں سے ملاقاتیں کیں۔
ان کے حلقہ درس میں بعض ہندو طالب علم بھی شامل تھے۔ہندو مذہبی روایات اور سنسکرت کے بنیادی اصولوں پر عبور رکھتے تھے۔
9. حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ
اگرچہ یہ بزرگ قبل از چشتیہ روایت سے وابستہ تھے، لیکن بعد کے چشتی بزرگوں پر ان کے اثرات نمایاں ہیں۔
ان کے اقوال میں بھی سنسکرت کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
10- حضرت شاہ کمال قادریؒ (برصغیر، 18ویں صدی)
ان کے ملفوظات میں بھگتی سنتوں اور ہندو روایات کا تذکرہ ہے۔سنسکرت زبان کو "روحانی مکالمہ" کا ذریعہ قرار دیتے تھے۔
11. حضرت سید میرہ علی شاہ گولڑویؒ (1859–1937ء)
آپ قادری سلسلے کے عظیم بزرگ اور علم و روحانیت کے مرکز تھے۔اگرچہ آپ کی تحریرات فارسی، عربی اور اردو میں ہیں، لیکن کئی ہندو عقائد و فلسفوں سے واقفیت کے شواہد ملتے ہیں۔ہندو مہا پنڈتوں سے مباحثے کے دوران سنسکرت اصطلاحات کو سمجھنے اور استعمال کرنے کا ثبوت بھی موجود ہے۔
12. حضرت سلطان باہوؒ (1630–1691ء)
اگرچہ بنیادی طور پر پنجابی صوفی شاعر تھے، لیکن ان کی شاعری میں ہندوی و سنسکرت اثرات نمایاں ہیں۔
"بیجا مندر، بھیتر مسجد، رام رہیا لاہوتی" جیسے اشعار روحانی وحدت اور بین المذاہب ہم آہنگی کی علامت ہیں۔
13. حضرت شاہ غلام علی دہلویؒ (1743–1824ء)
آپ کو "نقشبندیہ مجددیہ" سلسلے کا مجدد کہا جاتا ہے۔
دہلی میں علماء، پنڈتوں، اور دوسرے ادیان کے نمائندوں سے مناظرے اور مکالمے کیے۔
سنسکرت کے بنیادی فلسفہ اور ویدانتی افکار سے واقف تھے تاکہ مؤثر دعوت دی جا سکے۔
14.حضرت شیخ بہاؤ الدین زکریا ملتانیؒ (1170–1262ء)
آپ سہروردیہ سلسلے کے اولین اور نمایاں بزرگوں میں سے تھے جنہوں نے ملتانی، ہندوی، اور سنسکرت ماحول میں تبلیغ کی۔ہندو راجاؤں اور پنڈتوں سے میل جول رکھتے تھے۔عوامی سطح پر تبلیغ کے لیے ہندوی زبان اور سنسکرت اصطلاحات سے واقفیت پیدا کی۔
سنسکرت زبان اور مسلم صوفیاء کے مابین جو فکری، روحانی اور تہذیبی رابطہ قائم ہوا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ زبانیں اور مذاہب اگر چاہیں تو انسانیت کی خدمتاور امن و محبت کا پیغام عام کر سکتے ہیں۔
صوفیاء کرام وہ بلند پایہ روحانی شخصیات تھیں جنہوں نے انسان کو مذہب، قوم، نسل اور زبان کے دائروں سے نکال کر ایک عالمگیر محبت، روحانی پاکیزگی، اور انسانیت کی عظمت کا سبق دیا۔ جب صوفیاء نے برصغیر ہند میں اسلام کا پیغام عام کیا، تو وہ مقامی زبانوں، رسوم، اور ثقافت سے ہم آہنگ ہوئے۔ صوفیاء اور سنسکرت کا رشتہ ایک تہذیبی پل کی مانند ہے جو دلوں کو جوڑنے، علم کو عام کرنے، اور روحانیت کو وسعت دینے کا ذریعہ بنا۔ صوفیاء نے ثابت کیا کہ مذہب اور زبانیں انسانوں کو جدا کرنے نہیں، بلکہ قریب لانے کا وسیلہ ہو سکتی ہیں۔ سنسکرت کے علمی اور روحانی ورثے کو اپنانا، اسے سمجھنا، اور اس سے سیکھنا صوفیاء کے کشادہ ذہن اور عالمگیر محبت کی دلیل ہے۔
آج بھی ضرورت ہے کہ ہم ہر طرح کے تعصب سے اوپر اٹھ کر کام کریں تاکہ رواداری اور سماجی ہم آہنگی کا پیغام عام ہو ۔ ہمارے بزرگوں نے جو طریقہ اختیار اس میں اجتماعیت تھی ۔ اسی رویہ کو ہمیں اختیار کرنا چاہیے تاکہ خیر سگالی اور احترام باہمی کا شعور بیدار ہو ۔
--------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sufiya-e-kiraam-study-religions/d/136085
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism