ڈاکٹر عقیل احمد
21 جولائی 2023
خواجہ حسن نظامی۲؍
محرم۱۲۹۶ھ
مطابق۲۵دسمبر۱۸۷۵ء بروز جمعہ بوقت صبح
صادق بستی حضرت نظام الدین میں پیدا ہوئے ۔ ۱۸۵۷ء کے بیس برس بعد۔ ۱۸۷۵ء ہندوستان کی تاریخ کا
ایسا یادگار سال ہے جوخصوصاً مسلمانوں سے بھلایا نہیں جائے گا۔ کیونکہ اس میں
مسلمانوں کا سب کچھ تاراج ہوگیا۔ مغلیہ سلطنت کاخاتمہ ہوگیا۔ مغل دربار سے
وابستگان کو یاتو پھانسی دے دی گئی یا انھیں کالا پانی کی سزا دی گئی۔اس سال کی
کہانی اتنی غمگین ہے کہ اب سنی نہیں جاسکتی۔خواجہ صاحب بچپن سے ان واقعات کو ذہن
نشیں کرتے رہے اور انقلاب۱۸۵۷ءسے
متعلق بارہ کتابیں تصنیف کیں۔ان میں ایک کتاب بیگمات کے آنسو ہے۔اسی میں ایک
کہانی ایک شہزادی کی ہے۔جو بہادرشاہ ظفر کے رشتے کی پوتی تھی۔اس کی والدہ کا تین
سال کی عمر میں انتقال ہوگیا تھا۔ والد نابینا تھے چودہ برس کا بھائی تھا۔چار نوکر
تھے ایک داروغہ تین تین باندیاں اور مغلانیاں کام کرتی تھیں۔ خرچ شاہی خزانے سے
ملتا تھا۔اس گھر میں ایک بکری تھی اس کا ایک بچہ تھا۔ شہزادی نے اسے چھیڑا تو بکری
نے ٹکر مار دی۔ شہزادی کو غصہ آگیا اور دست پناہ گرم کرکے بچے کی آنکھیں پھوڑ
ڈالیں۔بچہ تڑپ کر مرگیا۔
اب انجام دیکھئے۔
غدر کے بعد نا بینا والد
بھائی کے ساتھ پالکی میں سوار ہو کرشہر سے نکلے۔دلی دروازے پر فوج والوں نے پالکی
پکڑ لی۔ بھائی کو گرفتار کرنا چاہا اس نے تلوار چلائی۔ زخموں سے چور چور ہوکر پتھر
پر گرے دونوں آنکھوں میں پتھر گھپ گیا۔چیخیں مار مار کر بھائی نے دم توڑ دیا۔
والد پالکی سے نیچے اترے لاش کے پاس گئے پتھر سے سر ٹکرا کر خود کو لہولہان کیا
اور وہیں ختم ہوگئے۔فوج نے شہزادی کو گرفتار کرلیا۔سب سامان ضبط کرلیا۔ باپ اور
بھائی کی لاش کو بے گوروکفن چھوڑکر فوج کے ساتھ جانے پر مجبور ہونا پڑا۔ ایک دیسی
سپاہی نے شہزادی کو گھر کے کام کرنے کے لیے مانگ لیا۔اس کی بیوی بڑی بد مزاج تھی،
برتن مانجھنا،جھاڑو دینا، مسالہ پیسنا ،پیر دبانے کا کام شہزادی سے لیا جانے لگا۔پائوں
دباتے دباتے جب نیند آنے لگی تو دست پنا ہ گرم کرکے بھوئوں پر رکھ دیا پلکیں جھلس
گئیں۔ صبح مسالہ پیستے وقت ہاتھ کے زخم کو مرچوں نے تڑپا دیا۔لیکن اس کو رحم نہ
آیا اور مرچیں زخموں پر مل دیں شہزادی بے ہوش ہوگئی۔کچھ دن بعد وہ مرگئی اس نے
نئی شادی کرلی جو شہزادی پر مہربان ہوئی لیکن کچھ دن بعد سپاہی مرگیا۔ پھر شہزادی
دہلی آگئی اوور شادی کرلی۔
اس کہانی میں درد ہے الم
ہے رنج ہے دکھ ہے مصیبت ہے پریشانی ہے ظلم ہے اس درد ناک کہانی کو سننے اور پڑھنے
سے کلیجہ منھ کو آتا ہے۔۱۸۵۷سے
متعلق خواجہ صاحب کی تحریریں کہانی افسانہ یاداستان نہیں ہیں وہ سب سچائی سے قربت
رکھتی ہیں۔خواجہ صاحب کا نثری اسلوب ہے جو ایک درد ناک واقعے کو ہمارے سامنے کہانی
کے طور پر پیش کرتا ہے۔یہاں ایک بات سب سے اہم ہے۔جس پر شاید نظر مشکل سے جائے
گی،ایک صوفی کی نظر۔ تنقید کی ایک شاخ سماجیاتی تنقید بھی ہے جس میں متن کے مطالعے
کے ساتھ ساتھ مصنف اور متن کے تاریخی سیاسی و سماجی پس منظر کا بھی مطالعہ کیا
جاتا ہے۔اس میں سیاسی سماجی اور تاریخی پس منظر واضح ہے ضرورت اس بات کی ہے مصنف
کے سوانحی کوائف کو جان کر پھر اس متن کے بارے میں مزید بات کی جائے۔
خواجہ حسن نظامی گیارہ
برس کی عمر میں والدین کے سایے سے محروم ہوگئے۔ان کے بڑے بھائی سید حسن علی نے ان
کی سرپرستی کی ہے اور ابتدائی تعلیم کا بندوبست حضرت نظام الدین میں کیا گیا۔انھوں
نے تبلیغی جماعت کے مرکز کے مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی اوران کے صاحبزادے مولانا
محمد میاں کاندھلوی اور مولانا یحییٰ کاندھلوی سے تعلیم حاصل کی۔ ڈیڑھ سال تک
مولانا رشید احمد صاحب گنگوہوی کے مدرسے میں بھی تعلیم حاصل کی۔18برس کی عمر میں
ان کی سید معشوق علی کی بیٹی سے شادی کردی گئی۔وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہ رہیں ان
کی دوسری شادی1916میں سیدہ محمودہ خواجہ بانو سے ہوئی۔
خواجہ صاحب نے تعلیم کے
ساتھ ساتھ مشاہدہ کیا۔علم مشاہدہ،تربیت اور خدادا صلاحیت کی بنا پر وہ بہت اچھے
مقرر بنے، ایک اچھے مبلغ بنے، ایک مورخ بنے ،ادیب صحافی بنے اور محقق بنے، تجارت
بھی کی۔حضرت نظام الدین اولیا سے نسبت کے علاوہ دوسری کوئی بڑی دولت ان کے ورثے
میں نہیں آئی۔ حضرت نظام الدین اولیا کی نسبت نے انھیں صوفی بنادیا۔وہ مرشد کامل
تھے اور اسی نسبت نے انھیں صاحب طرز ادیب بنادیا۔ جس طرح حضرت امیر خسرو اپنے
زمانے میں مشہور ہوئے۔اسی طرح خواجہ حسن نظامی کا بھی اپنے زمانے میں صاحب طرزادیب
اور منفرد اسلوب کی حیثیت سے بلند مقام ہے بقول عبدالماجد دریا آبادی:
’’ان کا سا البیلا انشا پرداز اردو میں نہ کوئی ان کے زمانے میں
پیدا ہوسکا اور نہ آج تک ہوا ہے۔وہ صحیح معنوں میں عوامی انشا پرداز تھے۔‘‘
عین عید الاضحی کے دن۳۱؍
جولائی۱۹۵۵کو
ان کا انتقال ہوگیا۔
۱۸۵۷ء
سے متعلق ان کی بارہ یادگار کتابیں بہت مشہور ومقبول ہوئیں۔ انھیں میں یہ
کتاب’’مرزا غالب کا روز نامچہ‘‘ ہے یہ کتاب خواجہ حسن نظامی کی تحقیقی کاوش ہے۔ یہ
روز نامچہ۱۸۵۷پر
بارہ کتابوں میں ساتوں نمبر پر آتا ہے۔اس کے لکھنے کے لیے غالب کے تمام خطوط کا
مطالعہ ناگزیر تھا۔اس زمانے میں عود ہندی اور اردوئے معلی ہی اہم ماخذ تھا،خطوط
میں کہیں تاریخیں درج تھی کہیں نہیں جس سے اندازہ لگایا جائے کہ یہ خطوط۱۸۵۷سے۱۸۶۰کے زمانے کے ہیں۔لازم تھا
کہ غالب کے تمام خطوط پر نظر ڈالی جائے تو خواجہ صاحب نے مطالعے کے درمیان جہاں
جہاں لفظ غدر ملا اسے علاحدہ کرلیا اور اس کی بنیاد پر۱۸۵۷سے متعلق غالب کا روز
نامچہ تیار کرلیا۔اس بارے میں خواجہ حسن نظام صاحب لکھتے ہیں:
’’غالب کے خطوط میں جہاں جہاں غدر کا ذکر سامنے آیا تھا میں پوری
تلاش و محنت سے اس کو الگ کرلیا اور ایسے طریقے سے چھانٹا کہ روز نامچہ کی عبارت
معلوم ہونے لگی۔بس میرا کمال اس قدر ہے کہ میں نے بغیر بیشی الفاظ کے خطوط کو روز
نامچہ بنادیا اور کوئی شخص اس کو پڑھ کر خطوط کا شبہ نہیں کرسکتا۔‘‘
غالب کی ایک عبارت اور
خواجہ صاحب کے نوٹ کے ساتھ مضمون ختم کرتا ہوں۔’’آنکھوں کے غبار کی وجہ یہ ہے کہ
جومکان دلی میں ڈھائے گئے اور جہاں جہاں سڑکیں نکلیں جتنی گرداڑی اس سب کو ازراہ
محبت اپنی آنکھوںمیں جگہ دی۔‘‘
نوٹ! دہلی سے محبت کرنے
کی یہ انتہائی مثال غالب نے لکھی ہے کہ آنکھیں دکھنے آئیں تو اس کا سبب یہ قرار
دیا کہ دہلی کے مکان اجاڑے گئے اور ان کے
مٹنے سے خاک اڑی تو اس کو آنکھوں میں بٹھالیا گویا اس کے اثر سے آنکھیں دکھنے
لگیں۔
اپنے وطن سے محبت اس طرح
کیا کرتے ہیں کوئی آج کل کے محبان وطن کو غالب کے یہ چند الفاظ سنا دے۔
خواجہ حسن نظامی کی ایک
کتاب ’’سی پارہ دل ‘‘ ہے اس کتاب کی وجہ سے انھیں اردو نصابی کتابوں میں جگہ ملی
ہے۔این سی آر ٹی کی کتاب یا اندراگاندھی نیشنل اوپن یونیورسٹی کی کتابوں میںخواجہ
صاحب کے مضامین شامل ہیں۔ تمام یونیورسٹیوں میں انھیں ایک انشائیہ نگار تسلیم کیا
جاتا ہے اور سی پارہ دل کے مضامین کو داخل نصاب کیا گیا ہے۔اس کتاب کے بارے میں
مولوی عبد الحق اپنے دیباچے میں لکھتے ہیں:
’’آج کل خواجہ حسن نظامی صاحب نے اس میدان میں اشہب قلم دوڑایا ہے
اور کوس النثر نثری بجایا ہے۔ان کا رنگ سب سے نرالا ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ آزاد کا
رنگ اڑیا ہے۔یہ صحیح نہیں۔اس میں شک نہیں کی آزاد کی جھلک پائی جاتی ہے ورنہ اصل
میں بالکل الگ ہے۔ آزاد میں تصنع زیادہ ہے۔خواجہ صاحب کے جملے فقرے اگرچہ فکر
تراش سے خالی نہیں ہوتے لیکن اسے خوبی سے چھپایا ہے کہ بے تکلفی اور بے ساختہ پن
قربان ہو ہو جاتا ہے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ ظرافت کی چاشنی نہیں مگر اس کی بجائے سوز
وگداز ہے۔ مرزا کے فقرے ظرافت کے ساتھ محبت میں گھلے ہوئے ہوتے ہیں۔خواجہ صاحب کے
مضمون درد سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں۔
خواجہ حسن ثانی نظامی
فرماتے تھے کہ خواجہ صاحب محمد حسین آزاد کے شاگرد تھے لیکن یہ ممکن نہیں کیوں کہ
خواجہ حسن نظامی کی پیدائش کے آس پاس محمد حسین آزاد لاہور چلے گئے تھے خواجہ
حسن نظامی نے اپنی ایک کتاب کے سرورق پر محمد حسین آزاد کو اپنا معنوی استاد
تسلیم کیا ہے۔ انھیں کی تحریروں کو پڑھ کر لکھنے کا ہنر سیکھا تھا۔
خواجہ صاحب تصوف سے متعلق
مضامین لکھتے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کے لیے رسالے نکالتے۔پہلا رسالہ انھوںنے
نظام المشائخ جاری کیا تھا اس سلسلے میں ملا واحدی لکھتے ہیں:
’’ملک میں جس قدر صوفیانہ رسالے نکلتے ہیں جن میں نظام المشائخ
صوفی اسوہ حسنہ،طریقت،انوار الصوفیہ اور معارف زیادہ ممتاز ہیں۔سب ظاہری یا اخلاقی
طور پر خواجہ کی تحریروں کی پیداوار ہیں۔ سب سے پہلے حضرت خواجہ صاحب نے صوفیانہ
رسالہ نظام المشائخ جاری کیا تھا بعد میں اس کے اثر سے اور رسالے نکلنے لگے۔‘‘
اس میں کوئی شک نہیں کہ
خواجہ صاحب کی تحریر یں تصوف کے مضامین سے پر ہوتی تھیں۔لیکن اردو ادب میں ان کا
مقام ایک صاحب طرز ادیب کی حیثیت سے قائم ہوا۔
21 جولائی 2023،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism