New Age Islam
Sun Jul 13 2025, 04:21 PM

Urdu Section ( 6 Sept 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Preserving Sufi Heritage صوفی ورثہ کا تحفظ: ہندوستان میں انتہا پسندی اور وہابی نظریات کے خطرات کا مقابلہ

ساحل رضوی، نیو ایج اسلام

 27 اگست 2024

 خارجی اور داخلی دونوں سطح پر قدامت پسند جماعتوں کا عروج، اور ہندوستان میں صوفیائے کرام کے مزارات کا نشانہ بنایا جانا، ان تمام باتوں کے پیش نظر تفرقہ انگیز وہابی نظریے کے حملوں سے، صوفی روایات کے تحفظ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے، کیونکہ اس سے مذہبی ہم آہنگی اور ثقافتی ورثے کو خطرہ لاحق ہے۔

 اہم نکات:

·         قدامت پسند گروہ: خارجی اور داخلی دونوں سطح پر قدامت پسند جماعتیں، ہندوستان میں صوفیائے کرام کے مزارات کو نشانہ بنا رہی ہیں۔

·         وہابی نظریہ: یہ نظریہ صوفی روایات کا سخت مخالف ہے، انتہا پسندی اور عدم برداشت کو فروغ دیتا ہے۔

·         مزارات کی اہمیت: صوفی مزارات معاشرے میں امن، اتحاد اور ثقافتی ورثے کو فروغ دینے میں، کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

·         تاریخی میراث: صوفیائے کرام نے تاریخی طور پر ہندوستان میں اسلام کے محبت اور امن کے پیغام کو عام کیا ہے۔

·         تحفظ: سماجی اور معاشرتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے، صوفی ورثے کے تحفظ اور تفرقہ انگیز نظریات کی تردید کرنا انتہائی ضروری ہے۔

 -----

 آج کے معاشرے میں، دو قسم کے قدامت پسند گروہ تیزی سے پھیلتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں: ایک وہ جو خارجی ہیں اور ہمارے مزارات، صوفیائے کرام اور بزرگوں کو نشانہ بناتے ہیں، اور دوسرے وہابی نظریہ کی جنونیت کی پیداوار جو ہماری قوم کے اندر سے ابھر رہے ہیں۔ یہ دونوں گروہ ہمارے روحانی اور ثقافتی ورثے کے لیے بڑے خطرات ہیں۔ قدامت پسندوں کا گروہ، صوفی روایات اور مقدس مقامات سے کھلی دشمنی رکھتا ہے، جبکہ داخلی گروہ جو کہ ہماری اپنی قوم کے افراد پر مشتمل ہے، وہ بھی مزارات اور صوفی روایات کی مخالفت کرتے ہوئے، صوفی مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قدامت پسندوں کا یہ داخلی دھڑا اتنا ہی خطرناک ہے، جتنا کہ خارجی گروہ، کیونکہ یہ ہماری وحدت کو اندر سے نقصان پہنچاتا ہے۔

 مزارات پر بڑھتے ہوئے حملے اور ان کے اثرات

 قدامت پسندوں کے خارجی گروہ، اکثر صوفی مزارات کو نشانہ بناتے ہیں، انہیں مذہبی تکثیریت کی علامت کے طور پر دیکھتے ہیں، جنہیں ان کی نظر میں ختم کر دیا جانا چاہیے۔ یہ گروہ ان مزارات کے تقدس کی بے حرمتی کرتا ہے، اور فرقہ واریت اور عدم برداشت کو پھیلانے کی خاطر انہیں تباہ کرنے کی کوشش کرتا ہا۔ ان کے ان ناپاک حملوں کو، اکثر دین اسلام کو "پاک کرنے" کی آڑ میں، جائز قرار دیا جاتا ہے، لیکن حقیقت میں، یہ ایک کٹر اور خارجی نظریے کے مظاہرے کا ایک ذریعہ ہے، جو ہم آہنگی کی ان روایات کو مسترد کرتا ہے، جو جنوبی ایشیا میں اسلام کی پہچان رہی ہیں۔

 مثال کے طور پر، حالیہ برسوں میں، ہندوستان اور پاکستان بھر میں، مزارات پر کئی حملے دیکھنے کو ملے ہیں، مثلا لاہور میں داتا دربار کے مزار پر بم حملہ، اور اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حملہ دیکھا جا سکتا ہے۔ یہ حملے کوئی اکا دکا واقعات نہیں ہیں، بلکہ یہ منظم حملے ایک وسیع طریق کار کا حصہ ہیں، جس کا مقصد تصوف کے اثرات اور اس کے امن اور جامعیت کے پیغام کو ختم کرنا ہے۔

 داخلی طور پر، وہابی نظریے سے متاثر قدامت پرستوں کا گروہ بھی، ان حملوں کی حمایت کرتا ہے، جو اس دعویٰ کے ساتھ ان حملوں کا جواز پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے، کہ 'مزارات اسلام کا حصہ نہیں ہیں، اور انہیں منہدم کر دینا چاہیے'۔ 'شرک' یعنی بت پرستی، ایک تصور ہے، جس کی وہابی عقیدے میں سخت مخالفت کی گئی ہے۔ یہ گروہ صوفی روایات کو اسلام کے اندر ایک نجاست کے طور پر دیکھتا ہے، جس سے اسلام کو پاک و صاف کرنا ضروری ہے۔

وہابی انتہا پسندی کا عروج اور اس کا کردار

 وہابی انتہا پسندی کے ظہور نے، ہمارے معاشرے میں قدامت پسندوں کے ایک خطرناک گروہ کو متحرک کر دیا ہے، جو صوفی روایات، مزارات اور بزرگانِ دین کی مخالفت کرتا ہے۔ وہابیت، جس کی ابتدا 18ویں صدی میں، جزیرہ نمائے عرب میں ہوئی، خالص توحید پرستی کا دعوی کرتی ہے، اور تصوف سمیت بہت سے روایتی صوفیانہ معمولات کو مسترد کرتی ہے۔ پچھلی صدی کے دوران، وہابی نظریہ کو عالمی سطح پر عروج حاصل ہوا، جس کے پیچھے مالی اعانت سے چلنے والی مہمات کا ہاتھ تھا، جن کا مقصد اسلامی فکر اور عمل کو نئی شکل دینا ہے۔

یہ نظریہ، صوفی درگاہوں اور صوفی معمولات کو بدعات قرار دیتا ہے، جو اسلام کی اصل تعلیمات کی وہابی کی تشریح سے متصادم ہیں۔ یہ انتہا پسند نظریہ نہ صرف صوفی روایات پر چلنے والوں کو الگ کر دیتا ہے، بلکہ اسلام کی تفرقہ انگیزی اور عدم برداشت پر مبنی تشریح کو فروغ دے کر، وسیع تر سماجی تانے بانے کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔

ہندوستان میں وہابی نظریہ کو بعض گروہوں کے درمیان زرخیز زمین ملی ہے، جنہوں نے بیرونی فنڈنگ اور نظریاتی حمایت سے متاثر ہو کر، صوفی معمولات کی مخالفت شروع کر دی، اور صوفی درگاہوں کی تعظیم و تکریم کے خلاف تبلیغ شروع کر دی۔ یہ داخلی گروہ صدیوں کی اس روحانی اور ثقافتی تاریخ کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، جو صوفی بزرگوں کی تعلیمات سے تشکیل پائی ہے۔

درگاہوں اور صوفیاء کرام کی اہمیت

درگاہوں اور صوفی سنتوں نے، صدیوں سے ہندوستانی معاشرے میں امن اور ہم آہنگی قائم کرنے میں، اہم کردار ادا کیا ہے۔ تصوف کی ہم آہنگ فطرت، جو محبت، ہمدردی اور خدا کی بندگی پر زور دیتی ہے، اس نے مسلمانوں کی مختلف برادریوں کے درمیان خلیج کو ختم کرنے میں مدد کی ہے۔ اس جامع نقطہ نظر نے، صوفی مزارات کو نہ صرف مسلمانوں کے لیے، بلکہ دوسرے دھرم کے لوگوں کے لیے بھی، سکون اور روحانیت کا مرکز بنا دیا ہے۔

مثال کے طور پر، اجمیر میں خواجہ معین الدین چشتی کی درگاہ پر، ہر سال مختلف مذہب و ملت سے تعلق رکھنے والے لاکھوں زائرین حاضری دیتے ہیں۔ ایسے مقامات، مشترکہ ثقافتی ورثے کی علامت ہوتے ہیں، جنہوں نے تاریخی طور پر معاشرے کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھا ہوا ہے، اور اتحاد اور اخوت و بھائی چارے کے جذبے کو فروغ دیا ہے۔ سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے میں، صوفی سنتوں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- پورے برصغیر میں، امن اور رواداری کے پیغام کو پھیلانے میں، ان کا کردار بڑا اہم رہا ہے۔

وہابی نظریات اور قدامت پسندوں کے داخلی گروہوں کی خطرناک ذہنیت

ہمارے معاشرے کے اندر قدامت پسندوں کا گروہ، وہابی نظریے سے متاثر ہو کر، صوفی درگاہوں اور مزارات کے خلاف نفرت پھیلاتا ہے، اور صوفی بزرگوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کے پیروکار اسلام کی ایک تنگ نظر تشریح کے تحت، صوفی روایات اور بزرگوں کی توہین کرتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے ان کا ایمان 'بدعات سے صاف و ستھرا' ہوتا ہے۔ یہ گروہ صوفی بزرگوں کی زبردست روحانی اور ثقافتی خدمات کو نظر انداز کرتا ہے، جو اسلام کی تبلیغ اور محبت کی علامت ہیں۔

تاریخی طور پر، صوفیائے کرام ہندوستان میں اسلام کا علم بلند کرنے والے رہے ہیں، جنہوں نے محبت، عاجزی، اور روحانیت کے اصولوں پر چل کر، ان گنت افراد کو دائرہ اسلام میں داخل کیا ہے۔ ان صوفیائے کرام نے اپنی پوری زندگی، اسلام کے پیغام کو پھیلانے، اور امن و امان قائم کرنے کے لیے وقف کر دیں، اور اس کے لیے بسا اوقات بڑے بڑے خطرات بھی مول لیے۔ ان کی تعلیمات نے، اسلام کی ان کٹر اور لفظ پرست تشریحات کا جوابی بیانیہ فراہم کیا ہے، جن کی تبلیغ اب وہابی گروہ کر رہا ہے۔

تاریخ سے صرفِ نظر: نفرت کی جڑیں کہاں ہے؟

اس نفرت کی اصل جڑ پر غور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ نظریہ ان بزرگوں کی مخالفت کیوں کرتا ہے، جنہوں نے ہمارے اسلاف کو کلمہ پڑھایا، اور جن کی بدولت آج ہمیں اسلامی تشخص حاصل ہے؟ اگر آج ہم مزارات پر حملوں کی حمایت کرتے ہیں، تو کل یہی نظریہ ہماری مساجد اور گھروں کو بھی نشانہ بنائے گا۔ اس نفرت کی جڑیں اسلامی تعلیمات کی غلط فہمی اور غلط بیانی میں ہیں، جو بیرونی اثرات سے متاثر ہے، اور جس کا مقصد سیاسی فائدے کے لیے، مذہبی بیانیے کو کنٹرول کرنا ہیں۔

تاریخی طور پر خواجہ معین الدین چشتی، بابا فرید، اور نظام الدین اولیاء، اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان، اختر رضا خان جیسے صوفی بزرگوں نے، اپنی تعلیمات اور عمل کے ذریعے برصغیر پاک و ہند میں اسلام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے اسلام کی اصل روح پر زور دیا ہے، جس کا حاصل خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، محبت، ہمدردی اور سماجی انصاف ہے۔ تاہم، انتہا پسندی کی موجودہ لہر میں، ان تعلیمات کو، اسلام کی ایک تنگ نظر اور کٹر تشریح کے حق میں، نظر انداز کر دیا گیا ہے، جو کسی خاص ایجنڈے کے مطابق ہو۔

وہابی نظریات کے خطرناک نتائج

وہابی نظریہ نہ صرف مزارات اور صوفی روایات کی مخالفت کرتا ہے، بلکہ معاشرے میں انتہا پسندی اور عدم برداشت کو بھی فروغ دیتا ہے۔ نفرت اور تقسیم کو ہوا دے کر، یہ نظریہ مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد کو کمزور کرتا ہے۔ اس کے نتائج شدید ہیں: ایک منقسم، تنازعات اور اختلاف کا شکار معاشرہ، جہاں باہمی احترام اور افہام و تفہیم کی کوئی گنجائش نہ ہو۔

اس طرح کے نظریات کا عروج، دنیا بھر میں مسلم معاشروں کے اندر، فرقہ وارانہ تشدد اور بنیاد پرستی میں اضافے کا سبب بنا ہے۔ اس بلا کو اگر روکا نہ گیا، تو معاشروں کے استحکام پر، اور مختلف مذہبی اور ثقافتی گروہوں کے درمیان قائم صدیوں کے پرامن بقائے باہمی پر، خطرے کی تلوار لٹک رہی ہے۔

اعلیٰ حضرت کی تعلیمات: ایک قوۃ محرکہ

اہل سنت کے امام اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی کی تعلیمات، اتحاد کی اہمیت، اور روحانی میراث کے احترام کی ایک مضبوط یاد دہانی ہے:

اور تم پر میرے آقا کی عنایت نہ سہی

نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

آج لے انکی پناہ، آج مدد مانگ ان سے

 پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا

یہ نظم ہمارے بزرگوں کی روحانی میراث کو تسلیم کرنے، اور ان کی قدر کرنے کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، جنہوں نے اسلام کی اشاعت اور روحانی طور پر مالامال معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

 نتیجہ

ہمیں اپنے معاشرے کی سلامتی کے لیے، اپنے بزرگوں کا احترام کرنے، اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ وہ نہ صرف ہمارے مذہبی رہنما ہیں، بلکہ ہمارے معاشرے کے ثقافتی اور سماجی تانے بانے کو مضبوط بنانے میں بھی، اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ان کی وراثت کی قدر کی جانی چاہیے، اور کسی بھی قسم کی انتہا پسندی سے اس کی حفاظت کی جانی چاہیے، چاہے وہ خارجی ہو یا داخلی۔ اپنے معاشرے کو وہابی انتہا پسندی اور قدامت پسند گروہوں کے اثر سے بچانا، ہماری ذمہ داری ہے۔ ایسا کر کے، ہم اپنے مذہبی اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں، کہ آنے والی نسلیں صوفی بزرگوں کی تعلیمات اور ان کے جامع، تکثیریت پسندانہ جذبے سے متاثر ہوتی رہیں۔

اس ورثے کے تحفظ میں ہمارا اتحاد سب سے اہم کردار ادا کرے گا۔ ہمیں اپنے اختلافات سے قطع نظر، ان تفرقہ انگیز نظریات کا رد کرنے کے لیے اکٹھا ہو جانا چاہیے، جس سے ہمارے معاشرے کے تانے بانے کو خطرہ لاحق ہے۔ انتہا پسندی کے خلاف مضبوطی سے کھڑے ہو کر، ہم اپنے بزرگوں کی یاد کا احترام کرتے ہیں، اور اس امن اور ہم آہنگی کی حفاظت کرتے ہیں، جس کو قائم کرنے کے لیے انہوں نے جی توڑ محنت کی۔

---

English Article: Preserving Sufi Heritage: Confronting the Threats of Right-Wing Extremism and Wahhabi Ideology in India

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sufi-heritage-right-wing-extremism-wahhabi-ideology-india/d/133136

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..