مولانا وحید الدین خان
19دسمبر، 2008
(انگریزی سے ترجمہ ، نیو ایج اسلام )
مولانا وحیدالدین خان دہشت گردی سے نمٹتے ہوئے ۔
ان کا بیان قرآن مجید میں ان الفاظ میں ہے: 'امن بہتر ہے'۔ (4:128)
صوفیوں نے قرآن مجید کے اس فارمولے کو اپنایا ہے جسے وہ صلح کل یعنی ‘سب کے ساتھ امن’ کہتے ہیں ۔
قرآن مجید میں ایک آیت ہے: 'اپنے دین میں انتہا پسند نہ بنو'۔ (4: 171)
جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا (5:32) ۔
دہشت گردی ایک بین الاقوامی لعنت ہے۔ ہر کوئی اس کی مذمت کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دہشت گردی سے کس طرح نمٹا جائے ؟ میں مختصر اً اس سوال کا جواب دینا چاہوں گا۔ سب سے پہلے ہمیں دہشت گردی کی وضاحت کرنا ضروری ہے۔ اسلام میں صرف ایک ہی قسم کی جنگ جائز ہے اور وہ دفاعی جنگ ہے ۔ اسے اس وقت جواز حاصل ہے جب جنگ ایک ضرورت بن جاتی ہے ۔
اسلام میں جنگ صرف ضرورت کے قانون کےتحت جائز ہے عام قوانین کے تحت نہیں ۔ باہر سے جب کوئی مسلح حملہ کیا جائے تو ریاست کو اس کے دفاع میں جنگ کرنے کی اجازت ہے وہ بھی کچھ شرائط کے ساتھ ۔ جہاں تک غیر سرکاری ایجنسیوں کا تعلق ہے، تو انہیں جنگ چھڑنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کسی بھی طرح کوئی عذر جائز نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غیر سرکاری افراد یا تنظیموں کا کوئی تعاون نہیں ہے ۔ انہیں سیاسی میدان کے علاوہ کام کرنے کے لئے دیگر بہت سارے شعبے ہیں ۔ لیکن انہیں سختی کے ساتھ پرامن طریقے پر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ مثال کے طور پر، وہ لوگوں کو رسمی اور غیر رسمی دونوں پہلوؤں سے تعلیم یافتہ کر سکتے ہیں ۔ وہ لوگوں کے درمیان ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کی روح پیدا کر سکتے ہیں۔ وہ لوگوں کو تعمیری کام کی تعلیم دے سکتے ہیں
تشدد کا آغاز
تشدد دماغ سے شروع ہوتا ہے ۔ یہی معاملہ دہشت گردی کا ہے۔ دہشت گردی دماغ سے شروع ہوتی ہے۔ دہشت گردی منفی سوچ کی انتہاء کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہذا دہشت گردی ختم کرنے کے لئے کوئی بھی کوشش کو لوگوں کے ذہنوں سے شروع ہونی چاہئے۔ ہمیں لوگوں کی مثبت سطح پر دوبارہ ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمیں انہیں یہ سمجھانا کی ضرورت ہے کہ پرامن عمل پر تشدد عمل سے کہیں زیادہ مؤثر ہے ۔
منفیت کی اثباتیت سے تبدیلی
ہمارا معاشرہ مفت ہمسری کے اصول پر مبنی ہے ، مسابقتی صورت حال ہی مسائل پیدا کرتی ہے ۔ معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان مفاد کی جھڑپیں ہیں۔ لیکن یہ صورت غیر مطلوب نہیں ہے۔ یہ صورت حال معاشرے کے لئے اچھا ہے بشرطیکہ لوگ اختلافات کو ختم کرنے کے بجائے اس کی تدبیر کا فن سیکھیں ۔ اختلافات کی عوامی تدبیر کی ناکامی تشدد اور جنگ کا باعث ہے ۔ اس کے بجائے اگر لوگ اختلافات کی کامیابی کے ساتھ تدبیر کرنے کے قابل ہوں تو اس کا نتیجہ معاشرے میں امن ہوگا ۔
یہی وہ فارمولہ ہے جو قرآن مجید میں ان الفاظ میں مذکور ہے : 'امن سب سے اچھا ہے'۔ (4:128)
اس کا مطلب یہ ہے کہ اختلافات کے وقت مخالفانہ کے بجائے مصالحت آمیز رویہ بہتر ہے ۔ مسلم صوفیوں نے یہ فارمولہ اپنایا ہے جسے صلح کل کہتے ہیں اس کا مطلب ‘سب کے ساتھ امن’ ہے ۔ یہ ایک بہتر معاشرے کے قیام کے لئے صرف یہی ایک کامیاب فارمولہ ہے۔
کوئی انتہا پسندی نہیں
قرآن مجید میں ایک آیت ہے: 'اپنے دین میں انتہا پسند نہ بنو'۔ (171 :4) پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ نے فرما یا ہے: 'انتہا پسندی سے اجتناب کریں ، یہ تمہارے لئے انتہائی تباہ کن ہے۔ انتہا پسندی منفی سوچ کی طرف لے جاتی ہے، منفی سوچ تشدد کی طرف لے جاتی ہے اور تشدد مسلح تصادم کی طرف لےجاتی ہے، جو کہ دہشت گردی کو نام نہاداسلام کا لبادہ دینا ہے ۔بعض مسلم انتہا پسند یہ کہتے ہوئے اپنے پرتشدد کارناموں کا جواز پیش کرتے ہیں کہ 'جی ہاں، ہم دہشت گردی میں ملوث ہیں لیکن ہمیں پولیس جیسے ظالم لوگوں کے ذریعہ دہشت زدہ کیا جا تا ہے ۔ پولیس جرائم پیشہ افراد کو دہشت زدہ کرتی ہے اور ہم ان لوگوں کو دہشت زدہ کرتے ہیں جو ‘ سچ ’کے دشمن ہیں ۔
اس قسم کے بیانات بظاہر کچھ خوبصورت الفاظ بول کر دہشت گردی کو نام نہاد 'اسلامی' لبادہ دینے کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔ یہ دلیل ایک مغالطہ پر مبنی ہے اور وہ ایک غلط موازنہ ہے ۔ پولیس ریاست کا ایک مستند ادارہ ہے ۔ پولیس جو کر کر رہی ہے وہ قانونی طور پر کر رہی ہے۔ لیکن وہ انتہا پسند یا ان کی خود ساختہ تنظیمیں اس معنی میں ایک مستند ادارہ نہیں ہیں۔ اصول کی بات کے طور پر، ان عناصر کو ہتھیار استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں ہے، کوئی بھی عذر انہیں لوگوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے جواز فراہم نہیں کرتا ۔ ان کے پاس صرف ایک اختیار ہے: اور وہ کسی بھی ہتھیار کا استعمال کئے بغیر یا کسی کو نقصان پہنچائے بغیر پرامن طریقے کے ذریعہ لوگوں کو قائل کرنا ہے۔
ممبئی میں دہشت گردانہ حملے
26 نومبر 2008 ء کو ممبئی میں دہشت گردانہ حملے ہم سب کے لئے چشم کشا ہونے چاہئیں ۔ عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ مسلم نوجوانوں کے ذریعہ اس طرح کے دہشت گردانہ حملے براہ راست قرآن کی تعلیمات سے متأثر ہیں ۔ لیکن ممبئی حملوں کے وقت زندہ گرفتار کئے جانے والے مسلم دہشت گروں کی ایک الگ ہی کہانی تھی۔ اس نے تفصیل سے بتایا کہا کہ کس طرح انہیں اس کا م کے لئے تیار کیا گیا تھا ۔ انہوں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انہیں کچھ خاص کیمپوں میں ایک لمبے عرصے تک اس کی تربیت دی گئی تھی۔ اس تربیتی مدت کے دوران اسلحہ کے استعمال کی تربیت کے علاوہ انہیں نظریاتی اسباق بھی مسلسل دیئے گئے۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ انہیں قرآن کا مطالعہ کرنے کے لئے کہا گیا تھا ۔ اس کے بجائے اس نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ انہیں ویڈیو فلمیں دکھائی گئیں تھیں ۔ ان فلموں میں انہیں خونی فسادات دکھائے گئے اور کچھ انتہا پسند ہندو رہنماؤں کی تقاریر سنائی گئی تھیں۔ وہ فلمیں کیا تھیں؟ وہ فلمیں کچھ منتخب خبروں یا کچھ غیر معمولی ویڈیوز پر مبنی تھیں۔ ان فلموں میں فلم سازوں نے مستثنیات کو عام دکھانے کی کوشش کی ہے۔ ان نوجوانوں کو ان حساس ویڈیو فلموں کے ذریعہ ایک منفی ذہن سازی کے عمل سے گزارا گیا ۔
مثال کے طور پر، انہیں 6 دسمبر 1992 کو ایودھیا میں بابری مسجد کا انہدام دکھایا گیا تھا ۔ یہ واحد واقعہ عام طور پر ان کے جذبات کو بھڑکاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے بابری مسجد کے علاوہ ہندوستان میں ایسے بہت سے دیگر مساجد ہیں جو مکمل طور پر مسلمانوں کے کنٹرول میں ہیں ۔ ایک اندازے کے مطابق ہندوستان میں پانچ لاکھ سے زیادہ مساجد موجود ہیں۔ تقریبا اتنی ہی تعداد میں بڑے اور چھوٹے اسلامی مدارس بھی ملک بھر میں موجود ہیں ۔ لیکن ان مساجد اور مدارس کو ان ویڈیو فلموں میں شامل نہیں کیا گیا جو ان مسلمان دہشت گردوں کو دکھایا گیا تھا ۔ اگر ان مسلم نوجوانوں کو وہ فعال مساجد اور مدارس بھی دکھائے گئے ہوتے تو یقینا ان کی ذہنیت بالکل مختلف ہوتی ۔ اس قسم کی تربیت اسلام کی روح کے بالکل خلاف تھی ۔ بابری مسجد اور فرقہ وارانہ فسادات کا سانحہ جو انہیں دکھایا گیا تھا وہ ایک یکطرفہ عمل نہیں تھا۔ یہ ایک عمل اور رد عمل کا نتیجہ تھا اور ہندو اور مسلمان دونوں اس ناپسندیدہ عمل میں ملوث تھے ۔ ان خونی واقعات کا الزام مسلم اور غیر مسلم دونوں کمیونٹیز کے سر ہے ۔ ان ویڈیو فلموں نے کہانی کے صرف ایک ہی کو پہلو پیش کیا واقعہ کی مکمل تصویر کشی نہیں کی ۔
قرآنی تعلیمات سے نا واقفیت
اگر ان مسلم نوجوانوں کو ان کی تربیت کے وقت قرآن مجید پڑھنےکےلئے کہا گیا ہوتا ، تو یقینا وہ قرآن کی اس آیت کو پاتے جس میں بے گناہ لوگوں کے قتل سے منع کیا گیا ہے ۔ قرآن کی اس آیت میں ہے کہ: جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا (5:32) ۔
اگر وہ مسلم نوجوان قرآنی کی ان تعلیمات سے آگاہ ہوتے ، تو دہشت گردانہ حملوں میں معصوم مردوں اور عورتوں کو مارناان کے لئے ممکن نہیں ہوتا۔
نبی صلی اللہ علیہ کی اس سے ملتی جلتی ایک حدیث ہے ۔ انہوں نے فرمایا : اللہ نے جو نعمت امن میں رکھی ہے وہ تشدد میں نہیں رکھی ہے ۔(ابو داؤد، سنن، 255/4)
نبوی تعلیم ہمیں بتاتی ہے کہ تمام مقاصد کو حاصل کرنے کا بہتر طریقہ امن کا طریقہ ہے تشدد کا طریقہ نہیں ۔ وہ مسلم نوجوان اس نبوی تعلیم سے آگاہ ہوتے تو وہ یقینی طور پر اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے تشدد اور بندوق کے بجائے امن کا طریقہ اپناتے ۔ ان مسلم دہشت گردوں کے ہدف کا حال ہی میں امریکہ کے لئے پاکستان کے سفیر مسٹر حسین حقانی کے ذریعہ لکھے گئے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا کہ لشکر طیبہ جیسے مسلم دہشت گرد جماعتوں کے دماغ میں ایک خطرناک سیاسی منصوبہ ہے ۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ دنیا کے وہ تمام علاقےجو کبھی سلطنت عثمانیہ یا مغلیہ سلطنت یا مورش سلطنت جیسے مسلمانوں کی حکمرانی کے تحت تھے اب ان پر مسلمانوں کا حق ہے ۔ ان کے مطابق، غیر مسلم اقوام نے ناحق ان علاقوں پر قبضہ کر لیا ہے، وہ غاصب ہیں ۔ اب ان تمام مسلم علاقوں پر دوبارہ قبضہ کرنا اور ان زمینوں پر ایک بار پھر مسلم حکومت قائم کرنا ان کا حق ہے ۔ ان کے مطابق، حالیہ دہشت گردی ایک جائز جنگ ہے جس کا منشاء ان کے جائز مقاصد کو حاصل کرنا ہے ۔ اس طرح کا نظریہ بہت خطرناک ہے۔ یہ امن عالم کے لیے ایک مستقل خطرہ ہے۔ صرف مذمت یا جوابی حملے اس نظریے کے خاتمے کے لیے کافی نہیں ہیں ۔ اس کے لئے ایک بر عکس نظریے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان لوگوں کو اس بات کا قائل کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی ضابطے کسی بھی کمیونٹی یا قوم کا موروثی حق نہیں ہیں ۔ اس کے علاوہ، اب ہم جمہوریت کے دور میں رہ رہے ہیں۔ جمہوریت کا مطلب اقتدار کی شراکت داری کا نظام ہے۔ اب ہر جماعت کو ایک جمہوری طریقے سے اقتدار میں اشتراک کرنے کا حق ہے۔ مندرجہ بالا موروثی تصور ایک خطائے زمانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور بالکل ہی ممکن الثبوت نہیں ہے ۔ اب ہم اقوام متحدہ کی تنظیموں کے تحت رہ رہے ہیں۔ دنیا کے تمام ممالک اس بین الاقوامی ادارے کے رکن ہیں۔ صرف اس قسم سیاسی معیار قابل قبول ہیں جو اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق ہوں اور مندرجہ بالا موروثی تصور یقیناً اقوام متحدہ کے ذریعہ منظور کئے گئے اصولوں کے بالکل خلاف ہے۔
عملی اقدام کیا ہو سکتے ہیں ؟
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کی ایک خطرناک صورت حال میں عملی اقدامات کیا ہو سکتے ہیں ؟ موجودہ صورت حال میں عملی حل کیا ہے؟ مجھے لگتا ہے کہ اس حل کے دو حصے ہیں ۔ ہر ملک میں، تشدد اور دہشت گردی کو روکنے کے لئے سخت قوانین موجود ہیں۔ سرکاری ایجنسیوں کو ان تمام قوانین کو نافذ کرنے چاہئے ۔ انہیں ان تمام عناصر کو ضرور سزا دینی چاہئے جو اس طرح کے انتہائی بہیمانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں ۔ لیکن حل کے دوسرے حصے کا تعلق لوگوں کی ددوبارہ ذہن سازی کرنے سے ہے۔ اس کام کا بیڑا غیر سرکاری ایجنسیوں کو اپنے عمل میں اٹھا نا چاہیے۔ یہ ایک مکمل پرامن کام ہے۔
لوگوں کی دوبارہ ذہن سازی صرف تعلیم اور مثبت تربیت کے ذریعے کی جا سکتی ہے۔ اسے ہی میں برعکس نظریہ کہتا ہوں۔
حکومتوں اور سماجی اصلاح پسندوں اور کارکنوں کی مشترکہ کوششوں کے ذریعے ہی مطلوبہ پرامن نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
مولانا وحید الدین خان دلی کے ایک اسلامی سکالر ہیں ۔ ان سے oninfo@cpsglobal.org پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ مزید تفصیلات کے لئے http://www.cpsglobal.org دیکھیں ۔
ماخذ:
یوگی سکند ysikand@yahoo.com کے ذریعہ پوسٹ کیا گیا تاریخ: جمعہ 19دسمبر ، 2008 9:57 ((PST)
URL for English Article:
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/sufi-concept-sulh-e-kul/d/12368