New Age Islam
Sat Jul 19 2025, 05:13 PM

Urdu Section ( 4 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

A Distinguished Writer From The Subcontinent, Rifat Sarosh, And His Remarkable Literary Contributions برصغیر کے نامور ادیب رفعت سروش کی ادبی خدمات

شبانہ نذیر

1دسمبر،2024

منفرد ادیب، شاعر، ڈرامہ نگار، انشا پرواز، نثرنگار اور براڈ کاسٹر رفعت سروش 2/جنوری 1926 کو اتر پریش کے مردم خیز علاقہ نگینہ ضلع بجنور میں پید ا ہوئے۔ ان کا اصل نام تھا سید شوکت علی۔والد سید محمد علی اور والدہ کنیز فاطمہ اور دادا سید علی کا شمار نگینہ کے سیدوں میں ہوتا تھا۔

رفعت سروش کی ابتدائی تعلیم نگینہ کے مکتب میں ہوئی۔تیسری جماعت تک نگینہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ موانہ ضلع میرٹھ چلے گئے۔ 1935 ء میں میٹرک اور 1949 میں بمبئی سے ہندی ودّیا پیٹھ کا بھاشا رتن امتحان پاس کیا جو بی اے کے مساوی ہے۔ رفعت سروش بہت ذہین تھے اور اسی لئے انہیں پچپن سے ہی وظیفے ملنے لگے تھے، جس کی وجہ سے بغیر کسی دشواری کے تعلیم جاری رہی۔ان کی ذہنی تربیت میں ان کے بڑے بھائی سید ممتاز علی کا بڑا تعاون رہا۔ ان کی ذہنی تربیت میں ان کے بڑے بھائی سید ممتاز علی کا بڑا تعاون رہا۔ ان کی سرپرستی میں رفعت سروش نے خوش خطی سیکھی، نثر ونظم کو پڑھنا اور سمجھنا اور بامحاورہ اردو لکھنا سیکھا۔ بچپن میں مسجد کے صحن میں وقت گزارنا ان کو بے حد پسند تھا۔ وہ اس پاکیزہ ماحول سے بہت متاثر ہوتے تھے۔ گل بوٹے بنانا،مسجد کے میناروں کے لئے نئے نئے نقشے بنانا رفعت سروش کا محبوب مشغلہ تھا۔ سید ممتاز علی کے علاوہ ان کے دوسرے بڑے بھائی سید اشتیاق علی کی محبت بھی ان پر اثر انداز ہوئی۔سید اشتیاق علی شوق اور ان کے دوست اختر عباس نخشب جار چوی کو شعر گوئی کا شوق تھا۔ یہ لوگ ایک دوسرے کو شعر سناتے۔ داد وتحسین کا ماحول بنا او رانہی کی دیکھا دیکھی رفعت سروش نے بھی شعر کہنا شروع کردیا۔

رفعت سروش

--------

اپنی اسکولی تعلیم کے بارے میں رفعت سروش نے لکھا ہے: ”ایم بی اسکول صرف چھٹی کلاس تک منظور شدہ تھا اور چونکہ مجھے یوپی بورڈ سے وظیفہ ملتا تھا اس لئے منظور شدہ اسکول میں ہی پڑھنا لازمی تھا۔ چنانچہ میں نے جی ایچ بی ہاؤس میں داخلہ لیا۔اسکول کے ہیڈماسٹر گووند سنگھ میرے گزشتہ تعلیمی ریکارڈ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔“اسی اسکول کی تعلیم کے دوران دو باتیں پیش آئیں۔ ایک بار آپ کے ٹیچر جو ہری صاحب نے ایک سوال کلاس میں کئی لڑکوں سے پوچھا۔جواب نہیں ملا تو انہوں نے رفعت سروش کی طرف رخ کرکے کہا: تم ہی بتاؤ the class Poet of۔ یہ جملہ رفعت صاحب کو نئی زندگی بخش گیا۔ دوسرا واقعہ خود ان کی زبانی سنیے: ”ایک دفعہ ایک ڈپٹی کلکٹر ہمارے اسکول میں معائنہ کرنے آئے۔ انہوں نے تقریر کی کہ ہر طالب علم کے ذہن میں ایک مقصد ہونا چاہئے کہ وہ کیا بننا چاہتاہے۔ پھر طلبہ سے سوال کیا۔ اکثر لڑکے خاموش رہے اور بولتے بھی کیا، ہمارا طریقہ تعلیم تھا ہی کیا۔ بقول اکبر آبادی کھا ’ڈبل روٹی، کلر کی کر، خوشی سے پھول جا‘۔جب یہ سوال مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے بے ارادہ اور بے ساختہ کہا کہ میں ایک بڑا شاعر بننا چاہتا ہوں۔خدا کی کرنی دیکھئے کہ ان کی دیر ینہ خواہش پوری ہوئی او روہ بڑے شاعر بن گئے۔ نگینہ کے شوکت علی اور موانہ سے واپس آئے شوکت علی میں بڑا فرق تھا۔ وہ دبادبا، سہما سہما محروم سا لڑکا اب کینچلی بدل چکا تھا۔

سر پر باریک مشین نہیں پھرتی تھی بلکہ گھونگر یالے انگریزی بال رکھ لیے تھے۔ صاف اور نفیس لباس پہننے لگے تھے۔ ٹوپی پہننا گوارا نہیں تھا مگر ابّا کی نافرمانی بھی نہیں کی جاسکتی تھی۔ اس لیے ٹوپی کتابوں کے بیچ میں رکھ لی جاتی تھی۔گھر قریب آتے ہی ٹوپی سرپر رکھ لیتے تھے۔ کبھی کیرم کی بازی لگتی تو کبھی شعر وشاعری کی محفل سجتی۔ میٹرک کے دوران سید شوکت علی نے جدید طرز پرنظمیں لکھنی شروع کردیں اور یہ نظمیں ’ہمایوں‘ اور ’شاہکار‘ جیسے رسائل میں چھپنے لگیں،مگر سید شوکت علی کو اپنے نام سے قدامت کی بو محسوس ہوئی اور یوسف ظفر اور قیوم نظر کی طرز پر دولفظی نام اختیار کرلیا۔’رفعت سروش‘ اس نام سے جو پہلی نظم چھپی وہ تھی’گلاب کا پھول‘

یوسف ظفر نے جب نظم چھاپی تو سمجھے کسی عمر رسیدہ شاعر کاکلام ہے۔کیونکہ کلام پختہ تھا۔ گلاب انسان کی زندگی کا سمبل اورنظم زندگی سے موت تک کا سفر بیان کرتی ہوئی:

کھلا ہوا ہے جھاڑیوں میں پھول اک گلاب کا

اٹے ہوئے غبار میں ہیں جس کے عارض وجبیں

کچھ کے دے رہے ہیں خار خنجروں سے پے وپے

لہولہان ہے تمام اس کا جسم نازنین

اورنظم کا آخری بند ہے:

ہر ایک شے کو دیکھتا ہے یوں نگاہ یاس سے

کہ جیسے دہر میں کوئی نہیں ہے اس کا ہمنوا

سہمے ذرا سی جان اف یہ ظلم وجور تابہ کے

ہوا میں جھولتا ہواوہ گرگیا، بکھرگیا

کھلا ہوا تھا جھاڑیوں میں پھول اک گلاب کا

درحقیقت رفعت سروش کا مزاج بچپن سے نہ تو شاعرانہ تھا او رنہ ہی عاشقانہ۔ ان کا مزاج تو مصورانہ تھا۔ انہیں ڈرائنگ کا بچپن سے شوق تھا۔ ابتدا تکیوں اور چادروں کے نفوش سے ہوئی تھی۔ رفتہ رفتہ یہ شوق اتنابڑھا کہ بغیر کوئی اسکیل بنائے صرف تصویر سامنے رکھ کر دوگنی، تین گنی تصویر بنا لیتے تھے۔ درجہ پانچ میں ہی تھے جب شہنشاہ شاہ جہاں کی تصویر بنائی جس کی خوب تعریف ہوئی او رانعام بھی ملا، مگر جب بڑے بھائی سید امتیاز علی کو معلوم ہوا تو انہوں نے سختی سے منع کردیا کہ جاندار چیز کبھی مصوری نہیں کی۔ کی تو صرف بیل بوٹوں کی حد تک۔درحقیقت یہ خوف خدا ہی انسان کو انسان بنائے رکھتا ہے۔

یاد خدا میں جی نہ لگا ہے یہ اور بات

خوف خدا تو دل میں رہا ہے تمام عمر

یہ خوف خدا بچپن سے ایسا دل میں سمایا کہ ہمیشہ نیک اور سچی زندگی گزاری او رالفاظ سے تصویر کشی کرتے رہے۔

دسمبر 1945 ء میں آل انڈیا ریڈیو بمبئی میں ملازمت کی۔ انتالیس سال ریڈیو سے وابستہ رہے۔ تیرہ سال بمبئی میں اور چھبیس سال دہلی میں۔31جنوری،1984 ء کو ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ آل انڈیا ریڈیو میں رفعت صاحب نے بڑی فعال زندگی گزاری۔مختلف پروگراموں کے انچارج رہے۔ گجرا، گیتوں بھری کہانی اور آخر میں اردو مجلس یہ آخری پروگرام ان کی پہچان بن گیا۔ ضیا فتح آبادی نے اپنے مضمون ’کردار کا غازی: رفعت سروش‘ میں لکھا ہے: ”اردو مجلس سے ایک آواز ہر روز دہلی کے ریڈیو اسٹیشن سے نشر ہوکر ہندوستان کے طول وعرض میں گونج جاتی ہے۔اس آواز نے گزشتہ تیس برس سے اُردو کے نام کو پھیلایا او رزندہ رکھا۔ یہ جانی پہچانی آواز اُردو کے ممتاز او رمقبول شاعر رفعت سروش کی ہے۔ دراصل رفعت سروش کا ہی دوسرا نام ہے اُردو مجلس“۔

مجتبیٰ حسین نے ’ریڈیائی آدمی‘ میں لکھا ہے: ”رفعت سروش او رریڈیو کا رشتہ اتنا استوار ہوچکا ہے کہ ریڈیو کو دیکھیں تو رفعت سروش کا اور رفعت سروش کو دیکھیں تو ریڈیو کا خیال آجاتا ہے۔ گویا رفعت سروش ریڈیو کے اندر ہیں او رریڈیو خود رفعت سروش کے اندر ہے۔”من تو شدم تومن شدی“

یہ تو تھیں رفعت سروش کی منصبی ذمہ داریوں کی باتیں۔ اب رہا میدان شعر و ادب، ریڈیو اسٹیشن میں قدم جمانے کے بعد زندگی دھرّے پر آنے لگی تھی۔پہلی فرصت میں انہوں نے اپنا پہلا شعری مجموعہ ’وادی گل‘ چھپوایا جو 1963 ء میں منظر عام پر آیا او رپھر اس کے بعد 1966 میں ’ذکر اس پری وش کا‘ اور پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا۔ کیا نظم، کیا غزل، کیا ڈرامہ، کیا بیلے، کیا اوپیرا۔کیا کیا نہیں لکھا؟ کیا کیا نہیں چھپوایا؟

’ہمارے رفعت سروش صاحب‘ میں نصرت ظہیر صاحب نے لکھا تھا: ”اردو ادب کا کوئی علاقہ او رکوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں رفعت سروش نے کچھ نہ کچھ زمین نہ قبضہ رکھی ہو۔ شاعری، افسانہ، ناول، ڈرامہ، اوپیرا، تحقیق، تنقید۔ آپ ہی بتائیے اس کے بعد بھی ادب میں کوئی صنف سخن باقی رہ جاتی ہے۔ ہاں ایک صنف سخن ہے ادبی سیاست! جس میں رفعت صاحب نے زور آزمائی نہیں کی۔“

اس ادبی سیاست سے نیاز رفعت سروش اپنے قلم کا جوہر دکھاتے رہے۔ مصوری کا وہ شوق جو بچپن سے دل میں سمایا ہوا تھا اب الفاظ کی صورت اختیار کرنے لگا تھا۔ مخمور سعیدی نے انہیں لفظوں کاصورت گرقرار دیا تھا او رکہا تھا کہ رفعت سروش کی شاعری کا خاص وصف ہے لفظوں سے تصویر یں بنانا۔ نظم ملاحظہ ہو:

ایک چھپر کا گھر، نیم کے سائے میں

اونگھتا ہے دھند لکے میں لپٹا ہوا

شام کا وقت ہے او رچولھا ہے سرد

صحن میں ایک بچہ برہنہ بدن

باسی روٹی کاٹکڑا لیے ہاتھ میں

سرکھجا تاہے، جانے ہے کس سوچ میں

اور اُسارے میں آٹے کی چکی کے پاس

ایک عورت پریشان خاطر، اُداس

اپنے رُخ پرلیے زندگی کی تھکن

سوچتی ہے کہ دن بھر کی محنت کے بعد

آج بھی روکھی روٹی ملے گی ہمیں

تم حقارت سے کیوں دیکھتے ہو اسے

اس نظم کی اثر انگیز ی سے کسے انکار ہوسکتاہے۔

رفعت سروش نے زندگی کے ہر رنگ کا بھر پور مزہ لیا۔ محرومیاں ملیں توخوشیاں بھی جھولی بھر بھر کر ملیں۔ خوشگوار ازدواجی زندگی پائی، سلیقہ شعار، ہنر مند او رمہمان نواز شریک حیات صبیحہ سروش ملیں۔ ان دونوں کی رفاقت مثالی تھی۔ ادبی حلقوں میں دونوں ایک ساتھ نظر آتے تھے۔بچوں کی پرورش اور دیگر گھریلو ذمہ داریوں دونوں مل کر بخوبی نبھاتے رہے۔

رقصاں ہیں نوید کی آنکھوں میں مستقبل کے رودشن خاکے

جاوید، شبان، شاہین سب مل کر ہنستے ہوں جیسے او رپھر وہ دن آیا کہ 15/ دسمبر1987 ء کو صبیحہ سروش کا انتقال ہوگیا۔ رفعت صاحب تنہا ہوگئے۔ جب یہ تنہائی کا کرب ناقابل برداشت ہوتاچلا گیا تو پھر رفعت صاحب نے قلم اٹھایا او رالفاظ سے منظر کشی شروع کردی اوروہ نظمیں، غزلیں اور مرثیے رقم کیے کہ ہر آنکھ نم ہوگئی۔ ہر وہ دل جو کسی نہ کسی کی جدائی سہہ رہا تھا، تڑپ اٹھا۔

بقول ڈاکٹر شارب ردولوی: رفعت سروش اُردو کے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے کسی ذاتی سانحے پر اتنی بڑی تعداد میں نظمیں اورغزلیں لکھی ہوں۔ اگر کبھی شخصی مرثیے کی تاریخ مرتب کی جائے گی تو ان کا مقام منفرد ہوگا۔ رفعت سروش کی شاعری کی بڑی خصوصیت یہاں پیکر تراشی، نقطہ عروج پر نظر آتی ہے۔نظم ’صبیحہ‘ ملاحظہ فرمائیں:

صباحتو ں کالطیف پیکر

نزول صبح بہار جیسے

نظر نظر تابناک منظر

گھنیری زلفوں کے ریشمی سائے

پرُ فسوں خوابناک منظر

اداؤں میں شوخیوں کی بجلی

وہ زندگی کی سی بے قراری

شگفتہ لہجے کی سحر کاری

سماعتوں پر لطیف نغمے کا کیف طاری

1دسمبر،2024،بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

---------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/subcontinent-rifat-sarosh-remarkable-contributions/d/133912

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..