New Age Islam
Thu Jun 19 2025, 05:51 PM

Urdu Section ( 18 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Studying Contemporary Religions and Their Religious Books is Essential معاصر مذاہب اور ان کی کتب کا مطالعہ ناگزیر

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

18 مئی 2025

اجتماعی شعور، منظم منصوبہ بندی اور امداد باہمی کا تصور جب بھی مفقود ہوتا ہے تو پھر انسانی حقوق اور دیگر معاشرتی وسماجی تقاضے خود بخود معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں۔ آ ج کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ ہر انسان اور تقریباً ہر جماعت وتنظیم محدود مفادات کو مدنظر رکھ کر یا پھر اپنے حصار میں رہ کر کام کرنے کو زیادہ اہمیت دیتی ہے۔ انسانی حقوق کو محفوظ کرنے اور معاشرتی تقاضوں و دینی قدروں کو مستحکم بنانے کے لیے لا محالہ دور اندیشی سے کام کرنا ہوگا۔ عموماً کہا جاتاہے کہ بہت سارے امور بغیر سوچے سمجھے یا حالات کو مدنظر رکھے بغیر انجام دیدیئے جاتے ہیں۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو اس طرح کی چیزیں بھی جذباتیت میں شامل ہوتی ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دانشمند قومیں اور باشعور معاشرے کبھی بھی کوئی کام غیر سنجیدگی میں نہیں کرتے ہیں۔ ذرا تصور کیجئے جس قوم کو امت وسط جیسے القاب سے یاد کیا گیا ہے آ ج وہ قوم بہت حدتک ہر اعتبار سے پسپا ہوچکی۔

 سیاسی بصیرت، تعلیمی اور معاشی اضمحلال نے توبالکل کمزور کرڈالا ہے۔ ان تمام باتوں کے پس پردہ کیا اسباب وعوامل ہیں ان پر کبھی کسی نے سنجیدگی سے غور کیا؟ آ ج ہندوستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مسلمانوں کا اپنا نظام تعلیم ہے۔ جسے ہم مدارس کے نام سے جانتے ہیں۔ یقینا مدارس نے دینی تعلیم اور اس کے تقاضوں کو نہایت خوش اسلوبی سے پورا کیا ہے اور کررہے ہیں۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہندوستان جیسے تکثیری سماج اور مخلوط سوسائٹی میں مدارس کے کیا تقاضے ہیں اس پر بھی ارباب مدارس اور اصحاب دانش و بینش کو ضرور سوچنا ہوگا؟ ہمارے نصاب و نظام نے جو دینی اعتبار سے کام کیا ہے اس کی افادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ لیکن یہاں اس بات کو بھی ذہن نشیں کرنا ہوگا کہ اگر ان مدارس کے نصاب ونظام میں کچھ ضروری مواد شامل کرلیا جائے تو یقیناً اس کے مزید بہتر اور دور رس نتائج بر آمد ہونگے۔ ذرا دیکھیے کہ آ ج معاشرے میں جو باتیں ہورہی ہیں وہ اب سے پہلے نہیں تھیں اس اعتبار سے چیزیں اور ان کی قدریں بدلی ہیں۔

 لہذا ہمیں اپنے مضامین میں بدلتے حالات اور ضروریات کا بھی پورا خیال رکھنا ہوگا۔ اسی طرح آ ج پوری دنیا میں فکری یلغار ہے اور آ ئے دن لوگ اسلام پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے رہتے ہیں اس بابت ہمیں مدارس سے ایسی کھیپ تیار کرنی ہوگی جو موجودہ اعتراضات کو نہ صرف کلعدم کرسکے بلکہ ان کا ہر اعتبار سے مثبت اور معتدل انداز میں جواب دینے کی استعداد و سکت ہو۔ ظاہر ہے اس طرح کی چیزوں کا رد کرنے کے لیے فکری مضامیں کو شامل کرنے کی ضرورت ہے۔اسی طرح دیگر ادیان ومذاہب پر بھی مدارس میں کام کرنے اور ان کو سمجھنے وسمجھانے کی ضرورت ہے ۔   یقینا ہمارے تعلیمی اداروں میں جب اس طرح کے مضامین داخل نصاب ہوں گے تو پھر اس سے سماج میں یکجائیت ومرکزیت پیدا ہوگی۔ آ ج دنیا کو جو بنیادی طور پر ضرورت ہے وہ یہ کہ اسلامو فوبیا جیسے جال اور فریب سے باہر نکالا جائے۔ اس کی لپیٹ میں مغرب کے ساتھ ساتھ ہندوستان بھی آ رہا ہے اور گزشتہ کئی برسوں سے اس طرح کی چیزیں لگاتار دیکھنے کو ملی ہیں جو ہندوستان جیسے مشترک سماج میں افسوسناک ہیں۔ اس کے خاتمے اور اسلام کی درست تصویر کو پیش کرنے کے لیے بھی ٹھوس اقدامات کرنے ہونگے ۔

نیز ایسے پروگرام کرنے ہونگے جن میں تمام مذاہب و ادیان کی رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں اور بتائیں کہ ادیان و مذاہب میں ایسی بہت ساری قدریں اور تعلیمات مشترک ہیں جن کو اپنا کر بقائے باہم اور معاشرے میں امن وامان کی فضا ہموار ہوسکتی ہے۔ یقیناً اس طرح کے پروگراموں سے بڑھتی منافرت اور تشدد سے نوع انسانی کو نجات مل جائے گی۔ اس تناظر میں  ان حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے بہت سارے تعلیمی ادارے کام بھی کررہے ہیں جن میں سر فہرست علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی فیکلٹی دینیات اور اسلامک فقہ اکیڈمی شامل ہے۔ 2022 میں ایک ویبینار "آ سمانی کتب اور دیگر مذہبی کتابیں ۔ تعارف وتاریخ "  کے عنوان پر منعقد ہوا اس کے جو سماجی ، معاشرتی اثرات مرتب ہوئے یا مستقبل قریب میں ہونگے ان سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ لیکن سر دست اس کا جو پیغام گیا اس سے معاشرےمیں پھیلی بہت ساری بدگمانیاں اور بد ظنی دور ہوئی۔ جہاں اس ویبینار میں مسلم اصحاب علم وفضل اور فکر و نظر نے شرکت کی وہیں دیگر ادیان کے فضلاء اور اصحاب دانش و بینش نے اپنی موجودگی درج کراکے یہ پیغام دیا کہ مذہب کوئی بھی ہو وہ صرف انسانیت کو فلاح و بہبود اور امن رواداری کی تعلیم دیتا ہے۔ مذہب مذہب ہوتا ہے کسی بھی مذہب ودین کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا یا اس کو ٹارگیٹ کرنا دانشمند قوموں اور معاشروں کا وطیرہ نہیں ہے۔ تفاہم ادیان اور مذاکرات بین المذاھب کی اس وقت جو ضرورت ہے وہ یقینا ناقابل انکار ہے۔  تصور کیجئے !اس  طرح کے نظریات سےمعاشرے کی تعمیر وترقی اور باہمی رکھ رکھاؤ کو براہ راست فائدہ ہوگا۔ معروف اسلامی اسکالر پروفیسر محمد سعود عالم قاسمی ڈین فیکلٹی آف دینیات کا نظریہ ہندوستانی سماج کو جوڑنے اور متحدہ ہندوستانی سماج بنانے کے لئے درج ذیل ہے۔ " پر امن بقائے باہم کے علاوہ معاصر مذاہب اور ان کی مقدس کتابوں کو سمجھنا ضروری ہے۔

 عموماً لوگ اس بات سے واقف نہیں ہوتے ہیں کہ مذہبی کتابوں میں کس طرح کی درجہ بندی ہے۔ کن کتابوں کو قانونی درجہ حاصل ہے اور کونسی کتابیں ثانوی ہیں۔ اسی کے ساتھ ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ تمام ادیان میں جو مشترکہ اقدار ہیں وہ تمام انسانوں کا سرمایہ ہیں۔ اس لیے ان تمام روشن قدروں کو گہرائی سے سمجھنا اور آ گے بڑھانا ہوگا۔ ادیان ومذاہب کا مطالعہ باریک بینی اور گہرائی سے کرنا ہوگا تبھی معاشرے میں اس کا مثبت اثر مرتب ہوگا۔ ہندوستان کی خوبی اس کا مذہبی ، لسانی اور تہذیبی تنوع ہے ۔اگرہم اس رنگا رنگی کو باقی رکھیں گے تو ہندوستان میں ایک تعمیری اور روحانی فضا ہموار ہوگی اور نفرت و عداوت یا تشدد و زیادتی کے بادل چھٹے جائیں گے۔حساس اور زندہ معاشروں کی علامت  یہ ہے کہ وہ اپنے وجود ، تہذیب اور تمدن کو یقینی بنانے کے لیے  دوسری ہمعصر تہذیبوں کی اچھائیوں کا کھلے دل سے اعتراف کرتے ہیں" ان نظریات اور افکار کی عصر حاضر میں جو ضرورت ہے اس سے قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔

 اسی طرح کی سوچ وفکر سے معاشرے میں ہم آ ہنگی اور تفاہم کی راہ ہموار ہوگی۔  ہندوستان کا جو اجتماعی خاکہ ہے اس میں بنیادی طور پر مذکورہ کرداروں اور نظریات کی نہ صرف اہمیت بلکہ ان کے دور رس نتائج کو بھی تسلیم کرنا ہوگا۔ آ ج مخصوص ذہنیت کا حامل طبقہ جو آ ئے دن سماج میں بے چینی پیدا کررہا ہے اس کا دفاع اسی طرح کے مثبت نظریات سے کرنا ہوگا۔ ہندوستانی معاشرے کو جوڑنے ور تہذیبی تعدد کو فروغ دینے کا کام ہمارے تعلیمی اداروں نے بھی شروع سے ہی کیا ہے۔ مولانا آ زاد یونیورسٹی جودھپور کے  سابق صدر پروفیسر اختر الواسع کی تجویز اور ان کی صالح فکر کو پیش کرنا بھی یہاں مناسب ہوگا۔ " علیگڑھ مسلم یونیورسٹی نے اپنے قیام کے پہلے ہی دن سے ادیان و مذاہب کو جوڑنے کی کوشش کی ہے، اس کے تابندہ نقوش یہ ہیں کہ جب مہا بھارت اور دیگر مذہبی کتابوں کے تراجم اُردو میں ہوئے تو ان کو علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے پیلی کیشن ڈویژن  نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ۔ اسی طرح آ ج اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ موکس مولر کو ہندوستانی مذاہب کا پہلا قدرداں اور محقق سمجھا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہیکہ ابو ریحان البیرونی نے پہلے ہندوستانی تہذیب اور یہاں کی مذہبی روایات کو پڑھ کر مطالعہ ادیان کے خطوط متعین کئے اور سر سید احمد خان نے مطالعہ ادیان کو تعلیم گاہوں کی ضرورت قرار دیا۔

 مسلمانوں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا اس وقت دنیا میں جو مذہبی تکثیریت ہے وہ خدائے بزرگ و برتر کی مرضی کے عین مطابق ہے ۔ لہذا ہم ہندوستان کی روح اور اس کی فضا کو سمجھتے ہوئے نیز اسلامی ہدایات و ارشادات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا تعلیمی نصاب بنائیں ۔ اسلام میں زبردستی تبدیلی مذہب کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن مذہبی آ زادی دستور ہند کا حصہ ہے۔" یقیناً مسلمان دنیا کی وہ قوم ہے  جو صرف اپنے خول ہی میں بند نہیں رہتی ہے بلکہ اس نے ہر دور اور موقع پر توسع اور وسعت ظرفی کا مظاہرہ کیا ہے اور کرتی رہتی ہے۔ مسلمانوں نے دیگر تہذیبوں اور ادیان کے متعلق جو گرانقدر خدمات انجام دی ہیں وہ اس بات کا بین ثبوت ہیں کہ مسلمان  رواداری کا بہترین پیکر ہیں۔  سوامی پرمانند پوری مہاراج نے فیکلٹی  دینیات کے عالمی ویبنار میں کہا تھا. " مسلمانوں کے متعلق آ ج بہت ساری غلط فہمیاں پھیلائی جارہی ہیں ان میں نمایاں طور پر یہ بھی ہے کہ مسلمان تشدد وجارحیت پسند ہے جبکہ مسلمان دنیا کی وہ قوم ہے جو اپنے اندر امانت، عدل ،صداقت اور رواداری کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں سے الفت و محبت کا بے پناہ مظاہرہ کرتی ہے جو لوگ مسلمانوں کے حوالے سے کسی بھی غلط بات کو منسوب کرررہے ہیں ان کو صحیح معنوں میں مسلمانوں کے مذہب اور ان کے اخلاق و کردار کو سمجھنے کی ضرورت ہے" بین مذہبی مذاکرات یا تفاہم ادیان سے معاشرے میں خوشحالی اور امن و سلامتی کی صورتحال کو یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ آ ج دنیا کو لازمی طور پر توسع کی ضرورت ہے جب قومیں کشادہ دل اور کشادہ ذہن ہوتی ہیں تو وہ اپنے وجود و مذہب کے ساتھ ساتھ اپنے مشترک قومی ورثہ کی حفاظت بخوبی کر پاتی ہیں۔ انسانی تاریخ میں جب بھی قوموں اور معاشروں نے اپنے اندر تنگ نظری یا کشیدگی کو جگہ دی ہے تو ان کا وجود تک ناپید ہوگیا ہے۔ اس لیے قومی احساس اور مشترکہ ورثہ کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ معاشرتی تناؤ سے جو نظریہ یا فکر پروان چڑھتی ہے یاد رکھئے اس کے اثرات ہمیشہ مایوس کن ہی ہوتے ہیں۔

 افہام وتفہیم اور مذاہب وادیاں کے ساتھ ساتھ دیگر قوموں اور معاشروں کی روایات ورسوم کو سمجھنے کے لیے بین مذہبی مذاکرات کا بڑا عمل دخل ہے۔ اس پروگرام کا ایک امتیاز یہ بھی ہے جہاں ایک طرف کھلے عام مذہبی منافرت اور مذہب کا غلط استعمال کرکے عوام کو ورغلا یا جارہاہے۔ یہ سچ ہے کہ ادیان نے انسانیت اور قومی ہم آہنگی کا درس دیا ہے۔ جو باتیں مذاہب کے نام سے پھیلائی جارہی ہیں وہ دراصل مذہبی تعلیمات کا حصہ ہی نہیں۔ اسی طرح یہ بھی پیغام دیا ہے کہ اب دنیا میں انہی نظریات، افکار اور منصوبوں کو فلاح مل پائے گی جو تعمیری اور روحانیت سے لبریز ہوں نیز ان کے اندر بقائے باہم کا جذبہ صادق ہو۔ تفاہم ادیان یا مکالمہ بین المذاھب ہی اس وقت وہ راہ ہے جو نسلوں اور معاشروں کو متوازن سوچ اورتوسع کا رجحان پیدا کرتی ہے۔ اس لیے اب ضرورت ہے کہ ہم انسانی آ بادی کو اس کے متعینہ حقوق اور مقام ومرتبہ بتانے نیزنوع انسانی کو  اصل مقصد سے آ گاہ کرنے کے لئے بین مذہبی مذاکرات کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیں۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/studying-contemporary-religions-books-essential/d/135569

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..