New Age Islam
Fri Jul 18 2025, 01:03 PM

Urdu Section ( 29 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Study of Religions Is Essential For Social Unity, But….. سماجی اتحاد کے لیے مطالعہ ادیان ناگزیر، مگر۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام

29 مئی 2025

عہد حاضر میں مطالعہ مذاہب ،مکالمہ اور مذاکرات کی  کو بڑی اہمیت دی جارہی ہے ۔ اس موضوع پر جامعات اور دیگر اداروں میں کانفرنسز ، ورکشاپ اور سیمینارز کثرت سے ہورہے ہیں تو وہیں مصنفین و مفکرین اور دانشور حضرات مضامین و مقالات اور کتابیں بھی لکھ رہے ہیں جو اپنے آپ میں ایک خوش آئند اور مستحسن اقدام ہے ۔

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذاہب کے متبعین کے مابین گفتگو اور  افہام و تفہیم کی آخر ضرورت کیوں ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سماج میں مذاہب سے عدم واقفیت اور نادانی کی وجہ سے آئے دن مسائل پیدا ہوتے ہیں اور نوبت کشیدگی و تشدد تک پہنچ جاتی ہے اس وجہ سے مذاہب کے مابین مکالمہ کی ضرورت ہے ۔  مذاہب کے درمیان مکالمہ کی کئی شکلیں ہیں ۔ ان میں ایک شکل تو یہی ہے کہ تمام مذاہب کے حاملین سر جوڑ کر بیٹھیں اور جملہ مذاہب سے ان نکات کو تلاش کریں جو تمام مذاہب میں یکساں پائی جاتی ہیں یعنی جن تعلیمات کا تعلق سماجیات سے ہے۔ اس بابت عالمی سطح پر پیش رفت ہوبھی رہی ہے ۔ اس کا بنیادی طور پر جو فائدہ ہوگا وہ یہ کہ سماج میں امن و ہم آہنگی  ، رواداری اور بھائی چارگی کی فضا ہموار ہوگی ۔ یہ سچ ہے کہ اتحاد و یگانگت، سماجی یکجہتی ہر سماج کی اولین خواہش ہوتی ہے ۔ اس تناظر میں  ہمیں سعی کرنے کی مزید ضرورت ہے ۔ اس حوالے سے ہمیں اسلامی مصادر میں بھی خاصا مواد ملتا ہے اور سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی مکمل رہنمائی ملتی ہے ۔ نبوت سے قبل حلف الفضول جیسا معاہدہ کا انعقاد اور اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شرکت بتاتی ہے کہ تحفظ نفس اور سماج کو پر امن بنانے کے لیے مختلف الخیال افراد کا یکجا ہونا ایک  اچھا عمل ہے ۔ دوسری مثال ہمیں ہجرت مدینہ کے معا بعد ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میثاق مدینہ کے نام سے یہودیوں کے تمام قبائل اور مدینہ میں جتنے بھی  مذاہب کے متبعین موجود تھے ان تمام کو جوڑ کر مکالمہ  کیا اور اس میں جن مسائل پر تمام طبقات کا اتفاق ہوا انہیں تریپن دفعات کی شکل میں محفوظ کردیا گیا۔ اسی کو دستور مدینہ بھی کہا جاتا ہے ۔  میثاقِ مدینہ کی ایک اہمیت تاریخی بھی ہے کہ یہ دنیا کا پہلا تحریری دستور ہے جس میں حقوق و فرائض ، انسان دوستی ، سماجی اتحاد ، حب الوطنی  جیسی اہم تعلیمات باقاعدہ مرتب کی گئیں یا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس میں جن مضامین کو شامل کیا گیا ہے ان کا تعلق عوام سے ہے۔ یہاں  یہ بات بھی بتانا مناسب معلوم ہوتی ہے کہ مستشرقین اور دیگر معاندین اسلام میثاقِ مدینہ کے مقابلہ میں حمورابی کے قانون اور 1215 میں ترتیب دیا جانے والا قانون میگنا کارٹا کو اہمیت دیتے ہیں ۔  اس لیے یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حمورابی کے قانون کے جو نکات ہیں وہ صرف سلاطین کے متعلق ہیں ان کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسی طرح میگنا کارٹا کا تعلق عوام کے مسائل اور ان کے حقوق سے ضرور ہے مگر اتنا تفصیلی اور جامع نہیں ہے جتنا میثاق مدینہ میں تمام طبقات کے حقوق کا ذکر ہے۔ اس لیے میثاق مدینہ کی تاریخی افادیت سے انحراف نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ میثاق مدینہ کے وجود میں آنے سے مدینہ میں یکجہتی و حقوق انسانی کی فضاء ہموار ہوئی ۔ مکالمات کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے کہ اس میں سماج کی خیر و خوبی اور اس کی فلاح و بہبود کے فیصلے لیے جائیں ۔

مکالمہ کا دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہر مذہب کے ارباب علم و ادب اور ارباب فکر و نظر لٹریچر تیار کریں ۔ البتہ اس بات کا خیال رہے کہ یہ لٹریچر تعصب و تنگ نظری یا مذہبی عقیدت سے خالی ہو تو وہیں اپنے اپنے مذہب کی بالادستی کے نظریہ سے بھی پوری طرح پاک ہو ۔ مثلاً کوئی مسلم اسکالر کسی دوسرے مذہب پر کوئی تحریری سرمایہ ترتیب دے رہا ہے تو اس کو چاہیے کہ وہ اس مذہب کا جائزہ ایک محقق و مصنف کی حیثیت سے لے ۔ اس وقت وہ اس بات کو قطعی طور پر بھول جائے کہ میرا رشتہ اسلام سے ہے ۔  جب اس طرح دوسرے مذہب پر کام کیا جائے گا تو ایسا کام ریسرچ و تحقیق کے جدید تقاضوں سے بھی ہم آہنگ ہوگا  اور اس کے سماج میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ المیہ یہ ہے کہ جب ہم کسی مذہب پر کوئی تصنیفی کام کرتے ہیں تو اس وقت اپنے مذہب کی خوبیوں کے بیان کرنے کی وجہ سے اس مذہب کی خوبیوں کو دبا دیتے  ہیں ،جس کی وجہ سے معاشرے میں  اس مذہب کی مکمل معلومات نہیں پہنچتی ہیں اور پھر اس کے نتائج تعصب و تنگ نظری یا نفرت و تشدد کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ایسے مصنفین کی آج بھی بھر مار ہے اور اس طرح کے لٹریچر سے لائبریریاں بھی بھری پڑی ہیں ۔ دوسرے مذاہب کی تحقیق کے متعلق  سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اپنی معروف کتاب " الجہاد فی الاسلام" جو نظریہ پیش کیا ہے اس کو تمام محققین کو سامنے رکھ کر کام کرنا چاہیے کیونکہ انہوں تحقیق کے دوران  متوازن رویہ اختیار کرنے پر زور دیا ہے:

" دو ادیان کا مقابلہ درحقیقت ایک بہت مشکل کام ہے۔ انسان جس عقیدہ اور رائے پر ایمان رکھتا ہو اس کے مخالف عقائد اور آراء کے ساتھ بہت کم انصاف کر سکتا ہے۔ یہ کمزوری انسانی طبائع میں بہت عام ہے مگر خصوصیت کے ساتھ مذہبی گروہوں میں تو اس نے تعصب و تنگ نظری کی بدترین شکل اختیار کر لی ہے۔  ایک مذہب کے پیرو جب دوسرے مذہب پر تنقید کرتے ہیں تو ہمیشہ ان کے تاریک پہلو ہی تلاش کرتے ہیں اور روشن پہلو کو دیکھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے یا اگر دیکھ بھی لیتے ہیں تو اسے دیدہ و دانستہ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں ۔مذہبی تنقید سے ان کا مدعا دراصل حق کی تلاش نہیں ہوتا بلکہ محض اس رائے کو جسے وہ تحقیق سے پہلے اختیار کر چکے ہیں درست کرنا ہوتا ہے۔ اس طریقے سے تقابل ادیان کے تمام فوائد زائل ہو جاتے ہیں اور خود اس مذہب کو بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا جس کی تائید میں یہ گمراہ کن طریقہ اختیار کیا جاتا ہے"  سچ بات یہ ہے کہ مطالعہ مذاہب سے مراد یہ ہے کہ دنیا میں پائے جانے والے متعدد مذاہب اور معروف ادیان کی تعلیمات کا غیر متعصبانہ تقابل اور غیر جانبدارانہ موازنہ کیا جائے نیز تمام مذاہب کا کھلے دل سے اعتراف کیا جائے۔ تقابل ادیان سے مراد مختلف مذاہب کے بنیادی عقائد و عبادات اور رسوم کا ایسا ناقدانہ اور عادلانہ جائزہ ہے جس سے ہر ایک مذہب کی قدر و قیمت ،خوبیاں اور خامیاں پوری طرح روشن ہو جائیں۔ مطالعہ ادیان کے دوران میں اگر کسی دین کی خوبی سامنے آتی ہے تو اسے بلا تکلف سراہا جائے ۔نیز اگر کوئی خامی ہے تو اسے دلیل سے رد کیا جائے تاکہ حق تک رسائی ممکن ہو۔ دین اسلام کی فضیلت کو دلائل عقلیہ اور اس کی حقانیت کو تاریخی شواہد سے ثابت کیا جائے تاکہ نئی نسل اور تعلیم یافتہ طبقہ اس پر شعوری طور پر ایمان لائے، اسے شرح صدر سے قبول کرے اور نتیجتا وہ اپنی زندگیوں میں مطلوبہ پسندیدہ تبدیلیاں لائے۔

یہ رویہ فطری طور پر سماج میں مذاہب کی بابت مثبت فضا قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔

تقابل ادیان پر ہونے والی تحقیقات کو جب انصاف کی نظر سے دیکھا جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ  بیشتر تحقیقات خاص نظریہ اور فکر کو سامنے رکھ کر تیار کی گئیں ہیں ۔ اسی وجہ سے آج ان سے سماج میں وہ فوائد حاصل نہیں ہورہے ہیں جو ان کا مقصد ہے ۔ جب کسی مذہب کا مطالعہ تعصب کی عینک اتار کر کیا جاتا ہے تو اس مذہب و دین کے اندر خوبیاں بھی نظر آتی ہیں اور اس سے فکری طور پر توازن پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے مذاہب یا تقابل ادیان کے نام پر ہونے والی تحقیقات میں جانبداری سے پوری طرح گریز کرنا ہوگا تاکہ معاشرے میں کسی بھی مذہب کے متعلق کوئی غلط تشریح نہ رواج پاسکے ۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/study-religions-essential-social-unity/d/135700

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..