پروفیسر عتیق احمد فاروقی
5نومبر،2023
اسرائیل او رحماس کی جنگ
میں بلاواسطہ ہمار ا ملک شامل ہوگیا ہے۔ہمارے وزیر اعظم کا موقف یہ ہے کہ چونکہ
حماس ایک دہشت گرد تنظیم ہے اس لئے ہمیں اسرائیل کی حمایت کرنی چاہئے۔وزارت خارجہ
کے ترجمان اروند باگچی نے ہندوستان کا فلسطین سے متعلق روایتی موقف بیان کردیا اور
واضح کردیا کہ ہمارا ملک فلسطینیوں کے ساتھ ہمیشہ رہا او ررہے گا۔ کاش کہ ہمارے
وزیراعظم نے بھی اس بیان کو دہرایا ہوتا تو بین الاقوامی سطح پر ہماری ساکھ محفوظ
رہتی۔ اس معاملے میں مودی جی کو مورد الزام ٹھہرانا بھی پوری طرح سے درست نہیں ہے
کیونکہ وہ حماس اور اسرائیل کے وجود کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں۔ امریکی صدر
جوبائیڈن کا خیال ہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر جو حملے کئے اس کا مقصد
ہند۔ مشرق وسطیٰ۔یوروپ اقتصادی گلیارے (آئی ایم ای سی) پروجیکٹ کو روکنا تھا۔ اس
بات میں کہاں تک سچائی ہے یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا لیکن یہ بات پختہ ہے کہ یہ
پروجیکٹ متاثر ضرور ہوگا۔
دراصل ہمارے وزیر اعظم نے
گزشتہ 9-10 ستمبر کو نئی دہلی میں منعقدہ جی۔20 کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں اس
پر جوش پروجیکٹ کااعلان کیا تھا۔ اس عظیم راہداری کے بننے کے بعد، ان کاکہنا تھا
کہ ایشیاء او ریورپ کی صورت اور سیرت بدل جائے گی۔امریکہ کے ساتھ سعودی عرب، متحدہ
عرب امارات، یوروپین اٹلی، فرانس اور جرمنی نے اس منصوبہ پرستخط کئے ہیں۔ اس دوران
مودی جی ایک بار پھر خود اعتمادی سے ایسے رہنماکے طور پر ابھر کر آئے جنہیں ملک کی
طاقت اور خود پر مکمل اعتماد ہے۔ظاہرسی بات ہے کہ اس فیصلے سے چینی حکمراں گھبرا
گئے ہیں۔چین کے صدر شی جن پنگ بہت پہلے بلٹ اینڈ روڈ انیشیوٹیو (بی آر آئی) کا
اعلان کرچکے تھے مگر تمام اڑچنیں ان کے اس بلند حوصلہ خواب کی راہ روک رہی ہیں۔
بین الاقوامی ڈپلومیسی کے
واقف کار جانتے ہیں کہ اپنی طاقت بڑھانے کے ساتھ پڑوسی کو طاقتو ر بننے سے روکنا
ضروری ہے۔غزہ کی جنگ میں چین کی ہمدردی واضح طور رپر حماس کے ساتھ دکھتی ہے۔اگرچہ
چین کا یہاں ذاتی مفاد دکھ رہاہے لیکن اصولی طور پر اس کاموقف درست کہا جائے گا۔جو
ملک غزہ کے رہائشی علاقوں میں بم گراکر بے گناہ شہریوں، عورتوں اور بچوں کاقتل عام
کررہا ہے، کھلے عام بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کررہاہے، جنگی جرائم میں بے
شرمی کے ساتھ مبتلا ہے اس کی حمایت کرنے والے ممالک بھی مجرم ہی کہے جائیں گے،انہیں
جدید مہذب معاشرے کی قطار میں شامل نہیں کیا جانا چاہئے۔ ہاں جہاں تک چین کی
ہندوستان سے متعلق پالیسی کا سوال ہے، وہ غلط ہے۔ اس کی میں قطعی حمایت نہیں
کرسکتا۔ وہ لگاتار ہماری سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ کرتا آیا ہے، ہماری زمین پر کھلے عام
دراندازی کررہا ہے۔ اس میں کچھ قصور ہماری موجودہ حکمراں جماعت کا بھی ہے کیونکہ
وہ اس کے ساتھ اس سطح کی سختی کا رویہ نہیں اپنا رہی ہے جیسا کہ پاکستان کے ساتھ،
جو کہ ایک چھوٹا او رکمزور ملک ہے،اپناتاہے۔
ہندوستان، مشرق
وسطیٰ۔یوروپ اقتصادی گلیارہ کو عملی جامہ پہنانے میں ابھی وقت لگے گا، لیکن آج
اسرائیل اور غازہ کے حماس کے بیچ جو خونی جنگ چل رہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے ہم لوگ
روس۔یوکرین جنگ، جو ابھی جاری ہے، کو بھول گئے ہیں۔ یہ جنگ دوسری عالمی جنگ جس میں
ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بم گراکر انسانیت کا بے رحمی سے خون کیا گیا تھا یا
بعدازاں ایران۔عراق،عراق۔امریکہ،روس۔افغانستان، یا امریکہ اور افغانستان کے بیچ
مایوس کن جنگوں نے کروڑوں کی زندگیاں ملیا مٹ کردی تھیں، کی یاد دلاتی ہے۔حماس کی
مذمت اس حد تک جائز ہے جب تک وہ اسرائیلی شہریوں کو نقصان پہنچا رہا تھا۔ وہ بھی
اس نے 75 سال اسرائیل کے ظلم برداشت کرنے کے بعد کیا لیکن اسرائیل فوجیوں کی کالی
کرتوتوں، جس میں وہ نہتے او ربے گناہ شہریوں جس میں اکثریت عورتوں او ربچوں کی ہے،
پر بم گراکر قتل عام کررہا ہے، کی جنتی مذمت کی جائے کم ہے۔ آج جو اسرائیل کررہا
ہے اس کی حمایت امریکہ اور زیادہ تر مغربی ممالک کررہے ہیں۔ امریکہ ایک طرف
اسرائیل سے کہتاہے کہ وہ جنگی قوانین کا لحاظ رکھے اور دوسری طرف دوطاقتور جنگی
بیڑے بحیرہ روم میں بھیج کر اسے جنگی جرائم کرنے کی شہہ بھی دے رہا ہے۔ انسانی
حقوق، خواتین کے حقوق او ربچوں کے حقوق کی دُہائی دینے والے مغربی ممالک کا اصل
چہرہ سامنے آگیا ہے۔اقوامتحدہ کتنا غیر فعال ہے، یہ بھی دیکھ لیا گیا۔بڑی مشکلوں
سے جنرل اسمبلی میں جنگ بندی کی قرار داد پاس ہوئی تو اسرائیل نے اس کو مسترد
کردیا۔امریکہ او رکچھ مغربی ممالک نے اس قرار داد کی مخالفت کی تھی۔ ہندوستان او
ربرطانیہ نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا تھا۔ کیا ووٹنگ میں حصہ نہ لے ہم نسل کشی کی
حمایت نہیں کررہے ہیں؟ پہلے دنیا میں کبھی کہیں اس طرح کا بحران پیدا ہوتا تھا تو
اقوام متحدہ اپنی ’پیس کیپنگ فورس‘ وہاں بھیج دیتاتھا جس میں ہندوستانی فوج کا بھی
اشتراک ہوتاتھا۔ کیا اب وہ فوج ختم ہوگئی ہے؟ یا
وہ فوج وہیں جائے گی جہاں امریکہ چاہے گا؟ سوائے ایران کے کوئی بھی مسلم
ملک عملی طور پر غزہ کے فلسطینیوں کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
دراصل اسرائیل امریکہ اور
مغربی ممالک کی مدد سے فلسطینیوں کے وجود کو ختم کردینا چاہتا ہے لیکن اس جنگ کو
فوری طور پر نہیں روکا گیا تو یہ عالمی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ان حالات سے جہاں
تک ہوسکے بچنا چاہیے او را سکی خاص ذمہ داری امریکہ او راقوام متحدہ کی بنتی ہے۔
ابھی بھی یہ جنگ صرف اسرائیل اورحماس کے درمیان نہیں ہے۔ اسرائیل نے لبنان میں بھی
میزائل چھوڑے ہیں۔حزب اللہ نے تل ابیب پر بھی میزائیل داغے ہیں۔یمن کے حوثیوں نے
بھی اسرائیل پر کچھ حملے کئے ہیں۔ اسرائیل کے میزائیل شام پر بھی گرے ہیں۔ اب
ایران، اردن او رمصر میں بھی ابال رہا ہے۔ چین اور روس بھی حالات پر نظر رکھے ہوئے
ہیں او رامریکہ کو خبردار کیاہے۔ دنیا کے ہر خطے میں اسرائیل کے خلاف مظاہرے
واحتجاج ہورہے ہیں، یہاں تک کہ خود اسرائیل کے اندر عوام میں نتین یاہو کے غیر
انسانی اقدام کے خلاف غم وغصہ ہے۔خلیجی ممالک ودیگر مسلم ممالک کے اسرائیلی سفارت
کار کے اہلکار خود کو غیر محفوظ کررہے ہیں۔ شام اور عراق میں تعینات امریکی فوجی
دستے بھی خود کش حملے کا خطرہ محسوس کررہے ہیں۔شاید یہی وجہ ہے کہ جو بائیڈن نہیں
چاہتے تھے کہ اسرائیل کے خصوصی دستے غزہ کی سرزمین پر قدم رکھیں مگر اسرائیل نے
ماننے سے انکا رکردیا۔یہ الگ بات ہے کہ اگر امریکہ اسرائیل کو روکنے میں سنجیدہ
ہوتا تو اسرائیل کی مجال تھی کہ اس کی بات نہ مانتا؟ اسرائیل کی فوج غزہ کو ایک
بڑے قبرستان میں تبدیل کرنے میں مصروف ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتو نیو
گوتیریس نے بھی کئی بات سخت الفاظ میں اسرائیل کی لعنت ملامت کی ہے۔ اسرائیل نے ان
کی اصلاح ماننے کی جگہ انہیں ہی دھمکی دینا شروع کردیا ہے او ریہاں تک کہ سکریٹری
جنرل سے استعفیٰ کامطالبہ کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کو چاہئے کہ اسرائیل پر تمام
سفارتی، اقتصادی اور دفاعی پابندیاں عائدکردے۔ ایسا پہلے روس، ایران، عراق،
افغانستان وغیرہ کے ساتھ ہوچکا ہے لیکن پھر بھی وہی ایک پرانا او رمعروف سوال کھڑا
ہوتاہے، کیا اقوام متحدہ امریکہ او ریورپین یونین کی مرضی کے خلاف اس طرح کی
کارروائی کرسکتی ہے؟ دنیا کے سبھی اہم ممالک کو باریک بینی سے اپنا محاسبہ
کرناہوگا۔
5 نومبر،2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism