New Age Islam
Sun Jul 20 2025, 03:26 PM

Urdu Section ( 17 May 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Standing Accused Despite Loyalty—What More Can We Do? آخراب اور کیا کریں؟

ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد

16 مئی 2025

آج  کچھ باتیں اس کرب کے بارے میں جو ہندوستانی مسلمان کے ذہن اور نفسیات کو احساس محرومی کی طرف دھکیل رہا ہےاور وہ سب سے بڑا سوال خود اپنے آپ پر قائم کر رہا ہے کہ تمام مثبت قول و عمل، رویوں، موقف اور اشاریوں کے باوجود کٹہرے میں کیوں کھڑا ہے؟ پہلگام میں دہشت گردانہ حملے کی بے لاگ مذمت، پاکستان کےاندر گھس کر دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف فیصلہ کن فوجی کارروائی پر حب الوطنی سے سرشار واضح موقف کے باوجود ملک میں کشمیری نوجوانوں اوردیگر عام مسلمانوں کے ساتھ جابجاتشدد کے واقعات، سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں لعن طعن، غلاظت آمیز گفتگو اور اخلاقی گراوٹ کی انتہا کو سمجھنے سے عقل قاصر ہے۔کیا فرقہ وارانہ تعصب اور نفسیات اب ہمارا قومی مزاج بن چکی ہے؟ ایک طرف سرکار اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والے فوجی افسران ایک مسلم اور دوسرے سکھ سے جنگی صورتحال پر بریفنگ کراتی ہے‘ گنگا جمنی تہذیب بھارت کی بہترین تصویر پیش کرتی ہے لیکن دوسری طرف میڈیا پرطوفان بدتمیزی بند ہونےکا نام ہی نہیں لیتی۔ خارجہ سکریٹری کے ساتھ کیا ہوا یہ تو ہندوستان نہیں ایک شٹ اپ کال تو بنتی ہے۔

 جذبات اوراحساسات فطرت انسانی کے ساتھ ہوتےہیں وہ یقیناً انسانی رویوں اور فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کرتے ہیں۔ البتہ ایسا کوئی بھی عمل جو وطن عزیز میں افرا تفری کا باعث بنے۔ ہماری قومی و بین الاقوامی ساکھ یا سفارتی منفعت کو منفی طور پر متاثر کرتا ہو، قومی دفاع، سلامتی، یکجہتی، فرقہ وارانہ ہم آہنگی، امن و امان یا ترقی کے عمل میں خلل یا وطن دشمن سرگرمی سے جس کا دور کا بھی تعلق بنتا یا نکلتا ہو اس طرف جانا تو دور سوچنے کی بھی اس کے یہاں سرے سے کوئی زمین ہی نہیں، وطن عزیز کی آن بان، عظمت و حرمت، آئین کی حکمرانی و بالا دستی، مشترکہ ثقافت پر فخر اور قومی اساس کی بقا اور چمک کسی بھی دیگر قومی اکائی کی طرح ہماری بھی پہلی ترجیح ہے اورآگے بھی رہے گی۔

ہم مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کی ہر شکل کےاولین مخالف ہیں ۔لہٰذا ہر اس طرز عمل کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ہمیشہ کرینگے جس سے ہماری روایتی اخلاقیات اور تہذیبی شناخت پر آنچ آتی ہو۔ایک لمحے میں حب الوطن اور دوسرے ہی لمحے غدار وطن، یہ کیا رویہ ہے۔ معاشرے کی ایک اکائی کو صبح شام محسوس کرانا کہ وہ کہیں ملزم، کہیں مجرم،کہیں گناہگار اور کہیں سزاوار ہے؟ اس کی لغزش بھی خطا اور قابل گرفت جرم اور دوسرا کچھ بھی کرکے چھوٹ جائے، جرم کرکے دندناتا پھرے، جرم پر فخر بھی کرے، معاشرے میں ہیرو بن کر گھومے اور پذیرائی کا مستحق قرار پائے، ایسا کیوں مسلم نفسیات میں یہ سوال گردش کر رہا ہے۔

تازہ ترین معاملہ مدھیہ پردیش کے ایک وزیر کا ہے۔اس بدزبان نے تو انتہا کردی۔یہ شرپسند اس دھرتی کی اس بیٹی کو دہشت گردوں کی بہن کہہ رہا ہے جو ایک عرصہ سے اس ملک کی قابل فخر فوج میں اپنی خدمات انجام دے رہی ہے۔اس شرپسند نے یہ تک نہ سوچا کہ وہ بھی فوج کا ایک حصہ ہے اور اسے اس ملک کی اعلیٰ قیادت نے بریفنگ کیلئے سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت منتخب کیا ہے۔بعد میں جب چاروں طرف سے لعن طعن ہوئی تو وہ معافی مانگ کر چھوٹ گیا۔لیکن کیا یہ جرم اتنا ہلکا تھا کہ اسے معافی طلب کرنے پر نظر انداز کردیا جائے۔اس شرپسند نے وہی تو کہا جو اس کے دل میں تھا۔یہ اس کی نفرت کی انتہا تھی کہ اس نے ایک فوجی خاتون کو بھی نہیں بخشا اور جس کو خود حکومت نے بریفنگ کیلئے منتخب کیااسے دہشت گردوں کی بہن بتارہا ہے۔یہ ذہن میں رہے کہ کبھی کبھی عارضی بیمار رویے ایسے دائمی رجحانات کو جنم دے دیتے ہیں جن کو درست کرنے میں ایک صدی بھی کم پڑتی ہے ۔ملک وطن سے تعبیر ہے اور تعبیر حکمت، مفاہمت اور خیر سگالی سے۔ وطن تو نام ہی ایک وحدت بن جانے اور بن کر رہنے کا ہے۔ اس میں دو ہی شناخت ہوتی ہیں ایک حب الوطنی میں غرق فدایان وطن اور  دوسرے وہ مجرمین جنھیں آئین اپنے شکنجے میں لیکر ان کے کس بل سیدھے کرتا ہے۔اگر اب بھی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت او رخود حکومت ہند اس شرپسند کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں کرتی تو آخر اسے کیا سمجھا جائے۔

میں فریق بن کر مسائل و معاملات پر اظہار خیال نہیں کرتا ۔ میرا مطمح نظر ہمیشہ مصالحت، مفاہمت، ہم آہنگی اور قومی یکجہتی جیسے تعمیری عوامل سے طے ہوتا ہے۔ بھارت پہلے سب اس کے بعد۔تدبراور تدبیر کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہئے۔ یہ ہمیشہ پیش نظر رہتا ہے۔ بیجا جذباتیت ہمیشہ غلط فیصلے کرواتی ہے جبکہ فہم وادراک کی کوکھ سے نکلنے والے رویے اور فیصلے آتش فشاں جیسی کیفیت کو بھی ٹھنڈا کر دیتے ہیں۔ سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس، سب کا پریاس پر مبنی فلسفہ حیات کی داعی ہماری قیادت و حکومت ہے۔ دہشت گردی کو قومی اتحاد کو نقصان اور ملک توڑنے کی دشمن کی ناپاک سازش سے سیدھے جوڑتی ہے۔ منہ بھرائی کی ہر شکل کی مخالف، گئورکشا کے نام پر ہجومی تشدد میں ملوث عناصر کو غنڈہ قراردینا، شہریت کے حوالے سے جب منفی پروپیگنڈا شباب پر تھا تب مسلمان سے سیدھے مخاطب ہو کر اس کو یقین دہانی کہ اس قانون کا آپ سے کوئی لینا دینا نہیں، جب اجمیر شریف کی درگاہ پر انتہا پسند مندر ہونے کا دعوی کر رہے تھے تب عرس غریب نواز میں وزیر اعظم کا اپنی روایتی چادر اور پیغام خیر سگالی بھیجنا، ایک ہاتھ میں قرآن دوسرے میں کمپیوٹر کی بات، اقلیتی اداروں کی کارکردگی، ایک وقت میں دو مسلم وزراء ایک کابینی اور دوسرے وزیر مملکت، راجیہ سبھا میں بیک وقت تین مسلم اراکین، فی الوقت بھاجپا میں متعدد مسلم قومی ترجمان، حکومت میں دو مسلم گورنر، ایک رکن راجیہ سبھا، خیر سگالی کے بر موقع بیانات، سرکاری اسکیموں میں منصفانہ حصہ داری وہ مثبت اقدامات ہیںجو یقیناً ایک عام  ہندوستانی مسلمان میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں۔

لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے۔ آج مسلمانان ہند ایک نفسیاتی کرب اور گھٹن میں بھی مبتلا ہیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ ہر گز نہیں چاہیں گے کہ اتنے بڑے معاشرے میں وہ پنپے،قانون اپنا کام کرے، سب کے ساتھ ایک جیسا اور ایک رفتار سے کرے، پکڑ دھکڑ مجرم کی ہو، سب کے ساتھ رویہ جرم اور مجرم کے دائرے میں رہے، ہر شئے کو ہندو مسلمان بنا کر دن بھر میڈیا میں چلانا، فرقہ واریت کو دانستہ ہوا دینا، مسلمانان ہند کو مسلم حکمرانوں کی اولاد بنا کر ٹارگیٹ کرنا، مسلم دور اقتدار کی ایسی تصویر پیش کرنا کہ جیسے اس دور میں صرف مندر ہی توڑے گئے، ہندوؤں کی زندگی اجیرن رہی، قتل و غارت گری کے سوا کچھ ہوا ہی نہیں یہ سب بچے بچے کی نفسیات میں بٹھانا اور ہندو مسلم منافرت کو اس حد تک لیجانا کہ مسجد کا امام، مسجد، نمازی، مسلم شکل کے مسافر، تاجر، کاروباری، دستکار، قرآن کی آیات، نبی ؐکی سیرت، ہجومی تشدد، کردار کشی، لعن طعن، پورے دن اسی کام کا چلتے رہنا، گلی محلے، بستیوں اور کالونیوں میں پھل سبزی  بیچنے والے، فٹ پاتھ پر دھندہ کرنے والے، گوشت کا چھوٹا کاروبار کرنے والے، مسلم پہناوا، رہن سہن،پاکستان جاؤ کے نعرے، حرام زادہ تک کہا جانا، غداری کے فتوے۔ واضح رہے ہم مسلمانان ہند مسلم دور اقتدار کے نہ اچھے کے ساتھی اور نہ برے کے ذمہ دار۔ پھر ہم کٹہرے میں کیوں؟ اس سب کو لیکر مسلم معاشرے میں بے چینی ہے ۔ میں نے ساری زندگی جوڑ نےکا کام کیا ہے اور آج بھی اور زندگی کے آخرے سانس تک انشاءاللہ یہ ہی کرنا ہے۔ ایک درد مند بھارتی ہونے کے ناطے وزیر اعظم آپ سے بڑے دل اور پورے عزت و احترام و ادب سے کہنا چاہتا ہوں نفرت کی یہ فصل اگر اسی طرح بوئی جاتی رہی تو یہ قومی مفاد میں تو ہر گز نہیں کٹے گی۔

وزیر اعظم صاحب!جس فیصلہ کن مزاج کے لئے آپ جانےاور پہچانے جاتے ہیں یہ ملک اب آپ کے چند مثبت، سخت اور فیصلہ کن اقدام کا شدت سے منتظر ہے۔ ہمیں بتائیے کہ ہم مسلمانان ہنداور کیا کریں؟ ہم ہر وقت سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح وطن عزیز کے دفاع میں آپ کے ساتھ کھڑے ہیں، ہم دہشت گردی کے صف اول کے مخالف ہیں، ہر معاملے میں ہمارا تعاون اور حصے داری موجود ہے، سرحد سے لیکر، دفاع وطن، تعمیر وطن، تعلیم و تربیت، سائنسی، ایٹمی و خلائی تحقیق، صنعت و حرفت، ادارہ سازی، فلاحی و تفریحی سرگرمیوں،میڈیا، قومی و بین الاقوامی امور ہم تو ہر جگہ اپنےمنفرد کردار کیساتھ موجود ہیں ۔پہلگام میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا‘ ۲۵ کروڑ مسلمان ایک ہوکر کھڑا ہو گیا، ہماری مذہبی، سیاسی و سماجی قیادت، مقتدر حلقے،معتبر شخصیات یک آواز ریاست و قیادت کے ساتھ کھڑی ہے۔ کل آپ نے پاکستان کو سبق سکھایا جو سکھانا ہی چاہئے تھا ۔ہم چٹان اورسیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے رہے۔ سارا کشمیر جس طرح قومی یکجہتی کے اظہار میں باہر آیا اس سے تو ماحول بدلنا چاہئےتھا لیکن۰۰۰  گھر میں بس شکایتیں ہوں مگر آپسی دشمنی کے لئے کوئی زمین نہیں ہونی چاہئے۔ ایک بھائی کے قتل، رسوائی، ذلت اور اس کے قد کو بونا کئے جانے پر اگر دوسرا بھائی مزہ لینے لگے، اسے محسوس کرنے کی بجائے سامان تفریح سمجھنے لگے تو یہ کسی بھی حوالے سے نیک شگون نہیں۔ انسان اور انسانیت زمین پر بعد میں بکھرتی ہے پہلے نفسیات اور پھر جڑ کمزور پڑتی ہے۔ سب اکائیاں خود احتسابی کریں، خود درستگی کے عمل کی شروعات کریں،آپ ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ پہلا قدم زبان درازی پر قدغن لگے، تمیز اور تہذیب سے بات کی جائے ہم بھارتیہ ایک اکائی ہیں، ایک دوسرے کےحلیف ہیں، فریقین اور مخالفین قطعاً نہیں۔ ہندوستان کے ۲۵ کروڑ مسلمان ہراس بازو کو توڑنے میں کسی سے پیچھےنہیں ،جو ہمارے قومی دفاع، سلامتی اور یکجہتی پر ضرب کاری لگانا چاہتے ہیں ۔آپ بتائیں ہم اور کیا کریں؟

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/standing-accused-despite-loyalty-more/d/135556

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..