New Age Islam
Thu May 15 2025, 06:24 PM

Urdu Section ( 22 May 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Srinagar: A Hub of Religious, Political and Social Activities سری نگر: مذہبی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا مرکز

 مشتاق الحق احمد سکندر، نیو ایج اسلام

 20 مئی 2023

 سری نگر: ایک عظیم شہر

 مصنف: شفیع احمد قادری

 ناشر: حاجی شیخ غلام محمد اینڈ سنز، سری نگر، کشمیر

صفحات: 460، قیمت: 895 روپے

 -----

 ہر شہر کی اپنی منفرد تاریخ ہوتی ہے۔ وہ شہر کیسے قائم ہوا، اس کا سفر کیسا رہا اور اسے کب تباہ کیا گیا۔ تاریخ دان اور ماہر بشریات نے اپنی زندگی ایک شہر اور اس کے لوگوں کو سمجھنے کے لیے وقف کر رکھی ہے۔ کشمیر کئی دہائیوں سے غلط وجوہات کی بنا پر خبروں میں ہے۔ سیاسی انتشار نے سب کچھ تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ کشمیر کے دیگر پہلوؤں پر بہت کم توجہ دی گئی ہے، خواہ وہ ثقافتی، تاریخی، مذہبی، معاشی اور سماجی ہو۔ علماء اور مورخین نے ریاستی اور غیر ریاستی عناصر کے ردعمل کے خوف سے سیاست کے علاوہ دیگر پہلوؤں پر کام کیا۔ لہٰذا، وہ کشمیر میں اسلام جیسے ’غیر متنازعہ‘ مضامین پر بات کرتے ہیں۔ اس لیے سیاست پر لکھنا صرف کالم نگاروں مورخوں اور صحافیوں تک محدود تھا جو سیاسی نظریہ نگار اور تجزیہ کار کا روپ دھار رہے تھے۔

 گزشتہ ایک دہائی سے کشمیر پر اچھا کام کیا جا رہا ہے۔ لیکن اس کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہ کام زیادہ تر علمی نوعیت کے رہے ہیں اور مسائل کا تجزیہ تاریخی تناظر میں کیا گیا ہے۔ لیکن ایک عام قاری کا اس طرح کے کاموں میں دلچسپی پیدا کرنا مشکل ہوتا ہے، جس کی وجہ سے عام قارئین تک اس کی رسائی ممکن نہیں ہوتی۔

 جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ ہمارے پاس آسان فہم میں لکھنے والے اور کالم نگار موجود ہیں جو تاریخ سے جڑے ہوئے ہیں۔ یہ واقعی ایک اچھا کارنامہ ہے کہ نام نہاد پروفیشنل مورخین نے جو خلا چھوڑا ہے اسے غیر پیشہ ور لیکن اچھے قلم کار پُر کر رہے ہیں۔ سری نگر، مذہبی، سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کا ایک مرکز ہونے کی وجہ سے کشمیری ماحول میں ایک مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ سری نگر کے پیچیدہ پہلوؤں، اس کی تاریخ، سیاست، معیشت، مذہبی معمولات اور سماجی زندگی سے پردہ اٹھانے کے لیے کئی دہائیاں اور بے شمار علماء کی خدمات درکار ہوں گی۔ پروفیسر اسحاق خان مرحوم نے سرینگر کی تاریخ کے بارے میں ایک مکمل کتاب لکھی تھی اور اب شفیع احمد قادری جو کہ ایک نامور مصنف سے تاریخ دان بنے ہیں، انہوں نے سری نگر کے مختلف مسائل پر خامہ فرسائی کی ہے۔

 سری نگر 1957 تک سات پلوں پر مشتمل شہر تھا۔ توسیع کے ساتھ یہ پرانا شہر جو اب شہر خاص کے نام سے جانا جاتا ہے، کشمیر کی متحرک ثقافت، مذہبی اخلاقیات اور سیاست کو سمجھنے کے لیے اب بھی مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ کشمیر میں ہندو مت سے بدھ مت میں تبدیلی دیکھی گئی، اور پھر بدھ مت ختم ہوا اور ایک بار پھر ہندو مذہب نے اس کی جگہ لے لی۔ مزید، اسلام نے وسط ایشیائی صوفیاء کی بے مثال خدمات کے ذریعے کشمیر تک اپنی راہ ہموار کی، جنہوں نے وادی کے دیگر حصوں کا سفر کرتے ہوئے زیادہ تر سری نگر میں قیام کیا اور ہسپتال بنائے۔ لیکن کشمیر میں اسلام کی اشاعت ایک پرامن عمل رہا، جس میں صدیوں کی سماجی خدمات، ذات پات کے نظام کے خلاف جد و جہد اور علماء کے ذریعہ عوام اور مذہب کے استحصال کے خلاف جہاد شامل رہا۔ یہی وجہ تھی کہ مورخ پنڈت کلہانہ یہ کہنے پر مجبور ہوئے، ’’کشمیر کو کبھی بھی فوجی طاقت سے فتح نہیں کیا جاسکتا، بلکہ صرف روحانیت کے ذریعے کی فتح کیا جا سکتا ہے‘‘۔

 اس کتاب میں شفیع احمد قادری نے مختلف مختصر ابواب کے ذریعے، جنہیں آزادانہ طور پر پڑھا جاسکتا ہے اور قاری کو علمی پیرایہ بیان کی وجہ سے بوریت بھی محسوس نہیں ہوگی، قاری کو مختلف اولیاء، صوفیاء، شاعروں، مندروں، گرودواروں، بازاروں، علمائے کرام اور مختلف ادوار سری نگر کی دیگر بااثر شخصیات کے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے۔ تمام مضامین کا موضوع سری نگر کے ارد گرد بُنا گیا ہے۔ سری نگر کی گلیوں میں مزارات، عبادت گاہیں، مسجدیں، مندر، گرودوارے اور گرجا گھر ہر جگہ موجود ہیں۔ بہت سے مزارات غیر مقامی صوفیاء کے لیے وقف ہیں، جنہوں نے سری نگر میں اسلام کا پرچار کیا، جب کہ بہت سی جگہوں ٹ مقامی صوفیوں اور رشیوں کی موجودگی بھی ظاہر ہوتی ہے۔ تصوف نے کشمیر میں ایک مقامی حیثیت حاصل کی جس نے مقامی اثرات کو جذب کیا اور کشمیر میں اسلام کی اشاعت میں مدد کی۔ غیر مقامی صوفیوں کا اتنا مضبوط اثر و رسوخ نہیں تھا، کیونکہ وہ وہاں کی مادری زبان نہیں بولتے تھے، اور ایک مخصوص اشرافیہ سے آگے ان کی پہنچ نہیں بن سکی اور سبھی کشمیر میں مستقل طور پر آباد بھی نہیں ہوئے۔ چنانچہ اسلام کے مشن کو وادی کشمیر میں رشیوں اور صوفیوں نے فروغ دیا۔

 خانیار میں غوث الاعظم، شیخ عبدالقادر جیلانی اور سری نگر کے سولینا کے مزارات، ان کے باقیات، ان کی حصولیابی، مخصوص مواقع پر ان کی نمائش کے شواہد موجود ہیں، اسی طرح دیگر مزارات کا بھی معاملہ ہے، خاص طور پر حضرت بل۔ سری نگر میں صوفی سلاسل، مزارات، عبادت گاہوں اور ان سے وابستہ عقیدت مندوں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے۔

 جامع مسجد اور حضرت بل کے مزار نے گزشتہ چند صدیوں سے زیادہ عرصے سے کشمیر کی سیاست کو ایک سمت عطا کی ہے، لیکن ہمارے لائق مصنف نے اس کے بارے میں بہت کم لکھا ہے۔ معجزات اکثر اہل اللہ سے منسوب کیے جاتے ہیں، لہذا کشمیر میں مزارات اور صوفیوں سے وابستہ معجزات کی کہانیاں بھی پائی جاتی ہیں۔

 سری نگر کی کہانی صرف صوفیوں تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ ہمیں ان بادشاہوں کا بھی ذکر ملتا ہے، جن کی قبریں سری نگر کے مختلف حصوں میں موجود ہیں۔ اس کے بعد، ہمارے پاس پتھر مسجد کے بارے میں تفصیلات ہیں، جو ملکہ نورجہاں نے تعمیر کی تھی، لیکن لوگوں نے طویل عرصے تک اس میں نماز ادا کرنے سے گریز کیا، جس سے عوام کی زن بیزار اور پدرانہ ذہنیت ظاہر ہوتی ہے۔ علمائے کرام نے اس افسانے کو عام کیا ہوگا کہ عورت کی بنائی ہوئی مسجد میں نماز پڑھنا، خواہ وہ ملکہ ہی کیوں نہ ہو، ناجائز ہے، اس لیے لوگوں نے ان کی پیروی کی، اور وہاں نماز پڑھنے سے اجتناب کیا۔ سرینگر میں مشہور قبرستانوں، شیعہ مساجد، امام بارگاہوں، اہم اسکولوں، کالجوں، تعلیمی اداروں اور عیسائی مشنریوں کے تعاون کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔

 اب بھی بہت سے کشمیری ہیں، جن کی ذاتیں ان کے بیرونی ہونے کا پتہ دیتی ہیں۔ بخاری، اندرابی، گیلانی، سید، کاشانی اور یہاں تک کہ ہمارے قابل مصنف جو قادری ہیں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی کشمیر میں آباد ہوئے اور اب مقامی ہیں۔ انہوں نے کشمیر کے سماجی، سیاسی، مذہبی ماحول کو تقویت بخشنے کے ساتھ ساتھ ذات پات کے نظام کو بھی برقرار رکھنے اور اسے تقویت دینے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ وہ دونوں کشمیر میں شامل ہیں اور نہیں بھی ہیں، لیکن اس کا ایک اہم حصہ ضرور ہیں۔ ایسی مثالیں ہیں جب مقامی لوگ بیرونی کے لوگوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں جیسے کہ جب سیاسی جھگڑوں کی وجہ سے ایک صوفی اویسی صاحب کی شہادت ہوئی، تب مقامی کشمیریوں نے سمجھ لیا کہ سب کچھ یہ بیرونی لوگ چلا رہے ہیں اور یہاں تک کہ بہت سے غیر مقامی صوفی اور پیر خانوادوں کو کشمیر سے جلاوطن بھی کر دیا۔ کتاب کافی شاندار ہے اور ہمیں سری نگر کے بہت سے پہلوؤں سے آگاہ کرتی ہے۔ یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ کتاب کا انگریزی ترجمہ جلد ہی شائع ہونے والا ہے۔ ہمیں اس اہم کارنامے پر مصنف اور ناشر دونوں کو مبارکباد دینی چاہیے۔

 تاہم، کتاب میں کچھ خامیاں بھی ہیں۔ اس کتاب کی سب سے بڑی خامی حوالہ جات کی عدم موجودگی ہے، کیونکہ یہ کتاب اپنی نوعیت کے اعتبار سے تاریخی ہے نہ کہ کوئی تخلیقی افسانہ، جہاں ہم مصنف کے تخیل پر سوال نہیں اٹھا سکتے۔ ہم ان ماخذ کے بارے میں نہیں جانتے جنہیں قادری نے ایک نتیجے پر پہنچنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ اس کے علاوہ، اس کتاب میں بہت سے بے بنیاد، غیر منطقی، غیر فطری اور غیر معمولی واقعات کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ یہ صوفیاء کے تذکرے ہیں۔ جن کا مقصد صوفیاء کی کرامات کو عام کرنا ہے، تاکہ لوگوں کی نظروں میں ان کے روحانی مقام کو بلند کیا جا سکے۔ شیخ حمزہ مخدوم کا روزانہ 300 مرتبہ مکمل قرآن مکمل کرنا سراسر مبالغہ آرائی اور غلط ہے (ص-64)، ملا اخون شاہ بدخشی جو کہ شہزادہ دارا شکوہ کے روحانی مرشد (پیر) تھے، ان کے حوالے سے تیس سال تک نہ سونے کی بات بھی بے بنیاد ہے، اس کی تاریخ میں کوئی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔ (ص-138) مجموعی طور پر یہ کتاب ہر اس شخص کے لیے ایک اچھی کتاب ہے جو سری نگر کی تاریخ سے واقف ہونا چاہتا ہے۔

 English Article: Srinagar: A Hub of Religious, Political and Social Activities

URL: https://newageislam.com/urdu-section/srinagar-religious-political-social/d/129826

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..