مشتاق الحق
احمد سکندر، نیو ایج اسلام
25 جولائی 2022
تصوف احسان
کے اسلامی تصور سے ماخوذ ہے۔
اہم نکات:
1. بہت سے صوفی فرقے ایک جماعت کے طور پر کام کرتے ہیں۔
2. بہت سے صوفیوں کے ذریعہ بدسلوکی اور جنسی استحصال کی خبر رپورٹ ہی
نہیں کی جاتی۔
3. تصوف بھی کوئی یکجہتی نہیں ہے، اور اس میں درجہ بندیاں ہیں جو لوگوں
کو تقسیم کرتی ہیں۔
4. صوفی عقلیت پسند بنانے کے بجائے اپنے شاگردوں کو توہمات سے اندھا
کر دیتے ہیں
-----
تصوف مسلمانوں میں ایک اہم مکتبہ
فکر ہے۔ وہ مسلمان جو اپنی روح کا تزکیہ کرناچاہتے ہیں وہ اس کی طرف مائل ہوتے ہیں۔
مسلمانوں میں تصوف کے فروغ کی بہت سی وجوہات ہیں اور بعض کی وجہ یہ تھی کہ شاہی جابر
حکمرانوں کے خلاف لڑائی بے سود ثابت ہوئی، لہٰذا مسلمانوں کی باطنی تطہیر پر زیادہ
توجہ دی گئی جس کا مقصد انہیں بہتر اور پرہیزگار مسلمان بنانا تھا تاکہ وہ آخرت میں
نجات حاصل کر سکیں۔ زیادہ تر صوفیاء کے نزدیک بادشاہوں اور امیر اشرافیہ کے ساتھ بیٹھنا
سخت ناپسندیدہ تھا۔ بہت کم صوفیاء نے یقیناً سیاست اور عدالتوں پر اثر انداز ہونے کی
کوشش کی لیکن یہ یقینی طور پر ان کے اپنے فائدے یا مراعات حاصل کرنے کے لیے نہیں تھا
بلکہ صرف اسلام کی حفاظت کے لیے تھا۔ کچھ بادشاہ جو اسلامی احکام کی کھلم کھلا خلاف
ورزی کر رہے تھے اور ان کو معزول یا برطرف کیا جانا ضروری تھا، اسی وجہ سے کچھ صوفیاء
سیاست میں شامل ہوئے۔ نیز تصوف یقیناً اسلامی تصور احسان سے ماخوذ ہے۔ اس کا تقاضا
ہے کہ ایک مومن کو ہمیشہ رضائے الٰہی کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے۔ احسان کی اعلیٰ ترین
شکل نماز کے ذریعے حاصل کی جاتی ہے جہاں نماز پڑھنے والا مسلمان یہ محسوس کرتا ہے کہ
وہ خدا کو دیکھ رہا ہے اور خدا اسے۔ لیکن اگر یہ کیفیت حاصل نہ ہو تو یہ ذہن میں رکھنا
چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اسے ضرور دیکھ رہا ہے۔ لہٰذا خدا کی یہ ہمہ گیر نظر یقینی طور
پر صوفی کے اندر خدا کے بارے میں یہ شعور فراہم کرتی ہے کہ وہ ہماری تمام سرگرمیوں
پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ اس ہمہ گیریت کو مسلسل ذکر کے ذریعے تقویت ملتی ہے۔ اسلام کا
روحانی پہلو تصوف کے ذریعے بہترین طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
صدیوں کے دوران، تصوف نے بہت سے
مقامی معمولات کی بنیاد رکھی، کچھ اسلام سے ماخوذ اور کچھ مقامی روایات اور دیگر مذاہب
کے اثر سے متاثر تھے۔ اپنے بہت سے نظریات کی وجہ سے تصوف اسلام کے متوازی نظر آتا ہے۔
اسلام کو تشدد پسند اور تصوف کو امن پسند کے طور پر بنایا گیا تھا۔ مزید یہ کہ ان دونوں
کو عوامی اور ثقافتی سطح پر یک جہتی انداز میں پیش کیا گیا۔ اگرچہ تصوف کے مختلف پہلو،
مکاتب فکر اور فلسفے ہیں اور کچھ تو متشدد بھی ہیں، لیکن چونکہ صوفی بھی علماء تھے
اس لیے وہ مختلف احکام کی باریکیوں اور پیچیدگیوں کو سمجھتے تھے۔ صدیوں کے دوران، تصوف
نے اپنی سیاست تیار کی جس سے ان کے ناقدین کو اختلاف کا موقع مل گیا۔ مختلف متشدد ریاستوں
کی طرف سے تصوف اور صوفیوں کی سرپرستی نے عام لوگوں کی نظروں میں تصوف کی شبیہ کو داغدار
کیا۔ نیز مجرمانہ اور بدعنوان ماضی کے حامل مختلف لوگوں نے تصوف کے لبادے میں اپنی
برائیوں کو چھپانے کے لیے تصوف کا سہارا لینا شروع کر دیا۔ اس لیے تصوف کو اسلام کی
طرح مشتبہ قرار دیا گیا کیونکہ یہی مسلمانوں کے طرز عمل میں جھلکتا ہے۔ اگر مسلمان
بدعنوانی، تشدد، دہشت گردی اور ذات پرستی میں ملوث ہیں تو یقیناً غیر مسلم اور بہت
سے مسلمان بھی اسے اسلام ہی مانیں گے، جسے صرف مسلمانوں کے لیے نہیں ذمہ دار ٹھہرایا
جائے گا، خاص طور پر اگر وہ اسلام کے نام پر یہ سب کچھ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ تصوف
کا بھی یہی حال ہے۔
تصوف کے بارے میں علمی اصطلاحات
کا شکار ہوئے بغیر، بہت سے ایسے پہلوؤں پر جو مسائل پیدا کرنے والے اور غیر اسلامی
ہیں، تصوف کے حوالے سے بہت کم ان پر بات اور تنقید کی گئی ہے۔ ایک حقیقت یہ ہے کہ شیعوں
کی طرح صوفی بھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے نصب کو جوڑنے میں بڑا فخر محسوس
کرتے ہیں۔ ان کے خاندانی شجرے زیادہ تر نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچتے ہیں۔ حالانکہ
قرآن نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اولاد ہونے کی اس بحث کو یہ کہہ کر ختم کر دیا ہے
کہ اپ کسی مرد کے باپ نہیں ہیں (القرآن 33:40)۔ لیکن صوفی حضرات ایسے رشتے بڑے فخریہ
انداز میں پیش کرتے ہیں، جب کہ ایک مخصوص خاندان سے تعلق رکھنا جنت کا ٹکٹ نہیں ہے۔
ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اپنی نجات کے لیے کوشش کرے۔ ورنہ یہ عہد نبوی کے یہودیوں
اور عیسائیوں کی پیروی ہو جائے گی جو یہ مانتے تھے کہ ہم جنت کے وارث ہیں (القرآن
5:18)۔ پس خاندانی نسب پر فخر کرنا اور اس پر اترانا خدا کی نظر میں قابل نفرت ہے۔
خدا ہر چیز کو معاف کرتا ہے لیکن تکبر کو معاف نہیں کرتا۔ پس جس شخص کے دل میں رائی
کے دانے کے برابر بھی غرور ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ لہٰذا صوفیوں کو اس کوتاہی
کا خیال رکھنا چاہیے۔
ہندوستان میں بھی مولانا ابوالحسن
علی ندوی (علی میاں) جیسے صوفیاء اور علماء نے ہندوستان میں تحریک آزادی کے بانی سید
احمد شہید کے خاندان سے تعلق رکھنے کا دعویٰ کرنے میں فخر محسوس کیا۔ علی میاں کی سید
احمد شہید کی سوانح عمری اور ان کی اپنی سوانح عمری سے جو کہ متعدد جلدوں میں ہے، یہ
واضح ہوتا ہے کہ انہیں سید احمد شہید کے خاندان کی اولاد ہونے پر فخر تھا، حالانکہ
کچھ لوگوں کی نظر میں حقیقت یہ نہیں تھا اور یہ صرف علی میاں کا دعویٰ تھا۔
اس کے علاوہ ہمارے ہاں صوفی مرشد
یا پیر کا ایک جابرانہ رویہ بھی ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ لوگ ہمارے شاگرد بنیں نہ کہ
طالب علم، مرید بنیں نہ کہ مسلمان۔ مریدوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پیر کی اندھی
تقلید کریں، اور کوئی سوال نہ کریں، جیساکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا
تھا جب وہ خضر علیہ السلام سے ملے تھے۔ اس اندھی تقلید کی اسلام میں کوئی بنیاد نہیں
ہے، حتیٰ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی اندھی پیروی مسلمانوں کی پہلی نسل
نے نہیں کی تھی جنہیں صحابی رسول کے نام سے جانا جاتا ہے۔ زیادہ تر صوفی سلسلوں میں
خدا کی جگہ پیر کے سامنے خود سپردگی کی جاتی ہے۔ نیز ان سے سوال کرنا بھی قابل نفرت
ہے، کیونکہ انہیں علم اور روحانی صلاحیتوں کا مجسم تصور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا جو کوئی
سوال کرنے کی جرات کرتا ہے، اسے باہر کردیا جاتا ہے اور مزید تربیت کے لیے نااہل تک
قرار دیا جاتا ہے۔
روحانی بدعنوانی کے ساتھ ساتھ،
صوفی سلسلے میں لڑکوں، لڑکیوں اور عورتوں کے ساتھ جسمانی یا جنسی زیادتی بھی ہو سکتی
ہے۔ بہت سے صوفی سلسلوں نے شخصیت پرستی کو پیچھے چھوڑ دیا ہے، لہذا مرید ایک ادارہ
جاتی انداز میں کام کرتے ہیں۔ وہ آپس میں شادیاں کرتے ہیں اور مختلف منصوبوں میں شامل
ہیں۔ طاقت، شہرت اور پیسے کے زور پر صوفی فرقوں کے جنسی استحصال کی خبروں کو دبا دیا
جاتا ہے۔ اگر کوئی بولنے کی جرات کرتا ہے تو اسے باہر پھینک دیا جاتا ہے اور یہاں تک
کہ مرتد بھی قرار دیا جاتا ہے۔
چند سال پہلے ایک حقیر مجرم نے
تصوف کا لباس زیب تن کیا، ایک فرقہ شروع کیا اور کشمیری عوام اس کا احترام کرتے تھے
اور خاص طور پر وادی کشمیر کے صوفی اور رشی کی درگاہوں پر اس کے خطابات میں شرکت کرتے
تھے۔ وہ اپنے پیروکاروں میں گلزار پیر کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بعد میں یہ بات سامنے
آئی کہ گلزار پیر اپنی طالبات اور شاگردوں کے جنسی استحصال میں ملوث تھے۔ جب اس جنسی
استحصال کا اسکینڈل سامنے آیا تو اسے گرفتار کر لیا گیا اور بعد میں رہا کر دیا گیا
کیونکہ گواہ اس کے خلاف مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ اب وہ خطبہ دینے کے کاروبار
میں واپس آ گیا ہے اور لوگ اس کی پیروی کرتے اور اسے سنتے ہیں۔ چنانچہ گلزار پیر کا
کیس اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ صوفی فرقہ بھی دوسرے مسلک کی طرح اندھے جذبات اور اندھی
تقلید پر چلایا جاتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے پیروکاروں کو گونگا، بہرا اور اندھا رکھنا
چاہتے ہیں۔
عشق کی بنیاد پر تصوف کی تعمیر
کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ مختلف سلاسل سے تعلق رکھنے والے پیروں کے درمیان
آپس کی لڑائیاں ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ کئی دہائیوں تک دوسروں سے بات نہ کریں اور ایک
دوسرے کی تکفیر بھی کریں۔ پھر مریدوں میں نفرت پھیل جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے سے نفرت
کرتے ہیں۔ پیروں اور مرشدوں کا جھگڑا اتنا ہی سچا ہے جتنا کہ ملاوں اور مولویوں کا۔
یہ بھی تصوف کا ایک ایسا پہلو ہے جسے نظر انداز کیا گیا ہے۔ پس یہ یقینی طور پر اس
حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ مرشد جو مریدوں کا تزکیہ نفس کرنے کا دعویٰ کرتا ہے
وہ خود تزکیہ کا محتاج ہے تاکہ غصہ، لالچ اور تکفیر جیسی برائیوں پر قابو پا سکے۔ میں
ایسے صوفی فرقوں کے درمیان جھگڑے کو جانتا ہوں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سب
سے بڑا مانتے ہیں اور دوسرے وہ جو اویس قرنی رضی اللہ عنہ کو اللہ کا سب سے بڑا عاشق
مانتے ہیں، ان کے قد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔
لہذا اگلی بار جب کوئی تصوف کو
اسلام کے متوازی کسی چیز کے طور پر پیش کرٹ کی کوشش کرے تو رک جائیں اور ہوش کے ناخن
لیں۔ اس مضمون کا مقصد تصوف کے کردار اور کارنامے کو گھٹانا نہیں ہے کیونکہ تصوف نے
اسلام کو پھیلانے، مسلمانوں کو خدا سے جوڑنے، انسانوں کو ایک دوسرے سے محبت کرنے کی
تعلیم دینے اور معاشروں کو بہتر بنانے میں بے حد مدد کی ہے۔ لیکن تصوف کے اندر پیدا
ہونے والے ان تاریک پہلوؤں کی بھی نشاندہی کرنے کی ضرورت ہے اور یہی اس مضمون کا مقصد
ہے۔
English
Article: The Spiritual Abuse among Sufis
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism