شاد سلیم فاروقی
25 جولائی 2016
مذہبی اختلافات کی وجہ سےایک دوسرے کے درمیان باہمی نزاع یا جارحیت پسندی کا کوئی واقعہ رونماں نہیں ہوناچاہیے۔ بلکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو نیکی کرنے اور برائی کا سد باب کرنے میں تعاون کرنا چاہئے۔
یہایک افسوسناک حقیقت ہےکہ دنیا بھر میںمذہب پر عمل پیرا بہت سے لوگ اس غلط عقیدے کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ اپنے دین کے ساتھ سچی عقیدتاور وفادری اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ دیگر مذاہب کے پیروکاروں کے لئے نفرت و عداوت کا رویہ اختیار کیا جائے۔
تمام مذہب کےانتہاپسندوں کا یہ ماننا ہے کہ صرف ان کا مذہب ہی سچا راستہ ہے اور یہ کہ خدا اور نجات کے اوپر صرف ان کی اجارہ داری ہے اور ان کے علاوہ باقی تمام لوگوں پر ابد الآباد کے لیے لعنت ہے۔
جبکہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ حق کے بہت سے راستے ہیں۔ ایک خاص طریقےسے خدا کی عبادت ایسے دوسرے لوگوں سے نفرت و عداوت کا تقاضہ نہیں کرتی جو ایک مختلف انداز میں خدا سے محبت کرتے ہیں یا بالکل ہی خدا کی معرفت نہیں رکھتے۔
مذہب کی خصوصیت،جو تمہارے پاس ہے اور جو دوسروں کے پاس نہیں ہے اس کی وجہ سے دوسروں پر برتری کا احساس نہیں ہے۔مذہب کا کردار "دوسروں" کے تشدد اور ظلم و جبر نہیں ہے۔
مذہب کی خصوصیت اس بات کو تسلیم کرنا ہے کہ خدا کی محبت اور اس کی وفاداری تمام انسانیت کے تئیں رحم دلی اور محبت و رحمت میں عیاں ہے۔
ایک سچے مذہبی شخص کو نفرت، بداخلاقی اور تعصب سے کنارہ کش ہوناضروری ہے۔ کم سے کم یہ اسلام کا وہ پیغام ہے جو ہم تک پہنچایا گیا ہے۔
مذہبی رواداری:
بے شمار آیتوں میں قرآن مجید مذہبی کثیریت کو تسلیم کرتا ہے۔ مثلاً 2:256میں قرآن کا فرمان ہے: "دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ اور 109:6 میں ایک شاندار آیت ہے: "تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے"۔
11:118 میں قرآن کا یہ اعلان ہے: "اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک ہی امت بنا دیتا (مگر اس نے جبراً ایسا نہ کیا بلکہ سب کو مذہب کے اختیار کرنے میں آزادی دی) اور (اب) یہ لوگ ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے"۔
10:99 میں یہ نصیحت موجود ہے کہ: "اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے "۔ اور 18:29 میںیہ حکم موجود ہے:" پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کردے۔ "
"پس اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن اس معاملے میں (خود ہی) فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہتے ہیں" (2:113)۔
عبادت گاہیں
تمام عبادت گاہیں مقدس ہیں اور ان کا دفاع ضروری ہے۔22:40 میں خانقاہوں، گرجا گھروں، یہودی عبادت گاہوں اور مساجد کا ذکر اس طرح ہے: "جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے " ۔
دوسرے مذاہب کا احترام
اسلامی تہذیب گزشتہ مذاہب کے تئیں معاندانہ نہیں ہے۔ تمام آسمانی مذاہب کے انبیاءکو رشتہ اخوت کے ساتھ یاد کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو ان سب پر ایمان لانا ضروری ہے۔
’’اور ہر امت کے لئے ایک رسول آتا رہا ہے‘‘(10:47) ۔
"اے حبیب!) جو آپ سے کہی جاتی ہیں (یہ) وہی باتیں ہیں جو آپ سے پہلے رسولوں سے کہی جا چکی ہیں" (41:43)۔2:136میں اللہ نے فرمایا: "ہم اللہ پر ایمان لائے اور اس (کتاب) پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور اس پر (بھی) جو ابراہیم اور اسماعیل اور اسحٰق اور یعقوب (علیھم السلام) اور ان کی اولاد کی طرف اتاری گئی اور ان (کتابوں) پر بھی جو موسیٰ اور عیسیٰ (علیھما السلام) کو عطا کی گئیں اور (اسی طرح) جو دوسرے انبیاء (علیھم السلام) کو ان کے رب کی طرف سے عطا کی گئیں، ہم ان میں سے کسی ایک (پر بھی ایمان) میں فرق نہیں کرتے، اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں۔ "
عبرانی انبیاء اور حضرت عیسیٰ مسیح کا احترام مسلمان دل کی گہرائیوں سے کرتے ہیں۔ عبرانی نبیوں کی قبروں کو مسلمانعزت و احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ کنواری پاک مریم کو قرآن میں ایک بلند روحانی مرتبہ عطا کیا گیا ہے:اور ایک مکمل سورت ان کے نام سے منسوب ہے۔
تمام عیسائیوں اور یہودیوںکو اہل کتاب کا خصوصی درجہ دیاگیا ہے۔ اسلام کے بعض مکاتب فکر میں عیسائی اور یہودی عورتوں کے ساتھ ان کا مذہب تبدیل کیے بغیر شادی جائز ہے۔
پرامن بقائے باہمی
اسلامی تاریخ میں،تمام مذہبی اور چرچ کے معاملات کے حوالے سے گرجا گھروں کے پادریوں کوان کی قوم پر مکمل اختیارعطا کیا گیا تھا۔جب مسلمانوں نے مصر فتح کیا تو انہوں نےقبطی گرجا گھروں کو مصری باشندوں کو واپس دیا اور ان کے حقوق کو بحال کر دیا۔
اسلام کے ابتدائی دور میں مسلمانوں اور عیسائیوں نے اکثر کئی گرجا گھروں میں بیک وقت ایک ساتھ نماز ادا کی ہے، مثال کے طور پر دمشق میں سینٹ جان کا گرجاگھر۔ اسی طرح حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں مسجد نبوی کے اندرنجران کے عیسائیوںکو نماز ادا کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے توں سب سے پہلے جس مسئلہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمٹے وہ یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ قائم کرنا تھا جس کے مطابقان کے معتقدات کا احترام کرنا اور انہیں نقصان سے بچانا ریاست کی ذمہ داری تھی۔ طور سینا میں سینٹ کیتھرین کے راہبوں کے نام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام مذہبی رواداری کی ایک روشن مثال ہے۔
تہذیبی فریضہ:
مصطفیٰ السباعی نے اپنی کتاب (Civilisation of Faith) میں لکھا ہے کہ قرآن مسلمانوں پر تمام انبیاء اور اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لانے اور ادب و احترام کے ساتھ ان کا نام لینے، ان کے پیروکاروں کے ساتھ بد سلوکی نہ کرنے، ان کے ساتھ اچھے اور نرم انداز میں پیش آنے،ان کے ساتھ حسن کلام کرنے، ان کے لیے اچھا پڑوسی بننے اور ان کی مہمان نوازی کو قبول کرنے کا حکم دیا ہے۔
"اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو ۔" (29:46)۔ "اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے " (6:108)۔
دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ تعاون کرنا اور ان کے ساتھ خوش اخلاقی سے پیش آنا مستحسن ہے (5:5، 6:108)۔غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا دورہ کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔اس کا انحصار دورے کے مقصد پر ہے۔اگر اس کا مقصد نیک ہے، یا علم حاصل کرنا ہے یا خیر سگالی کے لیے گفت و شنیدکرنا ہے تو ان کی عبادت گاہوں میں جانے پر کوئی مذہبی پابندی نہیں ہے۔ اللہ ہر جگہ ہے، اور قرآن میں واضح طور پر یہ بیان موجود ہے کہ "ساری زمین ایک مسجد ہے"۔
مذہبی اختلافات کی وجہ سےایک دوسرے کے درمیان باہمی نزاع یا جارحیت پسندی کا کوئی واقعہ رونماں نہیں ہوناچاہیے۔ بلکہ مختلف مذاہب کے لوگوں کو نیکی کرنے اور برائیکا سد باب کرنے میں تعاون کرنا چاہئے۔
ماخذ:
thestar.com.my/opinion/columnists/reflecting-on-the-law/2012/04/18/speaking-up-for-religious-tolerance/
URL for English article: https://newageislam.com/islam-pluralism/speaking-up-religious-tolerance/d/108068
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/speaking-up-religious-tolerance-/d/108147