New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 05:24 PM

Urdu Section ( 27 Sept 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Importance of Thinking in the Qur'an قرآن میں غور وفکر کی اہمیت

By Sohail Arshad, NewAgeIslam.com

There is food for thought for men of vision and intellect in the universe that leads them to the divine truth. The more man thinks over the material aspects of the world and nature the more he realises the impermanence of the world and he rises above materialism. The ruin and tragic end of bygone nations strengthens his belief in God and he seeks refuge in Him. And to get His protection, he strives to become spiritually pure by renouncing animal instincts and baser elements of his personality like covetousness, greed, selfishness, cruelty, arrogance, ingratitude etc.

In fact, historical and scientific thought only promotes spiritualism in man. History develops accountability in him whereas scientific thought further strengthens his belief in the greatness and permanence of God. Therefore, the dimensions of Quranic thought train human consciousness in such a way that they succeed both in this world and in the Hereafter. That’s why it is called ‘umm-il-kitab’ (mother of all books).

Sohail Arshad is a regular columnist for New AgeIslam.com.

URL for English article:https://www.newageislam.com/islamic-ideology/importance-of-observation-in-the-quran--god-wants-to-see-muslims-as-a-thinking-community/d/5440


قرآن میں غور وفکر کی اہمیت

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام ڈاٹ کام

کسی مفکر نے کہا ہے کہ انسان ایک سماجی حیوان ہے۔ اسے حیوان ناطق بھی کہاگیا ہے۔ اور انسانی تاریخ انسانوں کے اسی حیوانت سے خود کواوپر اٹھا کر اشرف المخلوقات کے رفع واعلیٰ درجے پر فائز کرنے کی کوششوں کی ہی ایک دستاویز ہے۔

انسان اپنی اسی حیوانیت کی وجہ سے خدا کے دربار سے ذلیل و خوار ہوکر نکالا گیا مگر اپنے اس انجام بد سے دل شکستہ ہوکر بیٹھا نہیں رہا بلکہ اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرنے کی کوششوں میں لگ گیا۔ اس سے اپنی غلطیوں کی اصلاح کیے ، اپنی شخصیت کو سجایا سنوارا اور اپنے شعورو فکر کی اتنی عمدہ تربیت کی کہ خدا نے اسے معراج عطا کی اور  اپنے حضور بلا کر اسے فرشتوں سے بھی بلند مقام پر سرفراز کیا۔

انسان کے اس کامیاب سفر کے دوران جو سرمایا اس کے کام آیا وہ تھا متاع غور فکر ۔ خدانے انسان کو جانوروں سے جس چیز سے ممتیز کیا وہ تھی عقل و شعور جس کی مسلسل تربیت کے لئے خدا نے انہیں کے درمیان اپنے خاص قاصد یعنی پیغمبر بھیجے ۔ اس پیغمبروں نے انہیں انفرادی اور اجتماعی زندگی کے اصول سکھائے ،انہیں بھلے اور برے کی پہچان بتائی انہیں زندگی کے مقصد سے آگاہ کیا، موت کی حقیقت سے آگاہی عطا کی ، اسرار قائنات پر سے پردہ اٹھایا اور انہیں اپنی ذات کا عرفان عطا کیا۔

قرآن جو خزینہ علم اور سرچشمہ حکمت ہے انسانوں کو پکار پکار کر غور وفکر کی تلقین کرتا ہے، کیو نکہ غور وفکر ہی اس کی کامیابی کی کنجی ہے۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی

یہ خاکی اپنی  فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

اور عمل کو سمت اور منزل غور وفکر سے ہی ملتی ہے۔قرآن صرف احکام خدا وندی کا مجموعہ نہیں ہے ۔ یہ صرف گناہ وثواب اور جرم وسزا کی کتاب بھی ہیں بلکہ یہ تاریخ ،سائنس اور روحانیت کا ایک متوازن مرقع ہے جس کا بغور مطالعہ انسان پر حکمت اور معرفت کے دروازے کھول دیتا ہے اور جس کے ذریعے سے انسان دنیا اور آخرت دونوں جگہوں میں کامیابی اور سرخروئی حاصل کرتا ہے۔

یہ کائنات خدا کی کاریگر ی کا ایک ادنیٰ نمونہ ہے۔ اس کی قدرت کے آگے یہ زمین وآسمان کچھ بھی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ قیامت کے دن یہ زمین اس کی ایک مٹھی میں ہوگی اور یہ وسیع وعریض اور پراسرار آسمان کے داہنے ہاتھ میں ایسے لپٹا ہوا ہوگا جیسے طومار میں کاغذ اور زمین ساری ایک مٹھی  میں ہے اس کی دن قیامت کے اور آسمان لپٹے ہوئے ہوں اس کے داہنے ہاتھ میں ’ (الزمر: 67)

مگر اس کا ئنات کے مظاہر، مناظر اور جزائے فطرت میں انسانوں کے لئے حکمت عملی اور ہدایت پوشیدہ ہے اور قوموں کے عروج وزوال میں اس کے لئے درس عبرت ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ انسان قرآن کی تاریخی ،سائنسی اور روحانی جہات پر غور وفکر رکے۔

قرآن نے جس طرح اپنے ماننے والوں کو بار بار نماز قائم کرنے اور شرک سےبچنے کی تلقین کی ہے اسی طرح وہ مسلمانوں کو بار بار غور وفکر کی دعوت دیتا ہے ۔قرآن میں متعدد ایسی آیتیں ہیں جن مسلمانوں کو غور وفکر سے کام لینے کی تلقین کی گئی ہے۔گویا قرآن مسلمانوں کو غور وفکر کرنے اور سائنسی مزاج رکھنے والی قوم کی حیثیت سے دیکھنا چاہتاہے ۔ اس کے نزدیک ایک مسلمانوں  غور وفکر سے عاری ہوہی نہیں سکتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک مسلمانوں کے اجزائے ترکیبی میں غور وفکر بھی شامل ہے۔ قرآن مسلمانوں سے یہ تقاضہ کرتا ہے کہ وہ سائنٹفک مزاج پیدا کریں اور اس کائنات میں موجود تمام چیزوں کو سائنسی نقطہ نگاہ سے دیکھیں ،ان پر غور وفکر یعنی ریسرچ کریں اور اس طرح سے ان کے وسیلے سے خدا کی وحدانیت کا عرفان حاصل کرنے کے ساتھ وہی نظم وضبط اور آہنگ اپنی ذات میں اتاریں جو خدا کی تخلیق کردہ کائنات میں ہے۔ لہٰذا ذیل میں قرآن کی تینوں فکری جہات کا ایک مختصر مطالعہ پیش ہے۔

(1)قرآن کی تاریخی جہت: سماج انسان سے ہے ۔بغیر انسان کے سماج کو تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔ روئے زمین پر آدمؑ اور حواؑ اولین انسان تھے اور ان دونوں پر مبنی سماج ہی دنیا کااولین سماج تھا ۔ ان کی نس سےکنبے ،ذاتیں ،قبیلے اور قومیں پیدا ہوئیں ۔ قرآن ان قوموں کے عروج وزاول کے قصے بیان کرتا ہے تاکہ آنے والی قومیں ان کی خصوصیات اور کارناموں سے اکتسا ب فیض کریں اور ان کی خرابیوں ،کمزوریوں اور گناہوں کے نتیجے میں ان کے درد ناک انجام سے عبرت حاصل کریں۔ لہٰذا قرآن فرد کی بجائے قوموں کی اجتماعی تاریخ رقم کرتا ہے کیو نکہ قرآن کی نظر میں قومیں انسانی تہذیب وتاریخ کی اکائی ہیں۔ دنیا میں بھی قوموں کا فیصلہ اجتماعی اعمال پریعنی ان میں سے اکثر یت کے افعال و اعمال کی بنا پر کیا گیا ہے اور قیامت کے دن بھی ہر قوم کو اس کے سردار (پیغمبر ) کے ساتھ حساب کے لئے بلایا جائے گا۔

خدانے دنیا میں بے شمار قومیں تسلسل کے ساتھ بھیجیں اور ہر قوم کی ایک عمر مقرر کی جس طرح ہر انسان کی عمر مقرر کی۔

‘ ہر فرقے کے واسطے ایک وعدہ (میعاد) ہے۔ پھر جب آپہنچے گا ان کا وعدہ نہ پیچھے سرک سکیں گے ایک گھڑی اور نہ آگے سرک سکیں گے۔’ (الاعراف:34)

اسی طے شدہ میعاد کے اندر اس قوم کو اپنی سماجی ذمہ داری اجتماعی طور پر نبھانی ہوتی ہے اور اس قوم کی اکثریت کی کار کردگی پرپوری قوم کی تقدیرکا فیصلہ ہوتا ہے۔ اور پھر اس قوم کا انجام بعد میں آنے والی قوموں کے لئے تازیانہ عبرت ہوتا ہے۔ قرآن کئی قوموں کے طاقت ،دولت اور مادّی خوش حالی پر غور اور ناشکری اور اخلاقی و تہذیبی اقدار کے اجتماعی زوال کے نتیجے میں ان کی تباہی و بربادی کی روداد بیان کرتا ہے تاکہ آنے والی قومیں غور فکر کریں اور ان کے عبرت حاصل کریں۔ قوم نوح ،قوم عاد، قوم نمود، قوم لوط ، قوم مدین اور قوم سبا چند ایسی قومیں ہیں جنہیں اللہ نے ان کے تکبر ،نافرمانی ، ناشکری ، جنسی بے راہ روی اور بدعنوانی کی پاداش میں ہلاک کردیا۔ قرآن انسانوں سے کہتا ہے کہ وہ ان قوموں کے عبرت ناک انجام پر غور وفکر کیں ،ان کے کھنڈروں اور باقیات کی سیر کریں اور اپنے مستقبل کی فکر کریں۔

‘ کیا انہوں نے سیر نہیں کی ملک کی جو دیکھیں انجام کیسا ہوا ان کے سے پہلو ں کا ان سے زیادہ تھے زور میں اور جوتا انہوں نے زمین کو اور بسایا ان کو ان کے بسانے سے زیادہ اور پہنچے ان کے پاس رسول ان کے لیکر کھلے حکم ۔سوا اللہ نہ تھا ان پر ظلم کرنے والا، لیکن وہ آپ اپنا برا کرتے تھے۔’ (الزوم:9)

‘تو کہہ پھرو ملک میں تو دیکھو کیسا ہواانجام پہلو ں کا بہت ان میں تھے شرک کرنے والے ، (الزوم:42)

‘تو کہہ دے پھر وملک میں تو دیکھو کیسا ہوا انجام گنہ گاروں کا ’ (النحل :69)

‘تم سے پہلے ہوچکے ہیں واقعات سے سوپھر وزمین میں اور دیکھو کہ کیا انجام ہوا جھٹلا نے والو کا’ (آل عمران: 137)

لہٰذا تاریخ انسانوں کو یہ احساس دلاتا ہے کہ پچھلی قومیں جو ان سے زیادہ طاقتور ،خوش حال اور ہنر مند تھیں اپنے تکبرّ ،نافرمانی ،ناشکری اور اخلاقی ومعاشی برائیوں کے  پاداش میں تباہ وبرباد ہوگئیں تو پھر انہیں بھی خدا کے قہر وغضب سے بچتے رہنا چاہئے۔ اس طرح قرآن مسلمانوں کو تاریخ کا ایک تعمیری مقصد پیش کرتا ہے جس کی روسے گزشتہ قوموں کی رواداد تفریح طبع کے لئے نہیں بلکہ قوموں کی کردار سازی کےلئے پیش کرتا ہے۔

(2) سائنسی جہت: قرآن کریم کے بغور مطالعہ سے یہ متھااوندھے منھ گرجاتا ہے کہ اسلام اور سائنس ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ سائنس کا مطالعہ دراصل معرفت الہٰی کا ذریعہ ہے۔ قرآن میں متعدد آیات ایسی ہیں جو سائنسی حقائق بیان کرتی ہیں ۔ قرآن میں مختلف مقامات پر Embryology (علم جنین)،Physisc(علم طبعیات)، )Geologyارضیات،)Astronomy (فلکیات)وغیرہ موضوعات پر بیان ملتے ہیں جن کی تصدیق جدید سائنسی علوم بھی  کرتے ہیں ۔ ان سائنسی حقائق کے بیان کا مقصد انسانوں کو خدا کی قدرت اور عظمت کا احساس دلانا ہی نہیں ہے بلکہ مسلمانوں میں سائنسی طرز فکر کو فروغ دینا اور ان کے متجسس ذہن کو تحقیق وجستجو کی سمت مہمیز کرنا ہے۔ کیو نکہ انسان جس قدر کائنات میں موجود چیزوں کی تہہ میں اترنے اور سائنسی عجائبات کی حقیقت جاننے کی کوشش کرے گا اسی قدر وہ خدا کی عظمت وقدرت کاعرفان حاصل کرتا چلا جائے گا۔ نیز اس کائنات میں جو ڈسپلن ،جو پرفکشن اور جو نظم وضبط ہے اسے اپنی زندگی میں بھی لانے کی کوشش کرے گا ،کیونکہ خدا کہتا ہے کہ اس نے اس کائنات کو بلاوجہ اور بے مقصد نہیں بنا یا ہے ۔قرآن کہتا ہے :

‘اور جو ہم نے بنایا آسمان اور زمین اور جو ان کے بیچ میں ہے کھیل نہیں بنایا ،ان کو تو بنایا ہم نے ٹھیک کام پر ، بہت سے لوگ نہیں سمجھتے ۔( الذ خان: 39۔38)۔

ایک دوسری آیت میں چاند اور سورج کی تخلیق سے متعلق کہتا ہے:

وہی جس نے بنایا سورج کو ضیا اور چاند کو نور اور مقررکین اس کے لئے منزلیں تاکہ پہچانو گنتی برسوں کی اور حساب ۔یوں ہی نہیں بنایا اللہ نے یہ سب مگر تدبیر سے ۔ظاہر کرتا ہے نشانیاں ان لوگوں کے لئے جن کو سمجھ ہے۔’ (یونس :5)

‘اور سورج چلاجاتا ہے اپنے ٹھہرے ہوئے رستے پر سادھا ہے اس زبردست باخبر نے ۔ اور چاند کو ہم نے بانٹ دی ہیں منزلیں یہا ں تک کہ پھر آرہا جیسے ٹہنی پرانی ۔نہ سورج سے ہو کہ پکڑ لے چاند کو اور نہ رات آگے بڑھے دن سے اور ہر کوئی ایک چکر میں پھرتے ہیں۔’(یونس :40۔38)۔

‘سورج کا ٹھہرے ہوئے رستے پر چلاجانا ، سے مراد یہ ہے کہ سورج تو اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے مگر زمین کی گردش کی وجہ سے سورج کے چلنے کا Illusion پیدا ہوتا ہے۔ ہر کوئی ایک چکر میں پھرتے ہیں، سے مراد سیاروں کا اپنے مدار میں پھرنا۔

مندرجہ بالا آیا توں کے مطالعہ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ خدانے اس کائنات کی بڑی تدبیر سے ایک خاص مقصد کے تحت بنایا ۔ پوری کائنات میں اس کی تخلیق کی کرشمہ سازی جلوہ گر ہے اور کہیں بھی کوئی خامی یا کمی نظر نہیں آتی ۔ ہر چیز ایک دوسرے سے مربوط ہے اور پوری کائنات میں ایک ربط وتوازن قائم ہے۔ خدا انسان کو چیلنج کرتا ہے کہ وہ اس کی تخلیق کردہ کائنات میں کوئی کمی یا خامی دکھادے۔

‘اور وہ زبردست ہے، بخشنے والا جس نے بنائے سات آسمان تہہ پر تہہ کیا دیکھتا ہے تو رحمٰن کے بنانے میں کچھ فرق؟ پھر دوبارہ نگاہ کر ، کہیں تجھ کو نظر آتی ہے دراڑ ؟ پھر لوٹا کرنگاہ کردو دوبار ،لوٹ آئیگی تیرے پاس تیری نگاہ تھک کرردّ کر۔’ (الملک :4۔2)

لہٰذا اتنی وسیع اور اتھاہ کائنات کا ہر جز وجو ایک جگہ ساکت نہیں بلکہ تیز رفتاری سے رواں دواں ہے بغیر کسی سائنسی اصول کے ربط و توازن کے ساتھ متحرک نہیں رہ سکتا اور اس کائنات کی خالق ومالک زبردست سائنسی علم وحکمت والی ذات ہی ہوسکتی ہے ۔ اس لئے خدا مسلمانوں کو بھی قرآن کے ذریعہ سائنسی علوم حاصل کرنے کی ترغیب دیتا ہے، کیو نکہ سائنس وٹکنالوجی پر دسترس کی بدولت ہی مسلمان صحیح معنوں میں مادّی اور روحانی ترقی حاصل کرسکتے ہیں۔ لہٰذا قرآن میں خدا سائنس کی مختلف شاخوں کے علم کے ذریعہ انسانوں پر اپنی قدرت کے کرشمے ظاہر کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ انہیں غور وفکر اور تحقیق وجستجو کی دعوت بھی دیتا ہے ۔مثال کے طور پر سائنس کی ایک اہم شاخ Embryology ہے۔ زمانہ قدیم سے ہی انسانی ذہن انسانی پیدائش پر غور وفکر کرتا رہا ہے اور اپنی عقل اور قیاس کے مطابق رحم مادر میں جنیں کی تشکیل اور اس کےمختلف مراحل کے متعلق مختلف نظریات پیش کرتارہا ہے۔ ان میں سے ایک نظر یہ آج سے دوہزار سال قبل ارسطو نے پیش کیا جسے Epigenesis کہا جاتا ہے ۔ اس نظریہ کے ردّ میں جو نظر یہ پیش کیا گیا وہ Preformationکہلایا، جو انسان کی پیدائش سے متعلق بائبل کے نظریہ پرمبنی تھا۔لیکن اس سلسلے میں مفکرین اور سائنس داں کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ 19ویں صدی اور مائکرو اسکوپ کی ایجاد کے بعد  Embryology کی تحقیق میں نمایاں پیش رفت ہوئی اور جنین کی تشکیل اور اس کے مختلف مراحل سے متعلق قابل قبول معلومات فراہم ہوسکیں ۔مگر قرآن نے ساتویں صدی میں ہی انسان کی پیدائش کے مختلف مراحل کا بیان پیش کر دیا۔ اس سلسلے میں قرآن میں کئی جگہوں پر مختلف آیا ت موجود ہیں۔

‘اب دیکھ لے آدمی کا ہے سے بنا ہے ، بنا ہے ایک اچھلتے ہوئے پانی سے ۔ جو نکلتا ہے پیٹھ کے بیچ سے اور چھاتی کے بیچ سے ۔ (الطارق: 7۔5)

‘بنایا آدمی کو جمے ہوئے لہو سے ۔’ (العلق: 2)

‘ہم نے بنایا آدمی کو خوب سے انداز ے پر ۔ (النین: 4)

‘ہم نے بنایا آدمی کو ایک دورنگی بوند سے ۔’ (الدھر: 2)

‘اور ہم نے بنایا آدمی کو چنی ہوئی مٹی سے ، پھر ہم نے رکھا اس کو پانی کی بوند کر کے ایک جمے ہوئے ٹھکانے میں ۔ پھر بنایا اس بوند سے لہو جما ہوا ۔پھر بنائی اور لہو جمے ہوئے سے گوشت کی بوٹی، پھر بنائی اس گوشت سے ہڈیاں ،پھر پہنایا ان ہڈیوں پر گوشت ،پھر اٹھا کھڑا کیا اس کو ایک نئی صورت میں ۔’ (المومنون: 14۔12) ۔

یہ قرآن کا ہی اعجاز ہے کہ جس سائنسی حقیقت کی دریافت انسانوں نے 19ویں صدی میں کی اس کا بیان اس نے ساتویں صدی میں ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم امی کی زبان سے کروایا ۔

اس کے علاوہ اور اچھی کئی سائنسی موضوعات ہیں جن کے متعلق قرآن میں آیتیں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر پتھروں کے متعلق یہ آیت ملاحظہ فرمائیں:

اور پتھروں میں تو ایسے بھی ہیں جن سےجاری ہوتی ہیں نہریں اور ان میں ایسے بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور نکلتا ان سے پانی۔ اور ان میں ایسے بھی ہیں جو گرپڑتے ہیں اللہ کے ڈر سے۔( البقرہ :74)

جدید سائنس قرآن کے اس بیان کو تائید کرتا ہے کہ کچھ چٹانیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنے اندر پانی جزب کرلیتی ہیں اور ا ن کے ٹوٹنے پر پانی نکلتا ہے ۔ کچھ چٹانیں ایسی Porousہوتی ہیں کہ ان کے اندر پانی کا بہاؤ کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہتا ہے۔

یہ سب ایسے طبعی حقائق ہیں جو ایک طرف تو محیر العقول ہیں اور انسانوں کو غور وفکر پر اکساتے ہیں اور دوسری طرف خدا کی قدرت پر دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ وہ ہر چیز قادر ہے،وہ چاہے تو پتھر سے پانی جاری کردے او چاہے تو سبز درخت سے آگ کی چنگاری پیدا کردے۔ جیسا کہ قرآن میں آیا ہے:

‘جس نے بنادی تم کو سبز درخت سے آگ ،پھر اب تم اس سے سلگا تے ہو۔ (یٰسین:80)

خدا کی حکمت وقدرت کے نمونے دریاؤں اور سمندروں میں بھی دیکھنے کوملتے ہیں جہاں دریاؤں کے ملنے کی جگہ پر پانی کا رنگ اور ذائقہ الگ الگ ہوتا ہے ، اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دودریا ساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں ۔خدا کی اس کرشمہ سازی کا بیان قرآن اس طرح کرتا  ہے۔ اور وہی ہے جس نے ملے ہوئے چلائے دودریا ،یہ میٹھا ہے پیاس بجھانے والا اور وہ کھارا ہے کڑوا اور رکھا ان دونوں کے بیچ پردہ،آڑ روکی ہوئی۔(الفرقان:53)

‘چلائے دودریا مل کر چلنے والے ان دونوں میں ہے ایک پردہ جو ایک دوسرے پر زیادتی نہ کریں۔’ (الرحمٰن:20)

پانی سے متعلق قرآن کا بیان سائنسی سچائی سے خالی نہیں ہے۔ خدا کہتا ہے کہ تمام مخلوقات کو پانی سے پیدا کیا اور ابتدا میں تخلیق کائنات سے قبل صرف پانی کا وجود تھا اور خدا کا تخت پانی پرتھا۔

اور وہی ہے جس نے بنائے آسمان اور زمین چھ دن میں اور تھا اس کا تخت پانی پر۔، (ہود:7)

ایک دوسری آیت میں قرآن کہتا ہے:

اور اللہ نے بنایا ہر پھرنے والے کو ایک پانی سے پھر کوئی ہے کہ چلتا ہے دوپاؤں پر او رکوئی ہے کہ چلتا ہے چار پر ،بناتا ہے اللہ جو چاہتا ہے ،بیشک اللہ ہر چیز کرسکتا ہے۔(النور:45)

قرآن سےقبل بائبل نے بھی پانی کے متعلق کہا ہے:

‘زمین کی تخلیق پانی سے او رپانی کے ذریعہ کی گئی۔

اب سائنسی حقائق اور تحقیق کی روشنی میں قرآن کے اس بیان کا جائزہ لیں۔ علم بناتات (Botany) کے مطابق تمام جاندار چیزوں کی بنیاد پروٹو پلازم(Protoplasm)پر ہے اور پروٹو پلازم کی بقا کا دارومدار تمام تر پانی پر ہے۔ کیو نکہ پروٹو پلازم کا تقریباً 85فیصد حصہ پانی پر مبنی ہوتا ہے۔علم فلکیات کے مطابق تاروں کی پیدائش کے نتیجے میں پانی پیدا ہوتا ہے۔ ستاروں کی پیدائش کے ساتھ ہی ساتھ ان کے گرد گیس اور غبار کا تیز طوفان اٹھتا ہے ۔ جب گیس اور غبار کا یہ طوفان بیرونی فضا کے گیس سے ٹکر اتا ہے تو گیسوں کے دباؤ سے پانی وجود میں آتا ہے ۔ 22جولائی 2011کو شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق زمین سے تقریباً 12نوری سال کے فاصلے پر موجود ایک Quasorکے گرد بھاپ کےایک بہت ہی بڑے بادل کی دریافت کی گئی جس میں زمین پر موجود تمام سمندروں کے پانی ہے 140کھرب گنا زیادہ پانی ہے۔ ا س دریافت سے محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کا ئنات میں پانی ایک غالب قوت کے طور پر اس کی ابتدا ئی دور سے ہی موجود ہے۔

لہٰذا ان جدید سائنسی دریافتوں کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخز کیا جاسکتا ہے کہ زمین کا 70فیصد آبی حصہ دراصل کائنات میں ستاروں کی پیدائش کے نتیجے میں پیدا ہونے والے پانی کا ہی حصہ ہے،جسے آسمان سے اتارا گیا ہے۔

‘اور اسی نے اتارا آسمان سے پانی پھرنکالی اس سے ہم نے اس سے اگنے والی ہر چیز’ (لانعام: 99)

کچھ اور سائنسی حقائق کا بیان قرآن میں ہے، مثلاً

‘اور وہی ہے جس نے پھیلائی زمین اور رکھے اس میں بوجھ (پہاڑ) اور ندیاں اور ہرمیوے کے رکھے اس میں جوڑے دودوقسم ڈھانکتا ہے دن ہر رات کو ، اس میں نشانیاں ہیں ان کے واسطے جو کہ غور کرتے ہیں۔ (الرعد: 3)

قرآن کے مطابق ہر پھل (میوے) کے جوڑے ہوتے ہیں ،یعنی نر اور مادہ پھل ۔پودھوں میں عمل تولید پھولوں کے ذریعہ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھل وجود میں آتے ہیں ۔ اور یہ ایک سائنسی حقیقت ہے کہ کچھ پھل نر ہوتے ہیں او رکچھ مادہ۔ اس طرح یہاں بھی سائنس اور قرآن کے بیان میں کوئی تضاد نہیں ہے۔

لہٰذا قرآن بجا طور پر کہتا  ہے کہ زمین اور آسمان میں موجود تمام چیزوں میں غور وفکر کا سامان ہے اور جو لوگ عقل و شعور رکھتے ہیں ، وہ چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے خدا کی قدرت کا مشاہد ہ کرتے ہیں اور ان کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قرآن ایسے ہی لوگوں کے متعلق کہتا ہے:

‘بیشک آسمان او رزمین کا بنانا اور دن ورات کا آنا جانا ،اس میں نشانیاں ہیں عقل والوں کو وہ جویاد کرتے ہیں اللہ کو کھڑے اور بیٹھے اورکروٹ پرلیٹے اور فکر رکتے ہیں آسمان او رزمین کی پیدائش میں ۔ کہتے ہیں اے رب تو نے یہ عبث نہیں بنایا ،(آل عمران: 191)

خدا کی قدرت کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ زمین سے مختلف قسم کی کھیتیاں اگتی ہیں اور جبکہ ان کو پانی ایک قسم کا ہی دیا جاتا ہے۔ اس میں انسان کے لئے غور فکر کا سامان ہے۔

اور زمین میں کھیت ہیں مختلف ایک دوسرے سے متصل اور باغ ہیں انگور کے اور کھیتیاں ہیں او رکھجوریں ہیں ایک جڑ دوسرے سےملی ہوئی اور بعض میں ملی۔ ان کو پانی بھی ایک دیا جاتا ہے ۔اور ہم ہیں  کہ بڑھا دیتے  ہیں ان میں ایک کو ایک سے میوؤں میں ۔ ان چیزوں میں نشانیاں ہیں ان کو غور کرتے ہیں ۔(الرعد:3)

اسی طرح سے قرآن متعدد مقامات پر انسانوں کو زمین اور آسمان میں موجود تمام چیزوں کی حقیقت پر غور کرنے اور ان پر تحقیق کرنے کی تلقین کرتا ہے اور سائنسی نقطہ نظر سے مادّی چیزوں کا مشاہدہ کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جو لوگ کائنات میں موجود اشیا پر غور وفکر اور تحقیق کرتے ہیں خدا ان پر علم اور حکمت کےدروازے کھول دیتا ہے۔ اس میں مسلمان اور غیر مسلمان کی تخصیص نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانے میں مسلمانوں نے قرآن کو غور وفکر کی تعلیم کو اپنا یا تو مختلف سائنسی علو م مثلاً فلکیات ،ریاضیات، علم کیمیا ،علم ادویات وغیرہ میں قابل ذکر ترقی کی اور جب انہوں نے قرآن کی سائنسی جہت کونظر انداز کر کے صرف روحانیت پر توجہ صرف کی تو سائنس اور دیگر دنیاوی علوم میں پچھڑ گئے۔ دوسری طرف غیر مسلم قوموں نے قرآن کی اس سائنسی جہت پرعمل کرتے ہوئے فطرت پر غور وفکر کو اپنا شعار بنایا تو سائنسی حکمت کے دروازے ان پر کھل گئے اور انہوں نے نئی ایجادات ودریافتیں کیں۔ نیوٹن کو درخت سے سیب کے گرنے میں غور وفکر کا سامان نظر آیا اور نتیجے میں Laws of Gravity کی دریافت ہوئی ۔جیمس واٹ نے بھاپ کی طاقت پر غور وفکر کیا اور اس کی بنیاد پر جارج اسٹیفنس نےاسٹیم انجن ایجاد کی اور صنعتی ترقی کی بنیاد پر پڑی۔ کسی مسلمان کو پرندوں کی اڑان میں غیر معمولی بات نظر نہیں آئی مگر رائٹ براداران کی فکر  نے اس میں سائنسی اصول کی کارفرمائی دیکھی اور ہوائی جہاز کا ایجاد کرڈالا۔اس طرح سے غیر مسلم قوموں نے کائنات میں موجود جاندار او رغیر جاندار چیزوں پر غوروفکر اور تحقیق کی بدولت بے شمار دریافتیں اور ایجادات کیں اور یہ سلسلہ آج بھی قائم ہے، کیونکہ قرآن کے مطابق خدا نے علم وحکمت کے خزانے تمام نبی نوع انسان کے لئے کھول دئے ہیں ۔ اور  جو بھی قوم چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم خدا کی تخلیق کردہ کائنات پر غور وفکر اور ریسرچ کرے گی، خدا اس کو اس قدر دانی کے صلے میں علم وحکمت سے مالا مال فرمائے گا۔ قرآن میں خدا صرف مسلمانوں سے خطاب نہیں کرتا ہے بلکہ اس کا پیغام تمام انسانوں کے لئے ہے وہ بیشتر مقامات پر‘ائے آدم کی اولاد ’ اے آدمیوں ‘ اے انسانوں’ کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ مسلمانوں نے قرآن کی روحانی جہت پر سارا زور صرف کیا اور زمین پر حکومت الہٰیہ قائم کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا مگر حکومت چلانے کے لئے جو مادّی وسائل درکار ہیں ان کے حصول کی طرف کوئی محنت نہیں کی۔ نتیجے میں وہ اقوام عالم پر اپنا دبدبہ قائم نہ کرسکے بلکہ الٹا ان کے دست نگر ہوگئے ۔قرآن کا اصول ہے کہ حکومت کے لئے علم او رطاقت دونوں ضروری ہے ۔حضرت موسیؑ کے بعد ا ن کی قوم پر جالوت کا تسلط ہوگیا اس وقت موسیٰؑ کی قوم کے پیغمبر حضرت اشموئلؑ تھے ۔ وہ لوگ ان کے پاس گئے اور گزارش کی کہ وہ ان کے لئے کسی بادشاہ کا انتخاب فرمادیں جس کی قیادت میں وہ جالوت سےجنگ کریں اور اس کے غلبے سے نجات حاصل کریں۔ حضرت اشموئل نے طالوت کا انتخاب فرمایا۔ جو غریب قبیلے سے تعلق رکھتا تھا ۔ ان کی قوم نے کہا کہ طالوت تو غریب ہے(مال ودولت کے لحاظ سے ) اس سے بہتر تو ہم ہیں ۔حضرت اشموئل ؑ نے کہا کہ طالوت کے پاس علم بھی ہے اور جسمانی طاقت بھی۔ لہٰذا انہوں نے طالوت کی سرپرستی میں جالوت سے جنگ کی اور فتح حاصل کی۔ مسلمانوں نے اس اہم قرآنی اصول کو نظر انداز کیا نیتجے میں ماضی میں بھی نقصان اٹھایا اور آج بھی شکست خوردہ اور مغلوب ہیں، کیو نکہ آج نہ ان کے پاس علم ہے اور نہ علم کی بدولت حاصل ہونے والی جسمانی (مادّی )طاقت ہے۔

(3) روحانی جہت:۔ دین ابراہیمی کی بنیاد ہی غور وفکر پر ہے۔ غور وفکر حضرت ابراہیم ؑ کی سنت ہے، لہٰذا غور وفکر سے عاری قوم نہ دنیاوی علوم حاصل کرسکتی ہے اور نہ ہی معروف الہٰی ۔حضرت ابراہیم نے حق کی تلاش میں کائنات میں موجود تمام مادّی چیزوں یعنی سورج ،چاند،ستاروں ،آگ ، پانی وغیرہ پر غور کیا تو ان کی فکر نے معبود حقیقی تک ان کی رہنمائی کی اور وہ نبوت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے۔ لہٰذا خدا چاہتا ہے کہ انسان غور کرے اور دیکھے کہ انسانوں کے لئے اس نے کس طرح کی نعمتیں پیدا کیں تاکہ وہ اس کی قدرت کو پہچانیں اور اس کا شکر ادا کریں۔ اپنی خواہشوں اور اعمال کو اس کے حکموں کے تابع کردے او رمعبود حقیقی کے رنگ میں رنگ جائیں:۔

‘ہم نے قبول کرلیا رنگ اللہ کا اور کس کا رنگ بہتر ہے اللہ کے رنگ سے اور ہم اسی کی بندگی کرتے ہیں۔’ (البقرہ: 138)

قرآن سیکڑوں بار انسان کو یاد دہانی کرتا ہے کہ اس پوری کائنات کا خالق و مالک حقیقی اللہ ہے۔ وہ قادر مطلق ہے اور دوسرا کوئی اس کا شریک نہیں ۔ اس کاعلم ہر چیز کو محیط ہے۔ وہ کائنات کے زرے زرے کی حقیقت سے واقف ہے اور اسی کے نور سے یہ کائنات روشن ہے۔ اس نے انسانوں کے لئے یہ کائنات بنائی ، اس کے لئے سورج ،چاند اور ستارے روشن کئے ،زمین کا سبز زار دارز کیا ، اس کے لئے زمین سے طرح طرح کی نعمتیں اگائیں اور تمام مخلوقات کو اس کے تابع کردیا تاکہ وہ ان سے خدمت لے سکے ۔ اس کے لئے نہر یں اور دریابہائے اور سمندروں اور زمین میں ا سکے لئے خزانے رکھ دئے ۔قرآن چاہتا ہے کہ انسان ان سب باتوں پر غور کرے تاکہ ان نعمتوں کے لئے وہ خدا کا احسان مند ہو اور خدا کا قرب حاصل کرنے کےلئے محنت کرے۔ قرآن کہتا ہے :

‘بیشک آسمانوں اور زمینوں میں بہت سی نشانیاں ہیں ماننے والوں کے واسطے اور تمہارے بنانے میں جس قدر پھیلارکھے ہیں جانور نشانیاں ہیں ان لوگوں کے واسطے جو یقین رکھتے ہیں ۔ بدلنے میں رات دن کے اور وہ جو اتاری اللہ نے آسمان سے روزی ،پھر زندہ کر دیا اس سے زمین کو اس کے مرجانے بعد اور بدلنے میں ہواؤں کے نشانیاں ہیں ان لوگوں کےواسطے جو سمجھ سے کام لیتے ہیں۔’ (الجاثیہ:5۔3)

ایک دوسری آیت میں قرآن کہتا ہے :

‘ اور تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کام میں لگائے تمہارے جو کچھ ہے آسمان میں اور زمین میں اور پوری کردیں تم پر اپنی نعمتیں کھلی اور چھپی،

 (لقمٰن :20)

لہٰذا ان نعمتوں کا اعتراف انسانوں کو اللہ کا روحانی قرب عطا کرتا ہے۔ وہ مادّی چیزوں پر جتنا غور کرتاہے اسی قدر دنیا کی بے ثباتی اس پر آشکار ہوتی جاتی ہے اور وہ اتنا ہی مادّیت پرستی سے اوپر اٹھتا جاتا ہے ۔ وہ دنیا کی بجائے خدا سےمحبت کرنے لگتا ہے ۔پچھلی قوموں کی تباہی وبربادی ان کی باقیات خدا کی ہستی میں اس کے یقین کواستحکام عطا کرتے ہیں اور وہ خدا کی ذات میں اپنی پناہ ڈھونڈ نے لگتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لئے خود کو حیوانی جبلنون اور صفات جیسے خود غرضی ،بغض ،سرکشی، تکبر اورظلم وجبر تیاگ کر روحانی پاکیزگی حاصل کرتا ہے۔

دراصل تاریخی اور سائنسی فکر انسانوں میں روحانیت کو فروغ ہی عطا کرتی ہے۔ تاریخ ان میں جواب دہی کا احساس پیدا کرتی ہے اور سائنسی فکر خدا کی قدرت اور عظمت میں اس کے یقین کو مزید استحکام عطا کرتی ہے۔ اس طرح قرآن کی فکری جہات انسانی شعور کی ایسی تربیت کرتی ہے کہ انسان دنیا میں بھی سرخ روہوتا ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوتا ہے۔ اس لئے اسے امّ امکتاب کہا گیا ہے۔

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/the-importance-thinking-qur-an/d/5573


Loading..

Loading..