New Age Islam
Fri Dec 13 2024, 01:30 AM

Urdu Section ( 5 Feb 2013, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The truth behind Taliban fatwa justifying killings of innocent civilians – Concluding part نوائے افغان جہاد فتویٰ اور اس کی حقیقت ۔ آخری قسط

 

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

6 فروری ، 2013

اپنے مضمون کے آخری حصے میں  یوسف العیبری کوئی نیا نکتہ نہیں اٹھاتے بلکہ  اپنے مؤقف کا خلاصہ پیش کرتے ہیں  ۔ اس پورے مضمون کا مقصد طالبان کی دہشت گردانہ سرگرمیوں ، اسکے ذریعہ کئے گئے رہائشی علاقوں ، بازاروں  اور سرکاری اداروں پر  خودکش حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے معصوم شہریوں،  بچوں اور بوڑھوں کے  قتل کو جائز ٹھہرانا   تھا  اور اس مقصد کے لئے انہوں نے قرآن ، احادیث اور فقہاء کی آراء اور فتاویٰ  کے اقتباسات  کو غلط تناظر میں پیش کرکے   انکی غلط ترجمانی کی۔ قرآن کی کچھ آیتوں کو انہوں نے   اپنے مؤقف  کی حمایت میں بار بار نقل کیا  جبکہ ان آیتوں کا انکے مؤقف سے کوئی تعلق نہیں تھا۔انکا  یقین گوئبلز کے اس نظرئیے پر ہے کہ کسی جھوٹ یا غلط  بات کو اگر سو بار دہرایا جائے تو لوگ اس پر یقین کر لیں گے۔  اسی طرح انہوں نے جو  حدیثیں  پیش کیں وہ بھی  ان کے مؤقف کی تردید کرتی تھیں اور ہم نے انکی اس غلط بیانی کی گرفت کرکے انکی تردید پیش کی۔

گذشتہ اقساط کی طرح آخری قسط میں بھی یوسف العبیری نے غیر ضروری طور پر وہی نکتے اٹھائے ہیں جنکی حمایت میں انہوں  نے قرآن اور حدیث  کو غلط تناظر میں پیش کیا  اور ناکام رہے کیونکہ اسلام معصوم افرادبشمول  عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں ، حتیّٰ  کہ غیر متحارب جوانوں کوبھی  قتل کرنے  کا مخالف ہے اور اس سلسلے میں واضح آیتیں اور حدیثیں ہیں۔  اسکے علاوہ خلفائے راشدین کے احکام اور انکے دور کی مثالیں ہیں جو  قرآنی ا حکام اور سنت پر مبنی ہیں۔اور  ان سارے احکاما ت کی رو سے طالبان کی دہشت گردانہ سرگرمیاں اور اس کے نظریات  غیر اسلامی ہی نہیں بلکہ غیر انسانی قرار پاتے  ہیں۔اسلام   جنگ کی حالت میں بھی انسانی اصولوں کو فراموش نہیں کرتااور ایک بے قصور کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔

پچھلی  اقساط میں العبیری   نے دشمنوں کو جلاکر مارنے، انکی فصلوں  اور ثمربار درختوں کو جلانے کے حق میں دلائل دے کر انہیں شرعی طور پر جائز ٹھہرانے کی کوشش کی تھی اور ہم نے قرآن اور حدیثوں  کی مدد سے ان کے اس جھوٹ کو آشکار کیا تھا کیونکہ قرآن کی آیتوں اور حدیثوں سے زیادہ مستند کوئی  شرعی بنیاد نہیں ۔

اسلام اجتماعی طور پرجنگ سے  اور انفرادی طور پر خون خرابے سے  حتی الامکان بچنے کی تلقین کر تا ہے اور ہتھیا ر اٹھا نے کی اجازت اسی وقت دیتا ہے جب صلح و صفائی کے  تمام دلائل کام آچکے ہوں اور جب مخالف جنگ اور نقصان پہنچانے کے درپے ہو۔اسلامی افواج نے دور نبوت میں سینکڑوں جنگیں اور غزوات لڑیں اور بیشتر میں سرخرو ہوئے۔ جن جنگوں میں انہیں وقتی طور پر ناکامی یا ہزیمت اٹھانی پڑی وہ انکی اپنی تکنیکی غلطیوں کی وجہ سے یا پھر اپنے کمانڈر کا حکم نہ ماننے کی وجہ سے اٹھانی  پڑی۔ اسلئے خلفائے راشدین فوجوں کو روانہ کرنے سے پہلے  انہیں سختی سے تاکید کرتے تھے کہ کمانڈر کی حکم عدولی نہ کریں۔ گویا ڈسپلن، ضبط و تحمل   اسلامی فوج کی کامیابی کی کنجی تھی۔   مکر و فریب ، دھوکہ اور معاہدہ شکنی کر کے دشمن کو نقصان پہنچانا  اسلامی  فوجی اصول کے خلاف ہے۔ جبکہ طالبان  کی حکمت عملی  مکر و فریب، معاہدہ شکنی اور بے خبری میں شہریوں ،فوجیوں ، سرکاری افسران اور اداروں ، اسکولوں  ، بچوں اور عورتوں پر حملہ کر کے معصوم اور غیر متحارب افراد کو  ہلاک کرنے پر مبنی ہے۔

اسلام جنگ کے دوران دشمن کے حملوں کا بھر پور جواب دینے  کی حوصلہ افزائی کرتاہے ۔ اسلام  دہشت گردانہ کارروائیوں اور بزدلانہ حملوں کا مخالف ہے۔ قرآن مسلمانوں کو  میدان جنگ سے شکست قبول کرکے بھاگنے سے منع کرتا ہے۔ اور جنگ کے تمام تر حربے اور ہتھیا ر جو میسر ہوں انہیں استعما ل کرکے دشمن سے دوبدو جنگ کی اجازت دیتا ہے۔ ۔ لہذا جب منجنیق  (جدید توپ کی ابتدائی شکل ) کی ایجاد ہوئی تو مسلمانوں نے اس کا بھی استعما ل کیا۔ اس سے دشمن کے قلعوں پر پتھر وں کے بڑے بڑے بولڈر   برسانے کا کام لیا گیا جسے دشمن کے قلعوں کے محاصرے کے موقع پر استعمال کیاجاتا تھا  اور قلعوں کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا۔

العبیری منجنیق کے استعمال کے متعلق کہتے ہیں:

‘‘صحیحین  میں مذکور ہے کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ  علیہ وسلم نے طائف کاگھیراؤ کیا ۔ بیہقی اور صحیحین میں ہے کہ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منجنیق نصب  کی ۔ اسی  پر ہر اُس چیز کا قیاس  کیا گیا کہ جس سے عام ہلاکتیں  ہوں۔’’

منجنیق کا استعمال اسلامی فوج نے طائف کے قلعے کے محاصرے کے دوران کیا تھا ۔ اسلامی فوج طائف کی فوج سے دوبدو جنگ لڑرہی تھی۔ جنگ طائف سے تھی تو اسلامی فوج طائف پر تیر اور گولے برسا رہی تھی اور وہ بھی آمنے سامنے  اور یہ جنگ منظم طور پر اسلامی حکومت  کی طرف سے  اسلام کے پیغمبر کی قیادت میں لڑی  جا رہی تھی۔ جبکہ طالبان  کی جنگ اسلامی فوج کی جنگ نہیں ہے۔اور نہ اسکی قیادت اسلامی حکومت  کامنظور شدہ قائد کررہا ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ اسلامی فوج  طائف کی دشمنی کا بدلہ دوسرے  غیر مسلم قبیلے سے لے رہے تھے۔ وہ طائف سے جنگ کے دوران طائف پر گولے برسا رہے تھے اور انکی دشمنی کفار اور مشرکین سے تھی۔وہ طائف کی جنگ کے دوران دوسرے قبیلوں کے معصوم اور غیر متحارب افراد پر بے خبری میں حملہ کرکے انہیں ہلاک نہیں کر رہے تھے۔ طالبان  کی دشمنی ناٹو ممالک کے افواج سے ہے مگر اسکے ساتھ ہی وہ افغان حکومت  کو بھی اپنا دشمن قرار دےکر اس کے مسلم افسران، مسلم شہریوں اور سرکاری اداروں پر بھی حملہ کرتے ہیں مسلموں کو ہلاک کرتے ہیں اور وہ بھی دہشت گردانہ اور بزدلانہ حملوں میں ۔

العبیری کہتے ہیں:

‘‘سعید رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی  اسناد کے ساتھ صفوان بن عمر رحمۃ اللہ علیہ  و اور جریربن عثمان رحمۃ اللہ علیہ  سے روایت  کیا ہے کہ بلاشبہ جنادہ بن امیہ الازوی رحمۃ اللہ علیہ ، عبداللہ بن قیس الفزازی رحمۃ اللہ علیہ  بحرین  کے حکمران اور رومیوں  پر  آگ پھینک کر انہیں  جلاتے تھے ۔ یہ انہیں اور وہ انہیں  جلاتے  ۔ عبد اللہ بن قیس نے کہا کہ مسلمانوں کا معاملہ اسی طرح چلتا رہا ہے۔’’

‘‘یہ انہیں اور وہ انہیں جلاتے تھے۔ ’’ ظاہرہے  جب دونوں فریقوں  میں دوبدو جنگ ہو رہی تھی تو دونوں ایک دوسرے پر حملے کررہے تھے۔ طالبان کی طرح اندھیرے میں تیر نہیں چلا رہے تھے اور  دانستہ طور پر شہریوں پر قاتلانہ حملے نہیں کر رہے تھے۔طالبان بتائیں کہ وہ کس سے دوبدو جنگ کرہے ہیں اور انکے دشمن کون ہیں  ۔ شیعہ ہیں؟، ملالہ ہے؟  پاکستان ہے؟   پاکستانی حکومت کے حامی پاکستانی عوام ہیں؟ افغانستان کے رہنما اور وہا ں کے مسلم عوام ہیں؟  کیوں کہ طالبان کی دہشت گردی کے زیادہ تر شکار یہی لوگ  ہیں۔

وہ  علامہ ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ  کا یہ قول نقل کرتے ہیں:

‘‘ یہی حکم (دریاؤں ، جھیلوں وغیرہ کے ) بند دشمن کو غرق کرنے کےلیے کھول دینے کا ہے کہ اگر اس کے بغیر دشمن پر غلبہ حاصل ہوجائے تو ایسا کرنا جائز نہیں کہ جس میں و ہ عورتیں او ربچے بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں  جنہیں قصداً قتل کرناحرام ہوتا ہے۔  اگر دشمن پر اس  کے بغیر غلبہ ممکن نہ ہوتو پھر یہ اُسی  طرح جائز ہے جیسے رات کے وقت حملہ  کرنے میں  معصوم لوگوں کی جان چلی  جانے کااندیشہ ہوتاہے’’۔

اس کا جواب بھی ہم پچھلی اقساط میں دے چکے ہیں۔ بہر حال  ایک با ر پھر ہم ان  احادیث کو نقل کرتے ہیں  جو قصداً  معصوم شہریوں  کو نقصان پہنچانے کو ممنوع قراردیتی ہیں۔

‘‘جب خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فوجوں کو روانہ کرتے تو ان کو حکم فرماتے ’’ دغا فریب سے کام نہ لو ، مال غنیمت میں خیانت نہ کرو، لاشوں کو مسخ نہ کرو او ربچوں اور مذہبی رہنماؤں کو قتل نہ کرو۔’’

 ‘‘ ابوبکر صدیق نے ثمر اور درختوں کے کاٹنے اور (جنگ کے دوران ) عمارتوں کو (قصداً ) ڈھانے سے منع فرمایا او رمسلمان ا ن کی اس ہدایت پر سختی سے عمل کرتے تھے ’’ (سنن)

ابن ابی شیبہ، مجاید سےایک حدیث نقل کرتے ہیں جو اس طرح ہے

‘‘ کم عمر بچوں ، عورتوں اور ناتواں اور ضعیف مردوں کو جنگ میں ہلاک نہ کیا جائے ۔ غذائی اجناس او رکھجور کے درختوں کو نہ جلایا جائے ، عمارتوں کو نہ ڈھایا جائے اور پھل دار درختو ں کو نہ کاٹا جائے ۔’’ ( المصنّف :6:483)

قرآن کہتا ہے ۔

‘‘ اے ایمان والوں خدا کے لئے مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ اور حُسن سلوک کے گواہ رہو ۔ دوسروں  کی نفرت تمہیں غلط راہ پر نہ ڈال دے اور انصاف سے نہ ہٹادے ۔ منصف بنو ۔’’(المائدہ: ۸)

مگر دشمن کی نفرت  العبیری  کو یہ غیر اسلامی بات کہنے پر مجبور کرتی ہے:

‘‘ اب ہم کہتے ہیں کہ ہم بالمثل کا معاملہ اختیار کریں گے اور امریکا ہی کے اپنائے گئے طریقے یعنی افراد کے سبب عوام کو سزا دنیا کے مطابق امریکی حکومت  کے جرائم کے سبب اس کے عوام کو سزا دیں گے ۔’’

اتنا ہی  انہوں نے   نہتھے عوام کے قتل کو جہاد کی اعلی قسم قرار دیا ہے اور اسے نعوذ باللہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے منسو ب کر دیا ۔ اس سے زیادہ  بری بات اور کیا ہوگی۔

‘‘اس چیز میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش  نہیں کہ امریکی بوڑھوں ، بچوں او ر عورتوں اور ان جیسے دوسرے غیر محاربین کا قتل کرنا جائز اور حلال ہے ۔ بلکہ یہ جہاد کی ان اقسام میں سے ایک ہے جن کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے ’’۔

پاکستان میں بھی طالبان نے پاکستان کی اسلامی حکومت کے خلاف  دہشت گردانہ جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ بھولے بھالے معصوم اور کم فہم افغان  نوجوانوں اور بچوں  کو ذبردستی جہاد کے نام پر خودکش حملوں کے لئے تیار کرتے ہیں اور انہیں قربانی کا بکرا بناتے ہیں۔ انہیں شیعوں، احمدیوں ، ہندوؤں  اور عیسائیوں  پر خود کش حملوں کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ صوفیوں کی درگاہوں   اور مسجدوں پر حملے بھی ان کے جہاد کا حصہ ہیں۔ خدا ہی جانے ان کا یہ جہاد کس کے خلاف ہے۔ اگر انکی جنگ امریکیوں سے ہے تو پھر شیعوں ، احمدیوں اور صوفیوں پر حملے کیوں کرتے ہیں۔ پاکستان میں طالبان  نے  معصوم بچوں کے اسکول بس پر حملہ کرکے انہیں  ہلاک کردیا۔(تصویر) ایک مسلم طالبہ ملالہ   کو مخالفت کرنے پر ہلاک کرنے کی کوشش کی ۔ وہ نہ تو کافر تھی اور نہ امریکہ کی شہری تھی۔

  یہ طالبانی مفتی اور نام نہاد علماء اپنی تحریروں میں صرف امریکیوں  کے  مظالم کا ذکر کیوں کرتے ہیں ۔امریکہ اور مغربی ممالک  کے مظالم کی مذمت سارا عالم اسلام کر تا ہے۔طالبان کی غیر اسلامی کارروائیوں  کی مذمت اور مخالفت کا مطلب امریکہ کا دفاع نہیں ہے  ٹھیک جس طرح  امریکہ کی مخالفت کا مطلب طالبان کی حمایت   نہیں ہے  مگر طالبان کا مؤقف یہی ہے کہ جس نے اسکی غیر اسلامی پالیسیوں کی مخالفت کی وہ امریکہ کا جاسوس  ہو گیا۔ ملالہ نے طالبان کی   تعلیم مخالف پالیسی کی مخالفت کی تو اسے امریکہ کا ہمدرد اور جاسوس قرار دے دیا۔  مگر یہ بھی یاد رہے کہ امریکہ اسلامی ممالک اور مسلمانوں پر مظالم  کے لئے اسلامی شریعت  اور قرآن کو بنیاد نہیں بناتا۔جبکہ طالبان مسلمانوں کو ہی کافر قرار دیتے ہیں اور قرآن اور حدیث کا حوالہ دیکر  ان کے قتل کو جائز ٹھہراتے ہیں ۔ ملالہ پر حملہ اسے کافر اور جاسوس قرار دےکر کیا ۔ پاکستان کی حکومت کو کافروں کی حکومت قراردے دیا اور اس بنا پر اسکے فوجیوں افسران اور وزیروں کو اسلامی شریعت کی رو سے قتل کرنا جائز قراردے دیا۔    یہ نام نہاد طالبانی مفتی اور عا لم  شیعوں اور صوفیوں کے خلاف بھی اپنا مؤقف اپنی تحریروں میں ظاہر کریں۔

طالبان نے امریکہ ، پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کو اپنا دشمن قراردیا ہے مگر ان کی قانونی حیثیت کوئی نہیں ہے۔ نہ انکی اپنی کوئی ریاست ہے ، نہ کوئی منظم فوج ہے اور نہ ہی انکے پاس اسلامی نظریات ہیں۔  یہ ایک غیر منظم دہشت گرد جنگ جوؤں کا گروہ ہے  جو دنیا کے تمام ممالک کی حکومتوں کو غیر اسلامی حکومت قرار دیتا ہے  اور خود کو واحد اسلام پر چلنے والا گروہ ہونے کا دعوٰی کرتا ہے۔ انکی خوش فہمی یہ ہے کہ وہ امریکہ سے جنگ کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ جیسے سپر پاور سے مقابلہ کرنے کی نہ ان کے پاس افرادی طاقت ہے، نہ مالی استطاعت ہے اور نہ  جدید ہتھیا ر ہیں۔ یہ یک طرفہ جنگ ہے جس میں روزانہ انکے جنگجو اور لیڈران  مارے جاتے ہیں کبھی ڈرون حملوں میں  تو کبھی  پاکستانی اور افغان و  ناٹو افواج کی فائرنگ میں۔ جواب میں خودکش حملوں میں یہ چند فوجیوں اور شہریوں کو ہلا ک کر کے مطمئن  ہوجاتے ہیں کہ بدلہ لے لیا۔

اپنے مضامین میں انہوں نے اس بات کا بھی ذکر نہیں کیا کہ سانپ  ، بچھو اور کیڑے مکوڑے چھوڑکر اب تک انہوں  نےکتنے دشمنوں کو ہلاک کیا ہے۔ حیرت ہے کہ آج کے نیوکلیائی دور میں جینے والے یہ نام نہاد مجاہد امریکہ ، فرانس، برطانیہ ، پاکستان  اور جرمنی جیسی ایٹمی طاقتوں کے مقابلے میں    سانپ اور بچھوؤں کے استعمال  کی حکمت عملی  کی احمقانہ باتیں کرتے ہیں۔  یہ لوگ در اصل بے وقوفوں کی جنت میں رہتے ہیں۔

یہ لوگ خود کو  اسلام کا سب سے  بڑا پیروکار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں  مگر دہشت گردانہ اور خودکش حملوں کو اسلامی شریعت کے عین مطابق اور قرآن، رسول اور صحابہ سے ان دہشت گردانہ کارروائیوں کو منسوب کرکے توہین  قرآن اور توہینِ رسا لت کے مرتکب ہو رہے ہیں  اور اسلام کو  اتنا شدید نقصان پہنچا رہے ہیں جتنا کوئی دشمن اسلام بھی نہ پہنچا سکا۔

طالبان قرآن اور سنت پر مبنی اسلامی خلافت قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے  قرآنی احکام پر مبنی ایک روحانی حکومت اور عدل ، رواداری  اور محبت کی بنیاد پر ایک صالح اسلامی معاشرے کی بنیاد رکھی ۔ اس کے لئے انہوں نے  شروع  ہی  میں نعوذباللہ کسی دہشت گرد تنظیم کی بنیاد نہیں  رکھی اور طاقت کی  بنیاد پر مشرکین کو داخل اسلام نہیں  کیا۔ بلکہ بہت عاجزی سے ، منت سماجت کر کے ، قربانیاں د ے کر اسلام کے پیغام کو غیروں تک پہنچایا۔ بدلے میں  پتھر کھائے، لہولہان ہوئے، جھڑکیاں سنیں، زہر کھایا ،  شہر بدر ہوئے، فاقہ کیا، دنداں مبارک  قربان کیا۔ اور تقریباً پندرہ برسوں کی شبانہ روز مشقت کے بعد اسلامی حکومت کی بنیاد خود قائم ہوگئی کیوں کہ کوئی بھی صالح معاشرہ  صالح افراد سے بنتا ہے اور صالح افراد  مذہب  اور دوسرے علوم کی صحیح تعلیم سے تیار ہوتے ہیں۔جب  قرآن   اور سنت کی تعلیما ت پر صالح افراد  تیار ہوگئے توصحیح معنوں میں ایک اسلامی حکومت قائم ہوگئی ۔ نہ خودکش دھماکے کی ضرورت پڑی  اور نہ  مسلمانوں کا خون  بہانے کی ۔ سنت کا حوالہ دینے والے مولانا  العبیری تو اب نہیں ہیں مگر مولانا عصمت اللہ معاویہ ہی  جواب دیں کہ  انہوں  نے ایسے ہی صالح معاشرہ کا جو خواب دیکھا ہے اس کی تعبیر کے لئے انہوں نے کتنی غیر متشدد تحریکیں چلائی ہیں۔اصلاح معاشرہ کے لئے  کتنے پتھر کھائے ہیں۔ دوسروں کے لعلوں کو خودکش  بیلٹ پہنانے سے پہلے اپنے خاندان کے کتنے بچوں کو خودکش حملوں میں مروایا ہے۔ یا پھر اتنا ہی  بتادیں کہ اسلام میں قرآن کی کس آیت اور کس حدیث کی رو سے خودکش حملوں کو جواز حاصل ہے۔ اور اگر ان کے پاس  اس کا جواز نہیں ہے ، اور ظاہر ہے کبھی نہیں ہو سکتا تو پھر اپنے اس جھوٹے خواب سے باز آ جائیں ، اپنے جھوٹے سیاسی عزائم کے لئے مسلمان بچوں کی دنیا و آخرت خراب نہ کریں، معصوم پھول سے  بچوں کو مو ت کے گھاٹ نہ اتاریں۔ ملالہ جیسی  لڑکیوں کے جان کے درپے نہ ہوں۔  تعلیم گاہوں کو تباہ نہ کریں ۔قرآن دین کی اشاعت کے لئے نرمی، تدبر، تحمل اور محبت  سے کام لینے کی تلقین کر تا ہے۔  دین میں کوئی جبرنہیں۔   صحت مند انسانی معاشرہ محبت ، ایثار ، قربانی،  جہد مسلسل  اور پرامن تحر یک سے ہی بن سکتا ہے، خودکش حملوں سے نہیں۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/the-truth-behind-taliban-fatwa/d/10281

 

Loading..

Loading..