ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی ، نیو ایج اسلام
30 مئی 2025
فطرت انسانی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ایسے ماحول اور سماج میں رہنا چاہتا ہے جہاں انسانی حقوق ، تحفظ نفس اور قومی و مذہبی اقدار و روایات کی پابندی کی جاتی ہو ۔ تو وہیں اسے اظہارِ رائے ، اعتقاد و ضمیر اور اپنی پسند کا نظریہ اختیار کرنے کی پوری آزادی حاصل ہو ۔ بندشیں اور حریت فکر و نظر پر بے جا پابندیاں انسان کو محدود بنادیتی ہیں جس کی وجہ سے وہ گھٹن محسوس کرتا ہے۔
آج دنیا میں جتنے بھی نظام اور افکار و نظریات ، مذاہب و ادیان ہیں ان سب کا براہِ راست یا بالواسطہ طور پر تعلق انسانی سماج سے ہی ہے ۔ یہی انسانوں کے رائج کردہ نظام اور قوانین انسانیت کو فلاح اور خسران دونوں سے ہمکنار کررہے ہیں۔ یہ بھی مبنی بر حق ہے کہ انسان کو ان تمام رواجوں اور قوانین میں سب سے عزیز مذہب و دھرم ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اپنے دھرم اور دین سے وابستہ رہنا چاہتا ہے، اس کے مطابق اپنی زندگی کو استوار کرتا ہے اور اس میں موجود اقدار و روایات اور عقائد و نظریات سے جوڑ کر سماج کو مثبت پیغام دیتا ہے ۔
آج کائنات میں جہاں جہاں بھی بے راہ روی ، حقوق کا عدم تحفظ ، قتل و غارتگری ، خیانت اور دیگر سماجی و معاشرتی جرائم پائے جارہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ لوگوں نے اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے ۔ انسان احساس ذمہ داری سے دور ہوچکا ہے ۔ سماجی و معاشرتی جیسے جرائم کے خاتمہ کے لیے ہر مذہب کے متبعین کو اپنے اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا ہوگا تاکہ معاشرے سے ہمہ ہمی اور زیادتی کا تصور ختم ہوسکے ۔ اخلاقی ضابطوں کے نفاذ اور انسانی ضرورتوں میں تعاون کی جس قدر جامع اور مضبوط روایتیں مذاہب میں ملتی ہیں وہ اپنی جگہ آپ ہیں ۔ یہ یاد رکھنا چاہیے! مذہب کوئی بھی ہو اس کی بنیادی تعلیمات یہی ہوتی ہیں کہ سماج کو برائیوں اور منکرات سے پاک کیا جائے ، سماج میں رہنے والے تمام طبقات انسانی ہم آہنگی اور رواداری کے ساتھ رہیں ۔
مذاہب سے وابستہ ہوکر انسان کو اس بات کا بھی احساس ہوتا ہے کہ اسے اپنے کیے دھرے کا جواب دینا ہے ۔ جب معاشرے کا کوئی فرد اس احساس ذمہ داری سے سرشار ہوگا تو وہ یقینی طور پر ان اعمال وافعال میں ملوث نہیں نہیں ہوسکتا ہے جن سے سماج میں کسی بھی طرح کی بدامنی اور بدعنوانی پھیل سکتی ہو ۔ معاشرے میں عموما وہی طبقات جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں جو کسی بھی طرح کی جواب دہی کا خود کو ذمہ دار نہیں سمجھتے ہیں۔ واقعی اگر انسان جواب دہ کی حیثیت سے زندگی گزارے تو وہ کبھی بھی ایسے واقعات میں ملوث نہیں ہوگا جن کا وہ جواب نہ دے سکے اور یہ حق ہے کہ انسان کے اندر ذمہ داری کا شعور مذاہب ہی نے بیدار کیا ہے۔ مذاہب میں موجود احکامات و ہدایات نوع انسانی کی رہنمائی نہ کرتیں تو اسے کبھی بھی اچھائی اور برائی کا فرق محسوس نہیں ہوتا ، وہ جو کچھ بھی کرتا اس میں مکمل آزاد ہوتا ۔ ایک بہتر سماج کی تشکیل و تعمیر میں مذاہب کا جو رول ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اسی کے ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ مذہب کا سماج میں مثبت رول اسی وقت ہوسکتا ہے جب مذہب کو سیاسی بالادستی یا کسی اور مفادات کی تکمیل کے لیے استعمال نہ کیا جائے ۔ آج جہاں جہاں بھی مذہب کے نام پر تشدد کیا جارہاہے یا لوگوں میں انتشار برپا کیا جارہاہے تو ایسے افراد کو بنیادی طور پر مذہب سے نہ کوئی عقیدت ہے اور نہ وہ مذہب کے پابند ہیں۔ ان کو صرف اپنے مطالب کی حصولیابی عزیز ہے ۔ ہم بھارت جیسے جمہوری اور سیکولر ملک میں دیکھ رہے ہیں کہ یہاں مذہب کو آڑ بناکر کر کیسے کیسے کھیل کھیلے جا رہے ہیں ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ آئے دن یہ نعرہ سن نے کو مل جاتا ہے کہ ہندو کمیونٹی اور ہندو مذہب کو خطرہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خطرہ یہاں کی مسلم اقلیت سے بتایا جا رہا ہے جو ایک مفروضہ اور سیاسی چال ہے ۔ مذہب کے نام پر جاری اس کھیل کو نہ صرف سمجھنے کی ضرورت ہے بلکہ عوام کو چاہیے کہ وہ سیاسی بازی گروں کی سازش کو بے نقاب کریں تاکہ مذہب کے نام پر سیاسی حربہ بہت دیر تک کارگر نہ ہوسکے ۔
ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ بھارت میں متنوع ادیان کے حاملین صدیوں سے رہتے چلے آئے ہیں، کبھی کسی کو کسی دھرم سے کوئی خطرہ نہیں ہوا ۔ اب خطرہ ہونے لگا ہے ۔ اس لیے سیاست کے اس برتاؤ سے واقفیت پیدا کرنے کی یقیناً ضرورت ہے ۔ یہ ایک ناقابل تردید صداقت ہے کہ مذاہب کے مطالعہ اور اس کی تعلیمات پر عمل کرنے سے انسان کے اندر اعتماد و شعور اور حقوق و فرائض کی ادائیگی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ اس لیے ہر شخص اپنے اپنے مذاہب کے مطابق ہی زندگی گزارے تو بھی سماج نہ صرف روحانی و اخلاقی ضابطوں کا پابند ہوگا بلکہ وہ سماج کی ترقی اور قومی بہبود میں بھی اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے کون سے پہلو ہیں جن کو سامنے رکھ کر مذہب کا مطالعہ کیا جائے تاکہ معاشرہ امن و امان سے ہمکنار ہوسکے ؟ اس کے لیے ہمیں مذاہب یعنی تمام مذاہب کے مطالعہ کی عادت ڈالنی ہوگی جب ہم اپنے مذہب کے ساتھ دیگر مذاہب کا مطالعہ معاشرتی تناظر میں کریں گے تو اس کے دور رس نتائج مرتب ہوں گے اور ہم معاشرے کو یہ بتا سکیں گے کہ مذہب کی تعلیمات یہ ہیں ، یہ نہیں ہیں ۔ ان کو اختیار کرنے سے سماج میں ہم آہنگی کی فضاء ہموار ہوگی ۔
مذاہب کے مطالعہ اور اس کی تحقیق و تفتیش کا سماجی ومعاشرتی پہلو کئی اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس لیے مطالعہ مذاہب کے معاشرتی پہلو کو اجاگر کرنا نہایت ضروری ہے ۔ مذاہب کے نام پر جو لٹریچر ہمارے یہاں پایا جاتا ہے اس میں اس پہلو پر بہت کم مواد ملتا ہے کہ مطالعہ مذاہب کی معاشرتی ضرورت کیا ہے ۔
چنانچہ پروفیسر توقیر عالم فلاحی نے اپنی کتاب " عظیم ہندوستانی مذاہب " میں مذاہب کے مطالعہ کی سماجی اہمیت و افادیت پر نہایت جامع گفتگو کی ہے:
"انسان سماجی حیوان ہے۔ ایک دوسرے کے بغیر زندگی گزاری نہیں جا سکتی۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کے مذہب و ثقافت اور طریقہ زندگی کو جانے بغیر سماجی زندگی بے کیف و بے سرور ہو جاتی ہے اور میل جول نیز موانست و محبت کے جذبات فروغ پانے کے بجائے انتشار و افتراق اور نفرت و عداوت کی بھٹیاں سلگنے لگتی ہیں۔ اس لیے یہ ناگزیر ہو جاتا ہے کہ مذاہب، ان کے مستند مصادر و مراجع، بزرگ و بلند قامت ہستیاں اور متبرک و مقدس مقامات کی واقفیت ہو، تاکہ ایک دوسرے کے مذہب اور مذہبی جذبات و احساسات کا خیال کیا جائے اور اس طرح معاشرتی زندگی کے حسن و زیبائی کے لیے راہیں ہموار ہو جائیں"
تصور کیجیے! کہ تکثیری سماج میں رہیں ، پڑوس میں رہنے والا دوسرے مذہب کا علمبردار ہے ، اس کی اپنی تہذیب ہے جسے وہ اختیار کیے ہوئے ہے۔ مگر پڑوسی کو اس کے افکار و نظریات کا علم نہ ہو؟ ایک دوسرے کے دھرم سے واقفیت پیدا کرکے سماج کے بہت سارے مسائل کا حل آسانی سے ہوسکتاہے ۔ اس لیے امن و امان سے رہنے اور معاشرے میں حقوق کی ادائیگی کے لیے مذاہب کا مطالعہ سماجی پہلوؤں کو سامنے رکھ کر کرنا چاہیے ۔ معاشرتی تقاضوں میں یہ ایک بنیادی تقاضا ہے کہ مذاہب کے مطالعہ کے وقت ان پہلوؤں پر زیادہ توجہ کی جائے جن سماجی حقائق سامنے آتے ہیں ۔
آج مذاہب کے نام پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور لکھا جائے گا مگر معاشرتی نقطہ نظر سے ہماری تحقیقات ابھی تشنہ ہیں اس پر بھر پور توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔
------------------
URL: https://newageislam.com/urdu-section/social-need-studying-religions/d/135715
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism