New Age Islam
Fri Mar 21 2025, 10:40 AM

Urdu Section ( 16 March 2023, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Social Effects of Dialogue مکالمہ کے سماجی اثرات

ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی

16 مارچ،2023

معاشرتی توازن اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہندوستان جیسے تکثیری سماج میں باہمی رکھ رکھاؤ کے ساتھ رہاجائے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آج بہت ساری باتیں اور چیزیں ایسی رائج ہوچکی ہیں جن کا حقیقت یااصل سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔یہ باتیں ہندوستان کے تقریباً تمام مذاہب کے متبعین میں ملتی ہیں۔ اصحاب علم و فضل کی یہ کاوش ہونی چاہئے کہ وہ معاشرے میں رائج کسی بھی طرح کی غلط فہمی کاازالہ کرنے کی نہ صرف سعی کریں بلکہ حقائق کو سامنے لائیں اور معاشرے کو بتائیں کہ سچائی یہ ہے۔عوام تک جن باتوں کو پہنچایا گیا ہے، یا کسی بھی طرح پہنچ گئی ہیں وہ حقیقت نہیں ہے۔ اب دیکھئے اس وقت ہم تکثیری یا مخلوط سماج میں رہ رہے ہیں۔ کسی بھی مخلوط سماج کااولین تقاضایہ ہے کہ ہم ایک دوسرے کی تہذیب اورتمدن کو نہ صرف جانیں، بلکہ اس میں غیر معمولی ورک حال کریں۔ عالمی تناظر میں نہ صحیح،اپنے ملک بھارت کو دیکھئے یہ تجزیہ کیجئے کہ مسلمان اہل علم میں کتنے لوگ مذاہب کی تاریخ اور خصوصاً ہندوستان کے بڑے دھرم یعنی ہندو مذہب کی تاریخ وتہذیب سے واقف ہیں۔ یقینا ہندوستان میں اس طرح کے افراد کی تعداد انگلیوں پر شمار کی جاسکتی ہے۔ اور تواور ہمارے یہاں مدار س کی تعداد اچھی خاصی ہے ان مدارس میں کتنے ایسے مدارس ہیں جن میں تقابل ادیان اورمطالعہ مذاہب یا مکالمات پر تحقیق و تفتیش ہوتی ہے؟ یہی نہیں بلکہ ابھی بھی بہت سارے افراد کی یہ سوچ بنی ہوئی ہے کہ کسی بھی دوسرے دھرم کوپڑھنااوراس سے علمی اخذ واستفادہ کرناٹھیک نہیں ہے۔اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ مدارس دینیہ نے ابھی تک مطالعہ ادیان کو سنجیدگی سے نہیں لیا ہے،موجودہ رویہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے مدارس کی توجہ ابھی بھی مطالعہ ادیان کی طرف بالکل نہیں ہے ذراسوچئے کہ آج بھارت میں رہنے والی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنے آپ کو ہندودھرم سے وابستہ کرتے ہیں۔ کیا ایسے وقت میں یہ ضروری نہیں ہے کہ افہام وتفہیم کی راہ نکالی جائے،تاکہ سماجی ہم آہنگی اور رواداری کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہوسکے۔ مکالمہ کے جو اثرات عالمی سطح پر مرتب ہوتے ہیں وہ غیر معمولی ہیں۔ اسی وجہ سے علی نذیر مائکل نے اپنی معروف کتاب  Mission and Dialogue London Society for Promoting Christian Knowledge میں مکالمہ کی سماجی افادیت پر زور دیتے ہوئے لکھا ہے۔

’دنیا میں اس وقت تک امن وامان کاقیام ممکن نہیں جب تک مذاہب کے درمیان امن قائم نہیں ہوگا۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ،مذہبی شعار کااحترام اورعبادت گاہوں کااحترام نہیں ہوگا۔ جب  خالق کائنات نے لوگوں کو مختلف رنگ ونسل،سوچ اور عقائد دیے ہیں تو یہاں اختلاف کیوں ہورہے ہیں،ان تمام باتوں سے بالائے طاق ہوکر دنیا میں پر امن فضا پیدا کرنامکالمہ کا اولین مقصد ہے۔’بین مذہبی مذاکرات کی اصل تصویر یہی ہے کہ سماج میں امن وامان اور خوشحالی کی راہ ہموار کرنے کے لئے مکالمہ کو اختیار کیا جائے۔سماج میں ایک دوسرے کے دین ودھرم کے متعلق متوازن سوچ وفکر کے افراد تیار ہوں۔ کسی کے دھرم کے حوالے سے منفی نظریہ رکھنا، کسی دھرم اور دین کے رسوم وروایات کی توہین کرنا،مکالمہ اور افہمام وتفہیم کی راہ میں سدباب ہے۔مطالعہ مذاہب سے جہاں معاشرہ میں امن وامان اور سلامتی قائم ہوتی ہے وہیں علمی اور تحقیقی طور پر اس سے فائدہ ہوتا۔ فکر ونظر میں وسعت او رگہرائی وگیرائی حاصل ہوتی ہے۔ اس حوالے سے شیخ احمد دیدات جو کہ تقابل ادیان کے ماہرین میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنی کتاب ’تقابل الادیان السماویہ‘ میں لکھا ہے۔’مذاہب پر غور وفکر کرنے سے ہمارے مطالعہ میں وسعت پیدا ہوتی ہے او رمفید معلومات حاصل ہوتی ہے،جن سے رواداری اور مخالف نقطہ کو برداشت کرنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے،نیز پتہ چلتا ہے کہ مختلف مذاہب میں بعض مشترک تعلیمات پائی جاتی ہے جو ازلی اورابدی انسانی اقدار میں فی الحقیقت یہی صداقتیں اور اقدار پائدار ہیں جو ہر زمانہ اورہر مذہب میں موجود رہی ہیں۔ اسی طرح مذاہب کے مطالعہ سے تمام مذاہب کی خوبیوں سے آشناہوتے ہیں او رعملا انہیں اپناسکتے ہیں جس سے بلند کرداری،فکری بالیدگی اورروحانی سکون حاصل ہوتاہے۔‘

بین مذہبی مذاکرات او رمطالعہ مذاہب کی یہ وہ صداقتیں او رخوبیاں ہیں جن سے معاشرہ میں آفاقیت او رعالمگیریت ہی پیدا نہیں ہوتی ہے،بلکہ فکر اور مزاج میں قوت برداشت اور تحمل کا عنصر پیدا ہوتاہے،جو آج کی ایک اہم اوربنیادی ضرورت ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ سماج میں قوت برداشت اورانگیز کرنے کا جو تصور تھا وہ اب بہت حد تک مفقود ہوتا نظر آرہا ہے۔ اس لیے معاشرہ کو قوت برداشت جیسے جو ہر سے ہم آہنگ کرنے اور فکری ونظریاتی طور پر توسع پیدا کرنے کے لیے بھی مذاہب کی معلومات کے ساتھ ساتھ قوموں اورمعاشروں کی تاریخ وتہذیب سے مکمل واقفیت پیدا کرنا نہایت ضروری ہے۔ اس سے معاشرے میں مختلف مذاہب کی اقدار اور ان کی تعلیمات کو اختیار کرنے اور اس حوالے سے جو بھی غلط فہمیاں پیدا ہوگئی ہیں ان کا آسانی سے ازالہ کیاجاسکتا ہے۔

ہمیں یہ بھی نہیں بھولناچاہئے کہ آج کاعالمی بحران مذہبی،سیاسی، سماجی،اقتصادی او رمعاشی طور پر دنیا کو بری طرح متاثر کررہا ہے۔ جس کے باعث معاشروں میں بے چینی،نفرت اور اضطراب کی کیفیت بڑھ رہی ہے۔ اس لیے مذاہب وادیان اورتہذیبوں کے درمیان مکالمہ، گفتگو او رمطالعہ کو عہد حاضر کی سب سے بڑی ضرورت محسوس کیا جارہا ہے۔تاہم یہ کوئی نئی کوشش اور جدوجہد نہیں ہے،بلکہ ماضی میں بھی متعدد اور مختلف الخیال طبقوں کے درمیان ہم آہنگی پیدا کرنے کی کاوشیں ہوتی رہی ہیں۔ اس کی نظیریں تاریخ کے اوراق میں جابجا ملتی ہیں۔قومی یکجہتی او رسماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے اسلام میں نہایت شفاف تعلیمات ملتی ہیں۔ ڈاکٹر محبوب علی شاہ اور ڈاکٹر محمد شاہد حبیب نے اپنے ایک مضمون میں مکالمہ کامقصد درج ذیل الفاظ میں بتایا ہے۔

’مکالمہ بین المذاہب کامقصد سماج میں ہم آہنگی پیدا کرنا ہو، مقامی او رعالمی سطح پر سیاسی برتری پیدا کرنا نہ ہو۔ اس کامقصد انسانی حقوق کا دفاع او رامن عالم کا قیام ہو۔ مکالمہ بین المذاہب کے ذریعہ کسی بھی مذہب کو کسی دوسرے مذہب پر غالب کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے اور کسی مذہب، برادری اور قوم کے لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہ کیا جائے‘۔ متذکرہ بالا سطور کی روشنی میں یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ آج کے دور میں جو افراد مذاہب کے حاملین کے درمیان افہام و تفہیم کی سبیل پیدا کررہے ہیں یقینا اس کی ضرورت ہے۔ لیکن ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہئے کہ یہ سعی اسی وقت کامیاب و کامران ہوسکتی ہے جب کہ اس کے اندر مذہبی اقدار کا احترام موجود رہے۔قوموں او رمعاشروں کی تاریخی وتہذیبی قدریں پورے آب و تاب کے ساتھ باقی رہیں۔ انسانی رشتوں کی پاسداری پر کوئی آنچ نہیں آئے۔ ضمنایہ کہنابھی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ ارباب مدارس او راصحاب فکر ونظر کو مزید اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ جب سماج میں ایک دوسرے کے مذہب کو سمجھنے کی کوشش نہیں جائے گی اس وقت تک سماج میں ابتری اور بدعنوانی میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔مسائل کی شکل بدلتی رہتی ہے۔اس لیے آج جن حالات او رمسائل سے مقابلہ ہے وہ یہ کہ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو ہندو دھرم کی تعبیرو تشریح اپنے سیاسی ایجنڈے کے مطابق کررہا ہے اور دوسری طرف خود ہندو دھرم ہے جس کے اندر بہت ساری ایسی حقیقتیں پائی جاتی ہے جو انسانی حقوق سے ہم آہنگ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں ہندو دھرم کو سمجھنے کے لیے کسی طبقہ کی ضرورت نہ پڑے۔بلکہ خود پڑھ کر اسے سمجھا جائے۔ اور بتایا جائے کہ اصل مذہب کی حقیقی روح یہ ہے نہ کہ وہ جسے سنگھ اپنے مخصوص نظریہ کے مطابق پیش کررہا ہے۔

16مارچ،2023،بشکریہ: انقلاب،نئی دہلی

-------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/social-effects-dialogue/d/129330

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..