New Age Islam
Mon Mar 17 2025, 01:11 AM

Urdu Section ( 26 Dec 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

An Oasis of Social Cohesion in Bihar's Gaya District: Hindus Take Care of a 400-Year-Old Sufi Dargah بہار کے گیا ضلع میں سماجی ہم آہنگی کا ایک نخلستان: جہاں ہندو 400 سال پرانی صوفی درگاہ کی دیکھ بھال کر رہے ہیں

 سید امجد حسین نیو ایج اسلام

 21 دسمبر 2024

 بہار کے گیا ضلع کے کیندوئی گاؤں کی خاص بات یہ ہے کہ 500 ہندو خاندان اب بھی 400 سال پرانی مسجد اور صوفی بزرگ حضرت انور شاہ شہید کے مزار کی دیکھ بھال کر رہے ہیں، جو اپنے ایمان اور اتحاد کی میراث کے ساتھ اب بھی زندہ ہیں۔

 اہم نکات:

 1. کیندوئی گاؤں میں 500 ہندو خاندان آباد ہیں، جن میں ایک بھی مسلمان نہیں، پھر بھی یہاں 400 سال پرانی مسجد اور صوفی بزرگ حضرت انور شاہ شہید کا مزار موجود ہے۔

 2.  اس عظیم صوفی سنت کو ہمدردی کے کاموں کے لیے یاد کیا جاتا ہے، جس میں قحط کا خاتمہ بھی شامل ہے، اور دیہات کے لوگ ان کی تعظیم کرتے ہیں اور ان کی قبر پر برکت اور بارش کی دعا کے لیے حاضر ہوتے ہیں۔

 3. وہاں کے ہندو خاندان اس مقبرے کا بہت احترام کرتے ہیں۔ ہولی اور دیوالی جیسے بڑے تہواروں سے پہلے مزار پر مذہبی رسومات ادا کی جاتی ہیں، جو اتحاد اور عقیدت کی علامت ہے۔

 4.  کیندوئی کے ہندو باشندے، ولیج ویلفیئر سوسائٹی کے تعاون سے، اس مزار کے تقدس اور نسلوں تک اس کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے، اس کی دیکھ بھال کافی احتیاط کے ساتھ کرتے ہیں۔

 5.    یہ مقام، تمام مذاہب کے لوگوں کے لیے مذہبی تنوعات سے بھر پور علاقے میں، امن اور ہم آہنگی کے لازوال عزم کے ساتھ، مرکز عقیدت بنا ہوا ہے۔

 -----

بہار میں گیا کے چہل پہل سے بھرے ضلع ہیڈ کوارٹر سے صرف چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کیندوئی گاؤں ہے، یہ ایک ایسا گاؤں ہے جو بہت زیادہ مشہور و معروف تو نہیں، لیکن یہاں کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور باہمی احترام کا جذبہ کافی مضبوط ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں تقریباً 500 ہندو خاندان رہتے ہیں اور ایک بھی مسلمان گھرانہ نہیں ہے۔ اس کے باوجود، اس کے مرکز میں، ایک 400 سال پرانی مسجد اور ایک عظیم صوفی بزرگ حضرت انور شاہ شہید کا مقبرہ، تاریخ اور روحانیت کی یادگار کے طور پر موجود ہے۔ اس اہم مقام کو ہندو برادری نے کافی احتیاط کے ساتھ برقرار رکھا ہے، جو کہ تنوعات میں اتحاد کی ایک شاندار مثال ہے۔

 تمام مذہبی برادریوں کے درمیان ایک مقدس ربط

 کیندوئی نہ صرف دین و مذہب کی کہانی ہے بلکہ جامعیت کی بھی ایک شاندار مثال ہے۔ جب کہ گاؤں میں زیادہ تر راجپوت آباد ہیں، یہاں کے ہندو حضرت انور شاہ شہید کو بڑے احترام کی نظروں سے دیکھتے ہیں، ان کے مقبرے اور ملحقہ مسجد سے اپنے مندروں کی طرح عقیدت و محبت رکھتے ہیں۔ اس مزار کو حضرت انور شاہ شہید کی آرام گاہ مانا جاتا ہے، جو ایک صوفی ولی تھے، جو صدیوں پہلے گاؤں میں رہتے تھے، جن سے شفقت اور کرامات کا ظہور ہوا، جس کی وجہ سے انہیں ایک ولی کا درجہ حاصل ہوا۔

مسجد اور آپ کا مزار اس لازوال میراث کی گواہ بنے ہوئے ہیں۔ مسلم آبادی نہ ہونے کے باوجود، ہندو خاندان اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ احاطے کو صاف ستھرا رکھا جائے۔ اس ولی کے احترام اور محبت میں روزانہ مزار پر چراغاں کیا جاتا ہے۔ یہ مقام محض ماضی کی یادگار نہیں، بلکہ عقیدت اور برادریوں کے درمیان تعلقات کا ایک مرکز بھی ہے۔

 ایک سنت اور اس کی کرامات کی داستان

 حضرت انور شاہ شہید کی زندگی کرامات اور احسان کی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے جو نسل در نسل لوگوں تک پہنچتی رہی ہے۔ ان سے منسوب سب سے نمایاں کہانیوں میں سے ایک، صدیوں پہلے کیندوئی میں آنے والے شدید قحط سے لوگوں کو نجات دلانے کی کہانی ہے۔ جب گاؤں کے لوگ مایوس ہو چکے تھے اور مرنے مٹنے کے دہانے پر تھے، تبھی لوگوں نے اس اللہ کے ولی سے دعا کرنے کی گزارش کی۔ حضرت انور شاہ شہیدؒ نے انہیں ہدایت کی کہ آٹا ایک بیرل میں رکھ کر انتظار کریں، بارش ضرور ہو گی۔ تھوڑی دیر بعد موسلا دھار بارش نے گاؤں کو تباہ ہونے سے بچا لیا، جس سے لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت و عقیدت پختہ ہو گئی۔

 آج بھی گاؤں کے لوگ اس ولی اللہ کو اپنے دکھوں کا مداوا تسلیم کرتے ہیں۔ جب بھی خشک سالی ہوتی ہے، لوگ بارش کی دعا کرنے کے لیے آپ کی قبر پر جمع ہوتے ہیں، جیسا کہ ان کے آباؤ اجداد نے کیا تھا۔ مسجد کے احاطے کے اندر ایک کنواں تھا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس ولی اللہ کی زندگی میں ہی کھودا گیا تھا، جو کہ ان واقعات کا ایک خاموش گواہ بنا ہوا ہے، حالانکہ یہ کنواں ایک طویل عرصے سے سوکھا پڑا ہے۔

 ایمان اور ذمہ داری کی میراث

 مسجد اور مزار کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کیندوئی کے ہندو خاندانوں میں نسل در نسل چلی آ رہی ہے۔ اس وراثت کو بوجھ نہیں بلکہ ایک مقدس فرض کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ گاؤں کے آنجہانی سربراہ ونود سنگھ کے بیٹے سنتوش سنگھ کے مطابق، ’’یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں، کہ یہ جگہ امن اور عقیدت کا مرکز بنی رہے۔ ہمارے تمام بڑے تہوار یہاں سے شروع ہوتے ہیں، اور نئے شادی شدہ جوڑے ہمیشہ مندر جانے سے پہلے اس مزار پر آتے ہیں۔

گاؤں کی ایک معزز شخصیت آنجہانی ونود سنگھ نے مزار کی دیکھ بھال میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جب ڈھانچہ خستہ حال ہو گیا، تو انہوں نے اس کی تعمیر جدید کرنے کی کوششیں شروع کیں، اور چبوترے کی دوبارہ تعمیر کرنے، احاطے کو محفوظ بنانے، اور اسے آوارہ جانوروں سے بچانے کے لیے ایک گیٹ نصب کرنے کی خاطر لوگوں سے فنڈ اکٹھا کیے۔ ان کے تعاون کو گاؤں کے لوگ نیک نامی سے یاد کرتے ہیں، جو ویلج ویلفیئر سوسائٹی کے ذریعے اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

تعلق کو مضبوط بنانے میں تہواروں کا کردار

 کیندوئی میں حضرت انور شاہ شہید کے مزار پر حاضری دیے بغیر، گاؤں کی تمام تقریبات ادھوری ہیں۔ ہولی اور دیوالی جیسے مواقع پر، مزار کو پھولوں اور چراغاں سے سجایا جاتا ہے، اور گاؤں والے اپنی تقریبات شروع کرنے سے پہلے مزار پر حاضری دینے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ ہولیکا دہن بھی مزار کے قریب ہی کیا جاتا ہے۔ یہ روایت گاؤں کی ثقافتی اور روحانی زندگی میں مزار کے اٹوٹ کردار کو اجاگر کرتی ہے۔

 سنتوش سنگھ بتاتے ہیں، ''ہر ہولی اور دیوالی یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ یہ ایک مقدس مقام ہے، اور یہاں سے تہواروں کا آغاز کرنا ایک ایسا عمل ہے، جسے ہم خوشحالی اور خوش و خرم زندگی کے لیے کرتے ہیں۔" شادی کے بعد مندر جانے سے پہلے نئے جوڑے مزار پر حاضری دیتے ہیں، جس سے مزار کی پائیدار اہمیت ظاہر ہوتی ہے۔

 اگرچہ کیندوئی ایک چھوٹا سا گاؤں ہے، لیکن حضرت انور شاہ شہید کا مقبرہ آس پاس کے علاقوں اور اس سے باہر کے لوگوں مرکز عقیدت بنا ہوا ہے۔ عقیدت مند، اپنے مذہبی پس منظر سے قطع نظر، اس ولی اللہ سے فیض حاصل کرنے آتے ہیں، اس یقین کے ساتھ کہ ان کی منتیں پوری ہوں گی۔ یہ مقبرہ امید اور ایمان کی علامت بنا ہوا ہے، جو زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مرکز عقیدت ہے۔

 مقامی مسلمان بھی کبھی کبھار اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے مزار پر جاتے ہیں۔ اگرچہ یہ مقام بہار اسٹیٹ سنی وقف بورڈ کے تحت رجسٹرڈ ہے، لیکن اس مزار کی دیکھ بھال بنیادی طور پر کیندوئی کے ہندو خاندان ہی کرتے ہیں، جو اسے اپنے ورثے کا ایک لازمی حصہ مانتے ہیں۔

 اختلاف و انتشار کے دور میں اتحاد کی علامت

 ایک ایسی دنیا میں جو اکثر مذہبی اور ثقافتی خطوط پر منقسم نظر آتی ہے، کیندوئی اتحاد اور بقائے باہمی کی ایک تازگی بخش کہانی پیش کرتا ہے۔ حضرت انور شاہ شہید سے گاؤں والوں کی محبت، ان سے عقیدت کا ثبوت ہے جو تمام مذہبی حدود سے بالاتر ہے، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ محبت و عقیدت اور احترام عالمگیر قدریں ہیں۔ یہ صرف عبادت گاہ نہیں ہے بلکہ مختلف عقائد کے لوگوں کو جوڑنے والا ایک پل ہے۔

 کیندوئی کے رہنے والے دنیش کمار سنگھ اس ہم آہنگی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں: "ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں حضرت انور شاہ شہید کا احترام کرنا سکھایا۔ یہ اعزاز ہم تک پہنچا ہے اور ہم اس روایت کو جاری رکھیں گے۔ یہ عقیدت کا مرکز ہے، اور عقیدت کی کوئی حد نہیں ہوتی۔"

 دیکھ بھال کی ایک لازوال روایت

 مزار کی دیکھ بھال وہاں کے رہنے والوں نے پوری محبت سے کی ہے، جو اس کے تحفظ کے لیے وقت اور وسائل دونوں وقف کرتے ہیں۔ احاطے کی صفائی سے لے کر روزانہ کی رسومات ادا کرنے تک، کیندوئی کا ہر فرد اس مقدس مقام کے محافظ کی حیثیت سے کام کرنے پر فخر محسوس کرتا ہے۔ ویلج ویلفیئر سوسائٹی اس بات کو یقینی بنانے میں ایک فعال کردار ادا کرتی ہے، کہ مزار کو امن اور احترام کا گہوارہ بنائے رکھا جائے۔

 حالیہ برسوں میں، وسیع و عریض مسجد کمپلیکس جو کہ سماجی اجتماعات یا ذاتی کاموں کے لیے موزوں ہے، اس کے باوجود گاؤں والوں نے اسے عبادت کے لیے ہی مخصوص رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسا کیا جانا اس مقبرے کی حرمت اور اس کی روحانیت کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔

 نتیجہ: ہم آہنگی کا عہد

 کیندوئی، اپنی 400 سال پرانی مسجد اور حضرت انور شاہ شہید کے مقبرے کے ساتھ، اس خطہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی ایک عظیم مثال بنا ہوا ہے، جو بودھ گیا اور وشنوپد مندر جیسے مقدس مقامات کے لیے جانا جاتا ہے۔ کیندوئی جیسے چھوٹے گاؤں ہمیں احترام اور مشترکہ ورثے کی پائیدار طاقت کی یاد دلاتے ہیں۔

 کیندوئی کے لوگوں کے لیے، یہ مقبرہ صرف ایک تاریخی یادگار نہیں، بلکہ اتحاد اور جامعیت کی قدروں کا بھی ثبوت ہے۔ وقت گزرتا جا رہا ہے، لیکن حضرت انور شاہ شہید کے لیے ان کی تعظیم اور عقیدت میں کوئی کمی نہیں آئی، اور دوسرے لوگ بھی ان کے ہم آہنگی اور بقائے باہمی کے اصولوں سے متاثر ہوتے ہیں۔ کیندوئی میں مذہب تقسیم نہیں کرتا بلکہ متحد کرتا ہے۔

 ———

English Article: An Oasis of Social Cohesion in Bihar's Gaya District: Hindus Take Care of a 400-Year-Old Sufi Dargah

 URL: https://newageislam.com/urdu-section/social-cohesion-bihar-gaya-hindus-sufi-dargah/d/134140

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..