اسفر فریدی
2 جنوری،2023
جہاں ‘ لب پہ آتی ہے دعا
بن کر تمنا میری’ پر اعتراض ہو، وہاں اردو والوں کو سمجھنا چاہئے کہ ان کے کندھوں
پر بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ انہیں ایسے لوگوں کو انسانیت کا سبق دینے کی چنوتی ہے
جنہوں نے نہیں جاننے اور نہیں سمجھنے کی قسم کھا رکھی ہے ۔ لیکن اردو والوں کے لیے
اچھی بات یہ ہے کہ خاں صاحب مولوی محمد اسمٰعیل نے ان کا کام آسان کردیا ہے۔ انہوں
نے ‘ اردو زبان کی چوتھی کتاب’ میں اہلیا بائی ، سیتا جی اور پرتھوی راج کے قصے
لکھ چھوڑ ے ہیں۔ ‘ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری’ پر اعتراض کرنے والے اتفاق
سے زیادہ تر وہی لوگ ہیں جو خود کو ‘ رام بھکت’ اور پرتھوی راج چوہان کا سپاہی
مانتے ہیں۔ اس لیے اردو والوں کو چاہئے کہ وہ کچھ او رنہیں ‘ اردو زبان کی چوتھی
کتاب’ کے ان قصوں کو پڑھ کر انہیں سنائیں اور بتائیں کہ موقع نکال کر ان مکتب اور
مدرسوں میں ضرور داخلہ لے لیں جہاں یہ کتابیں پڑھائی جاتی ہیں۔
خان صاحب مولوی محمد
اسمٰعیل نے ‘ سیتاجی’ کے بارے میں جس محبت اور عقیدت سے لکھا ہے وہ ‘ رام بھکتوں’
کو سنانے اور دکھانے کے ساتھ ہی یہ بتانے کی بھی ضرورت ہے کہ ایک مولوی صاحب نے یہ
سب چھ دسمبر 1992 ء یا پھر نومبر 2019 ء کے بعد نہیں بلکہ اٹھارہویں صدی کے اوآخر
میں لکھا ہے۔ مولوی صاحب لکھتے ہیں : ہندوؤں کے ہاں جو شہرت رام چندر جی کی بی بی
سیتا جی نے پائی ہے، وہ کسی او رعورت کو نصیب نہیں ہوئی۔ طرح طرح کی مصیبتوں کا
جھیلنا اور عجیب عجیب سانحوں کا پیش آنا، خاندان اور مرتبہ کی شرافت، حسن خداداد
کی لطافت ، خوبی خصائل کی فضیلت ، یہ سب باتیں ایسی ہیں کہ جن کی وجہ سے ہر فرقے کے
ہندو ان کے نام کو محبت و عقیدت سے یاد کرتے ہیں ۔‘ اس میں انہوں نے سیتاجی کے
ساتھ رام چندر جی کی شادی اور پھر انہیں اجودھیا لے جانے کی داستان بھی رقم کی ہے۔
وہ رام چندر جی کو بن باس دیے جانے اور اجودھیا سے ان کی رخصت ہونے کے واقعے کو کس
طرح بیان کرتے ہیں، اس کا اندازہ اس عبادت سے لگایا جاسکتاہے۔ لکھتے ہیں: ‘ رام
چندر نے بلا عذر باپ کے اس سخت حکم کی تعمیل کی۔ اس جلاوطنی میں ان کی باوفا بی بی
سیتا او ران کے برادر عزیز لکشمن نے حق رفاقت ادا کیا۔ یہ شاہی گروہ ایودھیا کی
رعایا برایا کو اپنی مفارقت کے رنج و الم میں گریہ وزاری کرتا ہوا چھوڑ کر رخصت
ہوا’۔ مولوی صاحب نے راون کے ذریعے سیتا جی کے اغوا ، لنکا پر رام کی لشکر کشی ،
اور ‘ بدذات’ راون کی ہلاکت سے لے کر سیتا کی اگنی پریکشا ، رام کے ساتھ ایودھیا
واپسی، سیتاجی پر پھر سے الزام ، ان کی جلاوطنی او رلو کش کی پیدائش کے ساتھ ہی ان
کی وفات اور اس کے نتیجے میں رام چندر جی کے دریائے سرجو میں سما جانے تک کی
داستان کو بیان کیا ہے۔ وہ آخر میں لکھتے ہیں : ‘ الفرض سیتا ایک نیک طینت ، با
وفا صابر، مستقل مزاج اور خاوند کی فرماں برداری کرنے والی بی بی کا ایک عجیب او
ربے نظیر نمونہ تھیں۔
ملک کی تاریخ کو پھر سے
اور اپنی من مرضی کے مطابق لکھنے کی وکالت کرنے والوں کوبھی ‘اردو کی چوتھی کتاب’
پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں خاص طورسے انہیں ‘ پرتھوی راج اور شہاب الدین غوری کو
بہت غور سے پرھنا چاہئے ۔ انہیں معلوم ہوجائے گا کہ تاریخ کیا ، تاریخی واقعات کو
قصوں کہانیوں کی صورت میں لکھنے میں بھی مولوی صاحب نے کسی طرح کی مبالغہ آرائی
نہیں کی ہے۔پرتھوی راج چوہان سے پہلی جنگ میں شہاب الدین غوری کی شکت ،جے چند کی
محفل میں حاضر ہونے سے پرتھوی راج کا انکار، جے چند کے ذریعے پرتھوی راج کی بے
عزتی ، جے چند کی دختر سنجوگنی سے پرتھوری راج کی شادی ، شہاب الدین غوری سے دوسری
جنگ، پرتھوی راج کی شکست اور رانی سنجوگنی کے ستی ہوجانے تک کے واقعات کو مولوی
محمد اسمٰعیل نے اس کہانی میں بیا ن کیا ہے۔ وہ ایک جگہ جنگ کی منظر کشی اس انداز
میں کرتے ہیں :‘ سلطان کالشکر چار حصوں میں تقسیم تھا۔ ہر حصہ باری باری حملہ کرتا
تھامگر دلاور راجپوت بھی ایسے جی توڑ کر لڑے کہ ترکوں کے دل میں ہیبت بیٹھ گئی۔’
جنگ میں پرتھوی راج کی شکست کا قصہ یوں بیان کرتے ہیں: ‘ چشم زدن میں کچھ سے کچھ
ہوگیا۔ وہ شان دار فوج جو پہاڑ کی طرح جمی کھڑی تھی ، دم کے دم میں تہ وبالاہوگئی۔
بڑے بڑے نامی گرامی سردار میدان میں کام آئے ۔رائے، پتھورا گرفتار ہوکر مارا گیا۔’
اسی طرح ‘ اہلیا بائی’ کے
بارے میں مولوی صاحب بتاتے ہیں کہ ‘ یہ نیک سیرت بائی سندھیا خاندان سے تھی ’۔ وہ
آگے کہتے ہیں کہ ‘ گو چند اں خوبصورت نہ تھی مگر خدانے اس کو فہم کامل ہمت عالی
اور صفات حمیدہ عطا کی تھیں، جن کے آگے حسن ظاہری کچھ حقیقت نہیں رکھتا تھا’۔ اہلیا
بائی کی حکمرانی اور رعایا پروری کے تعلق سے مکتب اور مدرسے میں پڑھائی جانے والی
اس کتاب میں درج ہے کہ ‘ ساہوکاروں اور تاجروں، زمینداروں اور کاشتکاروں کی ترقی
جس قدر اس کے دل کی خوشی کا باعث تھی، اتنی کوئی اور چیز نہ تھی ۔ سب سے افضل یہ
وصف تھا کہ وہ غیر مذہب والوں کے ساتھ زیادہ مہربانی سے پیش آتی تھی’۔
ایسانہیں ہے کہ مولوی
محمد اسمٰعیل سے تاریخی قصہ کہانی بیان کرنے میں کہیں کوئی بھول نہیں ہوئی،ہوئی
مگر ویسی نہیں جس سے تاریخ کو غلط ڈھنگ سے پیش کرنے کا ان پر الزام عائد کیاجاسکے۔
نور جہاں بیگم کی کہانی میں وہ بتاتے ہیں کہ بادشاہ جہانگیر کو مہابت خاں نے قید
کرلیا تھا۔ اپنے شوہر کو قید سے آزاد کرانے کے لیے نور جہاں نے لشکر کشی کی لیکن
شکست سے دوچار ہوئی البتہ خود قید ہوجانے کے بعد جہانگیر کو رہا کرانے میں کامیاب
ہوگئی۔ اس بارے میں معروف مؤرخ پروفیسر جابر رضا سے جب راقم نے دریافت کیا تو
انہوں نے بتایا کہ مہابت خاں کے ہاتھوں جہانگیر کے قید ہونے کی بات تاریخی اعتبار
سے درست نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ‘ اردو زبان کی چوتھی کتاب ’ میں کہیں او رکوئی ایسی
بات نظر نہیں آتی جو کلی طور پر خلاف واقعہ ہو۔ البتہ اس میں شامل ‘ کوئین
وکٹوریہ’ کے عنوان سے نظام الدین میرٹھی کی نظم کو پڑھ کر سردھناجاسکتا ہے کہ اسے
پڑھانے والے بعد کے اساتذہ محققین اور پبلشروں نے اس پر کوئی حاشیہ کیوں نہیں
لگایا۔ اس نظم کے ساتھ حاشیہ لگانا اس لیے ضروری ہے کہ مولوی محمد اسمٰعیل کے
زمانے میں ہندوستان کا جو جغرافیہ تھا، اس کی جو سیاسی صورت حال تھی ، وہ 1947 ء
کی 15 اگست کو یکبپربدل گئی۔ اس کے باوجود کتاب میں کوئن وکٹوریہ کے لیے‘ خدا حافظ
خدا حافظ کوئن کاراگ الاپنادرست نہیں قرار دیا جاسکتا۔
مولوی صاحب کی اس کتاب سے
تاریخی واقعات اور شخصیات سے آشنائی کے ساتھ ہی کھیتی باڑی کے گر بھی سیکھ سکتے
ہیں۔ اس سے پہلے کی کتابوں میں بھی انہوں نے زراعت کے بارے میں بتایا ہے لیکن
چوتھی کتاب میں اس کی تفصیل پہلے سے زیادہ ہے۔ یہاں وہ زمین یعنی مٹی کی قسمیں ،
بل کے پرزے اور ان کے نام، جوتائی میائی، بیچ اور بیچ کی بوائی، سینچائی، کٹائی ،
مڑائی اور اوسائی کے ساتھ ہی کھلیان کے بارے میں بھی بتاتے ہیں ۔ کتاب کے اس حصے
کی خاص بات یہ ہے کہ کھیتی باڑی میں پہلے کام آنے والی بہت سی چیزوں کے بارے میں
بچے اور بڑے سبھی جان سکیں گے۔
اس کتاب میں کچھوا اور
خرگوش کا وہ قصہ بھی نظم کی صورت میں موجود ہے جو ہم میں سے اکثر نے سنی یا پڑھی
ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ دونوں کے مقابلے میں کچھواکی جیت ہوتی ہے، لیکن مولوی
صاحب نے جس انداز اور تیور کے ساتھ اس نظم کو مکمل کیا ہے، اس سے کہانی کا اثر
دوبالا ہوجاتاہے۔
صبر و محنت میں ہے
سرافرازی
سست کچھوے نے جیت لی بازی
نہیں قصہ یہ دل لگی کے
لیے
بلکہ عبرت ہے آدمی کے لیے
ہے سخن اس حجاب میں روپوش
ورنہ کچھوا کہاں، کہاں
خرگوش
2 جنوری،2023 ، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism