سر سید احمد خان
17 اکتوبر،2022
رسومات جو مقرر ہوئی ہیں،
غالباً اس زمانہ میں جب کہ وہ مقرر ہوئیں، مفید تصور کی گئی ہوں مگر اس بات پر
بھروسہ کرنا کہ درحقیقت وہ ایسی ہی ہیں محض غلطی ہے۔ممکن ہے کہ جن لوگوں نے ان کو
مقرر کیا ان کی رائے میں غلطی ہو، ان کا تجربہ صحیح نہ ہو یا ان کا تجربہ نہایت
محدود اور صرف چند اشخاص سے متعلق ہو یا اس تجربہ کا حال صحیح صحیح بیان ہوا ہو۔
یا وہ رسم اس وقت اور اس زمانہ میں مفید ہو یا وہ رسم جن حالت پر قائم کی گئی تھی،
کسی شخص کی وہ حالت نہ ہو۔ غرض کہ رسموں کی پابندی میں مبتلا رہنا ہر طرح پر نقصان
کا باعث ہے۔ اگر کوئی نقصان نہ ہو تو یہ نقصان تو ضرور ہے کہ آدمی کی عقل اور دانش
اور جودتِ طبع اور قوت ایجاد باطل ہو جاتی ہے۔
یہ بات بے شک ہے کہ کسی
عمدہ بات کی ایجاد کی لیاقت ہر ایک شخص کو نہیں ہوتی، بلکہ چند دانا شخصوں کو ہوتی
ہے، جن کی پیروی اور سب لوگ کرتے ہیں لیکن رسم کی پابندی او راس قسم کی پیروی میں
بہت بڑا فرقہ ہے۔ رسومات کی پابندی میں اس کی بھلائی، برائی و مفید وغیر مفید
مناسب حال و مطابق طبع ہونے یا نہ ہونے کامطلق حال نہیں کیا جاتا او ربغیر سوچے
سمجھے اس کی پابندی کی جاتی ہے اور دوسری حالت میں بوجہ پسندیدہ ہونے کے اور اس
لئے دوسری حالت میں جو قوتیں ترقی کی انسان میں ہیں وہ معدوم و مفقود نہیں ہوتیں
الاپہلی حالت میں معدوم و نابود ہوجاتی ہیں۔
رسم کی پابندی ہر جگہ
انسان کی ترقی کی مانع و مزاحم ہے۔ چنانچہ وہ پابندی ایسی قوت طبعی کے جس کے ذریعہ
سے بہ نسبت معمولی باتوں کے کوئی بہتر بات کرنے کاقصد کیا جاوے برابر رہتی ہے اور
انسان کی تنزل حالت کا اصلی باعث ہوتی ہے۔ اب اس رائے کو دنیا کی موجودہ قوموں کے
حال سے مقابلہ کرو۔ تمام مشرقی یا ایشیائی ملکوں کا حال دیکھو کہ ان ملکوں میں
تمام باتوں کے تصفیہ کا مداررسم و رواج پر ہے۔ پس اب دیکھ لو کہ مشرقی یا ایشیائی
قوموں کا جن میں مسلمان بھی داخل ہیں کیسا ابتر اور خراب اورذلیل حال ہے۔
ان مشرقی با ایشیائی قوموں
میں بھی کسی زمانہ میں قوت عقل او رجودت طبع او رمادہئ ایجاد ضرور موجود ہ ہوگا جس
کی بدولت وہ باتیں ایجاد ہوئیں ہیں جو اب رسمیں ہیں اس لیے کہ ان کے بزرگ ماں کے
پیٹ سے تربیت یافتہ اور حسن معاشرت کے فنون سے واقف پیدا نہیں ہوئے تھے بلکہ یہ سب
باتیں انہوں نے اپنی محنت اور علم اور عقل او رجودت طبع سے ایجاد کی تھیں او رانہی
وجوہات سے دنیا کی نہایت بڑی اور قوی اورمشہور قوموں سے ہوگئے تھے۔ مگر اب ان کا
حال دیکھو کہ کیا ہے؟ اسی رسومات کی پابندی سے ان کا مآل یہ ہوا ہے کہ اب وہ ایسی
قوموں کے محکوم ہیں او رایسے لوگوں کی آنکھوں میں ذلیل ہیں جن کے آباء واجداد اس
وقت جنگلوں میں آوارہ پڑے پھرتے تھے، جس وقت ان قوموں کے آباء و اجداد عالی شان
محلوں میں رہتے تھے۔ اس کا سبب یہی تھا کہ اس زمانہ میں ان قوموں میں رسم کی
پابندی قطعی نہ تھی اور جو کسی قدر تھی تو اس کے ساتھ ہی آزادی اور ترقی کا جوش ان
میں قائم تھا۔ تواریخ سے ثابت ہے کہ ایک قوم کسی قدر عرصہ تک ترقی کی حالت پر رہتی
ہے اور اس کے بعد ترقی مسدور ہوجاتی ہے۔ مگر یہ دیکھنا چاہئے کہ یہ ترقی کب مسدور
ہوتی ہے۔ یہ اسی وقت مسدور ہوتی ہے جب کہ اس قوم میں سے وہ قوت اٹھ جاتی ہے جس کے
سبب سے نئی نئی باتیں پیدا ہوتی ہیں او رٹھیک ٹھیک مسلمانوں کا اس زمانہ میں یہی
حال ہے بلکہ میں نے غلطی کی کیوں کہ ترقی مسدور ہونے کا زمانہ بھی گزر گیا اور
تنزل اور ذلت و خواری کا زمانہ بھی انتہا درجہ کو پہنچ گیا ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی
شخص یہ بات کہے کہ یورپ کی قوموں میں بھی جواس زمانہ میں ہر قسم کی ترقی کی حالت
میں شمار ہوتی ہیں، بہت سی رسمیں ہیں اور ان رسموں کی نہایت درجہ پر پابندی ہے تو
وہ قومیں کیوں ترقی پر ہیں؟
یہ اعتراض سچ ہے او ریورپ
میں رسموں کی پابندی کا نہایت نقصان ہے اور اگر اس کی اصلاح نہ ہوتی رہے گی جیسے
کہ اب تک ہوتی رہتی رہی ہے تو ان کو بھی بدنصیبی کا دن پیش آوے گا مگر یورپ میں او
رمشرقی ملکوں کا پابندی رسومات میں ایک بڑا فرق ہے۔ یورپ میں رسومات کی پابندی
رسومات میں ایک بڑی فرق ہے۔ یورپ میں رسومات کی پابندی ایک عجیب او رنئی بات ہونے
کو تو مانع ہے مگر رسومات کی تبدیلی کا کوئی مانع نہیں۔ اگر کوئی شخص عمدہ رسم
نکالے او رسب لوگ پسند کریں، فی الفور پرانی رسم چھوڑ دی جائیگی او رنئی رسم
اختیار جاوے گی او راس سبب سے ان لوگوں کے قوائے عقلی او رحالت تمیز اور قوت ایجاد
ضائع نہیں ہوتی۔ تم دیکھو کہ یہ پوشاک جواب انگریزوں کی ہے ان کے باپ دادا کی نہیں
ہے، بالکل اپنی پوشاک بدل دی ہے۔ ہر درجہ کے لوگوں کا جو مختلف لباس تھا اس رسم کو
چھوڑ دیا گیا ہے اور ضرور سمجھا گیا ہے کہ ہر شخص ایک سامثل اوروں کے لباس پہنے۔
اس وقت کوئی رسم یورپ میں ایسے درجہ پر نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی رسم اس کے
برخلاف مگر اس سے عمدہ ایجاد کرے او رلوگ اس پر اتفاق کریں اسی وقت تبدیل نہ ہو
سکے اور اسی تبدیلی کے ساتھ ان کی ترقی بھی ہوتی جاتی ہے۔ پس یہ تصور کرنا کہ یورپ
بھی مثل ہمارے مگر دوسری قسم کی رسموں میں مبتلا ہے، محض نادانی اور ناواقفیت کا سبب
ہے۔
انگلستان میں اس زمانہ سے
پہلے مختلف درجوں کے لوگوں او رمختلف ہمسایوں کے لوگ اور مختلف پیشہ والے گویا
جداجدا دنیا میں رہتے تھے یعنی سب کا طریقہ اور عادتیں ہر ایک کی ایسی مشابہ ہوگئی
ہیں کہ گویا سب کے سب ایک ہی محلہ کے رہنے والے ہیں۔ انگلستان میں بہ نسبت سابق کے
اب بہت زیادہ رواج ہوگیا ہے کہ لوگ ایک ہی قسم کی تصنیفات کو پڑھتے ہیں اور ایک ہی
سی باتیں سنتے ہیں اور ایک ہی سی چیزیں دیکھتے ہیں اور ایک ہی سے مقاموں میں جاتے
ہیں او ریکساں باتوں کی خواہش رکھتے ہیں او ریکساں ہی چیزوں کا خوف کرتے ہیں اور
ایک ہی سے حقوق اور آزادی سب کو حاصل ہے۔ اور ان حقوق اور آزادیوں کے قائم رکھنے
کے ذریعے بھی یکساں ہیں او ریہ مشابہت او رمساوات روز بروز ترقی پاتی جاتی ہے۔ او
رتعلیم و تربیت کی مشابہت او رمساوات سے اس کو اور زیادہ وسعت ہوتی ہے۔
تعلیم کے اثر سے تمام لوگ
عام خیالات کے اور غلبہ اور رائے کے پابند ہوتے جاتے ہیں او رجو عام ذخیرہ حقائق
او رمسائل اور رایوں کا موجود ہے اس پر سب کو رسائی ہوتی ہے۔ آمد و رفت کے ذریعوں
کی ترقی سے مختلف مقاموں کے لوگ مجتمع اور شامل ہوتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ
چلے جاتے ہیں اوراس سبب سے بھی مشابہت مذکور ترقی پاتی ہے۔ کارخانوں او رتجارت کی
ترقی سے آسائش اور آرام کے وسیلے اور فائدے زیادہ شائع ہوتے ہیں او رہر قسم کی
عالی ہمتی بلکہ بڑی سے بڑی اولوالعزی کے کام ایسی حالت کو پہنچ گئے ہیں کہ ہر شخص
ان کے کرنے کو موجود مستعد ہوتا ہے،کسی خاص شخص یا گروہ منحصر نہیں رہا ہے، بلکہ
اولوالعزی تمام لوگو ں کی خاصیت ہوتی جاتی ہے اور ان سب پرآزادی اور عام رائے
کاغلبہ بڑھتا جاتا ہے او ریہ تمام امور ایسے ہیں جیسے انگلستان کے تمام لوگو کی
رائیں اور عادتیں اور طریق زندگی اور قواعد معاشرت او رامورات رنج وراحت یکساں ہوتے
جاتے ہیں او ربلاشبہ ملک اور قوم کے مہذب ہونے کا اور ترقی پر پہنچنے کا یہی نتیجہ
ہے۔
مگر باوصف اس کے ہم اس
نتیجہ کو بشرطیکہ اس کی اصلاح نہ ہوتی رہے بدعت تنزل قرار دیتے ہیں تو ضرور ہم
کوکہنا پڑے گا کہ کیوں یہ عمدہ نتیجہ باعث تنزل ہوگا۔ سبب اس کا یہ ہے کہ جب سب
لوگ ایک ہی طبیعت اور عادت اور خیال کے ہوجاتے ہیں تو ان کی طبیعتوں میں سے وہ
قوتیں جونئی باتوں کے ایجاد کرنے اور عمدہ عمدہ خیالات کے پیدا کرنے اور قواعد حسن
معاشرت کو ترقی دینے کی ہیں، زائل او رکمزور ہوجاتی ہیں اور ایک زمانہ ایسا آتا ہے
کہ ترقی ٹھہر جاتی ہے اور تنزل شروع ہوجاتا ہے۔
اس معاملہ میں ہم کو ملک
چین کے حالات پر غور کرنے سے عبرت ہوتی ہے۔ چینی بہت لئیق آدمی ہیں بلکہ اگر بعض
باتوں پر لحاظ کیا جاوے تو عقل مند بھی ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی خوش
قسمتی سے ابتدا ہی میں ان کی قوم میں بہت اچھی اچھی رسمیں قائم ہوگئیں۔ اور یہ کام
ان لوگوں کا تھا جو اس قوم میں نہایت دانا او ربڑے حکیم تھے۔
چین کے لوگ اس بات میں
مشہور معروف ہیں کہ جو عمدہ سے عمدہ دانش او رعقل کی باتیں ان کو حاصل ہیں ان کو
ہرشخص کی طبیعت پر بخوبی منقش کرنے کے واسطے اور اس بات کے لئے جن شخصوں کو وہ
دانشمندی کی باتیں حاصل ہیں ان کو بڑے بڑے عہدے ملیں نہایت عمدہ طریقے ان میں رائج
ہیں۔ اور وہ طریقے حقیقت میں بہت ہی عمدہ ہیں۔ بے شک جن لوگوں نے اپنا ایسا دستور
قائم رکھا،انہوں نے انسان کی ترقی کے اسرار کو پالیا اور اس لئے چاہئے تھا کہ وہ
قوم تمام دنیا میں ہمیشہ افضل رہتی مگر برخلاف اس کے ان کی حالت سکون پذیر ہوگئی
ہے اور ہزاروں برس سے ساکن ہے او راگر ان کی کبھی کچھ اور ترقی ہوگی تو بے شک غیر
ملکوں کے لوگوں کی بدولت ہوگی۔ اس خرابی کا سبب یہی ہوا کہ اس تمام قوم کی حالت
یکساں او رمشابہ ہوگئی اور سب کے خیالات او رطریق معاشرت ایک سے ہوگئے او رسب کے
سب یکساں قواعد او رمسائل کی پابندی میں پڑگئے اور اس سبب سے وہ قوتیں جن سے انسان
کی روز بروز ترقی ہوتی ہے ان میں سے معدوم ہوگئیں۔ پس جب کہ ہم مسلمان ہندوستان کے
رہنے والے جن کی رسومات بھی عمدہ اصول وقواعد پر مبنی نہیں ہے بلکہ کوئی رسم
اتفاقیہ اور کوئی رسم بلا خیال اور قوموں کے اختلاط سے آگئی ہے، جس میں ہزاروں نقص
او ربرائیاں ہیں، پھر ہم ان رسوم کے پابنداو رنہ ان کی بھلائی برائی پر او رنہ خود
کچھ اصلاح اور دوستی کی فکر میں ہوں بلکہ اندھا دھند ی سے اسی کی پیروی کرتے چلے
جاویں تو سمجھناچاہئے کہ ہمارا حال کیا ہوگیا ہے فاو رآئندہ کیا ہونے والا
ہے۔ہماری نوبت چینیوں کے حال سے بھی رسوم کی پابندی کے سبب بدتر ہوگئی ہے اورہمارے
قوائے عقلی کی تحریک کا باعث ہو او رکچھ چارہ نہیں، بعد اس کے کہ ہمارے قوائے
عقلیہ تحریک میں آجاویں او رپھر قوت ایجاد ہم میں شگفتہ ہو تب ہم پھر اس قابل ہوں
گے کہ اپنی ترقی کے لئے کچھ کرسکیں۔
مگر جب کہ ہم دوسری قوموں
سے ازراہ تعصب نفرت رکھیں او رکوئی نیا طریقہ زندگی کا کہ وہ کیسا ہی بے عیب ہو
اختیار کرنا، صرف بہ سبب اپنے تعصب یا رواج کی پابندی کے معیوب سمجھیں تو پھر ہم
کو اپنی بھلائی اوراپنی ترقی کی کیا توقع ہے۔ مگر چونکہ ہم مسلمان ہیں او رایک
مذہب رکھتے ہیں جس کو ہم دل سے سچ جانتے ہیں اس لیے ہم کو مذہبی پابندی ضرور ہے،
اور وہ اسی قدر ہے کہ جو بات معاشرت او رتمدن او رزندگی بسر کرنے او ردنیاوی ترقی
کی اختیار کرتے ہیں اس کی نسبت اتنا دیکھ لیں کہ وہ مباحات شرعیہ میں سے ہے یا
محرمات شرعیہ سے، درصورت ثانی بلاشبہ ہم کو احتراز کرنا چاہئے اور درصورت اول
بلالحاظ پابندی رسوم کے او ربلالحاظ اس بات کے کہ لوگ ہم کو برا کہتے ہیں یا بھلا،
اس کو اختیار کرنا ضروری بلکہ واسطے ترقی قومی کے فرض ہے۔ خداہمہ مسلمانان رابریں
کا ر توفیق دے۔آمین۔
17اکتوبر،2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism