پروفیسر محمد جہانگیر
وارثی
17 اکتوبر،2022
یہ ہمارے عہد کا المیہ ہے
کہ انسان اگر فکری سطح پر ذرا بلند ہوتا ہے تو وہ لوگوں سے کٹ جاتا ہے اور
افلاطونی معاملات اور تخیلات کی دنیا میں گم ہوجاتا ہے مگر سرسید احمد خان نے برتری کے احساسات کو کبھی بھی مسائل کے حل میں
آڑے نہیں آنے دیا۔ ہمیشہ اپنی ذات کو وسیع
رکھتے ہوئے لوگوں سے مل کر اپنے مشن کو فروغ دینے میں مصروف ر ہے۔ اگر ہم
سرسید کی زندگی پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کی زندگی میں کسی بھی سطح پر
محدودیت نظر نہیں آتی ہے ۔ ایک دانش ور کا جو فریضہ ہوسکتا ہے اس سے راہ فراد کی
بو تک نہیں آتی ہے ۔اس میں شک نہیں افراد سازی یا ذہن سازی اپنے آپ میں کمالِ
ہنرمندی ہے مگر اس سے بڑھ کر ادارہ سازی سماجی خدمات کی معراج ہے۔ سرسید احمد خان
کو معلوم تھا کہ افراد سازی کا عمل اسی وقت تک جاری رہ سکتا ہے جب تک افراد سازی
کرنے والے فرد کی زندگی باقی رہے۔ سانس کی ڈور ٹوٹتے ہی ایک سطح پر افراد سازی
کرنے والے کا عمل موقوف ہوجاتا ہے، تاہم ادارہ سازی کا معاملہ اس سے بالکل الگ
ہے۔کیوں کہ ادارہ سازی کے عمل میں بہت سے افراد شامل ہوتے ہیں ۔ اداروں سے استفادے
کا سلسلہ دراز ہوتا ہے۔گویا انھوں نے فکر ی اور عملی سطح پر ایسے کام کیے جو
معاشرتی اور ذہنی انقلاب کے تناظر میں اہم ہیں ۔سچی بات یہ ہے کہ سرسید جیسے مفکر
صدیوں میں بھی مشکل سے پیدا ہوتے ہیں۔ کیوں کہ انھوں نے زندگی کے کسی ایک شعبے میں
انقلاب پیدا نہیں کیا بلکہ انھوں نے مختلف سطحوں پر کام کیا ہے۔ ادارہ سازی کے معاملات
کو فروغ دیا ہے اور اجتماعی فلاح کو مدنظر رکھا ہے۔ یہی سبب ہے کہ کسی فرد کا
سلسلہ ان سے نہیں جوڑتا ہے،بلکہ ایک ادارتی نظام کا سلسلہ ان سے متعلق ہوتا ہے ۔
سرسید احمد خان نے لوگوں کی ذہنی تربیت بھی اور ادارہ سازی پر بھی خاطر خواہ توجہ
دی۔یہی سبب ہے کہ وہ جہاں بھی گئے اداروں کی تشکیل پر غور وخوض گیا ۔ مین پوری کا
زمانۂ ملازمت ہو کہ بنارس کی زندگی ، یا پھر علی گڑھ یا دہلی میں وقت گزاری کا
سلسلہ ، ہر جگہ سرسید احمد خان نے افراد سازی کے ساتھ ساتھ اداروں کے قیام پر
سرجوڑ کر بیٹھنے کی کوشش کی ۔
اگر ہم گہرائی سے غور
وفکر کریں تو معلوم ہوگا کہ ان کے رفقائے عظام دراصل ادارہ سازی کی دین ہیں۔ ادارہ
سازی کرنے والے فقط اسٹیج کے غازی نہیں ہوتے بلکہ وہ انسانی نفسیات سے خاطر خواہ
فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ذکاء اللہ ہوں کہ شبلی، ڈپٹی نذیر احمد ہوں کہ الطاف حسین
حالی؛سب کو سرسید احمد خان نے خود سے جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ ظاہر ہے کسی بارعب اور
ذی علم شخصیت سے راہ ورسم رکھنا اور انھیں اپنے مقاصد جلیلہ کے استعمال کرنا کوئی
آسان کام نہیں ہوتا۔یہ کام کل بھی مشکل تھا اور آج بھی ہے مگرسر سید احمد خان نے
اپنے عہد کے باوقار افراد کو خود سے جوڑے رکھا۔ انھیں معلوم تھا کہ ان کے رفقا
اپنی جگہ ایک انجمن ہیں۔ ایک ادارہ ہیں۔ گویا ان سب کو ہم خیال بناتے ہوئے اپنے
مشن کے لیے مفید بنانا کوئی آسان نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے رفقا ئے عظام نے
اداروں سے جڑ کر وہ کارہائے نمایاں انجام دئے جو تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش
ہیں۔ساتھ ہی انھوں نے فکری ، علمی ، اخلاقی اور اجتماعی سطح پر جو انقلاب برپا کیا
ہے وہ تاریخی ہے۔ سر سید نے نہ صرف قدیم
معاملات کو آنکھوں نے لگایا اور نہ ہی انھوں نے جدیدچیلنجز سے آنکھیں موڑنے کی
کوشش کی ہے ۔ جب کوئی ادارہ تشکیل پاتا ہے اس میں مختلف معاملات ہوتے ہیں ۔ مختلف
چیزیں ہوتی ہیں۔ مختلف اذہان کے افراد ہوتے ہیں۔ نت نئے موضوعات پر لوگ سوچتے ہیں۔
اگر اس پہلو سے بھی سرسید پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ ادارے کی مکمل صفت ان کے
اندر موجود تھی۔ یہاں ٹھہر کر یہ بات بھی کی جاسکتی ہے کہ دیگر مفکرین اور مصلحین
سے سرسید کا دائرہ یکسر مختلف ہے۔ مصلحین کی تاریخ پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ
کوئی مصلح کسی ایک عظیم کام کے لیے مشہور ہیں ۔ تاریخ کے کسی موڑ پر کوئی کارنامہ
انجام دینے کی وجہ سے کوئی مفکر معروف ہیں، تاہم سرسید احمد کی اصلاحی اور مقصدی
تحریک کی کوئی ایک سمت متعین نہیں کی جاسکتی ہے ۔ کیوں کہ سرسید احمد خان نے ایک
طرف اسلامیات پر ایسے ایسے کام کیے جن کا دائرہ وسیع تر ہے اور اس میں فکر کا نیا
گوشہ شامل ہے۔ اسی طرح انھوں نے تاریخی حوالوں کو جمع کرنے اور ان کے تجزیے کا جو
کارنامہ انجام دیا ہے وہ بھی بے مثال ہے۔ اس کے علاوہ سرسید احمد نے زبان کی
مقصدیت کو جس طرح اہمیت دی ہے وہ اپنے آپ میں قابل فخر ہے۔ اس کے علاوہ سرسید
احمد خان نے ملازمت میں رہتے ہوئے الگ سے جو فریضہ انجام دیا ہے وہ شاذ ہے۔ سرسید
احمد کی سیاسی بصیرت بھی لازوال ہے۔ مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے اداروں کی تشکیل
پرقدم بڑھانا ہے اور رسالوں کے ذریعے عوام سے رابطے کی کوشش کرنا بھی نادر خیال
ہے۔اصلاح معاشرے کے معاملات پر بھی غوروخو کرتے رہنا ان کا مشن تھا۔ اس لیے ہم یہ
کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے مفکر بن کر عوام سے کٹ جانے کو مناسب نہیں سمجھا ۔ سرسید
احمد خان نے انقلاب اور جنگ آزادی کے تناظر میں بھی اپنا فریضہ نبھا یا اور تعلیم
وتدریس کے تناظر میں بھی تاریخی خدمات انجام دیں ۔ زبان وبیان کے مسائل کو بھی
سامنے رکھا ۔
سرسید احمد خان کی زندگی
کے جتنے پہلو ہیں اگر ان کا باریکی سے تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ان کی سرشت
میں ادارہ سازی کا خمیر تھا۔ انھوں نے اپنی ذات کو محدود کرنے کی کوشش کی نہیں ہے
۔ ظاہر ہے کہ محدود سطح پر آگے بڑھنے والا کوئی انقلابی کام نہیں کرسکتا ہے
۔تاریخ کے صفحات پر انمٹ نقوش ثبت کرنے والے مصلحین کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ
انھوں نے کسی ایک میدان میں قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے ۔ سرسید کی طرح ان کی
زندگی میں تنوع کی کیفیت نظر نہیں آئے گی۔ یہاں اس نکتے پر بھی سوچا جاسکتاہے کہ
جن جن کاموں کی شروعات سرسید نے کی، ان میں ان کے معاونین نے بھی ان کی مدد کی۔
گویا لوگوں کی بھیڑ میں سے اپنے لیے معاونین کی تلاش کرلینا بھی اپنے آپ میں
ادارہ ساز ذہنیت کا کام ہوسکتا ہے ۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سرسید احمد خان
نے اپنے معاونین کے انتخاب میں بھی قابل فخر کارنامہ انجام دیا ہے ، اس کے علاوہ
انھوں نے عظیم شخصیات کو بھی متاثر کیا ہے ۔ سرسید سے متاثر ہونے والے افراد بھی
ہماری تاریخ کے اہم افراد ہیں ۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ
سرسید احمد خان نے اپنے عہد کے مفکرین کو بھی متاثر کیا ہے اور اپنے کارناموں سے
بعد کے افراد کو بھی ایک نئی سمت عطا کی ہے۔ اقبال کی طرح بہت سے افراد سرسید سے
متاثر ہیں ۔ کیوں کہ سرسید نے جہاں ایک ادیب ہونے کا فریضہ انجام دیا وہیں انھوں
نے ماہر تعلیم کی حیثیت سے اپنا سکہ منوایا۔ اسی طرح انھوں نے اپنے تنظیمی اور
اداراتی اصولوں سے بھی سبق دیا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ آج بھی ان کی زندگی میں ہمارے
لیے بہت کچھ موجود ہے ۔
پیغمبرانہ شان بلکہ وصف
یہ بھی ہے کہ اپنے مشن کی کامیابی کے لیے قابل ذکر ذہانت اورروشن دماغ افراد سے
کام لیا جائے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھئے کہ کس طرح انھوں نے اعلی
دماغ افراد سے کام لیا ۔ اپنے اصحاب کے ذریعہ دعوت وتبلیغ کا فریضہ انجام دیا۔ علم
وفراست اور سیادت وقیادت کا کام لیا ہے ۔ سرسید احمد خان نے اپنے عہد کے افراد سے
اپنے عہد کے لیے ایسے ایسے کام لیے جن میں ایک پیغمبرانہ شان نظر آتی ہے۔ شبلی
اپنی جگہ ایک انجمن تھے۔ ان کے قائم کردہ دارالمصنّفین کو دیکھ لیے کہ کس طرح
وہاںاداراتی کام کیا جاتا ہے ۔ حالی کو دیکھ لیجیے کہ کس طرح انھوں نے اردو تنقید
کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ پھر اس کے بعد مسد س جیسی عظیم نظم لکھی ۔ ڈپٹی نذیر احمد
پر غورکیجیے کہ انھوں نے کس طرح اردو ناول نگاری کا پہلا پتھر رکھا ۔
اس لیے یہ کہا جاسکتاہے
کہ سرسید احمد خان نے اپنی انفرادی صلاحیت اور اپنے رفقا کی انفرادی اہلیت کو مدغم
کرتے ہوئے تنظیمی اور ادارتی کاموں کا تانا بانا تیار کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج
بھی سرسید زندہ ہیں ۔ ان کے فلسفوں کی عصری معنویت بھی ہے ۔ ان کی عصری معنویت فقط
علی گڑھ کے قیام سے نہیں ہے بلکہ زبان وادب میں اصلاحی اقدامات نے انھیں اہم بنایا
ہے ۔مذہبی معاملات میں توسع پسند ی کا سلسلہ شروع کرنے کی وجہ سے بھی وہ قابل فخر
ہیں ۔ اسی طرح ان کی ادارہ ساز ذہنیت میں بھی ایک سبق ہے ۔ یہاں یہ اس نکتے پر بھی
غور کیا جاسکتاہے کہ سرسید احمد خان نے اپنی ملازمت کے ساتھ ساتھ جو کارنامہ انجام
ہے وہ عصری معنویت کے تناظر میں اہم ہے ۔ گویا ان کی ملازمت ان کی معاونت کرتی ہے
مگر آج ملازمت ہمیں محدود کردیتی ہے۔ یہی فرق ہے کہ سرسید احمد خان اور دیگر
افرادمیں ۔ سرسید احمد خان نے انگلینڈ کے سفر کو فقط سفر تک محدود نہیں رکھا ،
بلکہ انھوں نے اپنے سفر کے معاملات کو فکر کے ساتھ مربوط کیا ۔ یہی سبب ہے کہ ان
کا سفر اور حضر دوحصوں میں منقسم نہیں رہا ہے بلکہ سفر میں بھی وہی کام کیا جو
انھوں نے حضر میں کیا ہے ۔ گویا اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سرسید احمد نے اپنے
معاملات کو حالات کے تابع نہیں کیا بلکہ اپنی دانش مندی سے حالات کو اپنے معاملات
کے تابع بنانے کی کوشش کی ۔ کیوں کہ انھوں نے حالات سے تصادم کی کیفیت پیدا کرنے
کی کوشش نہیں ہے بلکہ حالات کے تغیرات میں عصری نفسیات کو جگہ دی ہے۔ یہی سبب ہے
کہ ان کا فلسفہ ان کے عہد میں بھی کامران رہا ہے اور آج بھی ان کے فلسفے میں عصری
معنویت پوشیدہ ہے ۔ کیوں کہ انھوں نے کار آمد ہر فرد کو خود سے جوڑ کر ادارہ سازی
کی ذہنیت کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہی پیغام انھیں دوسروں مصلحین سے
منفرد بناتا ہے اور انھیں آج بھی ہم مشعل راہ سمجھتے ہیں۔
17اکتوبر،2022، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism