ڈاکٹر شکیل صمدانی
جب کوئی تاریخ داں ہندوستان کی تاریخ مرتب کرے گا تو یقیناً 18ویں صدی اور 19ویں صدی کو مسلمانوں کے زوال کی صدی لکھے گا۔ویسے تو مسلمانوں کا زوال 18ویں صدی میں شروع ہوگیا تھالیکن 1857کی جنگ آزادی نے اس پر اپنی مہر لگادی ۔یعنی یہ طے ہوگیاکہ اب ہندوستان میں دوبارہ مسلمان برسراقتدار نہیں ہوسکتے اور انہیں وہ مقام ہرگز حاصل نہیں ہو سکتا جو انہیں اس سے پہلے حاصل تھا۔ظاہر ہے کہ 1857کی شکست نے مسلمانوں کے لیے راستے دشوار اور راہیں تاریک کردی تھیں ۔ایسے پر آشوب دور میں ہندوستان کے نقشے پر ایک بھاری بھر کم شخصیت نمودار ہوتی ہے جسے دنیا سرسیّد احمد خاں نے ہندوستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا پر غیر معمولی اثر چھوڑا ہے۔ مسلم یونیورسٹی سے فارغ طلبا نے پوری دنیا میں جس طرح کا رہائے نمایا ں انجام دیے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اگر مسلم یونیورسٹی نہ ہوتی تو کم سے کم آئیے سرسیّد کے 192ویں یوم پیدائش پر ان کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے۔
سرسیّد نے تعلیم پر اس لیے زیادہ زور دیا کہ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ انگریزوں کو ہتھیار اور مادّی قوتوں سےشکست نہیں دی جاسکتی کیونکہ پوری دنیا میں مسلمان دھیرے دھیرے زوال کی طرف جارہے تھےاور یورپ نے 16ویں اور 17ویں صدی میں جو سائنسی برتری حاصل کی تھی اس کی زد میں دھیرے دھیرےسارے مسلمان ملک آرہے تھے ۔اسی لیے سرسیّد نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا ان کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیرمسلمانوں کا مستقبل بالکل تاریک ہے۔سرسیّد کی دوربین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رخ اختیار کرلیا ہے اس کو بدلا نہیں جاسکتا اس میں رکاوٹ پیدا کر کے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جاسکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ ہوکر رہ جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کردی۔ سرسیّد احمد خاں کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جارہا ہے اور جو تعلیم حاصل کررہا ہے وہی راستہ اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درسگاہیں کیسی ہیں اور ان کا نظام تعلیم کیا ہے۔اور اسی لیے وہ خود انگلستان گئے وہاں کے تعلیمی نظام کو دیکھا تعلیمی اداروں میں رہے ،اساتذہ سے ملاقاتیں کیں اور انہوں نے خود اس بات کا عتراف کیا کہ انگلستان کی ہر چیز نے ان کو متاثر کیا ۔سرسیّد جدید اعلیٰ تعلیم سے اپنی تمام تر امیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے چاہے وہ اخلاق کی بلندی ہو، معاشی ترقی وخوشحالی ہویا سائنسی تکنیکی ایجادات وکمالات ہوں بقول ان کے یہ تعلیم ہی ہے جو علوم وفنون کی ترقی کی شاہرہ پر گامزن رہتی ہے ۔اور معاشی ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہے۔ سرسیّد کے مطابق قوم میں صلاحیتوں کا فقدان نہیں ہے، بلکہ صلاحیتیں غلط کاموں میں استعمال ہورہی ہیں اور ان کو صحیح خطوط پر ڈالنا بے حد ضروری ہے۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سرسیّد نے تربیت پر زور دیا ، چونکہ انہوں نے انگلستان میں دیکھ لیا تھا کہ طلبا کی تربیت میں اساتذہ کا سب سے اہم رول ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے ضرورت پڑنے پر اونچی تنخواہ دے کر انگلستان سے باصلاحیت افراد کو بلایا۔طلبا کی تعلیم کے لیے پر وقار اور شاندار عمارتوں کی تعمیر کروائی تاکہ طلبا کے ذہنوں پر ان کے عمدہ اثرات مرتب ہو ں طلبا کو ایسا ماحول ملے جو ان کی شخصیت کو نکھارنے میں معاون ثابت ہو، ایسا صاف ستھرا ماحول ہو جو ان کی صورت کے ساتھ ساتھ سیرت کو بھی صاف ستھرا بنادے۔ان میں بلند نظری پیدا کرے۔ ان کی روح کو شگفتہ وشاداب کرے اور دل کے سوتوں کو کھول دے۔تربیت کی ہی خاطر ہاسٹلوں کا نظام قائم کیا گیا تاکہ طلبا کا سارا وقت باصلاحیت ،با کردار اور شاندار اساتذہ کی نگرانی میں گزرے ۔ ان کا رہنا سہنا، کھیلنا کو دنا، سونا ،جاگنا، مطالعہ اور زندگی کے تمام امور ضابطوں کے ساتھ انجام پائیں اور ان میں ڈسپلن کا جذبہ پیدا ہو سیرت کی اعلیٰ صفات پیدا ہوں اور مسلسل تربیت کے ذریعہ ان کی پختگی آجائے۔ یہ کہنا غلط ہےکہ سرسید تعلیم کو صرف ملازمت حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھتے تھے ۔اردو کے مشہور ادیب قدرت اللہ شہاب کی کتاب ‘شہاب نامہ’ کچھ عرصہ قبل منظر عام پر آئی ہے اس میں مصنف نےاپنے والد عبداللہ صاحب کا قصہ تحریر کیا جب وہ اپنی ملازمت کی خبر دینے سیّد صاحب کے پاس گئے تو اس خبر پر انہوں نے ان کے دوبیدرسیدکئے کہ اگر مدرسۃ العلوم کےطالب علم اس طرح نوکریوں میں لگے رہے تو قومی خدمت کے لیے کارکن کہاں سے آئیں گے۔ مگر حالات کی ستم ظریفی کہاں سے وہی تعلیم منسوب کی گئی جس کا انجام ملازمت ہوتا ہے۔
دسمبر 1888میں محمڈن ایجوکیشنل کانگریس کے لاہور اجلاس میں سرسیّد نے ،ضلع علی گڑھ کی مسلمان بستیوں اور مسلمانوں کے تعلیمی حالات بڑی تفصیل سے پیش کئے ۔ ان کے مطابق ضلع کی کل آبادی 1021187تھی جن میں مسلمان 117339تھے ۔انہوں نے پورے ضلع اور شہر کے الگ الگ محلوں کا سروے کیا۔ اس سے یہ معلوم ہوا کہ ضلع کےسرکاری اسکول میں 278میں صرف 40مسلمان تھے۔ ایم اے اوکالج میں 121میں 108مسلمان، شہر کے مختلف محلوں میں 62پاٹھ شالاؤں اور مکاتب میں 734بچوں میں 213مسلمان تھے ۔ اس کے بعد انہوں نے پورے ضلع کا تفصیلی جائزہ لے کر بتایا کہ مسلمان طلبہ کی تعداد صرف 16.92ہے ۔
سرسیّد نے مارچ 1898میں ازواج مطہرات پر ایک مضمون لکھنا شروع کیا جو ایک عیسائی پادری کی تحریک امہات المومین کے جواب میں تھا۔ انتقال کے 16دن قبل انہوں نے لاہور میں مولوی سیّد مہر حسن (علامہ اقبال کے استاد) کو اس رسالہ کے تحریر کئے جانے کی اطلاع دی تھی۔ وہ اس رسالہ کو مکمل نہ کرسکے ، ان کے انتقال کے بعد یہ رسالہ نامکمل حالت میں گزٹ کی گئی قطوں میں شائع ہوا۔ اگر یہ مضمون پوراہوجاتا تو اس کا شمار یقیناً ازواج مطہرات پر اردو میں لکھے ہوئے چند بہترین اور مدلل مضامین میں کیا جاتا ۔ سرسیّد کا ایک اور اہم کارنامہ قانون قاضیاں کا پاس کرو انا ہے ۔ انہوں نے قاضی ایکٹ 23جنوری 1880کو کونسل میں پیش کیا۔ یہ بل 9جولائی 1880کو کونسل سے پاس ہوا اور آج بھی پورے ملک میں قاضی ایکٹ کے نام سے نافذ ہے۔ جہاں ایم ۔اے ۔او کالج (جس میں دراصل یونیورسٹی کا تصور پنہا ں تھا) کی تعلیمی پالیسی کا تعلق ہے تو انہوں نے یہ کہہ کر کہ ‘‘فلسفہ ہمارے داہنے ہاتھ میں اور نیچرل سائنس ہمارے بائیں ہاتھ میں اور سرپر کلمہ لاالہ الااللہ کا تاج ہوگا’’ مستقبل کی مسلم یونیورسٹی کی پالیسی مرتب کردی اور یہ بتادیاکہ کوئی بھی علم وفلسفہ جو مسلم یونیورسٹی میں پڑھایا جائے گا اسلام کی روح کے خلاف نہیں ہوگا، یعنی مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ وطلبہ وطالبات ذہنی طور پر اور علمی طور پر مومنانہ خصوصیات کے مالک ہوں گے اور ان کا علم، ان کی تحقیق ان کو اسلام سے دور کرنے کا باعث نہ بنے گی بلکہ یہ سارا علم تحقیق اسلام کی بقا اور اس کے فائدے کےلیے ہوگا۔ اور ان کے اسی خلوص اور خو اہش کی وجہ سے ابھی تک مسلم یونیورسٹی اپنے ‘مسلم تشخص’ کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے جبکہ بہت سے مسلم ادارے راستے سے بھٹک گئے اور اغیار کے ہاتھوں میں چلے گئے۔
سر سیّد کی بنائی ہوئی یونیور سٹی ۔یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پر اکثر وبیشتر ملک کو توڑ نے اور فرقہ پرستی کو بڑھانے کا الزام لگتا رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ ملک نے بٹوارے کا الزام جسونت سنگھ کی کتاب کے آنے کے بعد کافی حد تک کم ہوگیا ہے ۔یہ الزام کتنا غلط ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے ہوسکتا ہے کہ سرسیّد نے خو د اپنی تصنیف اور تقریر کے ذریعہ ہر جگہ قومی یکجہتی اور ہندو مسلم ایکتا کی طرف ہندوستانیوں کا دھیان دلایا ہے ۔ وہ کہتے ہیں :‘‘جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ غیر مذہب والوں سے سچی دوستی اور دلی محبت کرنا ممنوع ہے، یہ ان کی غلطی ہے۔ جو چیز کہ خدا ئے تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں بنائی ہے، وہ برحق اور بالکل سچ ہے۔ ہم کو تمام دوستوں سے ،خواہ کسی مذہب کے ہوں، سچی اور دلی محبت رکھنی اور برتنی چاہئے ’’ قومی یکجہتی کے سلسلے میں ایک جگہ کہتے ہیں :‘‘ جو لوگ ملک کی بھلائی چاہتے ہیں ،ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ بلالحاظ قوم ومذہب کے کل باشندگان ملک کی بھلائی کی کوشش کریں، کیونکہ جس طرح ایک انسان کی اس کے تمام قویٰ اور تمام اعضا کے صحیح وسالم رہے بغیر پوری تندرستی محال ہے ،اسی طرح ملک کے باشندووں کی خو ش حالی اور بہبودی کے بغیر ملک کی زندگی یا پوری ترقی ناممکن ہے’’۔سرسیّد پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ تعلیم نسو اں کے خلاف تھے ۔انہو ں نے مردو ں کی تعلیم پر توجہ دی لیکن عورتوں کی تعلیم پر کوئی دھیان نہیں دیا تھا۔ اس کی وجہ صرف لاعلمی اور کم علمی ہے جو اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے سرسیّد مردو ں کو عورتوں پر قوام کا درجہ دینے کے مترادف ومداح تھے عورتوں کو گھر کی شہزادی و ملکہ مردوں کو باہر کی دنیا کا سفیر سمجھتے تھے۔
تعلیم نسو اں سے متعلق سرسیّد کے موقف کی وضاحت تشنہ رہے گی جب تک یہ پیش نظر نہ ہوکہ سرسیّد مردوں کو عو رتوں پرقوام کا درجہ دینے کے معتر ف ومداح تھے۔ عورت کو گھر کی شہزادی وملکہ اور مرد کو باہر کی دنیا کا سفیر سمجھتے تھے۔ وہ مردوں کی تعلیم وتربیت کوعورتوں کی تعلیم کا زینہ اوّل قرار دیتے تھے ۔ یہی وجہ ہے کہ تادم آخر مردوں کی تعلیم وتربیت پر اپنی توجہ مرکوز کئے رہے جو بالواسطہ لڑکیوں کی تعلیم کا مو ٔثر ذریعہ ثابت ہوئی ۔سرسیّد کو تعلیم نسواں کے مخالفین کی صف میں کھڑا کردینے والوں کا خیال بالکل باطل ہوجاتا ہے اور تعلیم یافتہ ملک کی ہسٹری دیکھتے ہیں اور پاتے ہیں کہ جب مرد لائق ہوجاتے ہیں، عورتیں بھی لائق ہوجاتی ہیں ۔جب تک مرد لائق نہ ہوں، عورتیں بھی لائق نہیں ہوسکتیں۔
موجودہ وائس چانسلر پی۔کے عبدالعزیز کے تقریباً 28مہینوں کے دوران میں الحمدللہ مسلم یونیورسٹی کا میابی کی طرف گامزن ہے۔مسلم یونیورسٹی کی تاریخ میں پہلی بات پوری دنیا کے اولڈ بوائز کا دوروزہ جلسہ منعقد کیا گیا جس میں پوری دنیا کے تقریباً 20ملکوں کے اور ہندوستان کے تقریباً 25صوبوں کے لگ بھگ 500لوگوں نے شرکت کی اور اولڈ بوائز کو اپنی زندگی میں ایک بار پھر اپنی یونیور سٹی کو دیکھنے اور اپنے دوستوں سے ملنے کا موقع ملا مسلم یونیورسٹی نے پہلی بار سرسیّد انٹر نیشنل ایوارڈ دینے کا اعلان کیا۔ مسلم یونیورسٹی میں عرصہ دراز کے بعد بہت سے پرجیکٹوں کے لیے خطیر رقم حاصل ہوئی 11ویں پنچ سالہ منصوبہ میں 184کروڑ روپے کی خطیر رقم دینے کا اعلان کیا گیا جب کہ اس سے قبل 10ویں پنچ سالہ منصوبے میں صرف 35کروڑ روپے حاصل ہوئے تھے بعد میں مزید 17کروڑرپے کی رقم حاصل ہوئی ۔مسلم یونیورسٹی نے دور دوراز کے طلبہ کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے مقابلہ جاتی امتحان کے لیے یونیورسٹی نے ایک اور جرأت مندانہ اور انقلابی فیصلہ لیتے ہوئے ملک کےطول وعرض میں پانچ نئے کیمپس کھولنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے مرکزی حکومت سے دوہزار کروڑ روپے کی خطیر رقم دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔جہاں تک سرسیّد اور ان کی علی گڑھ تحریک کا تعلق ہے الحمدللہ وہ دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف گامزن ہے ۔لیکن حالیہ کچھ برسوں میں اس جذبے اور اس عقیدے میں کمی آئی ہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور علی گیرینس میں سستی کاہلی، موقع پرستی ،خودغرضی ،مفاد پرستی ،علاقائیت اور کم عقلی نے جگہ بنالی ہے یونیورسٹی میں اچھے لوگ معتوب ہیں اور عیار ،مکار وخود غرض لوگ یونیورسٹی کی قسمت کافیصلہ کرنے میں لگے ہیں یہ گروہ اتنا مضبوط ہے کہ عام پروفیسر کی بساط ہی کیا مضبوط وائس چانسلر کو بھی کام نہیں کرنے دیتے ۔یہی وجہ ہےکہ مسلم یونیورسٹی سے جو فائدہ مسلمانوں کو بحیثیت قوم ہونا چاہئے تھا ۔و ہ نہیں ہورہا ہے جو بے باک ، نڈر ،دوراندیش اور صالح لیڈر شپ نکلنی چاہئے تھی وہ نہیں نکل پارہی ہے آئیے سرسیّد ڈے کے اس مبارک موقع پر ہم سبھی علی گیرین ایک بار پھر علی گڑھ تحریک کو زندہ کرنے کی کوشش کریں اور اسی خلوص سے زندہ کرنے کی کوشش کریں جو بانی درسگاہ کے اندر تھا مسلمانوں اورہندوستان کے لیے انہوں نے جو خوادیکھا تھا اس کی تعبیر بننے کی کوشش کریں ۔ اگر ہم نے اس پر عمل کیا تو یقیناًً سرسیّد کی روح بھی خوش ہوگی اور غالباً یہی ان کے لیے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
URL for this article: