New Age Islam
Tue Mar 18 2025, 02:26 AM

Urdu Section ( 24 Oct 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sir Syed Ahmed Khan: An Epoch-Making Figure- Part-1 سر سید احمد خان: ایک عہد ساز شخصیت

ڈاکٹر عبید الرحمن ندوی

(حصّہ اول )

23 اکتوبر 2024

سرسید احمد خاں کا شمار ہندوستان کی عہد ساز شخصیتوں میں ہوتاہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ہند ستان کو اپنے جن مایہ ناز سپوتوں پر فخر ہے ان میں ایک نام سر سید احمد خاں کا بھی ہے،موصوف نے اپنی پوری زندگی ،ملت کے کاموں کے لئے وقف کردی تھی،اگر موصوف کا ایک ہاتھ ملت کی نبض پر تھاتودوسرا ہاتھ زمانہ کی رفتار پر،سر سید ایک حقیقت پسند انسان تھے وہ تعلیم کی ترقی کو ملت کی ترقی کاذریعہ سمجھتے تھے ۔

’’سرسید ۱۷؍اکتوبر ۱۸۱۷؁ ء کو دہلی کے ایک خوددارگھرانے میں پیداہوئے نام احمد رکھا گیا،حسینی سید تھے،خان کا خطاب خاندانی تھااور سر کا خطاب حکومت کی جانب سے ملاتھا،اس بنا پرسرسید احمد خاں کے نام سے مشہور ہوئے،اللہ نے انھیں اعلیٰ دماغ اور باحوصلہ قلب عطا فرمایا تھازندگی کے سفر کا آغازسرکاری ملازمت سے ہوئی مگر پوری زندگی ملک و ملت کی خدمت میں گزار دی سر سید کی زندگی سے ہمیں بیش بہا سبق ملتے ہیں۔اپنے نصب العین پرآخر دم تک جمے رہنا،اس کے حصول کے لئے ہر جائز ذریعہ کو کام میں لانا، مخالفانہ سرگرمیوں سے مایوس نہ ہونا بلکہ ان کا خندہ پیشانی اور دلیری سے مقابلہ کرنا، محنت و مشقت سے کبھی جی نہ چرانا ، اپنے ضمیر کی آواز کو بلند کرنے کے سلسلے میں کسی دباؤ و اثر یا اختلاف سے مرعوب نہ ہونا، سر سید کی زندگی کا جز لاینفک بن گئے تھے، وہ نہ صرف عزم و استقلال کے پہاڑ تھے بلکہ انتہائی خوددار بھی تھے کسی ایسی بات کو جو خود داری کے خلاف ہوتی برداشت نہ کرتے‘‘ ( سیر سید اور علی گڑھ تحریک ص ، ۱)

۱۸۵۷کی جنگ آزادی کی ناکامی پر مسلمانوں میں احساسِ شکست ، احساسِ کمتری اور ایک عام مایوسی پھیلتی جارہی تھی۔ اس نازک حالت میں دو قسم کی قیادتیں ابھر کے سامنے آئیں، پہلی قیادت مولانا قاسم نانوتوی ؒ (۱۸۳۳-۱۸۸۰ )کررہے تھے، دوسری قیادت جس کا پرچم سر سید احمد خاں (۱۸۱۷-۱۸۹۸ ) کے ہاتھ میں تھا۔

مولانا محمد اسحاق جلیس ندوی رقم طراز ہیں ’’ سر سید کی تعلیم پرانے اصولوں پر ہوئی ، مذہب کے آغوش میں انہوں نے پرورش پائی تھی، انہوں نے جب شعور کی آنکھیں کھولیں تو سلطنت مغلیہ کا آفتاب لبِ بام آچکا تھا، ان کا خاندان عرصہ سے دربار مغلیہ سے متعلق تھا، وہ خود ابتدائی زمانہ میں دربار میں آتے جاتے تھے، اس طرح انہیں زوال پذیر سلطنت مغلیہ کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا، انہوں نے وہ ابتری اپنی آنکھوں سے دیکھی تھی، جس کا ہلکا سا نقشہ انہوں نے اپنے نانا نواب دبیر الدولہ امین الملک خواجہ فرید الدین خاں کے حالات ’’سیرت فریدیہ‘‘ میں کھینچا ہے، ان کے کانوں میں وہ آوازیں گونج رہی تھیں، جب مغل شہزادے محلات کی چھتوں پرچڑھ چڑھ کر چلاتے تھے، ہم بھوکے مرتے ہیں ہم بھوکے مرتے ہیں، ان کی نظر اس اخلاقی ، سیاسی ، سماجی اور اقتصادی بیماری پر تھی، جو گھن کی طرح مغلیہ سلطنت کو کھارہی تھی۔

سرسید احمد خاں کی عمر ۱۳،۱۴سال کی ہوگی ، جس وقت حضرت سید احمد شہید ؒ نے اصلاح و حریت کا علم بلند کیا، اس تحریک کو انہوں نے قریب سے دیکھاتھا، شاہ عبد العزیز دہلوی کا خاندان ان کی عقیدت کا مرکز تھا، شاہ اسماعیل شہیدؒ کے وعظوں میں انہوں نے شرکت کی تھی، اپنی کتاب ’’آثار الصنادید ‘‘ میں حضرت سید احمد شہیدؒ ، شاہ اسماعیل شہیدؒ ، شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کے حالات جس محبت اور جوش سے انہوں نے لکھے ہیں ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان بزرگوں سے انہیں بڑی عقیدت و محبت کا تعلق تھا، سیر سید احمد خاں دہلی کالج میں مولانا مملوک علی کے شاگرد رہ چکے تھے، جو مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی ؒ ’(بانی دار العلوم دیوبند) کے استاذ اور رشتے میں چچا ہوتے تھے، یہ عجیب واقعہ ہے کہ غدر کے طوفان نے ہندوستان کے سماجی اور سیاسی زندگی کی بنیادوں کو ہلادیا تھا، اور ایسے وقت میں دو متضاد تحریکیں یا مکتب خیال و دبستان فکر وجود میں آئے تو ان کا سر چشمہ ایک ہی تھا، دونوں تحریکوں کے بانی ایک درس گاہ اور ایک استاذ کے فیضاب ، دہلی اجڑی، دلی کالج بند ہوا تو اس کے عوض دیوبند اور علی گڑھ دو مرکز بن گئے بقول شخصے :--’’جس طرح مولانا محمد قاسم ؒ دہلی کا لج کے عربی حصہ کو دیوبند لے گئے اسی طرح سر سید احمد خاں نے دہلی کالج کے انگریزی حصہ کو علی گڑھ پہونچادیا‘‘ (تاریخ ندوۃ العلماء حصہ اول ، ص ۴۵،۴۶)

سر سید کی شخصیت ہمہ جہت تھی ، ۔ ہر فن میں ہوں طاق مجھے کیا نہیں آتا ؟سر سید احمد خاں کا تذکرہ متعدد پہلؤوں سے کیا جاسکتا ہے، سر سید بحیثیت ایک وفادار قوم و ملت کے خادم ، سر سید بحیثیت ہندو و مسلم اتحاد کے ایک عظیم علم بردار ، سرسید بحیثیت ایک ماہر تعلیم ، سر سید بحیثیت ایک انقلاب آفریں شخصیت ، سر سید بحیثیت ایک دیانت دار اور کہنہ مشق صحافی، سر سید بحیثیت ایک ممتاز اردو ادیب، سر سید بحیثیت ایک مورخ ، سرسیدبحیثیت ایک نامور خطیب، سر سید بحیثیت ایک عمدہ ایڈیٹر ،سر سید بحیثیت ایک باکما ل مصنف، سرسید بحیثیت ایک بے لوث ترجمان قوم و ملت ، سر سید بحیثیت ایک ناقد، سر سید بحیثیت ایک ماہر منتظم ، سر سید بحیثیت ایک مشفق والد، سرسید بحیثیت ایک وفادار شوہر، سرسید بحیثیت قوم کے غریبوں ودکھیاروں کا ایک سچامسیحاو غیرہ۔

سر سید کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے چار باتیں ہمیں نمایاں طور پر نظر آتی ہیں ، ایک تو موصوف تنقید سے کبھی نہیں گھبراتے تھے، تنقید برائے تنقید نہیں بلکہ اسکو برائے غور و فکر اور برائے اصلاح و تجدید سمجھتے تھے، ’’و فی العتاب حیاۃ بین اقوامــ‘‘

دوسری بات سرسید جرأ تمندانہ اور قلندرانہ دل رکھتے تھے،حق بات کہنے سے کبھی پیچھے نہیں ہٹتے تھے، سرسید کی شخصیت ہی تھی جس نے ــ ’ اسباب بغاوت ہند‘ لکھ کر حکومت برطانیہ کے اہل کاروں کو ۱۸۵۷ء؁ کے واقعات کا ذمہ دار ٹھرایا ،اسی طرح انہوں نے خطبات احمدیہ جیسی شاہکار کتا ب لکھ کر سر ولیم میور کا منہ توڑ جواب دیا جس نے حضور ﷺ کی سیرت کو غلط انداز میں پیش کیا اور اس کا مذاق بھی بنایا،سر سیدنے اس کتاب کو لندن میں بیٹھ کر تصنیف کی،سر سید لکھتے ہیں : ـ ’’ ولیم میور صاحب نے جو کتاب آں حضرت ؑ کے حال میں لکھی ہے اس کو میں دیکھ رہا ہوں ، اس نے دل کو جلادیا اور اس کی ناانصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہوگیااور مصمم ارادہ کیا کہ آں حضرت صلعم کے ’سیر ‘ میں جیسا کہ پہلے سے ارادہ تھا کتاب لکھ دی جائے اگر تما م روپے خرچ ہوجائے اور میں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہوجائے توبلاسے قیامت میں یہ تو کہہ کر پکار ا جاؤں گا کہ اس فقیر مسکین احمد کو جو اپنے دادا محمد صلعم کے نام پر فقیر ہوکر مرگیا، حاضر کرو،مارا ہمیں تمغہ شاہنشاہی بساست۔ ‘‘ (خطوط سر سید ص ۴۹)

تیاری کے اقدامات کے متعلق سر سید لکھتے ہیں ’’ میں نے فرانس اور جرمن سے اور مصر سے کتب ’سیر‘ منگانی شروع کردیں، چھٹیات روانہ ہوگئیں، سیرتِ ہشام مطبوعہ اور چند کتابیں لیٹن خرید لیں، ایک آدمی مقرر کر لیا جو لیٹن کا ترجمہ کرکے مضمون بتلاسکے۔‘‘ (ایضا ص ۴۹)

سر سید مزید لکھتے ہیں کہ’’ اگر میری کتاب تیار ہوگئی ۔۔۔۔۔ تو میں لندن میں آنا دس حج کے برابر اور باعث اپنی نجات کا سمجھوں گا۔‘‘

’’ میری کتاب خطبات ِ احمدیہ یہ ایک مسلمان عالم متبحر نے پڑھی جو قسطنطنیہ سے یہاں آیا ہے۔ جو الفاظ کہ اس نے کہے او ر مجھے لکھے اور جس طرح میرے ہاتھ چومے اس کی لذت میں جانتا ہوں، اس کے چند مقام ایسے ہیں جن کو دیکھ کر’’نا مسلمانانِ ہند ‘‘ فتوی کفر دیں گے ۔‘‘ (خطوط سر سید ص ۴۹)

 تیسری بات وہ ہندو و مسلم اتحاد کے عظیم علم بردار تھے ، وہ فرمایا ـکرتے تھے ،’’اے میرے دوستوں !! میں نے بارہا کہا ہے اور پھر کہتا ہوں کہ ہندوستان ایک دُلہن کی مانند ہے جس کی خوبصورت اور رسیلی دو آنکھیں ہندو اور مسلمان ہیں ، اگر دونوں آپس میں نفاق کریں گے تو پیاری دُلہن بھینگی ہوجائے گی اوراگر ایک دوسرے کو برباد کریں گے تو وہ کانی ہوجائے گی، پس اے ہندوستان کے رہنے والے ہندو اور مسلمان اب تم کو اختیار ہے کہ چاہے اس دُلہن کو بھینگی بناؤ چاہے کانی‘‘۔ موصوف یہ بھی فرمایا کرتے تھے۔ ’’ہندو مسلمان ایک مذہبی لفظ ہے ورنہ ہندو ، مسلمان اور عیسائی جو اس ملک میں رہتے ہیں اس اعتبار سے سب ایک قوم ہیں‘‘۔

مشہور ماہرِ تعلیم وہ زکوۃ فاؤنڈیشن دہلی کے چیرمین ڈاکٹر سید ظفر محمود نے بجا فرمایا کہ سیر سید احمد خاں نے جب ملک میں حاکم و محکوم کوئی بھی سیکولرزم کے اصطلاح سے آشنا نہ تھا، اس وقت انہوں نے اپنے ادارے مدرسۃ العلوم کے ذریعہ سیکولرزم کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا کام کیا۔ قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارے کی بہترین مثال آپ کو مسلم یونیور سٹی میں دیکھنے کو ملے گی۔

چوتھی بات موصوف قوم و ملت کے دھڑکتے ہوئے دل تھے وہ استقلال و استقامت کے عظیم پہاڑ تھے،انہوں نے سستی اور کاہلی کو کبھی جگہ نہیں دی،فراخ دلی اور وسیع النظری سرسید کے خمیر اور افتاد طبع میں داخل تھی ’’ سر سید مسلمانوں کی پستی ، بے چارگی اور بے حوصلگی سے انتہائی بے چین تھے، ان کے دل کی جو حالت تھی اس کا نقشہ خود ان کے قلم نے یوں کھینچا ہے : ’’ ۔۔اور جو حال اس وقت قوم کا تھا وہ کسی طرح دیکھا نہیں جاتا۔ آپ یقین کیجئے کہ اس غم نے مجھے بڈھا کر دیا اور میرے بال سفید کر دیے، مگر اس وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ نہایت نامردی اور بے مروتی کی بات ہے کہ اپنی قوم کو تباہی کی حالت میں چھوڑ کر خود کسی گوشۂ عافیت میں جا بیٹھوں۔ نہیں، ! اس مصیبت میں شریک ہونا چاہیئے اور جو مصیبت پڑے اس کو دور کرنے میں ہمت باندھینا قومی فرض ہے ‘‘۔ )سیر سید علیہ الرحمۃ اور علی گڑھ تحریک ص ،۴)۔

سر سید احمد خاں نے اپنے ارادہ اور عزم کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا : ’’تو یہ سوال پیش آتا ہے کہ ہم کو کیا کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں اس کا جواب صاف ہے ۔ استقلال، استقلال، استقلال،۔ ہمت، ہمت، ہمت۔ کوشش، کوشش، کوشش۔ ہم کو گورنمنٹ کی پالیسی کی کچھ نہ پرواہ کرنی چاہیے اور اگر ہم میں خودداری (self respect) کا کچھ اثر باقی ہے تو گورنمنٹ کو دکھا دینا چاہیے کہ بلاشبہ گورنمنٹ کو لوگوں کی جان پر اختیار ہے مگر لوگوں کی رائے پر نہیں‘‘۔ (ماخوذ از مکمل لکچرس و اسپیچز ص، ۲۹۸، اجلاس چہارم آل انڈیا محمدن ایجوکیشنل کانفرنس منعقدہ علی گڑھ)۔۔

سر سید احمد خاں کی خدمت کا دائرہ بہت وسیع ہے ،انہوں نے قوم و ملت کے فلاح و بہبود کے لئے ۱۸۵۸ء میں مرادآباد میں ایک اسکول قائم کیا ، جہاں اس زمانے میں کسی قسم کا اسکول کا وجود نہ تھا، پھر وہ جب غازی پور گئے تو وہاں بھی ایک اسکو ل قائم کیا، اسی طرح غازی پوری ہی میں ۱۸۶۲ء میں سائنسٹیفک سوسائٹی قائم کی،اس سوسائٹی کا اصل مقصد انگریزی زبان کی عمدہ عمدہ علوم و فنون کی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کرنا اور چھاپنا تھا،اس سوسائٹی کو ۱۸۶۴ء میں علی گڑھ منتقل کردیا گیا۔

سر سید نے ۱۸۶۹ء کو ولایت کا سفر کیا، اٹھارہ انیس ماہ قیام کے بعد اکتوبر ۱۸۷۰ء ؁ میں جب وہ ہندوستان واپس آئے تو سب سے پہلا کام جو انہوں نے کیا وہ رسالہ ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘کا اجرا تھاجس کا پہلا شمارہ ۲۴دسمبر ۱۹۷۰ء کو شائع ہوا ۔

کسی نے سچ کہا : ’’ تہذیب الاخلاق ‘‘ نے مسلمانوں کی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر کیا اور یہاں تک کہ قوم کو لکھنا پڑھنا سوچنا سمجھنا سکھایا، سر سید نے ایک عام ادیب کی طرح دل ودماغ کے لئے فرحت بخش تحریریں نہیں تخلیق کیں، تفریح اور ذہنی سکون کے سامان نہیں مہیا کئے بلکہ ایک بے باک صحافی کی حیثیت سے دل ودماغ اور فکر کے گوشے گوشے میں تبدیلی لادی۔

(جاری )

23 اکتوبر 2024،بشکریہ:روزنامہآگ، لکھنؤ

----------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sir-syed-ahmed-khan-epoch-making-figure/d/133529

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..