ڈاکٹر شکیل صمدانی
17 اکتوبر، 2014
17 اکتوبر کو مسلم یونیورسٹی میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں سر سید کایوم پیدائش بڑے تزک اور احتشام سے منایا جائے گا۔ کہیں سیمینار ہوگا تو کہیں جلسے ہوں گے او رکہیں ان دونوں کے ساتھ ساتھ لنچ اور ڈنر کا بھی انتظام کیا جائے گا یعنی ہر شہر میں ، ہر ملک میں اپنے انداز سے سرسید ڈے منایا جائے گا ۔ ایشیا اور مڈل ایسٹ کا ذکر چھوڑئیے یورپ، امریکہ ، آسٹریلیا اور افریقہ میں بھی یہ سلسلہ تقریباً ایک ماہ تک چلتا رہے گا۔ ظاہر ہے ایسی عظیم شخصیت کو علمی اور ادبی انداز میں خراج عقیدت پیش کرنے کا ایک ذریعہ مضمون بھی ہے اور راقم الحروف اسی کے ذریعہ سر سید احمد خاں کو خراج عقیدت پیش کررہا ہے ۔ زیر نظر مضمون میں سر سید کی شخصیت پر سر سری روشنی ڈالنے کے علاوہ ان کی مذہبی رواداری اور سیکولر زم پر بھی خاص روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔
جب کوئی تاریخ داں ہندوستان کی تاریخ مرتب کرے گا تو یقیناً 18 ویں اور 19 ویں صدی کو مسلمانوں کے زوال کی صدی لکھے گا ۔ ویسے تو مسلمانوں کا زوال 18 ویں صدی میں شروع ہوگیا تھا لیکن 1857 کی جنگ آزادی نے اس پر انپی مہر لگا دی ۔ یعنی یہ طے ہوگیا کہ اب ہندوستان میں دوبارہ مسلمان برسرے اقتدار نہیں ہوسکتے او رانہیں وہ مقام ہر گز حاصل نہیں ہوسکتا جو انہیں اس سے پہلے حاصل تھا ۔ ظاہر ہے کہ 1857 کے شکست نے مسلمانوں کے لیے راستے دشوار اور راہیں تاریک کردی تھیں ۔ ایسے پر آشوب دور میں ہندوستان کے نقشے پر ایک بھاری بھرکم شخصیت نمودار ہوتی ہے جسے دنیا سر سید کے نام سے جانتی ہے۔ دراصل سرسید احمد خاں نے ہندوستان میں نہیں بلکہ پورے ایشیا اور بلکہ پوری دنیا پر غیر معمولی اثر چھوڑا ہے۔ مسلم یونیورسٹی سے فارغ طلباء نے پوری دنیا میں جس طرح کارہائے نمایاں کانجام دیے ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ اگر مسلم یونیورسٹی نہ ہوتی تو کم سے کم مسلمانوں کے تناظر میں بہت کچھ نہ ہوتا ۔ آئیے سرسید کے 192 ویں یوم پیدائش پر ان کی شخصیت کے نمایاں پہلوؤں پر نظر ڈالی جائے ۔
سر سید نے تعلیم پر اس لیے زیادہ زور دیا کہ انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ انگریزوں کو ہتھیار او رمادّی قوتوں سے شکست نہیں دی جاسکتی کیونکہ پوری دنیا میں مسلمان دھیرے دھیرے زوال کی طرف جارہے تھے اور یورپ نے 16 ویں اور 17 ویں صدی میں جو سائنسی بر تری حاصل کی تھی اس کی زد میں دھیرے دھیرے سارے مسلمان ملک آرہے تھے ۔ اسی لیے سر سید نے زیادہ زور جدید تعلیم پر دیا اُن کو یہ بات سمجھ میں آگئی تھی کہ جدید تعلیم کے بغیر مسلمانوں کامستقبل بالکل تاریک ہے۔ سر سیّد کی دور بین نگاہوں نے دیکھ لیا تھا کہ زندگی نے جو رُخ اختیار کرلیا ہے اُس کو بدلانہیں جاسکتا اس میں رکاوٹ پیدا کرکے اس کی رفتار کو بھی روکا نہیں جاسکتا بلکہ ایسا کرنے والے خود تباہ ہوکر رہ جائیں گے۔ اس لیے انہوں نے تمام تر توجہ جدید تعلیم کے فروغ پر مرکوز کردی ۔ سر سیّد احمد خاں کو اس بات کا یقین ہوگیا تھا کہ یورپ جس راستے پر جارہاہے اور جو تعلیم حاصل کررہا ہے وہی راستہ اور تعلیم مستقبل کی ترقی کی گارنٹی ہے۔ وہ جاننا چاہتے تھے کہ وہ درسگاہیں کیسی ہیں اور اُن کا نظامِ تعلیم کیا ہے۔ اور اسی لیے وہ خود انگلستان گئے وہاں کی تعلیمی نظام کو دیکھا تعلیمی اداروں میں رہے، اساتذہ سےملاقاتیں کیں اور انہوں نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ انگلستان کی ہر ہر چیز نے اُن کو متاثر کیا۔ سر سید جدید اعلیٰ تعلیم سے اپنی تمام تر اُمیدیں وابستہ کیے ہوئے تھے چاہے وہ اخلاق کی بلندی ہو، معاشی ترقی و خوشحالی ہو یا سائنسی وہ تکنیکی ایجادات و کمالات ہوں بقول ان کے یہ تعلیم ہی ہے جو علم و فنون کو ترقی کی شاہرہ پر گامزن رہتی ہے اور معاشرتی ترقی کی راہیں ہموار کرتی ہے ۔ سر سید کےمطابق قوم میں صلاحیتوں کا فقدان نہیں ہے، بلکہ صلاحیتیں غلط کاموں میں استعمال ہورہی ہیں ۔ اور ان کو صحیح خطوط پر ڈالنا بے حد ضروری ہے۔
سر سید نے قوم کو ایک اور راستہ دکھایا ، سرکاری ملازمت میں رہتے ہوئے حکومت کی غلط پالیسوں سے اختلاف کرنا۔ ‘ اسباب بغاوت ، ہند ، لکھ کر انہوں نے انگریز حکومت کو قائل کیا کہ بغاوت کی ساری ذمہ داری ہندوستانیوں پر ڈال دینا غلط ہے ، بلکہ اس کی ذمہ داری انگریزی حکومت کی غلط پالیساں بھی ہیں ۔یعنی انہوں نے اس کتاب کو لکھ کر مسلمانوں کے سلسلے میں انگریزوں کی غلط ذہنیت کو بدلنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ تاریخی لحاظ سے بغاوت کی اصلی وجہ بھی بیان کردی ۔ سر سیّد قوم کے اندر ایک ایسا جذبہ بیدار کرناچاہتے تھے جس کے ذریعہ قوم میں حقوق کو حاصل کرنے کی طاقت او ر صلاحیت پیدا ہوجائے بقول ان کے ‘‘ ہندوستان کی ایسی تعلیم چاہتا ہوں کےاس کے ذریعے اُن کے حقوق حاصل ہونے کی قدرت ہوجائے ، اگر گورنمنٹ نے ہمارے کچھ حقوق اب تک ہم کو نہیں دیے ہیں جن کی ہم کو شکایت ہوتو بھی ہائی ایجوکیشن وہ چیز ہے کہ خواہ مخواہ طوعاً کروہاً ہم کو،د لادے گی۔’’
تعلیم کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سر سیّد نے تربیت پر زور دیا ،چونکہ انہوں نے انگلستان میں دیکھ لیا تھا کہ طلبا کی تربیت میں اساتذہ کا سب سے اہم رول ہوتا ہے۔ اس لیے انہوں نے ضرورت پڑنے پر اونچی تنخواہ دے کر انگلستان سے با صلاحیت افراد کو بلایا ۔ طلبا کی تعلیم کے لیے پرُ وقار اور شاندار عمارتوں کی تعمیر کروائی تاکہ طلبا کے ذہنوں پر ان کے عمدہ اثرات مرتب ہوں طلبا کو ایسا ماحول ملے جو ان کی شخصیت کو نکھارنے میں معاون ثابت ہو، ایسا صاف ستھرا ماحول ہو جو ان کی صورت کے ساتھ ساتھ سیرت کوبھی صاف ستھرابنادے۔ ان میں بلند نظری پیدا کرے۔ ان کی روح کو شگفتہ و شاداب کرے اور دل کو سوتوں کو کھول دے۔ تربیت کی ہی خاطر ہاسٹلوں کا نظام قائم کیا گیا تاکہ طلبا کا سارا وقت با صلاحیت، با کردار اور شاندار اساتذہ کی نگرانی میں ہو۔ انکا رہنا سہنا ، کھیلنا کودنا، سونا جاگنا ، مطالعہ اور زندگی کے تمام امور ضابطوں کے ساتھ انجام پائیں ۔ اور اُن میں ڈسپلن کا جذبہ پیدا ہو سیرت کی اعلیٰ صفات پیدا ہوں او رمسلسل ترتیب کے ذریعے ان میں پختگی آجائے ۔
سر سید نے مارچ 1898 میں ازواج مطہرات پر ایک مضمون لکھنا شروع کیا جو ایک عیسائی پادری کی تحریک امہات المومین کے جواب میں تھا ۔ انتقال کے 16 دن قبل انہوں نے لاہور میں مولوی سید میر حسن ( علامہ اقبال کے استاد) کو اس رسالہ کی تحریر کئے جانے کی اطلاح دی تھی ۔ وہ اس رسالہ کو مکمل نہ کرسکے ، ان کے انتقال کے بعد یہ رسالہ نا مکمل حالت میں گزٹ کی گئی کشتوں میں شائع ہوا۔ اگر یہ مضمون پورا ہوجاتا تو اس کا شمار یقیناً ازواج مطہرات پر اُردو میں لکھے ہوئے چند بہترین اور مدلل مضامین میں شمار کیا جاتا ۔ سر سیّد کا ایک اور اہم کار نامہ قانون قاضیان کاپاس کروانا ہے۔ انہوں نے قاضی ایکٹ 23 جنوری 1880 کو کونسل میں پیش کیا ۔ یہ بل 9 جولائی 1880 کو کونسل سے پاس ہوا اور آج بھی پورے ملک میں قاضی ایکٹ کے نام سے نافذ ہے۔
سر سید او رمذہبی رواداری
سر سید کی بنائی ہوئی یونیورسٹی ۔یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اکثر و بیشتر ملک کو توڑ نے اور فرقہ پرستی کو بڑھانے کاالزام لگاتا رہا ہے یہ الگ بات ہے کہ ملک کے بٹوارے کا الزام جسونت سنگھ کی کتاب کے آنے کےبعد کافی حد تک کم ہوگیا ہے۔ یہ الزام ہے ۔ یہ الزام کتناغلط ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سےہوسکتا ہے کہ سر سید نے خود اپنی خود تصنیف اور تقریر کے ذریعہ ہر جگہ قومی یکجہتی او رہندو مسلم ایکتا کی طرف ہندوستانیوں کادھیان دلایا ہے ۔ وہ کہتے ہیں :
‘‘جن لوگوں کا یہ خیال ہے کہ غیر مذہب والوں سے سچی دوستی او ردلی محبت کرنا ممنوع ہے ، یہ ان کی غلطی ہے۔ جو چیز کہ خدا ئے تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں بنائی ہے، وہ بر حق او ربالکل فطرت میں بنائی ہے، وہ بر حق او ربالکل سچ ہے ۔ ہم کو تمام دوستوں سے ، خواہ کسی مذہب کے ہوں، سچی او ردلی محبت رکھنی اور برتنی چاہئے ’’۔
‘‘ سب سے اوّل اور تمام برکتوں کی جڑ تمہارا آپس میں سلوک محبت سے رہنا ہے۔ تمام طالب علم ہندوستان کے ہوں، پنجاب کے ، پورب کے ہوں یا پچھم کے ، اتر کے ہوں یا دکھن کے ، جب وہ سب تمہاری عاقل ماں ( کالج) کی گود میں ہیں، تو وہ سب تمہارے بھائی ہیں ۔ اگر تم نے ان کے ساتھ مثل بھائی بھائی کے برتاؤ نہیں کیا او ربرادرانہ محبت کی ایک دوسرے کے ساتھ نہ برتی تو تم نے اس پہلے اصول کو کہ تم سب ایک عاقل ماں کے بچے ہو، تو ڑ دیا ۔’’ ‘‘ بورڈنگ ہاؤسں ایک کل ہے ، قوم کو قوم بنانے کی ۔۔۔’’
( مدرسۃ العلوم کے طلبا ء سے خطاب ، 7 دسمبر 1894) کو سر سید احمد خاں ایک قومی نظریے کے حامل و پابند تھے او رقومی یکجہتی پر بہت زور دیتے تھے تعصّب سے انہیں شدید ترین نفرت تھی ۔ ایک جگہ رقم طراز ہیں:
‘‘ انسان کی بد ترین خصلتوں میں سے تعصّب بھی ایک بد ترین خصلت ہے۔ یہ ایسی خصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کی غارت و بربادی کرتی ہے۔ متعصب گو اپنی زبان سے نہ کہے ، مگر اس کا طریقہ یہ جتلاتا ہے کہ عدل و انصاف کی خصلت جو عمدہ ترین خصائل انسانی میں ہے، اس میں نہیں ہے۔’’( تہذیب الاخلاق ، جلد اوّل ، 1 شوال 1287 ھ)
‘‘ تعصب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک وہ نہیں پاتا کوئی ہنر و کمال اس (آدمی) میں نہیں آتا ۔ تربیت و انسانیت کا مطلق نشان نہیں پایا جاتا ہے اور جب کہ وہ مذہبی غلط نمانیکی کے پردہ میں ظہور کرتا ہے تو اور بھی سم قاتل ہوتا ہے، کیونکہ مذہب اور تعصب سےکچھ تعلق نہیں ہے ۔ انسان کے خراب و برباد کرنے کے شیطان کا سب سے بڑا داؤں تعصب کو مذہبی رنگت سے دل میں ڈالنا اور تاریکی کے فرشتہ کو روشنی کا فرشتہ کر کے دکھلانا ہے۔’’ ( تہذیب الاخلاق ، جلد اوّل ، 1 شوال 1287 ھ)
قومی یکجہتی کی سلسلے میں ایک جگہ کہتے ہیں :
‘‘ جو لوگ ملک کی بھلائی چاہتے ہیں ، ان کا پہلا فرض یہ ہے کہ بلا لحاظ قوم و مذہب کے کل باشندگانِ ملک کی بھلائی کی کوشش کریں، کیونکہ جس طرح ایک انسان کی اس کے تمام قویٰ اور تمام اعضا ئے کے صحیح و سالم رہے بغیر پوری تندرستی محال ہے، اسی طرح ملک کے باشندوں کی خوش حالی او ربہبودی بغیر ملک کی زندگی یا پوری ترقی نا ممکن ہے۔’’
سر سید نے ایک اہم کام مذاہب کے درمیان بات چیت کے ذریعے دوریاں کم کرنے کا کیا ، انہوں نے بائبل کے اوپر مضامین لکھ کر عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان کشیدگی کم کرنے کی کوشش کی اور اس کے مثبت تنائج بھی برآمد ہوئے ۔ انہوں نے نہ صرف مسلمانوں اور عیسائیوں کو قریب لانے کاکام کیا بلکہ ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان بھی دوریاں کم کرنے کا کام کیا ۔ اُن کو یہ اندازہ اچھی طرح ہوگیا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان منافرت ملک کے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور شاید اسی لیے انہوں نے ہندوؤں او رمسلمانوں کو ‘‘ایک خوبصورت دلہن کی دو آنکھیں ’’ کہا ، یعنی اگر دلہن کی خوبصورتی بر قرار رکھنا ہے تو اس کی دونوں آنکھوں کا خیال رکھنا ہوگا ، اگر دلہن کی ایک آنکھ خراب ہوجائے تو وہ دلہن خوبصورت نہیں کہلائے گی، یعنی ملک کی ترقی کے لیے ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان محبت، بھائی چارہ او رہمدردی ہونا لازمی ہے۔ سرسید نہ صرف قول سے بلکہ فعل کے اعتبار سے بھی سیکولر تھے اوراس کا واضح ثبوت بجنور کاوہ واقعہ ہے جب ہندو چودھریوں نے بجنور کے کلکٹر الیکز ینڈر شیکسپیر سے یہ فریاد کی جب وہ شہر چھوڑ کر جائیں تو اس کا ذمہ ان کے سپرد کردیں ۔ جب کلکٹر صاحب نے یہ کہا کہ انہوں نے پہلے ہی یہ ذمہ داری رحمت خاں اور ‘ سید احمد خاں’ کو دے دی ہے تو ہندو زمیندار وں نے یہ کہا ہے کہ ہمیں ان دونوں اشخاص پر پورا بھروسہ ہے۔ یہ اس بات کاثبوت ہے کہ سر سید احمد خاں ہندوؤں میں کافی مقبول تھے اور ہندوؤں اُن پر پورا اعتماد کرتے تھے ۔
سر سید نے ویسے تو ایم اے او کالج مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی دورکرنے کےلیے کیاتھا لیکن کالج کے دروازے سبھی مذاہب کے ماننے والوں کے لیے یکساں طور پر کھلے ہوئے تھے اور داخلے کےسلسلے میں کسی قسم کی بھی تفریق نہیں کی جاتی تھی ۔ تقرری کے معاملے میں بھی انہوں نے مذہب سے اوپر اُٹھ کر صلاحیت پر زیادہ زور دیا او ریہی وجہ ہے کہ انہوں نے کالج کاپہلا پرنسپل ‘ سرٹھیوڈر بیک ’، جو کہ ایک عیسائی تھے، کو بنایا ۔ سرتھیورڈ بیک نے 20 نومبر 1883 کو کالج کے پرنسپل کے عہدے کا چارج لیا اور انہوں نے اپنی صلاحیت سے کالج کو ترقی کی معراج پر پہنچادیا ۔
سر سید ہر طرح کے مذہبی تعصب سے آزاد تھے اور سبھی مذاہب کا برابر سے احترام کرتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ دینیات کے میان میں بھی انہوں نے رواجی مذہب کی راہوں سے پرہیز کیا ۔ ان کی مذہبی فکری کی بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام ایک سچا دین ہے جس کی تعلیمات عقل اور فطرت کے عین مطابق ہیں ۔ یہ مذہب دینوی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہے ۔ بقول پروفیسر اصغر عباس : ‘‘ ان کی تاریخ ساز تصنیف تبیین الکلام کابھی یہا ں ذکر ضروری ہے جس نے مذہب کے درمیان پہلی بار مکالمے پر زور دیا۔ یہ کتاب مذاہب کے درمیان تصادم کی نفی کرتی ہے۔ تہذیب تعلیم ِ مذہب اور ادب کے سلسلے میں اپنے نصب العین کو سرسید علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ ، تہذیب الاخلاق اور دیگر تصانیف میں باربار دہراتے ہیں ، مقصد یہ تھا کہ ہندوستانی تاریخ میں اہل ہند زیب عنوان بن جائیں ۔’’ سرسید سیرت گری کے رموز سےبھی بخوبی واقف تھے اور اسی وجہ سےانہوں نے فلاحی کام کرنے والوں کی ایک ایسی جماعت تیار کردی تھی جن کی کاوشوں سے بنجر زمین اصلاح پا گئی اور صحرا گلستان میں تبدیل ہوگیا ۔ یہاں یہ بھی معنی خیز بات ہے کہ سر سید نے سائنٹیفک سوسائٹی سے لیکر ایجوکیشنل کانفرنس تک اتنے غیر حکومتی فلاحی اداروں ( این جی اوز) کی نیو اٹھائی جس کی دوسری مثال آج اکسویں صدی میں بھی مفقود ہے ۔ ان اداروں نے نہ صرف یہ ہے اپنے عہد میں جنبش پیدا کر دی بلکہ اس کی اثرات آج ہر برِ اعظم میں دکھائی دے رہے ہیں ۔ ( سونیئر برائے ورلڈ سمٹ آف اے ایم یو المنائی 2008 ص 49)
سر سید اور تعلیم نسواں:
سرسید پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ تعلیمِ نسواں کے خلاف تھے ۔ انہوں نے مردوں کی تعلیم پر توجہ دی لیکن عورتوں کی تعلیم پر کوئی دھیان نہیں دیا تھا ۔ اس کی وجہ صرف لاعلمی او رکم علمی کی جو اکثر لوگوں میں پائی جاتی ہے سرسید مردوں کو عورتوں پر قوام کا درجہ دینے کے مترادف ومداح تھے عورتوں کو گھر کی شہزادی ملکہ، مردوں کو باہر کی دنیا کا سفیر سمجھتے تھے ۔
تعلیم نسواں سےمتعلق سر سید کے موقف کی وضاحت تشنہ رہے گی جب تک یہ پیشِ نظر نہ ہو کہ سر سید مردوں کو عورتوں پر قوام کا درجہ دینے کے معترف و مداح تھے ۔ عورت کو گھر کی شہزادی و ملکہ او رمرد کو باہر کی دنیا کا سفیر سمجھتے تھے ۔ وہ مردوں کی تعلیم و تربیت کو عورتوں کی تعلیم کا زینہ اوّل قرار دیتے تھے ۔ یہ درجہ ہے کہ تادمِ آخر مردوں کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہ مرکوز کئے رہے جو بالواسطہ لڑکیوں کی تعلیم کامؤثر ذریعہ ثابت ہوئی۔ سرسیدکی تعلیم نسواں کےمخالفین کے صف میں کھڑا کردینے والوں کا خیال بالکل باطل ہوجاتا ہے جب خود ان کی تحریر یں او رتقریریں ملاحظہ کی جائیں ۔ اسی سرزمین علی گڑھ تعلیم نسواں کے موضوع پر ایک موقع پر خطاب فرمایا :
‘‘ کوئی دنیا کی تاریخ اس وقت تک نہیں مل سکتی کہ جس خاندان کےمردوں نے تعلیم پائی ہو، مردوں کے اخلاق درست ہوگئے ہوں ، مردوں نے علم و فضل حاصل کرلیے ہوں اور عورتیں تعلیم سے محروم رہی ہوں۔ ہمارا منشا ء یہی ہے کہ تعلیم جو ہم دلارہےہیں ، لڑکوں کی نہیں ہے بلکہ لڑکیوں کی ہے جن کے وہ باپ ہوں گے، ہم کو ولی ہونے کا دعویٰ نہیں ہے، پیشنگوئی نہیں کر سکتے بلکہ ہم کو پچھلے واقعات دیکھ کر نصیحت پکڑنی چاہئے ۔ اس وقت ہم تمام یورپ کی اور تعلیم یافتہ ملک کی ہسٹری دیکھتے ہیں اور پاتے ہیں کہ جب مرد لائق ہوجاتے ہیں ، عورتیں بھی لائق ہوجاتی ہیں ۔ جب مرد لائق نہ ہوں، عورتیں بھی لائق نہیں ہو سکتیں ۔’’
ایک موقع پر خطاب کرتے ہوئے ہوئے کہا :
‘‘ میری دلی آرزو ہے کہ عورت کو بھی نہایت عمدہ اور اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی جائے مگر موجودہ حالت میں کنواری عورتوں کو تعلیم دینا ان پر سخت ظلم کرنا اور ان کی تمام زندگی کو رنج و مصیبت میں مبتلا کردیا ہے ........... عورت کی تعلیم قبل مہذب ہونے مردوں کے نہایت ناموزوں اور عورتوں کے لیے آفت بے درماں ہے ۔’’ ‘‘ میں نے تمہارے لڑکوں کی تعلیم پر جو کوشش کی ہے اسے تم یہ نہ سمجھو کہ میں اپنی پیاری بیٹیوں کوبھول گیا ہوں ، بلکہ میرا یقین ہے کہ لڑکوں کی تعلیم پر کوشش کرنا لڑکیوں کی تعلیم کی جڑ ہے ۔ پس جو خدمت میں تمہارے لڑکوں کے لیے کرتا ہوں۔ لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے ہے ۔’’ ‘‘ یہ الزام کہ میں عورتوں کی تعلیم سے کنارہ کش ہوں محض غلط ہے ۔ وہ یہ نہیں سمجھتے کہ میری رائے میں عورتوں کی تعلیم کا ذریعہ مرد ہی ہوں گے۔ اگر مردوں کی تعلیم نہ تو نہ استانیاں ہوں گی نہ کوئی سامانِ عورتوں کی تعلیم ہوگا۔جب مرد لائق ہوجائیں گے سب ذریعہ پیدا کرلیں گے گھر کی عورتیں بھی لائق ہو جاویں گی اور استانیاں بھی پیدا ہوجاویں گی۔’’
جہاں تک موجودہ وائس چانسلر لفٹننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ کا تعلق ہے ان کی ڈھائی سالہ دور میں یونیورسٹی ترقی کی طرف گامزن ہے۔ یونیورسٹی میں درس و تدرسی کے لئے پر سکون ماحول ہے۔ ڈسیپلن کے معاملے میں وائس چانسلر بہت زیادہ سخت ہیں اور کسی بھی قیمت پر ڈسیپلن شکنی کوبرداشت نہیں کرتے اور یہی وجہ ہے غیر ذمہ دار او ربے ایمان لوگوں میں قانون کا ڈر ہے اور عام طور پر یونیورسٹی میں پر سکون ماحول ہے۔ اور اسی وجہ سے طلبہ اور طالبات نےبہت سارے مقابلہ جاتی امتحان کے لیے ایک نئی اور شاندار عمارت نہ صرف تعمیر ہوچکی ہے بلکہ اس میں کام کاج بھی شروع ہوگیا ہے۔ مسلم یونیورسٹی میں چاروں طرف تعمیراتی کام جاری ہے ۔ میڈیکل کالج کی توسیع کاکام جاری ہے، ایک عالی شان عمارت بن کر تیار ہے جس میں ہر طرح کی جدید طبی سہولیات کا انتظام بھی ہے ۔ لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو دیکھتے ہوئے 1500 لڑکیوں کی رہائش کے لیے ایک ہال کا سنگِ بنیاد رکھا جاچکا ہے اور تعمیر کا کام شروع ہوچکا ہے ۔و ائس چانسلر لفٹنینٹ جنرل شاہ شاہ اور پرووائس چانسلر بر گیڈ یئر سید احمد علی صاحبان نے کھیلوں کی طرف بھی دھیان دیا ہے۔ طلبہ اور طالبات کے لیے کھیل کی جدید سہولیات مہیا کی جارہی ہیں ۔ آفتاب ہال کے سامنے چار کروڑ کی خطیر رقم سے ہاکی کے لیے جدید ایسٹر وٹف تیار کیا گیا ہے تاکہ طلبہ قومی اور بین الاقوامی کھیلوں میں حصہ لے سکیں ۔ مسلم یونیورسٹی میں ایک نیا اور شاندار سوئمنگ پول بھی بنایا جارہا ہے۔ ان دونوں حضرات کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کے کئی کھلاڑیوں کا انتخاب صوبائی اور قومی سطح پر کھیلوں کے لیے ہوچکا ہے۔ چونکہ موجودہ وائس چانسلر اور ان کے معتمد اور دستراست پرووائس چانسلر خود کھیلوں کے میدان میں جاتے ہیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتے ہیں اس لیے طلبہ اور طالبات میں کھیلوں کے تئیں دلچسپی میں اضافہ ہوا ہے۔
موجودہ وائس چانسلر کا ایک اور کارنامہ مدارس کے طلبہ کے لیے برج کورس شروع کرنا ہے جس میں ہر سال 50 طلبہ تعلیم حاصل کررہے ہیں ، یہ ایک بہت بڑی پیش رفت ہے جس کے آگے چل کر مثبت نتائج نکلیں گے اور مدارس کے طلبہ قومی دھارے میں شامل ہوسکیں گے ۔ شاہ صاحب کے دور کا ایک اور کار نامہ بی اے کی سطح پر اردو کے نمبرات کو ڈویزن میں جوڑا جانا ہے تاکہ طلبہ اردو کوبھی اسی جوش و خروش اور سنجیدگی سے پڑھیں جیسے دوسرے مضامین کو پڑھتے ہیں ۔ انشاء اللہ اس کے بھی مثبت نتائج بر آمد ہوں گے۔ دعا کی جانی چاہئے کہ بارہویں جماعت میں بھی ایسا ہی نظم کیا جائے تاکہ یہ بچے بھی اردو کے تئیں سنجیدہ ہو سکیں ۔ اردو کے سلسلے میں ایک سنجیدہ کوشش شعبۂ قانون کے نصاب میں اردو کو بحیثیت ایک مضمون شامل کرکے کی جاسکتی ہے کیونکہ آج بھی اردو کے الفاظ عدلیہ میں استعمال ہوتے ہیں اور تعداد دستاویز اردو فارسی میں موجود ہیں ۔ موجودہ انتظامیہ کا ایک اور کارنامہ سابق وائس چانسلر پروفیسر پی کے عبدالعزیز کے دور میں بنائے گئے مرشید آباد اور ملا پرم سینٹرس کو استحکام دینا اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے، ان دونوں سینٹرس میں نئی عمارتیں تعمیر کی گئیں اساتذہ کا تقرر کیا گیا اور امسال بی ایڈ کا بھی کورس شروع کیا گیا ۔ یہی نہیں شاہ صاحب نے کشن گنج ( بہار) کے سینٹر کو بھی شروع کیا اور وہاں پر درس و تدریس کا کام شروع کیا ۔ ان کے اوپر ان دونوں سینٹرس کو بند کرنے اور تیسرے سینٹر کو نہ کھولنے کا کافی دباؤ تھا لیکن انہوں نے سر سید احمد خاں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور سرسید کے تعلیمی مشن کو آگے بڑھایا ۔ ان کا یہ کارنامہ علی گڑھ یونیورسٹی کی تاریخ میں سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔ سر سید ڈے پر اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ مسلم یونیورسٹی سرسید کے تعلیمی اور سماجی مشن کو آگے بڑھاتا جائے ۔
آئیے سر سید ڈے کے اس مبارک موقعہ پر ہم سبھی علی گیر ین ایک بار پھر علی گڑھ تحریک کو زندہ کرنے کی کوشش کریں اور اسی خلوص زندہ کرنے کی کوشش کریں جو بانی درسگاہ کے اندر تھا مسلمانوں اور ہندوستان کے لیے انہوں نے جو خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر بننے کی کوشش کریں ۔ اگر ہم نے اس پر عمل کیا تو یقیناً سرسید کی روح بھی خوش ہوگی اور غالباً یہی ان کے لیے بہترین خراج عقیدت ہوگا۔
17 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ ہمارا سماج، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/sir-syed-ahmad-khan,-religious/d/99636