ڈاکٹر انجم آرا، نیو ایج اسلام
30جولائی،2024
سر سید ایک ایسے عہد میں پیدا
ہوئے تھے جب ملک انگریزوں کا غلام تھا اور مسلمان اپنی حکومت اور طاقت کھوکر حساس کمتری
کا شکار ہو چکے تھے۔ جب 1857ء کا غدر ہوا تو اس وقت وہ چالیس برس کے ہو چکے تھے۔ غدر
میں مسلمانوں نے قائدانہ کردار ادا کیا تھا اس لئے غدر کی ناکامی کے بعد ایسٹ انڈیا
کمپنی کا سارا عتاب مسلمانوں پر نازل ہوا اور انگریزوں نے مسلمانوں کو معاشی اور سیاسی
طور پر کمزور کرنے کے اقدامات کئے۔ سرسید کو خدا نے قوم و ملت کا درد عطا کیا تھا۔
انہوں نے سیاسی بصیرت اور تاریخی شعور پایا تھا۔ انہوں نے انگریزی ادب اور تاریخ عالم
کا گہرا مطالعہ کیا تھا ۔ لہذا۔ انہوں نے قوم مسلم کو سیاسی ، تعلیمی اور معاشی پسماندگی
سے نکالنے اور ان کے اندر نئے دور کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیتیں پیدا کرنے
کے لئے دیر پا منصوبوں پر کام کرنے کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا لیا۔ انہوں نے مسلمانوں
میں جدیدیت کی اشاعت کرنے اور انہیں جدید طرز فکر اپنانے کی ترغیب دی اور اس کے لئے
انہوں نے تعلیمی اور ادبی شعبوں میں عملی اور فکری سطح پر اصلاح کی تحریک چلائی۔ ان
کی اسی جدیدیت کی تحریک کا ایک اہم پڑاؤ علی گذھ مسلم یونیورسٹی ہے جہاں مسلمانوں نے
جدید علوم کی تعلیم حاصل کرنی شروع کی اور وہاں سے فارغ ہوکر تعلیمی اور سائنسی میدانوں
میںمسلمانوں کی رہنمائی کی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان ترقی کی راہ میں دوسری قوموں
کے شانہ بہ شانہ چلنے لگے۔ سرسید نے مسلمانوں میں فکری اصلاح کے لئے انگلینڈ کے رسائل
اسپکٹیٹر اور ٹاٹلر سے متاثر ہو کر علی گڈھ سے تہذیب الاخلاق کا اجرا کیا۔ اس رسالے
نے بھی مسلمانوں میں سائنسی طرز فکر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔
سر سید احمد خان
----------
سر سید کا ایک اہم کارنامہ
اردو ادب میں جدیدیت کی تحریک کا آغاز ہے۔ سرسید جس دور میں سرگرم عمل تھے اس دور میں
اردو ادب میں داستانیں اور ، بادشاہوں ، دیوؤں اور پریوں کے قصے مقبول تھے جن میں حسن
و عشق اور شراب وشباب کے مضامین بیان کئے جاتے تھے۔ اس دور کی شاعری کا بھی برا حال
تھا۔ شاعری میں حسن و عشق ، گل و بلبل ، شراب و شباب ، ساقی و میخانہ، ہجر و فراق وغیرہ
کے خیالی مضامین ہی چبائے ہوئے نوالے کی طرح پیش کئے جاتے تھے ۔ اس طرح کی شاعری اور
نثری ادب نے اس دور کے مسلمانوں کو فکری طور پر زندگی کے حقائق اور نئے دور کے تقاضوں
اور چیلنجوں کے ادراک سے محروم کردیا تھا۔ وہ بے یقینی اور فکری انتشار کی کیفیت سے
گزررہے تھے۔ سرسید نے اردو ادب کی اصلاح کا بھی بیڑہ اٹھایا اور اس میں بھی جدیدیت
کی روح پھونکی۔ انہوں نے اردو میں مقصدی ادب کی تحریک کا آغاز کیا۔ انہوں نے اپنے ہم
عصر شاعروں اور ادیبوں کو جدید مغربی شاعری کی طرز پر حقیقت ہسند شاعری کی تخلیق کی
ترغیب دی ۔ ان کی تحریک سے ہی متاثر ہو کر مرزا غالب کے شاگرد مولانا الطاف حسین حالی
اور مولانا محمد حسین آزاد نے اردو میں نیچرل اور حقیقت پسند شاعری کی تحریک چلائی۔
محمد حسین آزاد نے انجمن پنجاب لایور کے لکچرر کی حیثیت سے نظموں کو فروغ دیا۔ ۔ مولانا
حالی نے بھی اردو میں نیچرل شاعری یعنی گل و بلبل اور شراب و میخانہ کےخیالی مضامین
پر مبنی بے مقصد شاعری کے بجائے حقیقت پرمبنی شاعری کو فروغ دیا۔ان سے تحریک پاکر قلق
میرٹھی اور مولانا اسمعیل۔میرٹھی نے بھی جدید اسلوب میں نظمیں تخلیق کیں اور اردو شاعری
میں حقیقت نگاری اور جدت پسندی کی لہر چل پڑی۔ بعد میں علامہ اقبال نے بھی نظموں کو
ہی اپنی فکر وفلسفے کی اشاعت کا وسیلہ بنایا اور پھر ترقی پسند تحریک ، حلقہ ارباب
ڈوق اور ساٹھ کی دہائی کی جدیدیت کی تحریک نے جدید اردو نظموں کو فنی و فکری طور پر
بام عروج پر پہنچادیا۔ اس طرح سرسید نے اردو شاعری ممیں جدیدیت کا جو بیج بویا تھا
وہ آج ایک ثمردار درخت بن چکا ہے۔
اسی طرح سر سید کا ایک اور
ادبی کارنامہ اردو میں صنف انشائیہ کا فروغ ہے۔ اردو میں انشائیہ انگریزی سے آئا ہے۔
انگریزی میں ایسے یا پرسنل ایسے کی صنف اٹھارہوں صدی میں بہت ترقی یافتہ اور مقبول
تھی۔ سرسید نے انگریزی کے ایسے کی ہی نہج پر اردو میں بھی مضامین لکھے ۔ ان مضامین
کا اسلوب اور انداز بالکل جداگانہ تھا۔ سرسید نے ان مضامین میں انگریزی کے ہی ایسے
کی طرح مختلف سماجی اور تہذیبی موضوعات پر مضامین لکھے۔ ان مضامین میں اصلاحی پہلو
نمایاں ہوتا تھا۔ ان کے مضامین کو اردو کے نقادوں نے اردو میں انشائیہ کے اولین نمونے
قرار دیا۔ اس طرح سرسید نے اردو کو ایک نئی صنف سے متعارف کرایا۔ آج اردو میں انشائیہ
ایک مقبول صنف ہے۔
سرسید نے تاریخ اور مذہب کا
بھی گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اس لئے انہوں نے بہت سے مضامین تارہخ اور اسلام پر لکھے ہیں
جو مقالات سرسید کے نام سے شائع ہوئے ہیں۔ انہوں نے نکاح، طلاق ، وحی ، الہام حیات
و موت ، شیطان ، بہشت و جہنم ، زی القرنین وغیرہ جیسے اسلامی موضوعات پر بہت عالمانہ
مضامین لکھے۔ ااس کے علاوہ انہوں نے تفسیر قرآن بھی لکھی ۔ان کا ایک اور علمی کارنامہ
خطبات احمدیہ ہے جو انہوں نے انگریز ادیب ولیم میورکی کتاب دی لائف آف محمد کے جواب
میں لکھی۔ ولیم میور نے اپنی کتاب میں پیغمبراسلام ﷺ کے متعلق ہتک آمیزاور گمراہ کن
باتیں لکھی تھیں۔ سرسید نے ولیم میور کی گمراہ کن کتاب کا توڑ لکھ کر عالم اسلام کی
بہت بڑی خدمت انجام دی۔
سرسید,احمد نے کچھ مضامین
حالات حاضرہ پربھی لکھے ۔ ان کے چند اخباری مضامین کے عنوان ہیں : دہلی کا دربار ،
شاہ جہاں پور کا واقعہ ، خورجہ کا فساد ، جوتے کا مقدمہ ، کلکتہ میں ایک صاحب کا بھنگی
سے مقدمہ، قانون میعاد نکاح وغیرہ۔ یہ سارے مضامین ہنگامی موضوعات پر لکھے گئے ہیں
۔ لہذا ، سرسید کے یہ مضامین صحافتی مضامین کے اولین نمونے ہیں۔
سرسید کے ادبی اور علمی کارناموں
کو ایک مختصر سے مضمون میں نہیں سمیٹا جاسکتا ہے لیکن اتنا وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ
سرسید نے نہ صرف مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لئے جدوجہد کی بلکہ اردو ادب میں بھی جدیدیت
، مقصدیت اور حقیقت نگاری کی تحریک چلائی اور اسے سماجی اصلاح اور انسانی ترقی کا ایک۔مؤثر
اور کارگروسیلہ بنا دیا۔
------------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism