New Age Islam
Tue May 13 2025, 10:27 PM

Urdu Section ( 23 Feb 2022, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Some Muslims In Sindh, Pakistan, Marry Their Daughters To The Holy Quran: This Bizarre Oppression Of Young Girls Is Simply To Keep Control Over Property سندھ، پاکستان میں کچھ مسلمان اپنی بیٹیوں کی شادی قرآن پاک سے کرتے ہیں: جائیداد کی خاطر مسلم لڑکیوں پر عجیب ظالمانہ رویہ

غلام غوث صدیقی، نیو ایج اسلام

19 فروری 2022

قرآن سے لڑکی کی نام نہاد شادی کا واقعہ ایک جابرانہ عمل ہے جس کی اسلام کبھی اجازت نہیں دیتا ، حالانکہ یہ جابرانہ عمل پاکستان کے علاقے میں جاری ہے اور حکومت اس کی مکمل روکتھام کرنے میں ابھی تک ناکام ہوئی ہے۔ کیا نوجوان لڑکیوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کا موازنہ ہندوستان کے صدیوں پرانے دیوداسی اور ستی کے رواج سے کیا جا سکتا ہے یا دنیا میں اس طرح کے کسی اور ظالمانہ رویے سے؟

اہم نکات

1. نکاح اسلام میں صرف مرد اور عورت کے درمیان جائز ہے، نہ انسانوں اور غیر انسانوں کے درمیان۔

2. نکاح کی درستگی کا درا و مدار نکاح کے شرائط پر ہے۔ چونکہ مذکورہ واقعہ میں نکاح کے شرائط مفقود ہیں اس لیے اسلام میں ایسا نکاح لغو اور باطل ہے ۔

3. دیوداسی یا ستی نظام سے موازنہ کرنے میں اینرجی صرف کرنے کی بجائے قرآن سے نام نہادی شادی کی رسم کو ختم کرنا ضروری۔

4. اگرچہ پاکستانی ریاست میں اس پر پابندی ہے لیکن اس اس برے رسم کو روکنے میں کامیاب ہوجانا چاہیے کیونکہ یہ عمل اسلام میں عورتوں کی نکاح کی رضامندی کے حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔

5۔ اس برے رسم سے گویا کہ عورت کو نکاح سے روک دیا جاتا ہے جو کہ ایک ظلم ہے اور اسلام میں کسی طرح کے ظلم کی اجازت نہیں ۔

قارئین آپ اس ویڈیو کو دیکھیں ۔ اس میں جو لڑکی آپ کو نظر آ رہی ہے ، اس کا نام مومل ہے ۔ اس کے بارے کہا گیا ہے کہ یہ قرآن کی دلہن ہے، مطلب اس کی شادی کسی مرد سے نہیں بلکہ قرآن شریف کے ساتھ ہوئی ہے ۔ یقینا یہ واقعہ دیکھ اور سن کر آپ پر سکوت حیرت مسلط ہو جائے گا کہ آخر قرآن سے بھی بھلا شادی کیسے ممکن ہے! ۔ خود مجھے بھی حیرانی ہوئی ، کیونکہ زندگی میں کبھی بھی نہ اس تعلق سے کچھ سنا اور نہ ہی کہیں پڑھا ۔ آپ قرآن پڑھ لیں ، حدیث پڑھ لیں ، نکاح کے ابواب پر مشتمل احادیث و فقہ کی کوئی بھی کتاب پڑھ لیں ،اسلام کے بارے میں لکھی ہوئی بھی کتاب ہو ، آپ پڑھ لیں ، خواہ وہ کسی بھی فرقے کے عالم کی طرف سے لکھی ہوئی ہو، آپ کو کہیں یہ نہیں ملے گا کہ قرآن سے شادی کرنا جائز ہے ۔ بلکہ ہر ایک کتاب میں نکاح کی جو تعریف ہے اس سے یہ بات جانیں گے کہ نکاح مرد و خاتون کے درمیان قائم رہنے والا رشتہ ہے ، مطلب ایک مذکر انسان کا مونث انسان کے ساتھ نسل انسانی کو فروغ دینے والا رشتہ ہے ۔

 لیکن یہ کیا ! لڑکی کی قرآن سے شادی ! یقینا ابھی تک حیرت کی انتہا تھمنے کا نام نہیں لیتی ۔ اسلام میں قرآن کے ساتھ نکاح کرنے کا کوئی جواز نہیں بلکہ یہ ایک انتہائی مضموم رسم ہے جو جہالت کی ایک بھیانک شکل ہے جس کا رجحان اسی ماحول میں پایا جا سکتا ہے جو قرآن و سنت کی تعلیمات سے جاہل و غافل ہو ۔ درج ذیل ہم پہلے چند رپورٹ کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں پھر اس کے بعد اسلام کا نکاح کے متعلق مختصر کلام پیش کریں گے ۔

ویڈیو میں بولے گئے الفاظ

مومل جس کی شادی قرآن سے کی گئی [ایسی شادی جس کا اسلام میں تصور بھی نہیں ہے] کہتی ہوئی نظر آ رہی ہے:

‘‘نہ بارات آئی ، نہ ڈھول بجا ، نہ مہندی لگی ، نہ مولوی آیا ، ہاں بس ایک بات نئی تھی کہ مجھے نیا سوٹ پہنایا گیا تھا ، نیا جوڑا ۔ پھر میرے ابو نے قرآن شریف لا کر میرے ہاتھوں میں رکھ دیا اور کہا کہ ہم تمہاری شادی قرآن کے ساتھ کروا رہے ہیں ، تم قسم کھاو کہ تم کسی شخص سے دوبارہ شادی کرنے کے بارے میں نہیں سوچو گی ۔ اب آپ کی شادی قرآن شریف کے ساتھ ہو گئی ہے ۔۔۔ ’’

اس کے والد نہیں چاہتے تھے کہ اس کی شادی ان کے سید قبیلے سے باہر ہو۔ لیکن قبیلے کے کسی فرد کی طرف سے شادی کی کوئی تجویز نہیں آئی جسے اس کے والد نے مناسب سمجھا ہو ۔ مومل اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اپنے گھر کے کاموں میں گزارتی ہے۔

وہ مزید کہتی ہے : ‘‘باہر ہم کہیں بھی نہیں گئے کیونکہ ہم سارا دن پردے میں ہوتے ہیں ۔ہمیں یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ باہر کیا ہوتا ہے اور کیا نہیں ہوتا ہے ۔ بس گھر کا کام اور گھر میں رہتے ہیں ۔ کوئی خاتون گھر کے باہر آجائے پھر بھی ہم باہر نہیں جاتے ۔’’

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ قرآن کے ساتھ کسی عورت کی شادی کرنا توہین آمیز ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ رواج بیٹیوں اور بہنوں کے ساتھ جائیداد اور زمین کی دوبارہ تقسیم کو روکنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

پھر اس کے بعد سوشل ورکر شاذیہ جہانگیر عباسی ویڈیو میں درج ذیل الفاظ کہتی ہوئی دکھتی ہیں:

‘‘جو مرد حضرات ہیں وہ بھائی ہو گئے یا والد محترم ہو گئے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ اگر شادی ہو جائے گی تو یقینا اس جائیداد میں سے جو ہماری جائیداد ہے ، کچھ حصہ ہی صحیح مگر ہمیں دینا پڑے گا ۔ اس لیے وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو بس [قرآن کی ] بیویاں کر دیتے ہیں ۔ ان کو ستیاں جتیاں کر دیتے ہیں ۔قرآن پاک سے تمہاری شادی کروادیتے ہیں ۔زندگی بھر آپ گھر میں ہی رہیں گی ۔ ہمارے ساتھ رہیں گی ۔ وہ جو معصوم خواتین ہوتی ہیں وہ اس بات پر بھرم رکھتی ہیں ۔ اپنے گھر کے مردوں کا ، بھائیوں کا ، اپنے والد کا ، کہ چلیں ٹھیک ہے ، آپ کے خاطر ، آپ کی عزت کی خاطر ، خاندان کی عزت کی خاطر ، ہمیں یہ چیز قبول ہے ۔’’

ویڈیو میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قرآن کے ساتھ شادی غیر قانونی ہے اور اس کی کوئی مذہبی ذمہ داری نہیں ہے۔ لیکن حکام کے لیے متاثرین کی شناخت کرنا مشکل ہے۔

اس کے بعد سکور ہائی کورٹ کے ایڈووکیٹ ، ہادی بخش بٹ قرآن سے شادی کے برے رسم کے بارے میں کہتے ہوئے نظر آتے ہیں :

‘‘ بچی کی قرآن سے شادی کرا دی جاتی ہے ۔ بچی کو ذہنی طور پر مفلوج بنا دیا جاتا ہے ، یا برین واش کیا جاتا ہے کہ وہ خود باختیار نہیں ہوتی ۔ قرآن سے بچیوں کی شادی کرا دی جاتی ہے، یہ ایشو [ایسے واقعے کے کیسیز] ہمارے پاس موجو د ہے ۔اس کو ختم کرنے کے لیے ، ہماری پوری [پاکستانی] ریاست کو ، خصوصا ، میں سندھ حکومت کو کہوں گا کہ اس کومتحرک ہو جانا چاہیے’’ ۔

ویڈیو کے آخر میں قرآن سے شادی کے فضول رسم سے متاثرہ لڑکی مومل کہتی ہے : ‘‘جو میرے ساتھ ہوا ہے وہ دنیا کی کسی عورت اور لڑکی کے ساتھ نہ ہو تو بہتر ہے ۔ جیسی میری شادی قرآن شریف کے ساتھ کروائی گئی ہے ۔ میں نہیں چاہتی کہ کسی اور کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو’’ ۔ اس کے بعد ویڈیو کی رپورٹنگ ختم ہو جاتی ہے ۔

 pic.twitter.com/9EjI0L2vNE

DW Hotspot Asia (@dw_hotspotasia) February 15, 2022

محترم قارئین ! آپ نے حیرت و تعجب کے ساتھ ویڈیو رپورٹنگ کو سن لیا ہوگا اور مندرجہ بالا ٹرانسکرپشن سے مسئلہ کی نوعیت کا اندازہ لگا لیا ہوگا ۔ آپ کے ذہن میں الفاظ گردش کر رہے ہوں گے کہ قرآن و سنت کا علم رکھنے والا مسلم سماج کبھی اس فضول رسم کا تصور بھی نہیں کر سکتا تو بھلا یہ سب کیسے ممکن ہو سکتا ہے !

اللہ عز و جل نے قرآن مجید کو ہمارے پیارے پیغمبر احمد مجتبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا صرف اس مقصد کے لیے کہ بنی نوع انسان مخلوق ہونے کی حیثیت سے اپنے خالق حقیقی اور مالک ابدی کی پہچان کر کے اپنی بندگی کو زندگی کے ہر میدان میں بخوبی انجام دے ۔قرآن مجید نے زندگی کے ہر میدان میں اچھائی اور برائی کا فرق بتایا ۔

جس طرح جھوٹ اور سچ ایک شئی واحد نہیں بن سکتے اور کالا اور سفید ایک دوسرے میں حلول کرکے متحد شئی نہیں ہو سکتے اسی طرح حلال و حرام ، جائز و ناجائز کا فرق واضح ہے ۔ہاں یہ تو ہو سکتا ہے کہ حلال اور حرام دونوں الگ الگ مکان میں موجود رہے لیکن یہ تصور کرنا کہ دونوں ایک شئی میں موجود ہو جائے ممکن نہیں ۔

اسی طرح نکاح کے حلال ہونے کے لیے ضروری ہے نکاح کرنے والا مرد ہو اور جس سے نکاح کیا جا رہا ہے وہ کوئی ایسی خاتون ہو جس سے نکاح جائز ہو ۔اس موقع پر یہ کہنا مقصود ہے کہ نکاح مرد اور خاتون کے درمیان نسل انسانی کو فروغ دینے والا ایک پاک اور جائز رشتہ ہے۔ نکاح کے حلال ہونے کے لیے شرط ہے کہ ایک طرف مرد ہو تو دوسری طرف ایسی خاتون ہو جس سے نکاح جائز ہے ۔ ایک انسان کا نکاح غیر انسان شیئی سے کر دیا جائے یہ یقینا شریعت کے بیان کردہ نکاح کے شرائط کے خلاف ہے ۔ شرط اپنے مشروط کے ساتھ متحقق ہوتی ہے ، لہذا یہ بات محال ہے کہ مشروط [نکاح] اپنے شرط [مرد و خاتون میں سے ہر دو کا ہونا] کے بغیر متحقق اور حلال ہو جائے ورنہ تو ایک ہی شی کا ایک ہی محل میں حرام ہونا اور حلال ہونا لازم ہوگا جوکہ شریعت کے نزدیک محال ہے ہی عقلا بھی محال ہے ۔

قرآن پاک زندگی کے ہر پہلو میں اچھے اور برے کا فرق واضح کرتا ہے۔ نتیجتاً حرام اور حلال میں فرق واضح ہے۔ حلال اور حرام، جائز اور ناجائز، باطل اور حق کے درمیان فرق ٹھیک اسی طرح واضح ہے جس طرح سیاہ و سفید کے درمیان فرق ہے۔ حلال اور حرام مختلف مقامات پر موجود ہو سکتے ہیں، لیکن ان کو یکجا کرنا اس طرح پور کہ ایک ہی شئی حرام بھی ہو اور حلال بھی ہو یہ ممکن نہیں ۔

نکاح کے تعلق سے بھی شریعت اسلامیہ مسائل کو واضح طور پر بیان کر دیا ہے اور اس کے جائز و ناجائز اور حرام و حلال طریقوں کو بھی واضح کر دیا ہے ۔ نکاح کی درستگی کے لیے اسلام نے کچھ شرائط متعین کیا ہے جن کے بغیر نکاح لغو و باطل یعنی درست نہیں سمجھا جائے گا ۔ان شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہے نکاح مرد و خاتون کے درمیان منعقد ہونے والا رشتہ ہے ۔ انسان کا نکاح اس کے غیر جنس کے ہرگز نہیں ہو سکتا ۔

فقہ اسلامی میں شرط ہر اس امر کو کہتے ہیں جو اگرچہ شئی کی حقیقت سے خارج ہو مگر وہ شئی اپنے وجود کے لیے اس امر کی محتاج ہو ۔ یعنی شئی کے وجود کا انحصار اس امر پر ہو ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شئی کسی شرط کے ساتھ مشروط ہو تو جب تک وہ شرط پوری نہ ہوگی اس کا شئی کا وجود ظاہر نہ ہوگا ۔ مثلا قرآن و سنت سے ثابت ہے کہ وضو نماز کے لیے شرط ہے ۔ نماز کی ادائیگی متحقق نہیں ہو سکتی جب تک وضو کی ادائیگی نہ ہو ۔ اسی طرح نکاح کی صحت کے بھی کچھ ایسے شرائط ہیں جن کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہو سکتا ، لہذا ایسی کوئی صورت بن جائے تو اس نکاح کو محض لغو سمجھا جائے گا ۔ زیر نظر مسئلہ میں عورت کا نکاح قرآن سے ایسا امر ہے جو نکاح کے شرائط کے خلاف ہے کیونکہ عورت انسان میں سے ہے اور انسان اپنے غیر جنس سے نکاح نہیں کر سکتا ۔ اس مسئلہ کی تفصیل در مختار ، رد المحتار فقہی کتابوں میں دیکھیں ۔

لہذا ، جو لوگ اپنی بیٹیوں کی زبردستی قرآن کے ساتھ شادی کرتے ہیں وہ جان لیں کہ ایسی شادی بیاہ کبھی بھی درست نہیں سمجھی جا سکتی کیونکہ نکاح صرف ایک مرد اور عورت کے درمیان منعقد ہو سکتا ہے نہ کہ انسان اور قرآن کے درمیان جو کہ غیر انسان ہے۔

ٹویٹر پر قرآن کے ساتھ شادی کے فضول عمل کے بارے میں ویڈیو رپورٹ دیکھتے ہوئے مجھے مختلف تبصرے دیکھنے کو ملے جن میں کچھ تبصرہ نگاروں نے اس واقعے کا موازنہ ہندووں کے ستی سے کیا جبکہ کچھ نے اس کا موازنہ دیوداسی نظام سے کیا۔ یہ موازنہ، میری رائے میں، غلط ہے۔ ستی اور دیوداسی کا نظام اس واقعے سے بالکل مختلف ہے اور ہندوستان میں اس پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ تاہم، دیوداسی نظام پر متضاد نقطہ نظر موجود ہیں۔ اس سلسلے میں ابھیدھا گپتا کا علمی کارنامہ بعنوان "دیوداسی نظام: ذات پرستی اور جنس پرستی کا ایک قدیم طرز عمل" دریافت ہوا تھا۔ گپتا نے اپنے اس علمی کارنامہ میں دیوا داسی نظام پر سیر حاصل گفتگو کی ہے اور ایک مقام پر اپنی کتاب کے بارے میں رقمطراز ہے :

‘‘دیوداسی نظام قدیم ہندوستان میں ہندو مذہب کا ایک لازمی حصہ تھا۔ یہ وہ نظام ہے جس میں بلوغت کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ایک عورت کی شادی کردی جاتی ہے یا مندر، مندر کے پجاری یا کسی مقامی دیوتا کے لیے وقف کر دی جاتی ہے ۔ یہ قدیم ہندوستان کے تمام مندروں کی ایک مشترکہ خصوصیت تھی لیکن ہندوستان کے کچھ حصوں میں آج بھی موجود ہے۔ اسے ایک مقدس عمل سمجھا جاتا تھا۔ لفظ 'دیوداسی' سنسکرت کے دو الفاظ 'دیوا' جس کا مطلب ہے ‘‘خدا’’ اور ‘‘داسی ’’ جس کا مطلب ہے 'خاتون نوکر'۔ اس میں مذہبی حدود و ضوابط کے ساتھ لڑکیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا تھا ۔ جن لڑکیوں کو اس عمل پر مجبور کیا جاتا تھا ان میں سے زیادہ تر کا تعلق دلت جیسی نچلی ذاتوں سے تھا۔ ان کی شادی مندر کے پجاریوں سے کرائی جاتی اور ان کے اور امیر اور متمول زمینداروں، تاجروں اور دوسرے مردوں کے ذریعے ان کا جنسی استحصال کیا جاتا ۔ انہیں مذہب اور دیوا کے نام پر اس عمل پر مجبور کیا جاتا ، انہیں یہ یقین دلایا جاتا کہ یہ دیوا کی خدمت کی ایک شکل ہے۔ موجودہ دور میں یہ خواتین اپنا مقدس اور محترم مقام کھو چکی ہیں اور پسماندہ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان کے مسائل کو نہ ہونے کے برابر تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کے سماجی اور سیاسی حقوق کے سخت نفاذ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ مقالہ اس طرز عمل پر قابو پانے اور معاشرے کے سماجی نقطہ نظر میں تبدیلی لانے کے لیے تجاویز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔’’

مذکورہ بالا منقول عبارت کو انگریزی سے ترجمہ کیا گیا ہے جس کا لنک حسب ذیل ہے :

 Devdasi System: An Ancient Practice of Casteism and Sexism Redefined by Abhidha Gupta

دیوداسی نظام کے بارے میں عام طور پر جو سمجھا یا غلط سمجھا جاتا ہے اس کے برعکس، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف لیگل اسٹڈیز کی ایک ویب سائٹ پر شائع ایک مضمون کا اقتباس حسب ذیل ہے:

"دیوداسیوں کے نظام کو مغل حکمرانوں اور یورپیوں نے غلط سمجھا کیونکہ وہ ‘بھگوان’ کو بھینٹ چڑھانے کے تصور سے بالکل بے خبر تھے۔ ان کی سمجھ کے مطابق مندر میں ناچ گانے والی لڑکیاں امیر لوگوں کی تفریح کے لیے ایسا کرتی ہیں اور وہ طوائفوں سے بہتر نہیں تھیں۔ لیکن یہ مذہبی رواج قرون وسطیٰ کے دوران بڑی تعداد میں مندروں کی تباہی کی وجہ سے بگڑ گیا۔ یہ رجحان معاشرے میں دیوداسیوں کی حیثیت کو کم کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس یونین سے پیدا ہونے والی لڑکیوں کو بھی مندر کے لیے وقف کیا جاتا تھا اور پیدا ہونے والے لڑکوں کو بطور موسیقار تربیت دی جاتی تھی۔ اس سے ہندوستان کے مندروں میں مذہبی عصمت فروشی شروع ہوئی جو آج تک جاری ہے۔ دیوداسیوں کا ایک طرف امیر، طاقتور اور اعلیٰ طبقے کے لوگوں نے استحصال کیا اور دوسری طرف ان کی معاشی ضروریات کے باعث انہیں یہ رواج چھوڑنے کی اجازت نہیں دی گئی اور بالآخر انہیں وادی جسم فروشی کی طرف دھکیل دیا گیا۔ اس نظام کو غیر قانونی قرار دینے والا پہلا قانون 1934 میں بمبئی دیوداسی پروٹیکشن ایکٹ کے نام سے نافذ کیا گیا تھا۔ مزید برآں مدراس دیوداسی (وقفیت کی روک تھام) ایکٹ، 1947 نے مدراس میں اس عمل کو غیر قانونی قرار دیا۔ 1988 میں، دیوداسی نظام کو پورے ہندوستان میں مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ کیا کرنے کی ضرورت ہے ؟ معاشرے میں دیوداسیوں کی بحالی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنا چاہیے تاکہ وہ انسانی وقار کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکیں۔" (دیکھیے Devadasi System in India)

قارئین کرام ! ہم قرآن سے شادی کے فضول رسم پر گفتگو کر رہے تھے کہ اچانک ہمیں دیواداسی سسٹم کے تعلق سے ایک عبارت پیش کرنی پڑی ۔بتانا مقصود یہ ہے کہ قرآن سے شادی کی جو فضول رسم کے بارے میں سننے کو مل رہا ہے وہ دیواداسی نظریہ سے کلی طور پر مختلف ہے ۔قرآن شریف کے شادی کے واقعہ میں لڑکی محض برائے نام قرآن کی دلہن ہے ، جس کے لیے جنسی ضرورت کی کوئی راہ نہیں ، بلکہ ساری زندگی اسے اب بنا کسی مرد سے نکاح کیے ہوئے محض قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے یا برائے نام یہ کہتے ہوئے زندگی گزارنی ہے کہ وہ کہنے کو قرآن کی دلہن ہے ۔ یہ فضول رسم در اصل لڑکی کو کسی مرد سے نکاح کرنے سے روکنے اور جنسی ضروریات سے محروم رکھنے پر مجبور کرنے کا نام ہے ، لہذا یہ شریعت کی نظر میں ایک عظیم گناہ ہے کہ کوئی شخص کسی لڑکی کو نکاح کرنے سے روکے ۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ اسلام میں قرآن سے شادی کی کوئی حقیقت نہیں اور نہ ہی اس کو مسلمانوں میں کبھی جائز سمجھا گیا ۔ آپ جو قرآن سے شادی کے تعلق سے واقعہ سن رہے ہیں در اصل وہ ایک ایسی شادی ہے جس میں کسی طرح کا جنسی عمل کا دخل نہیں بلکہ لڑکی کو محض برائے نام دلہن تصور کر لیا جاتا ہے اور گھر میں سارا دن کام کاج کے لیے رکھا جاتا ہے ۔ جو لوگ ایسی شادیاں کرواتے ہیں وہ خود قرآن کریم کی تعلیمات سے واقف نہیں ہیں ۔ قرآن سے شادی کرکے وہ اپنی بچیوں کو گویا کسی اور شخص سے نکاح کرنے سے روکتے ہیں جو کہ سراسر ظلم ہے ۔

نکاح کہتے کسے ہیں ؟ خود قرآن مجید سے اس کا جواب بہت خوبصورت انداز میں دیا ہے ، ملاحظہ فرمائیے ۔

اللہ تعالی نے قرآن مقدس میں ارشاد فرمایا :

‘‘وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ’’

اس آیت کا معنی یہ ہے: ‘‘اور یہ (بھی) اس [اللہ کی] کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کئے تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی، بیشک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں’’ (سورہ الروم ۳۰ آیت ۲۱)

اس آیت کریمہ سے صاف طور پر قرآن کریم نے رشد و ہدایت کا پیغام دیتے ہوئے یہ تعلیم دی کہ مرد انسان اپنا سکون اپنے جوڑے سے پا سکتے ہیں اور مرد کا جنسی جوڑا ایک خاتون ہی ہو سکتی ہے ۔ اب کسی خاتون کو اس کے ذریعہ سکون سے کلی طور پر روک دیا جائے یہ یقینا قرآن مقدس کی رو میں ظلم ہے ۔ کیونکہ ظلم نام ہے کسی کو اس کے حق سے محروم کردینے کا ۔ مرد و عورت کا ایک دوسرے سے سکون پانا یہ اللہ تعالی کا مقررکردہ حق ہے جس کے حصول کے لیے عقد نکاح کا عمل ضروری ہے ، لہذا اگر کسی حقدار کو اس کے حق نکاح سے روک دیا جائے یہ یقینا ظلم ہے ۔

آیت کریمہ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نکاح صرف جنسی خواہشات و جذبات کی تسکین کا نام نہیں بلکہ رشتہ محبت و رحمت کا بھی نام ہے ۔

خلاصہ کلام یہ کہ شریعت میں انسان کا نکاح انسان سے ہوتا ہے اور یہی مشروع ہے ۔ انسان کا نکاح قرآن شریف سے یا درخت سے یا پتھر سے یا کاغذ سے یا قلم سے یا پھر انسان کا نکاح کسی جنات وغیرہ سے ، یہ سب فضول کام ہے اور انتہائی جاہلانہ عمل ہے ۔ اگر کوئی ایسا نکاح جبرا کہیں کوئی کرے تو ایسے نکاح کا شریعت میں فضول و لغو ہونا ثابت ہے اور اس کا کوئی اعتبار نہ ہوگا ۔ (حوالہ کے لیے دیکھیے ، در مختار مع رد المحتار ، کتاب النکاح ، الاشباہ عن السراجیہ لا تجوز المنکاحۃ بین بنی آدم و الجن الی آخرہ، رد المحتار ۴ ، ۶۱)

جن علاقوں میں ایسے فضول رسم جاری ہیں وہاں کی حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد اس عمل کو پوری طرح سے روکنے میں کامیابی حاصل کر لی جائے کیونکہ یہ صنف نازک لڑکی پر انتہائی ظالمانہ عمل ہے جس کی اسلام میں قطعا کوئی گنجائش نہیں ۔

 English Article: Some Muslims In Sindh, Pakistan, Marry Their Daughters To The Holy Quran: This Bizarre Oppression Of Young Girls Is Simply To Keep Control Over Property

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sindh-pakistan-marry-daughters-quran/d/126433

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..