کنیز فاطمہ ، نیو ایج اسلام
موجودہ دور کا جائزہ لینے سے یہ نتیجہ ابھر کر سامنے آتا ہے کہ آج اکثر لوگ ایسے مقصد کے لیے جی رہے ہیں کہ انہیں شہرت وناموری ملے اور وہ دوسروں کی نظروں میں محبوب بن جائیں ۔اس مقصد کا حصول چاہے مال ودولت کے ذریعے ہو یا پھر علم وہنر اور عبادت وریاضت کے ذریعے، کسی بھی کام میں اخلاص اور نیک نیتی نظر نہیں آتی ۔اس ناپسندیدہ عمل کے ارتکاب میں عوام کے ساتھ ساتھ اہل علم وہنر کا ایک بڑا طبقہ بھی ملوث ہے (الا ما شاء اللہ)۔اخلاص ونیک نیتی کا فقدان ہمارے زوال کا ایک سبب ہے ۔
ہمارے سماج میں پھیلتی جا رہی اسی برائی کا خاتمہ کرنے کے لیے یہ سلسلہ وار تحریر آپ تک پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہوں۔اس قسط وار تحریر میں احادیث طیبہ اور اقوال صالحین کی روشنی میں بد دیانتی کی دنیوی اور اخروی نقصانات اور نیک نیتی کے بے شمار فوائد بتائے جائیں گے تاکہ اسلام کا کلمہ پڑھنے والے مسلمانوں کے اندر اخلاص ونیک نیتی کا جذبہ پیدا ہو سکے اور پھر اس کے ذریعے وہ اپنے اعمال کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو سکیں اور ریاکاری ، جھوٹ ، غیبت، فساد ، قتل وغارت گری ، ظلم وستم جیسی بربادیوں سے محفوظ ہو سکیں۔
اخلاص وحسن نیت
حدیث نمبر ۱: حَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى الْهَرَوِيُّ إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ الْجَبَّارِ أَبُو مُعَاوِيَةَ السِّنْجَارِيُّ ابْنُ أُخْتِ عُبَيْدَةَ بْنِ حَسَّانَ ، قَالَ : حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، قَالَ : شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا مَجْلِسًا ، فَقَالَ : " طُوبَى لِلْمُخْلِصِينَ ، أُولَئِكَ مَصَابِيحُ الدُّجَى ، تَتَجَلَّى عَنْهُمْ كُلُّ فِتْنَةٍ ظَلْمَاءَ "
حضرت ثابت ثوبان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ ہم سے حدیث بیان کی میرے والد نے اور انہوں نے اپنے والد حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی ، انہوں نے فرمایا :
ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ‘‘مخلصین کے لیے خوش خبری ہے ، وہ تاریکیوں میں ہدایت کے چراغ ہیں ، ان لوگوں کے ذریعے ہر تاریک فتنہ چھٹ جاتا ہے (یعنی دور ہو جاتا ہے )۔
اس حدیث میں مخلصین کا لفظ استعمال ہوا ہے ، اس کا مصدر اخلاص ہے جس کا معنی یہ ہے کہ انسان جو نیک کام کرے، اس کا باعث اس فعل کی نیکی ہو اور جو فرض یا واجب ادا کرے، اس کا باعث اس فعل کی فرضیت یا وجوب ہو، وہ محض اپنے رب کی رضا کے لئے اس فعل کو کرے، نہ وہ فعل کسی کو دکھانا مقصود ہو نہ کسی کو سنانا مقصود ہو، اصل مقصود بالذات اللہ عزو جل کی رضا ہو، جنت کا حصول بھی بالتبع مطلوب ہو اور دو زخ سے نجات بھی بالتبع مطلوب ہو۔ تو رات میں لکھا ہوا ہے، جس فعل سے میری رضا کا ارادہ کیا گیا وہ فعل کم بھی ہو تو اللہ کے نزدیک بہت ہے اور جس فعل سے میری رضا کا ارادہ نہیں کیا گیا وہ فعل اگر بہت بھی ہو تو میرے نزدیک کم ہے۔
اگر کوئی شخص اپنے والد کی خوشی کے لئے کوئی عبادت کرے یا اپنی اولاد کی خوشی کے لئے کوئی عبادت کرے اور اس میں خلوص نہ ہو تو وہ عبادت رب تعالی کی بارگاہ میں مقبول نہ ہوگا بلکہ یہ عمل ریاکاری کا ہوگا۔
امام رازی شافعی فرماتے ہیں : اخلاص کا معنی ہے : نیت اخلاص اور ہر عبادت میں نیت اخلاص ضروری ہے یعنی وہ عبادت صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کی جائے اور چونکہ تمام لوگوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اخلاص کے ساتھ عبادت کریں، اس لئے ہر عبادت میں نیت کرنا ضروری ہے، اس لئے امام شافعی یہ کہتے ہیں کہ وضو کرنا بھی عبادت ہے، اس لئے وضو میں نیت کرنا فرض ہے۔ (تفسیر کبیرج ١١ ص ٢٤٢، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)
حدیث نمبر ۲: حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ : بَلَغَنِي أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ : " الْعَمَلُ الصَّالِحُ الَّذِي لا تُرِيدُ أَنْ يَحْمَدَكَ عَلَيْهِ أَحَدٌ إِلا لِلَّهِ ۔
عطا بن سائب سے مروی ہے فرمایا : مجھ تک یہ بات پہنچی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : نیک عمل وہ ہے جس پر خدا کے سوا اور کسی کی تعریف نہ چاہو۔
حدیث نمبر ۳: حدثنَا داود بْن مُحَمَّد ، أنه سمع أبا عَبْد اللَّه النباجي ، يَقُول : خمس خصال فيها تمام العمل : معرفة اللَّه ، ومعرفة الحق ، وإخلاص العمل لله ، والعمل على السنة ، وأكل الحلال ، فإن فقدت واحدة لم يرتفع العمل ، وذلك أنك إذا عرفت اللَّه ، ولم تعرف الحق لم تنتفع ، وإذا عرفت الحق ، ولم تعرف اللَّه لم تنتفع ، وإذا عرفت اللَّه وعرفت الحق ، ولم تخلص العمل لم تنتفع ، وإن عرفت اللَّه ، وعرفت الحق ، وأخلصت العمل ، ولم يكن العمل على السنة لم تنتفع ، وإن تمت الأربع ولم يكن الأكل من الحلال لم تنتفع . .
داود بن محمد نے حدیث بیان کی ، انہوں نے عبد النباحی سے یہ کہتے ہوئے سنا : پانچ خصلتیں ایسی ہیں جن کے ذریعے عمل مکمل ہوتا ہے : (۱) اللہ تعالی کی معرفت کے ساتھ اس پر ایمان لانا ، (۲) حق کی معرفت (۳) اللہ تعالی کے لیے نیک نیتی کے ساتھ کوئی عمل کرنا (۴) سنت طریقہ اختیار کرنا (۵) حلال کھانا ۔ اس کی تفصیل اس طرح بیان کرتے ہیں (ترجمہ ) ‘‘اگر ان پانچوں میں سے کوئی ایک بھی خصلت نہ پائی گئی تو عمل مقبول نہ ہوگا ۔
اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب تو نے اللہ تعالی کو پہچان لیا اور حق کو نہ پہچانا تو تجھے کوئی فائدہ نہ پہنچے گا ۔اور اسی طرح جب تو نے حق کو جان لیا لیکن اللہ تعالی کو نہ جان سکا تو یہ بھی نفع بخش نہیں ۔اگر تو نے اللہ تعالی کی معرفت کے ساتھ حق کی بھی معرفت کر لی لیکن عمل میں اخلاص اور نیک نیتی نہیں ہے تو یہ بھی بے فائدہ ہے ۔اور اگر تو نے اللہ کی معرفت اور حق کی معرفت کر لی اور ساتھ ہی تیرے عمل میں اخلاص بھی ہے لیکن سنت طریقہ پر نہیں ہے تو بھی بے کار ہے اور اگر چاروں خصلتیں تیرے اندر موجود ہیں لیکن حلال کمائی نہیں ہے تو یہ بھی بے فائدے ہے ۔ (تاریخ دمشق ، ابن عساکر ، حرف السین، ذکر من اسمہ سعید، رقم الحدیث ۱۹۷۵۰، اردو ترجمہ از حسان رضا تیغی منقول از کتاب الاخلاص والنیۃ لابن ابی الدنیا )
حدیث نمبر ۴: حدثنا محمد بن يزيد قال : حدثنا إسحاق بن سليمان حدثنا أبو جعفر الرازي : عن الربيع بن أنس قال علامة الدين الإخلاص لله وعلامة العلم خشية الله (کتاب الاخلاص والنیۃ لابن ابی الدنیا )
ربیع بن انس سے مروی ہے ، فرمایا : دین کی پہچان نیک نیتی اور اخلاص ہے اور علم کی پہچان خشیت الہی اور خوف خداوندی ہے ۔
حدیث نمبر ۵: حدثنا سريج بن يونس و إسحاق بن إسماعيل وغيرهما قالوا : حدثنا جرير بن عبد الحميد عن عبد العزيز بن رفيع : عن أبي ثمامة قال قال الحواريون لعيسى عليه السلام : ما الإخلاص لله ؟ قال : الذي يعمل العمل لا يحب أن يحمده عليه أحد من الناس قالوا : فمن المناصح لله ؟ قال : الذي بحق الله قبل حق الناس إذا عرض عليه أمران أحدهما للدنيا والآخر للآخرة بدأ بأمر الله قبل أمر الدنيا (کتاب الاخلاص والنیۃ لابن ابی الدنیا )
ابو ثمامہ سے مروی ہے ، فرمایا: حواریوں نے حضرت عیسی علیہ السلام سے عرض کیا : اللہ تعالی کے لیے اخلاص کیا چیز ہے ؟ حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا : بندہ جب کوئی کام کرے تو یہ نہ چاہے کہ اس پر کوئی شخص اس کی تعریف کرے ۔ عرض کیا : اللہ تعالی کے لیے خلوص رکھنے والا کون ہے ؟ فرمایا: وہ شخص جو لوگوں کے حق سے پہلے اللہ کے حق کو ادا کرے۔جب اس پر دو معاملات پیش ہوں ایک دنیا کا ، دوسرا آخرت کا تو وہ دنیا سے پہلے اللہ تعالی کے معاملہ کو پورا کرے۔
اخلاص اور نیک نیتی سے اللہ تعالی کی رضا حاصل ہوتی ہے ۔ہم میں سے بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اتنی عبادتیں کرتے ہیں اتنا نیک عمل کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں دنیا میں خوشحالی نہیں ملتی، اور بعض ایسے ہیں کہ وہ اپنے نجات یافتہ ہونے کا دعوی کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنے اندر ایک طرح کا غرور وتکبر پیدا کر لیتے ہیں ۔اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ ہم نے اپنے اعمال کو خلوص کے ساتھ ادا نہ کیا ہو ۔رہی بات نجات یافتہ ہونے کی تو امام رازی تفسیر کبیر سورہ بینہ کی آیت ۵ کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ کوئی مسلمان کبھی بھی اس مرتبہ پر نہیں پہنچتا کہ وہ اللہ سبحانہ کی گرفت اور اس کے عذاب سے بےخوف ہوجائے اور اس کو یہ علم ہو کہ وہ اہل جنت سے ہے، ماسوا انبیاء (علیہم السلام) کے کیونکہ ان کو یقین ہوتا ہے کہ وہ اہل جنت سے ہیں، اس کے باوجود وہ تمام مسلمانوں سے زیادہ اللہ سے ڈرتے ہیں، حدیث میں ہے : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ان اتقاکم و اعلمکم باللہ انا (بےشک مجھے تم سب سے زیادہ اللہ کا علم ہے اور میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : سنن نسائی رقم الحدیث :) واللہ انی لارجو ان کون اخشا کم للہ واعلمکم بما اتقی (صحیح مسلم رقم الحدیث :) اللہ کی قسم ! مجھے امید ہے کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ تقویٰ کا علم رکھنے والا ہے۔ (تفسیر کبیرج ص 252 داراحیاء التراث العربی، بیروت، ھ) (جاری)
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/sincerity-good-intentions-–-part/d/118699
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism