سکندر خان بلوچ(ملتان)
13 فروری، 2015
30جنوری 2015 کوشکار پورمیں اتنا بڑا سانحہ ہو گیا ۔اُسکے بعد کراچی میں دو سکولوں کے سامنے کریکربم پھینکے گئے۔شکر ہے کہ نقصان کوئی نہیں ہوا۔ ایبٹ آباداور پشاور میں سکولز پر دہشتگردی کا حملہ ہوا ۔بہاولپور کے ایک دیہی گرلز سکول کے باتھ روم سے دھمکی آمیز تحریر والے کپڑے ملے اور اب علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تمام کیمپس، بہائوالدین زکریا یونیورسٹی اور پاکستان کے مختلف کالجز کو بموں سے اڑانے کی دھمکیاں موصول ہورہی ہیں۔ اس سے دو چیزیں واضح ہوتی ہیں ۔اول یہ کہ دہشتگرد اس حد تک طاقتور اور دلیر ہو چکے ہیں کہ اب خاموشی سے حملے کرنے کی بجائے با قا عدہ دھمکیاں دیکر حملے کر رہے ہیں۔انہیں حکومت کا ڈر ہے نہ سیکورٹی اداروں کا اور عوام تو ان کی نظر میں ویسے ہی کسی اہمیت کے حامل نہیں اور نہ انہیں پروا ہے۔اسکا مطلب تو یہ ہوا کہ اسوقت اُنکی ڈائرکٹ حکومت سے ٹکر ہے اور اگر حکومت میں دم خم ہے تو انہیں روک کر دکھائے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ دہشتگردوں نے اب دیہات تک کو ٹارگٹ بنانا شروع کر دیا ہے اس سے یہ احساس بھی پیدا ہوتا ہے کہ دہشتگردوں کی جڑیں دیہات تک پہنچ چکی ہیں جو بہت ہی خطرناک ہے۔
ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گرد ایک دفعہ پھر سر گرم ہو گئے ہیں۔پشاور آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد فوج تو پہلے ہی متحرک تھی ۔پولیس اور ہماری دیگر سیکورٹی ایجنسیاں بھی حرکت میں آئیں تو دہشت گردی میں کسی حدتک تعطل آگیا تھا لیکن حال ہی میں تعطل توڑ دیا گیا ہے ۔ دہشتگردی میں یہ تیزی کچھ عر صہ پیشتر سکھر سے کراچی لے جا کر دو دہشتگردوں کو پھانسی دینے کے عمل کے ساتھ ہی آئی ہے۔ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جس دن ان دو دہشتگردوں عطاء اللہ اور اعظم کو پھانسی دینے کا اعلان ہواتو یہ تنظیم حرکت میںآگئی۔ کراچی سکولوں پر کریکر حملوں کے ساتھ وہاں کچھ اشتہارات بھی پھینکے گئے جن میں پھانسیاں بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھاجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ دہشتگردی کے ان واقعات کا تعلق پھانسی دیئے جانیوالے دہشت گردوں کی سرپرست تنظیم سے ہے۔میڈیا کی مطابق ان دو دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تنظیم جنداللہ (اللہ کی فوج ) سے تھا ۔ شکار پور میں مرکزی جامع مسجد سید الشہدا پر حملہ جس میں 66کے قریب لوگ شہید ہوئے اور سو کے لگ بھگ بے گناہ لوگ زخمی ہوئے اسکی کی ذمہ داری بھی جنداللہ نے ہی قبول کی ہے۔
ویسے تو تمام دہشتگرد تنظیمیں بہت ظالم۔سفاک اور بے رحم ہیں اور ان کا ٹارگٹ ہمیشہ بے قصور اور معصوم لوگ ہی بنتے ہیںلیکن جنداللہ شاید باقیوں سے زیادہ سفاک اور بے رحم ہے ۔گو یہ تمام تنطیمیں اسلام کے نام پر کام کرتی ہیںلیکن اُن کا کوئی بھی عمل اسلامی نہیں ہوتا ۔ خواتین،معصوم بچوں اور بوڑھوں تک کسی پر بھی یہ لوگ رحم نہیں کھاتے۔
جنداللہ 2003میں کراچی میں معرض وجود میں آئی اور اسکا امیر شیخ عطاء الرحمن کراچی یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلباء کا لیڈر تھا ۔ اسی دوران یہ شخص فوجی تربیت کیلئے افغانستان گیا اور وہاں تحریک طالبان سے اسقدر متاثر ہوا کہ واپس آکر تحریک طالبان کی چھتری تلے جنداللہ نام سے اپنی تنظیم قائم کی۔ بنیادی طور پر یہ تنظیم انٹی شیعہ تھی۔ شکار پو ر جامع مسجد پر حملے کے بعد اس تنظیم کے موجودہ امیر فہد مروت نے علی الاعلان کہا :
’’ ہمارا ٹارگٹ اہل تشیع کی مسجد تھی کیونکہ وہ ہمارے دشمن ہیں‘‘۔
2004میں اہل تشیع کے خلاف کاروائیوں کے ساتھ ساتھ سیکورٹی اداروں کیخلاف بھی کاروائیاں شروع کر دیں۔اس قسم کی پہلی بڑی کاروائی جون 2004میں کراچی کورکمانڈر لیفٹینٹ جنرل احسن سلیم حیات کے سرکاری قافلے پر حملہ تھا جس میں جنرل صاحب تو خوش قسمتی سے بچ گئے لیکن اس قافلے میں سے 8فوجی اور 4راہگیر سویلین مارے گئے جس کے نتیجے میں شیخ عطاء الرحمن پکڑا گیا اور کراچی کی ایک انٹی ٹیرورسٹ عدالت نے اسے سزائے موت سنا دی ۔ اُس دن سے لیکر آج تک شیخ صاحب کراچی کی سنٹرل جیل میں نوابانہ زندگی گزار رہے اور وہاں آرام سے بیٹھ کر دہشت گردی کے منصوبے بناتے ہیں ۔اس تنظیم نے کئی پولیو ایجنٹوں اور اُنکے محافظوں کو مارا۔کوہستان میں اہل تشیع مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیاں ماریں ۔
23اکتوبر 2014کو کوئٹہ میں مولانا فضل الرحمن کے قافلے پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی تنظیم نے قبول کی۔یاد رہے کہ مولانا صاحب تو اللہ کی مہربانی سے اس بم حملے میں بچ گئے لیکن انکے تین ساتھی مارے گئے۔اس سے پہلے پشاور چرچ پر حملے کی ذمہ داری بھی اسی گروپ کے ساتھ منسوب کی گئی تھی ۔ شروع میں یہ تنظیم تحریک طالبان کے امیر نیک محمد اور بیت اللہ محسود کے دستِ راست کے طور پر کام کر تی رہی ۔انکی موت کے بعد یہ تحریک طالبان کا حصہ تو رہی لیکن اسکی توجہ زیادہ تر اہل تشیع پر مرکوز رہی۔بعد میں یہ داعش میں شامل ہو گئی۔اس مقصد کیلئے شام سے الزبیر الکویتی کی راہبری میں ایک خصوصی وفد شام سے پاکستان پہنچا اور 17نومبر 2014کو ایک تفصیلی میٹنگ کے بعد جنداللہ کے حالیہ امیر فہد مروت نے داعش کی سرپرستی قبول کرتے ہوئے کہا:
’’ داعش کے لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اُن کے جو بھی منصوبے ہیں ہم نہ صرف انہیں سپورٹ کرینگے بلکہ اُن پر عمل بھی کرینگے‘‘۔
یہاں یہ بات بہت ہی پریشان کن ہے کہ دہشت گرد تنظیم جنداللہ کے بانی شیخ عطاء الرحمن کو 2004میں سزائے موت ہوئے دس سال کا عرصہ گزر چکا ہے جس پر آج تک عمل درآمد نہیں ہو سکا اور جہاں موت اور سزا کا خوف نہ ہو وہاں بھلا دہشت گردی کی کاروائیاں کیسے روکی جا سکتی ہیں۔ اگر ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو دہشت گردی کی بڑھتی کارروائیوں کی وجہ حکومتی نا اہلی، بز دلی اور بے عملی ہے۔ حکومت ان دہشتگردوں سے اس حد تک خوفزدہ ہے کہ انہیں ہاتھ لگانے یا صرف نام لینے سے بھی گھبراتی ہے۔
ہمارے حکمرانوں کی طرح منت ترلے سے نہیں بلکہ سخت اور دلیرانہ جوابی کاروائیوں سے دہشت گردی کو روکا جا سکتا ہے ۔اردن کا پائلٹ معاذ قصا صبیہ داعش کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ داعش نے اسے زندہ جلا کر مار دیا۔ اردن کے شاہ نے اُسی دن داعش کے دو قیدیوں بشمول ایک خاتون کو پھانسی پر لٹکا دیا اور بمباری کر کے داعش کے سو کے قریب آدمی مار دیئے حالانکہ اردن ایک چھوٹا سا ملک ہے مگر بات تو جرأت اور دلیری کی ہے اور بدقسمتی سے ہمارے حکمران اس وصف سے عاری نظر آتے ہیں۔امریکہ میں 9/11کا واقعہ ہوا تو اس نے اُن ملکوں کو ہی تہس نہس کر ڈالاجن پر اسے شک تھا ۔ لہٰذا جو لوگ ملکی تباہی و بربادی اور دہشت گردی کیلئے اپنے حکمرانوں کو ذمہ دار قراردیتے ہیں شاید زیادہ غلط نہیں۔ایک پاکستانی نے عمرہ پر جا کر خانہ کعبہ میں دعا مانگی: ’’ اے پروردگار پاکستان پر خصوصی رحمت فرما!ہمارے حکمرانوں کو ایمان کے ساتھ ساتھ جرأت بھی عطا کر ‘‘ ہر پاکستانی کے دل کی یہی خواہش ہے۔ خدا کر ے کہ یہ دعا قبول ہو جائے۔ آمین!
13 فروری، 2015 بشکریہ : روز نامہ نوائے وقت ، پاکستان
URL: https://newageislam.com/urdu-section/growing-strength-terrorism-/d/101493