New Age Islam
Mon Nov 10 2025, 07:49 PM

Urdu Section ( 15 Oct 2025, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Need and Significance of Interfaith Dialogue بین مذاہب مکالمہ کی ضرورت ومعنویت

عبدالحمید نعمانی

13 اکتوبر،2025

ملک او رعالمی سطح پر جس طرح سائنسی ترقی اور تعلیم وابلاغ میں حیرت انگیز انقلابی تبدیلیوں کے باوجود، انسانی سماج مختلف قسم کے مذہبی، سماجی وتہذیبی مسائل سے دوچار ہے او رمذہب وشناخت کی بنیاد پر کئی طرح کے تنازعات و شدت پسندی وعدم برداشت نے مقامی وعالمی سطح پر امن وفرقہ وارانہ ہم آہنگی کوخطرے میں ڈال دیا ہے اس سے ایسے سوالات کھڑے ہوگئے ہیں جن پر سنجیدہ غور وفکر کرکے دیر پاحل نکالنے کی ضرورت از حد ہوگئی ہے۔ بہت سے تعلیم یافتہ افراد بھی تنازعات او رکشمکش کی جڑ میں مذہب کی کارفرئی دیکھتے ہیں۔

اہل مذاہب او ر منکرین مذاہب کے درمیان مکالمے کا دائرہ الگ الگ اور زیر مکالمہ مسائل میں درجہ بندی ضروری ہے تاکہ باتیں گڈمڈ ہوکر بے نتیجہ دبے معنی نہ ہوجائیں۔اہل مذاہب سے ابتدائی مرحلے میں عقائد کے اختلافی امور کی بجائے مذاہب کے احکامات وتعلیمات کے مشترکہ امور کے تعلق سے قرب ویگانگت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی وامن کے قیام کے سلسلے میں مکالمہ ہوگا، جب کہ منکرین مذاہب سے مذہبی مسائل کی بجائے ایسے تہذیبی وسماجی ومعاشی امور کے حوالے سے مکالمہ ہوگا، جو سماج میں امن و ہم آہنگی کے قیام میں معاون ہوں گے۔

عموماؑ دیکھاجاتا ہے کہ بدھ مت والے میانمار اور سری لنکا وغیرہ میں بدھوں کی طرف سے فرقہ وارانہ تصادم کو نظرانداز کر کے باتیں کرتے ہیں۔ بریلی واقعہ پرکئی لیڈر، بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد وغیرہ کے ساتھ کھڑے نظر آئے، اس سلسلے میں مذاہب کا حوالہ راست رویہ نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ دنیا میں مذاہب او ران کے ماننے والوں کے درمیان اختلافات ہیں، لیکن اختلافات مخالفت و عداوت میں نہ بدل جائیں اور باہمی تصادم، قتل وغارت گری او رفسادات کی شکل نہ اختیار کرلیں، اس کے لیے تعمیری ومثبت مکالمہ کی بڑی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کو آزاد انہ زندگی گزارنے اورجیوجینے دو کی راہ پر چلائے جائے او ر کسی بھی عقیدہ و عمل کو ترک واختیار کی پوری آزادی ہو اور اس سلسلے میں کسی طرح کا غلط دباؤ وجبر کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔آج کے بھارت میں بھی اس کے لیے ماحول بنانے کی بڑی ضرورت ہے۔

گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے صدسالہ دہلی اجلاس او رناگپور اور دیگر جگہوں پر اس کے سربراہ ڈاکٹر بھاگوت کے خطابات و بیانات سے پیدا شدہ حالات او راسی حلقے سے تعلق رکھنے والے لیڈروں کے فرقہ وارانہ نفرت انگیز بیانوں سے پیدا صورت حال میں مختلف حلقوں میں باہمی مکالمات ومذاکرات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے، لیکن بیشتر لوگوں کے ذہن میں مکالمے کے موضوعات ودائر ے کولے کر کوئی واضح نکات نہ ہونے کی وجہ سے وہ تذبذب وکنفیوژن میں مبتلا ہیں، مختلف مواقع واوقات میں انفرادی اور کسی حد تک وفد کی شکل میں بھی تبادلہ خیالات و مکالمات بھی ہوئے ہیں لیکن ان کے کوئی بہتر ثمرات واثرات سامنے نہیں آئے ہیں، دیکھا جارہاہے کہ گزرتے دنوں کے ساتھ، ہندوتو وادی عناصر میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نفرت وجارحیت میں اضافہ ہی ہوتا جارہاہے،کہیں کہیں تھوڑی بہت مثبت تبدیلی بھی نظر آتی ہے، کئی سارے غیر مسلم، اسلام اور مسلمانوں کے متعلق اختیار کردہ رویہ وروش پر تنقید کے ساتھ ان کا دفاع بھی کرتے دیکھائی دیتے ہیں تاہم یہ کچھ باتوں کے متعلق اپنے تحفظات کا بھی اظہار کرتے ہیں۔ ایسی حالت میں ذی علم مسلم رونماونمائندے رابطہ وتبادلہ خیال کرکے غلط فہمیوں کو دور کرکے ایسا ماحول پیدا کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں جس میں نتیجہ خیز مکالمہ کی راہ ہموار ہوسکے۔ ابھی تک سنگھ سربراہ سے بات چیت میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی او رمتحدہ قومیت کی تھوڑی بہت بات سامنے آئی ہے، ضرورت تو اس کی ہے کہ دیر پا فرقہ وارانہ ہم آہنگی او رامن کے قیام کے لیے تمام متنازعہ مسائل کو زیربحث ومکالمہ لایا جائے، یہ امر بھی انتہائی قابل توجہ ہے کہ بہتر ثمر آور مکالمہ، فریقین کے عقائد وروایات کو جاننے سمجھنے کے بعد ہی ہوپائے گا۔ڈاکٹر بھاگوت کئی طرح کے مذہبی وتہذیبی مسائل پیش کرکے سامنے والے کوایک مخصوص سمت میں لے جانے کوشش کرتے نظر آتے ہیں، جب کہ جو مسلم دانش ور ڈاکٹر بھاگوت سے تبالہ خیالات کے لیے جاتے ہیں ان کے ذہن میں کچھ الگ قسم کے چند مسائل ہوتے ہیں، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کے لیے دیگر مسائل کولے کر بھی کوئی زیادہ وقت نہیں ہے، ان کی پوزیشن بھارت سے وطنی وابستگی اور قومیت کو لے کر بالکل واضح ہے۔ اس سلسلے میں سنگھ والے اور دیگر ہندوتو وادی عناصر، نے مسئلہ کو مسئلہ بناکر اصل مسائل سے سماج او رملک کی توجہ ہٹانے کا کام کرتے ہیں، رام، کرشن وغیرہ مسلمانوں کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے،اس کے برعکس یہودی،عیسائی او رہندو سماج کے ایک حصے نے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مسئلہ بنالیا ہے،مسلمان تمام عظیم شخصیات کو بہ نظر احترام دیکھتے ہیں۔

موجودہ صورت حال میں بھی مسلم قیادت کے لیے مکالمہ کاانکار مفید نہیں ہے، اس سے اسلام او رمسلم مخالف رجحان والے، ان کو امن وہم آہنگی کامخالف قراددے کر مشترکہ سماج کوبھٹکا نے کا کام کریں گے، ویسے بھی مسلمانوں کیلئے مکالمہ،مذاکرہ او رمعاہدہ امن کوئی نئی واجنبی بات نہیں ہے،اس کی مثال ونمونہ اسلامی تاریخ وسیرت میں میثاق مدینہ، صلح حدبییہ اور نجران کے عیسائیوں سے معاہدہ کی شکل میں موجود ومندرج ہے، طریقہ کار کی نشاندہی،قرآن مجید نے والا تجالوااھل الکتا ب الابالتی ھی احسن (سورۃ عنکبوت آیت 46) سے کردی ہے، یعنی جدال کی بجائے مکالمہ کے احسن طریقے کو اختیار کیا جائے، تاہم بعد کے دنوں میں مکالمہ کی قیادت مسلم سماج سے نکل کرعیسائی کمیونٹی کے پاس چلی گئی ہے، تقریباً دوصدی پہلے مشرق ومغرب کے درمیان ٹکراؤ کے حالات پیدا ہوئے تو ضرورت محسوس ہوئی کہ مختلف مذاہب کے حاملین ایک جگہ جمع ہوکر امن عالم کی بحالی اورایک دوسرے کو جاننے سمجھنے کی کوشش کی جائے، اس احساس کے تحت 1893 میں امریکہ کے شکاگو میں ایک عالمی مذہبی کانفرنس منعقد کی گئی، جس میں مسلم،عیسائی رہنماؤں کے علاوہ دیگر مذاہب کے نمائندے بھی شامل ہوئے ہندودھرم کے نمائندے کے طور پر سوامی وویکانند شریک ہوئے تھے، اس کے بعد سے مکالمہ بین المذاہب کاسلسلہ شروع ہوا، اس کے باوجود کہ مکالمہ بین المذاہب کی قیادت عیسائی کمیونٹی کے ہاتھوں میں رہی، یہ فائدہ ضرور ہوا کہ مغرب ویورپ میں اسلام،پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کی جو حد سے زیادہ منفی ومکر وہ شبیہ بنادی گئی تھی، اس میں کمی وتبدیلی کا آغاز ہوا او رکسی حد تک سنجیدگی و ہمدردی سے غور وفکر کا سلسلہ شروع ہوا، اس میں مسلم اہل علم کا خاصا دخل ہے، اس تناظر میں 1962 /1965 کا درمیانی دور بہت اہم اور قابل توجہ ہے، جس میں ویٹیکن سٹی کونسل نے جدیددنیا سے رشتہ استوار کرنے کے ساتھ دیگر مذاہب والوں سے مکالمہ کو ضروری قرار دیتے ہوئے اسلام اورمسلمانوں کا ذکر خاص طور سے کیا، اس تناظر میں جب مسلم اہل علم کی پروگراموں میں شرکت کا سلسلسہ شروع ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ان کے اصرار وتوجہ سے کلیسا کے قدیم موقف میں تبدیلی آئی، اس سے واضح طور سے مکالمہ کی ضرورت ومعنویت ثابت ہوتی ہے۔

------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/significance-interfaith-dialogue/d/137259

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

 

Loading..

Loading..