New Age Islam
Sun May 18 2025, 07:43 PM

Urdu Section ( 27 Aug 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

How Should Our Morals Be In The Present Age? عصر حاضر میں ہمارا اخلاق کیسا ہو

محمد شاہد رضا نعمانی، نیو ایج اسلام

اہم نکات:

· انسانی معاشرہ کا فرد ہوتے ہوئے معاشرہ کے دوسرے افراد کے جو حقوق ہم پر واجب ہیں ، ان کو حسن و خوبی سے انجام دینا ہی حسن خلق کہلاتا ہے

· ہمارا اخلاق خوشبو دار پھول کی مانند ہو جو خواہ تھوڑی مدت ہی جیئے مگر اپنے ارد گرد اچھائیوں کی خوشبو پھیلا کر جیتا ہے۔

· اگر ہمیں عصر حاضر میں اپنے اخلاق کو درست کرنا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر نظر ڈالنا ہوگا جو زندگی کی بوقلمونیوں کا ایک حسین و جمیل مرقع نظر آتا ہے

ارشاد باری تعالی ہے : لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ

مثل حیواں، خوردن، آسودن چہ سود

گر بخود محکم نہ بودن چہ سود

’’حیوان کی طرح کھانے سونے میں کیا فائدہ گر تو محکم و مضبوط نہیں تو تیرے وجود کا کیا فائدہ؟‘‘

یہ محکم بودن (مضبوط و مستحکم کا ہونا) کیا ہے؟ محکم اخلاق عالیہ ہونا، مستحکم اخلاق عظیم ہونا ہے تب ہی زندگی بامقصد ہے، بامعنی ہے، بامراد ہے۔

وہ علم نہیں زہر ہے ,احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے دو کف جو!!!

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز

قرآن حکیم نے اسی کو فرمایا ہے :

وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.

(البقره : 83)

’’عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا‘‘۔

لوگوں سے احسن طرز تعلم اختیار کرو۔ ’’للناس‘‘ نے اس کے دائرہ کو کائنات پر پھیلادیا۔ اپنے بیگانے کے فرق مٹادیئے۔ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

لايدخل الجنة الجواظ

جنت میں سخت کلام، درشتے بیان داخل نہ ہوگا۔ ۔ ۔

اور فرمایا

تحرم النار عليه علی کل هين لين

نرم گفتگو کرنے والے پر دوزخ کی آگ حرام کردی گئی۔ ۔ ۔

انسانی معاشرہ کا فرد ہوتے ہوئے معاشرہ کے دوسرے افراد کے جو حقوق ہم پر واجب ہیں ، ان کو حسن و خوبی سے انجام دینا ہی حسن خلق کہلاتا ہے ، ماں باپ، بیوی بچے ، پڑوسی، مقیم، بیوہ ، سائل، بیمار مسافر، مجاہد سب کے ساتھ مروت و احسان کرنا ہمارا وطیرہ حیات ہو۔ ہمارا یہ اخلاق اتنا جامع و ہمہ گیر ہو کہ انسان تو انسان، حیوانات و نباتات بھی ہمارے شر سے محفوظ ہوں۔ شیردار جانوروں کو تلف کرنے، پھلدار درختوں کو کاٹنے، لہلہاتے ہوے کھیتوں کو ویران کرنے، بستے ہوئے گھرانوں کو اجاڑ نے، ان سب چیزوں سے بچنا ہمارا لازمی صفت ہو ۔ ہمارا اسلوب تخاطب اتنا شیریں ہوں کہ اس کی مٹھاس اور لذت سب روح کی گہرائیوں میں سرایت کر جاتی ہو۔

یہ مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی

اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کردیا ہے نوع انسان کو

اخوت کا بیاں ہوجا محبت کی زب اوریگون، اوریگون،

بے شک ہمارا اخلاقی زاویہ ہمہ گیر اور عالمگیر ہو اور ہمارا اسلوب بیاں بھی دلنشیں اور لذیذ ہو ، ہمارا اخلاق دل ربا اور دل رعنا ہوں، جو قلب و نظر کو مسحور کر رہی ہوں ۔جس کی ایک جھلک دیکھ کر دل دیوانہ اور روح سرشار ہو جاتی ہو۔ ہم کوئی ایسی بات نہ کہے جس پر خود عمل پیرا نہ ہو،ہمارا اخلاقی سچ بولنا اور امانت میں دیانت کو ملحوظ رکھنا ہو، ہمارا اخلاق خوش گفتاری اور امانت داری کا وہ بلند منارہ ہو کہ خون کے پیاسے

بھی صادق اور امین کہنےپر مجبور ہو جائیں ۔

جیسے ہمارے نبی کا اخلاق تھا، جب قیصر روم نے ابوسفیان کو اپنے دربار میں طلب کیا تاکہ حضور کے اخلاق و کردار کے بارے میں دریافت کرے ابوسفیان اس وقت اسلام اور رسول اسلام کا بدترین دشمن تھا لیکن اس کوبھی مجبوراً یہ کہنا پڑا۔ کہ آپ کے اخلاق بڑے بلند ہیں۔ وہ قول کے پکے اور بات کے سچے ہیں۔

ہمارا اخلاق خوشبو دار پھول کی مانند ہو جو خواہ تھوڑی مدت ہی جیئے مگر اپنے ارد گرد اچھائیوں کی خوشبو پھیلا کر جیتا ہے۔ ہمارا اخلاق نوکدار کانٹے کی مانند نہ ہو ہے جو دوسروں کے قلوب کومجروح کرتا ہو۔ ہمارا اخلاق، دودھ دیتیے گائے کے مثل ہو جو گھاس کھا کر دودھ دیتی ہو۔ ہمارا اخلاق اس زہر یلے سانپ کے مثل نہ ہو، جو دودھ پی کر بھی زہر اگلتا ہے

الغرض ، اہل و عیال سے ہم ، ہمیشہ حسن اخلاق سے پیش آئے ، کہ جو بھی دیکھے جو بھی ملے تو پکار اٹھے کہ امن و آشتی کا علمبردار آ گیا۔ محبت و شفقت کا پیکر آ گیا۔ہمارا اخلاق کیسا ہو؟؟ ، ہمارا اخلاق ایسا ہو کہ جب ہم اپنے گھر آئے تو ہمارے اہل و عیال دیکھ کر کھل کھلا اٹھیں ، ایسا نہ ہو کہ ہمارے گھر آنے پر خوفزدہ ہو جائیں کہ ہمارے اہل و عیال خوش و خرم تھے، ہمارے آتے ہی ڈر کے مارے ادھر ادھر پھیل گئے، بچے سہم گئے وہ اچھا انسان نہیں ۔ حتی کہ جس کے ڈر سے بلی بھی بھاگ جائے ۔ کتا چونک جائے وہ بھی اچھا انسان نہیں ہے

نرم دم گفتگو، گرم دم جستجو

رزم ہو یا بزم ہو پاک دل و پاکباز

اسی سے متعلق حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ ہے کہ آپ کسی شخص کے لئے کسی جگہ کی گورنرچڑھاؤ پروانہ تحریر فرما کر دے رہے تھے کہ اس دوران آپ کے چھوٹے بچے آپ کے کاندھے پر چڑھا چڑھ کر کھیلنے لگے، لیکن آپ بجائے بچوں کو ڈانٹنے ڈپٹنے کے، مسکراتے نظر آتے ہیں۔ یہ دیکھ کر اس شخص نے کہا کہ امیر المؤمنین ! یہ بچے آپ سے ذرا بھی خوفزدہ نہیں جو یہ شرارت کر رہے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ شرارت نہیں، محبت ہے۔ اس نے کہا، میرے بچے تو مارے ڈر کے میرے سامنے بھی آتے ہوئے کانپتے ہیں ، بیوی تھر تھراتی ہے۔ حضرت عمر نے یہ سن کر اس نوشتہ پروانہ کو یہ کہتے ہوئے پھاڑ کر پھینک دیا کہ جو اپنے اہل و عیال کے ساتھ شفقت کے ساتھ پیش نہیں آتا وہ رعایا سے کیا حسن سلوک، اور شفقت و ہمدردی کرے گا۔ لہذا تم گورنری کے لائق نہیں ہو۔

جو کرے گا امتیاز رنگ و خوں مٹ جائے گا

ترک ضر گاہی ہو یا اعرابی والا گہر

نسل اگر مسلم کی مذہب پہ مقدم ہوگئی

اڑ گیا دنیا سے تو مانند خاک رہگذر

ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

تمیز آقا و بندہ فساد آدمیت ہے

حذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں

اگر ہمیں عصر حاضر میں اپنے اخلاق کو درست کرنا ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پر نظر ڈالنا ہوگا جو زندگی کی بوقلمونیوں کا ایک حسین و جمیل مرقع نظر آتا ہے جہاں جنگ کی شعلہ سامانیاں بھی ہیں ، اور صلح کی رافت و رحمت بھی ۔ دشمن نفرت کے انگارے بھی برساتے ہیں اور عقیدتمند اپنی محبت و مودت کے رنگین پھول بھی نچھاور کر رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے محبوب خدا کو حلقہ یاراں میں دیکھا ہے اور حملہ آوروں کے نرغہ میں بھی، ہم نے ان کی کاروباری مصروفیوں کا بھی مطالعہ کیا ہے اور غار حرا کی خلوتوں میں ان کے سور و گداز کا جائزہ بھی لیا ہے ، ہم نے انہیں وطن سے بظاہر انتہائی بے بسی اور بے کسی میں ہجرت کرتے بھی دیکھا ہے اور پھر چند سال بعد اسی شہر میں فاتحانہ انداز میں داخل ہونے کا منظر بھی ملاحظہ کیا ہے اپنے اہل و عیال کے ساتھ ان کا برتاؤ کا ریکارڈ بھی ہمارے سامنے ہے ۔ اور اپنے جاں نثار اور وفا شعار ساتھیوں سے حسن سلوک کی تفصیلات بھی ہمارے سامنےپیش نظر ہےہے، الغرض زندگی کےوسیع وعریض میدان کا کوئ جہاں حبیب کبریا نے اپنے اسوہ حسنہ کے حسین و جمیل نقوش نہ چھوڑے ہوں۔ یہ جامعیت ، یہ ہمہ گیری اسوہ محمدی کے بغیر کہیں بھی میں بھی نظر نہیں آتی۔ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا ہر آدمی اس آب زلال سے اپنی پیاس بجھا سکتا ہے ۔ اس دار الشفا میں انسانیت کے ظاہری و باطنی ، سیاسی و معاشی و سماجی اور اخلاقی ہرقسم کے ناقابل علاج لوگوں کے لیے اکسیر موجود ہے۔

الحاصل اگر انسان اپنی انسانیت کا تجزیہ کرنے کے لئے اخلاقی اقدار کا کامل آئینہ چاہتا ہے۔ اگر انسان اپنی انسانیت کو چمکانے کے لئے اخلاقی قواعد و ضوابط کا متلاشی ہے تو ایسا شفاف آئینہ ایسی شمع فروزاں ، صرف محسن انسانیت، انسان کامل، تاجدار آدمیت حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مقدس زندگی میں مل سکتی ہے کیونکہ فخر آدم و بنی آدم محسن اعظم حضورﷺ کی حیات طیبہ کا ہر اک نوری گوشہ انسانی و اخلاقی اقدار و قواعد کی شمع ہے

وہ کمال حسن حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں

یہی پھول خار سے دور ہے، یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

______________

URL: https://newageislam.com/urdu-section/should-morals-present-age/d/133052

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism

Loading..

Loading..