New Age Islam
Tue Jun 24 2025, 01:13 PM

Urdu Section ( 16 Jul 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Shocks upon Shocks to Right-Wing Politics دائیں باز و کی سیاست کو جھٹکوں پر جھٹکے

ڈاکٹر یامین انصاری

14جولائی،2024

دنیا کے مختلف ممالک کیلئے 2024 ء انتخابی سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ ایشیا سے لے کر یوروپ اورامریکہ تک سیاسی طور پر یہ سال انتہائی اہم ثابت ہونے والا ہے۔ صرف یوروپ کے ہی کئی ملکوں میں عام انتخابات ہونے ہیں یا ہوچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی امسال دنیا کے دس سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں میں سے آٹھ میں انتخابات ہیں۔ ان میں ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش، برازیل، انڈونیشیا، میکسیکو، روس اور امریکہ کے علاوہ فرانس، برطانیہ، ایران اور یوروپی یونین بھی شامل ہیں۔ان میں ہندوستان سمیت کئی اہم ملکوں میں انتخابات مکمل بھی ہوچکے ہیں۔ حال ہی میں برطانیہ،فرانس اور ایران جیسے بڑے ملکوں میں انتخابات ہوئے۔ ان ممالک کے نتیجوں نے حکمرانوں کو حیران کردیا۔ برطانیہ میں رشی سنک کی کنزرویٹو پارٹی 14/سال بعد ملک میں اقتدار سے باہر ہوگئی اور لیبر پارٹی کی اقتدار میں شاندار واپسی ہوئی۔ فرانس میں صدر ایمانوئل میکرون کی رینیسانس پارٹی کو بائیں بازو کے اتحاد کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ ایران میں اصلاح پسند سمجھے جانے والے رہنما مسعود پیز شکیان نے سعید جلیلی کو شکست دے کر صدارتی انتخاب جیت لیا۔ صرف انہی ملکوں کے انتخابی نتیجوں نے حکمراں جماعتوں کو جھٹکا نہیں دیا، بلکہ کئی ممالک میں ہونے والے عام انتخابات کے نتائج نے دنیا کو حیران کردیا۔ ان میں ہندوستان کے پارلیمانی انتخابات کے نتیجے بھی شامل ہیں۔ دس سال اقتدار میں رہنے کے بعد دائیں بازو کی جماعت حکمراں بی جے پی نے اب کی بار 400/پار کا نعرہ دیا تھا،مگر عوام نے اسے اکثریت سے ہی محروم کردیا۔ حالانکہ دیگر جماعتوں کے ساتھ وہ حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ ادھر پاکستان او ربنگلہ دیش کے انتخابی تنائج حسب توقع رہے، مگر برطانیہ اور فرانس نے سبھی کو حیران کردیا۔ اگر چہ دنیا کے مختلف ملکوں کے انتخابی نتیجوں کو ایک ترازو میں نہیں تولا جاسکتا، مگر دائیں بازو کی سیاست پرسوالیہ نشان ضرور لگ گیا ہے۔ ایشیائی ممالیک کے بعد دنیا کی نگاہیں یوروپ کے دو بڑے ملکوں برطانیہ او رفرانس پر مرکوز تھیں۔ انتخابی نتیجوں کے بعد دونوں ہی ملکوں میں سیاسی تبدیلی نے دنیاکو ایک پیغام دیاہے۔ فرانس میں قبل از وقت انتخابات کا اعلان کیا گیا تو سب حیران تھے۔

دراصل فرانس کے صدر ایما نوئل میکرو ن ان انتخابات کے ذریعہ ایک حکمت عملی کے تحت اپنی حکومت کے لئے حمایت حاصل کرناچاہتے تھے اور دائیں بازو کے ساتھ اپنے دیگر مخالفین کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ لیکن فرانس کی مسلم مخالف پارٹی’نیشنل ریلی‘ ان کی کوششوں میں حائل ہوگئی۔ انتخابی نتیجوں کے مطابق مختلف پول اور سروے کے برخلاف یہاں ایک معلق پارلیمنٹ وجود میں آئی،جہاں کوئی جماعت یا اتحاد تنہا حکومت بنانے کی حالت میں نہیں ہے۔ فرانس کی دائیں بازو کی جماعت کو خود بھی انتخابی نتائج سے بڑا دھچکا لگا، کیونکہ سروے اس کی باآسانی جیت کو پیش گوئی کررہے تھے، تاہم بائیں بازو او رمرکز پسند کے امیدواروں نے مختلف حلقوں میں اتحاد کی بدولت ’نیشنل ریلی‘ مخالف ووٹ کو یکجا کرکے پیش گوئیوں کو غلط ثابت کردیا۔ دراصل مسلم مخالف’نیشنل ریلی‘ کو انتخابات کے پہلے مرحلے میں زبردست برتری حاصل تھی۔ اسے روکنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں نے وہی حکمت عملی اپنائی جو ہندوستان میں ’انڈیا اتحاد‘ نے اختیار کی تھی۔’نیشنل ریلی‘ کو روکنے کے لئے تمام اپوزیشن جماعتیں متحدہوگئیں۔ فرانس میں پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد تمام مخالفین اپنے اختلافات بھلا کر مسلم مخالف،جماعت کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ ہم نے دیکھا کہ ہندوستان میں بھی حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کو شکست دینے کے لئے ’انڈیا اتحاد بنایا گیا ۔ اس میں مختلف علاقائی جماعتوں کے ساتھ کانگریس کلیدی کردار میں تھی۔ اسی کے تحت اتر پردیش کی اہم سیاسی جماعت سماج وادی پارٹی بھی اس اتحاد کا حصہ بن گی۔ اتر پردیش میں کسی سیاسی تجزیہ کار کو اندازہ بھی نہیں تھا کہ بی جے پی کو اس قدر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ 2014ء اور 2019ء میں زبردست جیت حاصل کرنے والی بی جے پی 2024ء کے عام انتخابات میں محض 33/ سیٹوں پر سمٹ کر رہ گئی، جب کہ سماجوادی پارٹی کو 37/ اور کانگریس کو چھ سیٹیں حاصل ہوئیں۔ سب جانتے ہیں کہ حکمراں جماعت کی جانب سے انتخابات کے دوران مسلمانوں کے تعلق سے کیاکہا گیا۔ فرانس میں بھی کچھ اسی طرح کا ماحول تھا اور نتیجے بھی ایسے ہی سامنے آئے۔ دائیں بازو کی جماعت نیشنل ریلی کو 300/نشستوں پر کامیابی کی امید تھی اور سروے بھی یہی کہہ رہے تھے تاہم پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوگئیں جس کے بعد نیشنل ریلی 143/ سیٹوں پر محدود ہوگئی اور تیسرے نمبر پر آگئی۔ فرانس کے 577/ رکنی قومی اسمبلی میں حکومت سازی کے لئے 289 /سیٹیں درکار ہوتی ہیں۔ 7/ جولائی کے نتائج کے بعد مجموعی طو رپر تین محاذ ابھر کر سامنے آئے۔ بائیں بازو کی پارٹیوں کے اتحاد ’این پی ایف‘ نے 182/نشستوں پر کامیابی حاصل کرکے سبقت بنائی، جب کہ صدر میکرون کی رینیسانس پارٹی کو 162/ سیٹیں ملیں۔ بنیاد پرست دائیں بازو کی پارٹیوں کے اتحاد کے حصے میں 143/ سیٹیں آئیں۔ حالانکہ قومی اسمبلی معلق ہے او رکوئی بھی محاذ ’289‘ کے جادوئی ہند سے تک نہیں پہنچ سکا، مگر بایاں محاذچونکہ 182/ سیٹوں کے ساتھ سب سے بڑا محاذ بن کر ابھرا ہے، اس لئے حکومت سازی کے لئے پرُ عزم ہے۔ بائیں بازو کے نظریات کی حامل پارٹیوں کے اتحاد ’نیوپاپولرفرنٹ‘ (این پی ایف) نے وزارت عظمیٰ کیلئے امیدوار کے انتخاب کی کوششیں بھی تیز کردی ہیں۔اس نے صدر ایمانوئل میکرون کے رخصت پزیر وزیراعظم گیبر ئیل اتال کے استعفیٰ کو قبول نہ کرنے کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے اسے الیکشن میں عوامی فیصلے کے منافی قرار دیا ہے۔ فرانس میں مسلم مخالف رجحان سرچڑھ کر بولتا ہے۔آئے دن یہاں مسلم مخالف فیصلے، ریلیا ں اور بیانات عام بات ہے۔ مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ ماحول سازی کی جاتی ہے اور حد درجہ کے جذبات کومجروح کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہندوستان او ر فرانس میں صورتحال تقریباً ایک جیسی ہے۔ اتنا ضرور ہے کہ فرانس میں دائیں بازو کی مسلم مخالف جماعت’نیشنل ریلی‘ تیسرے نمبر کی پارٹی بن گئی اور حکومت سازی سے محروم ہوگئی، جب کہ ہندوستان میں بی جے پی کو بھلے ہی اکثریت نہیں ملی ہو مگر وہ سب سے بڑی جماعت بن گئی۔ دراصل فرانس کی ’نیشنل ریلی‘ کو اس حالت میں پہنچانے کے لئے بائیں بازو جماعتوں کے ساتھ فرانس کا ایک بڑا طبقہ سرگرم ہوگیا تھا۔ کیونکہ لی پین کی قیادت میں دائیں بازو کی پارٹی ’نیشنل ریلی‘ کو انتخابات میں زبردست حمایت مل رہی تھی ۔ اس کو روکنے کے لئے فرانس کے بڑے بڑے شہروں اور دور دراز کے علاقوں تک مسلم تنظیموں، مورخین اور وکلاء نے لوگوں کو بنیاد پرست جماعت کے خلاف ووٹ دینے کی ترغیب دی۔ ان کی مہم میں مسیحی برادری کے لوگ بھی شامل تھے۔ فرانس میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 50/لاکھ ہے اور وہ ملک کی آبادی کا تقریباً سات فیصد ہیں۔ یورپی یونین کے انتخابات کے بعد کامیابی کا دعویٰ کرنے والی’نیشنل ریلی‘ کے سربراہ لی پین نے دوہری شہریت کے حامل افراد کو بع ض ملازمتوں سے محروم کرنے غیر ملکی والدین کے فرانس میں پیدا ہونے والے بچوں کی قومیت ختم کرنے او رعوامی مقامات پر حجاب پر پابندی لگانے جیسی مسلم مخالف تجاویز پیش کیں، جنہیں فرانس کے عوام نے ٹھکرا دیا۔ نتیجوں کے بعد یہاں کا ایک بڑا طبقہ بالخصوص مسلم طبقہ خوش ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ’نیشنل ریلی‘ نے تنخواہ، ریٹائر منٹ او رپنشن جیسے ضروری مسائل  پر بات نہیں کی، انہوں نے صرف غیر ملکیوں اور اسلام کوانتخابی موضوع بنایا۔ کچھ ایسا ہی ہندوستان کے پارلیمانی انتخابات میں ہوا۔ دائیں بازو کی حکمراں جماعت نے بے روزگاری،مہنگائی اور نوجوانوں کے مسائل کے برخلاف مسلمان، منگل سوتر اور نفرت کے سہارے کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی۔ یہاں بھی نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ غرض یہ کہ کم از کم ہندوستان اور فرانس کے نتیجوں نے ایک پیغام ضرور دے دیا ہے کہ رائے دہندگان کی اکثریت شدت پسند ی، نفرت او ربنیاد پرستی کی جگہ عوامی او ربنیادی مسائل کو سامنے رکھ کر ہی ووٹ دیتی ہے۔ دنیا کے مختلف ملکوں کے سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو اس پیغام کو سمجھ لینا چاہئے۔

14 جولائی،2024، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

-------------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/shocks-right-wing-politics/d/132717

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..