شیخ راشد احمد ( القرآن ٹرسٹ)
( وحدتِ خالق کے تصور کالازمی نتیجہ وحدتِ انسانیت ہے)
کوئی بھی مذہب عقل کو اہمیت نہیں دیتا اور غور و فکر کی تلقین نہیں کرتا، بلکہ ہر مذہب کا مطالبہ ہے کہ جانے بغیر ہماری بات مان لو، دِل میں شک و شبہات مت آنے دو، عقل پر بھروسہ نہ کرو چونکہ تمہاری عقل خام ہے۔ اس کے بر عکس اسلام کہتا ہے عقل انسان کے لئے اللہ کی سب سےبڑی نعمت اور عطیہ ہے، اسے کام میں لاؤ ، سوچو، سمجھو فکر کرو، کیونکہ انسان فکر سے محروم ہوکر تباہ ہو جاتا ہے ، آنکھیں بند کر کے ہر گز ایمان نہ لاؤ۔ اگر دل میں شکوک پیدا ہوتے ہیں تو ہونے دو، انہیں دباؤ نہیں ، ان شکوک پر غور کرو اللہ کی کتاب کسوٹی پر پرکھو کسی بات میں تضاد پاؤ تو بے شک اسے چھوڑ دو۔ خود سے جاننا سچ ہے اور دوسروں کی ماننا جھوٹ، خود سے جانی گئی ہر چیز سچ ہے چاہے وہ جھوٹ ہی کیوں نہ اور دوسروں کی بتا ئی گئی ہر چیز جھوٹ ہے چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ ہو، جانناہمیشہ اپنا ہوتا ہے اور ماننا ہمیشہ دوسروں کا ہوتا ہے، پنڈت ، پادری، مولوی مانو، مانو کی بھرمار کرتےہیں، یہ ماننا اور منوانا ہی ہر جھوٹ کی ابتداء اور مذہب کی بنیاد ہے، اِس میں اُن افراد کاکوئی قصور نہیں جن کے نام استعمال کرکے یہ سب استحصال کیا جارہا ہے ، اُن افراد نے تو چاند کی طرف اُنگلی کی تھی لیکن ہم نے اُن کی اُنگلی کو ہی چاند سمجھ لیا اور چاند پر نظر ڈالنے کے بجائے ہم نے اُن کی اُنگلی پر ہی کمنڈ ڈال دی۔اللہ کی کتاب کھولنے کے بجائے کتبہ گلے میں ڈال لیا ، اپنا سچ بولنے کے بجائے اُن کا جھوٹ اپنے پلے باندھ لیا، خود سے جاننے کی صراط مستقیم پر چڑھنے کی بجائے دوسروں کی ماننے کی پگڈنڈیوں پر اُتر گئے ، شروع شروع میں ماننے کوبھیڑ چال اور اندھی تقلید کہا جاتاتھا ، رفتہ رفتہ ماننے کے انداز کے ساتھ ساتھ الفاظ میں بھی جدت آتی گئی ، اسی بھیڑ چال کو پیروی اور اعتقاد کہا جانے لگا، آہستہ آہستہ انسان کی بد بختی اِس نہج پر پہنچ گئی کہ ایمان کا ترجمہ بھی ماننا کیا جانے لگا۔ یہیں سے Bellef Systems نےجنم لیا جس نے آگے چل کر مختلف مذاہب کے عجیب الخلفت بچے پیدا کئے، دوسرے کی ماننے پر ہی آدم جنت سے نکلا گیا ، خود سے جانتا تو اب تک جنت میں ہوتا، خود سے جاننااللہ سے جاننا ہے، اس لئے وہ سچ کہلاتا ہے جنت میں لے جاتا ہے ، دوسرے کی ماننا شیطان کی ماننا ہے، اسی لے وہ جھوٹ کہلاتا ہے جنت سےنکلواتا ہے۔ خود سے جاننا سچ ہے اور یہی سچ اعلیٰ ترین آزادی ہے، دوسروں کی ماننا جھوٹ ہے اور یہ جھوٹ بد ترین غلامی ہے ، سچائی جاننے کے لئے ہر انسان کو خود اللہ کی کتاب ‘‘ قرآن حکیم ’’ کی دعوت پر اس کے لفظ لفظ پر غور و فکر کرنا ہوگا، اِس کتاب میں اللہ کا دعویٰ کہ ہم نے اس کتاب کو تمہارے لئے آسان کردیا ہے۔
تمام مذاہب دنیا کی زندگی کو اہمیت نہیں دیتے، کہتے ہیں دنیا کی زندگی ایک سراب ہے، آنکھوں کا دھوکا ہے ، اس دنیا سے دل نہ لگاؤ۔ اصل زندگی وہ ہے جو آنے والی ہے۔ اس کے برعکس قرآن کہتا ہے ‘‘ یہ زندگی بہت اہم ہے ، آنے والی زندگی تو اِس کا نتیجہ ہے ’’ یہ زندگی وہ درخت ہے جس پر وہاں کا پھل لگے گا، جیسا درخت ہوگا ویسا ہی پھل لگے گا۔ دنیا کی زندگی میں رچ بس جاؤ، اس سے ہم آہنگ ہوجاؤ ، اس زندگی میں توازن پیدا کرو، سکھی رکھو، سکھی رہو ، علم حاصل کرو، اپنے کردار سے اپنا مرتبہ بلند کرو، ہمدردی ، محبت، خلوص اپناؤ ، جو لوگ آس پاس مفلس ہوں، بے سہارا ہوں، مسافر ہوں ان سب کے طعام و قیام اور خاطر داری کا بندوبست کرو، دولت کماؤ مگر سب سے لقمے بانٹ کر کھاؤ آخرت کی زندگی کا خوشگوار ہونااِسی بات پر منحصر ہے کہ تم یہاں کی زندگی کیسے گزارتے ہو ! مذہب دوسرے مذاہب کے خلاف زہر اُگلتا ہے ، تعصب پیداکرتا ہے ، کہتا ہے صرف میں سچا ہوں باقی تمام مذاہب جھوٹے ہیں۔
مثلاً ہندواِزم کو لیجئے، ہندواِزم کےمطابق صرف ہندو قوم پاکیزہ ہے باقی تمام مذاہب اور انہیں ماننے والے پلید ہیں ، ناپاک ہیں ، نجس ہیں، اِن سے دور رہنا چاہئے، ان کے ہاتھ سےکوئی چیز لے کرکھاؤگے تو دھرم بھرشٹ ہوجائے گا۔اِن کا سایہ بھی نہ پڑے، اگر پڑ گیا تو پھر سے پاک ہونے کے لئے اشنان کرنا لازم ہوجائے گا۔ جب کہ قرآن دوسرے مذاہب سے تعصب کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ غیر مسلموں کے عقائد ، بزرگوں ، عورتوں ، بچوں ، رسم و رواج اور عبادت گاہوں کی حفاظت اور تعظیم کا حکم دیتا ہے ۔ غیرمسلموں کو برابر کے حقوق دیتاہے انہیں نجس نہیں سمجھتا ، قرآن کہتا ہے انسان کی بقاء کا راز انسانیت کے احترام میں ہے۔ یہ قرآن ہی ہے، جس نے بنی نوع آدم کو سب سےپہلے یہ پیغام دیا کہ یہ دین نہ قومی ہے، نہ نسلی ہے، نہ انفرادی ہے اورنہ پرائیوٹ بلکہ خالصتاً انسانی ہے اور اِ س کامقصد باوجود تمام فطری امتیازات کے پوری دنیا کے انسانوں کو متحد و منظّم کرنا ہے۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے جس سے عالم انسانی کی جذباتی زندگی اور اس کے افکار میں یکجہتی او رہم آہنگی پیدا ہوسکتی ہے، جو ایک اُمت کی تشکیل اور اِنسانیت کی بقاء کے لئے ضروری ہے’’ مشاہیر کہتے ہیں کہ اس حوالے سے تو اِسلام میں تو مذہب کہنا سراسر غلط ہے ، کیونکہ اسلام میں مذہب والی کوئی بات ہے ہی نہیں اور نہ پائی جاتی ہے ۔ مشاہیر ٹھیک کہتےہیں اسلام میں تو مذہب والی کوئی بات نہیں ہے، تو پھر اسلام کو مذاہب کی صف میں کیوں کھڑا کیا جاتا ہے؟ یہ تو ایک تحریک ہے نسلِ انسانی کی بقاء کی اِصلاح کی ، فلاح کی، جیو اور جینے دو کی۔ اسلام میں برگزید کا پیمانہ عمل ہے، نسلی رشتوں کا تفاخر نہیں ۔ مسلمان ہونے کے باوجود ہم سب اس بات سے بالکل بے خبر ہیں یا اگر خبر ہے تو ہم نےاِس بات پر کبھی غور نہیں کیا اور اِس بات کو سمجھا ہی نہیں۔!
حقیقت کی تلاش میں میرے سفر کی ابھی ابتداءتھی کہ میرا تعلق تبلیغی جماعت سے ہوگیا ، اس گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ تبلیغی جماعت کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے سورۃ البقرہ کی آیت ( 2:109) کوبطور دلیل پیش کیا کرتے تھے، اُس گروہ میں اِس آیات کا ترجمہ یہ کیا جاتا تھا ‘‘ تم میں ایک جماعت ہونی چاہئے جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے’’ اور وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں ، جب کہ اِن دونوں کاموں کے لئے ریاستی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ جس کے پاس حکومت ہوگی وہ حکم دے سکتا اور برائی کو ریاستی طاقت کے زور پر روکا جاسکتا ہے۔ میری دانست میں یہ لوگ خوش فہمی اور غلط فہمی میں مبتلاء ہیں ۔جب ہم نے قرآن حکیم خود تفصیل سے پڑھا تو میں حیران ہوا، میری سوئی سورۃ البقرہ کی اِس آیت پر اٹک گئی، پتہ نہیں کتنی دیر اٹکی رہی۔ اس میں میراکوئی قصور نہیں تھا، بات ہی ایسی ہے کہ سوئی اٹکنا تھی ۔ سورۃ البقرہ کی اِس آیت کو پڑھ کر مجھ پر واضح ہوگیا تھا کہ اسلام کا مقصد کلمہ اور نمازیں درست کرنانہیں ہے ، مخصوص افرا د کو انسانیت سکھانا نہیں ، سوسائٹی کے کسی ایک گروہ کو اچھے انسان بنانا نہیں، صرف مسلمان کو جنت کا راستہ دکھانا نہیں ، انسانیت کی منزل تک پہنچا نا نہیں بلکہ تمام بنی نوع آدم کو چاہے وہ کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، اِنہیں اسلاف پرستی کی اندھی تقلید سے روک کر انہیں اللہ کے عبد بنانا ہے، کمزور انسانوں کو فرعون صفت لوگوں کے ظلم سے بچانا اور اُن کی آہنی گرفت سے نکالنا ہے۔ اُن کی نشو ونما کے لئے راہیں ہموار کرنا ہے، اِنہیں اچھے انسان بنا کر معاشرے کو اِنسانیت کی تمام تر خوبیوں سے آراستہ کرنا ہے، بے بس و کمزور انسان کو طاقتور انسان کی اطاعت و غلامی سے نکال کر اللہ کی اطاعت اُس کے ارسال کردہ قرآن کے ذریعے کرنا ہے، دُنیا میں قرآن کے ذریعے قانون اِلٰہیہ کی حکمرانی قائم کرنا ہے، زمین پر فساد پھیلانے والے ظالموں کو فساد پھیلانے سے بزور ریاستی طاقت روکنا ہے، کمزوروں کاسہارا بننا ہے، میں نے یہ محسوس کیا کہ ہم فرقہ تبلیغی میں شامل لوگ تو صرف اپنی ظاہری تراش خراش پر جنت کے حقدار بنے بیٹھے ہیں، بغیر یہ جانے ہوئے کہ ہمارا رَبّ ہم سے کیا چاہتا ہے ، ہم صرف نماز دوڑ دوڑ کر پڑھ رہے ہیں، کھانا تناول کرنے کے بعد کھجور کو سنت کی ادائیگی کے طور پر کھا رہے ہیں ، اور خود کو ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم اللہ کے حکم کےمطابق نماز پڑھنا اور نماز پڑھنے کی دعوت دینے کو تَاْ مْرُوْنَ بِا لْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَر سمجھتےہیں ۔
سورۃ آل عمران کی یہ مکمل آیت جب میرے مطالعے میں آئی تو میں حیران رہ گیا ، اس آیت کے سیاق و سباق میں تو بات ہی کچھ اور تھی ، میں آج آپ کو اِس آیت کے حقیقی پس منظر میں شریک کر رہاہوں ، اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پوری کی پوری مسلم اُمت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمایا ہے ۔ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُم ۚ مِّنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ( 3:110) بات یہ ہے کہ خارجی کائنات میں تو اللہ کے قوانین از خود کار فرما ہیں، مگر انسانی دنیا میں انہیں نافذ کرنے کے لئے انسانوں کی ایک جماعت کی ضرورت ہوتی ہے، یہ ہے وہ مقصد جس کے لئے ہم نے اسے خیر کے مآخذ ( قرآن) کی طرف مائل جماعت! تم سب کے سب اُٹھو، باہر نکلو ، نظام کے قیام کے لئے پیش قدمی کرو اور ایسا نظام قائم کرو جو عالمگیر انسانیت کے لئے نفع رساں ہو، اس لئے ضروری ہے کہ تم اُن باتوں کا حکم دو جسے قرآن صحیح تسلیم کرتا ہے اور اُن کاموں سے روکو جو اِس کے نزدیک نا پسندیدہ ہیں ۔ لیکن تم دوسروں سے یہ کچھ اُسی صورت میں کہہ سکتے ہو جب تم خود ان قوانین کی صداقت پر پوراپورا یقین رکھو۔
اِس آیت کریمہ کے الفاظ میں صاف صاف کہا گیا ہے کہ اسلام کی دعوت عالمگیر ہے اور اِس آیت میں پوری کی پوری مسلم اُمہ کو اس عالمگیر دعوت کے لئے اجتماعی پیش قدمی کرنے کا حکم ہے، ایسا نظام قائم کرنے کا حکم ہےجو فسادِ آدمیت کو روکے ۔ اس خیر کے مآخذ کی حامل اُمت کا انقلاب انگیز مقصد زندگی یہ ہے کہ اُمت ایک ایسی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر رہے جس کا فریضہ یہ ہو کہ وہ تمام بنی نوع آدم کو قرآن کی طرف دے، اُن اُمور کوبطور نظام الٰہی کے نافذ کرے جنہیں قرآن صحیح تسلیم کرے اور اُن سے روکے جو اس کے نزدیک نا پسندیدہ ہیں یہ حکومت الٰہیہ کا قیام ہوگا، حکومت اِلٰہیہ کے قیام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ انسانوں کو انسانوں کے ظلم و جبر اور بربریت سے چھڑا کر براہِ راست قانونِ الٰہی کی اطاعت میں لے آئے ۔ کیونکہ یوں تو دنیا میں ہر شکار میں لذت ہوتی ہے لیکن یہ لذت اپنی اِنتہا ء تک اُس وقت پہنچتی ہے جب ایک انسان کا شکار دوسرے انسان ہو، یہ وہ لہو ہے جو منہ سے لگا چھوٹتانہیں ۔ اِس عظیم مقصد میں کامیاب صرف اُسی وقت ممکن ہے جب اُمت مسلمہ کو خو د قرآن کی ہدایت و قوانین کی سچائی پر پورا پورا یقین ہوگا۔ یہ کام مسلم اُمہ میں کوئی خاص فرقہ بنا کر اِس آیت کریمہ کو اپنے فرقہ کے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کرنا یہ خوش فہمی میں مبتلا ء ہوکر گمراہی پھیلانااور گمراہی میں لت پت پڑے رہنا ہے۔
بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ خیر کاسر چشمہ ( قرآن) دنیا میں جس گروہ کے ہاتھ میں ہوگا اور وہ گروہ صرف اور صرف خیر کے اس مآخذ ، منبع ،سرچشمہ ( Source) کی صداقت پر یقین رکھ کر اللہ کے حکم کے مطابق اجتماعی طور پر میدان عمل میں آکر نظام ِ الٰہی قائم کر کے بزورِ ریاستی طاقت تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَر کا عملی مظاہرہ کرے گا وہ گروہ دیگر سابقہ اُمتوں ( یہود و نصارا) کے مقابلے میں پورا پورا خَیْرَ اُمَّۃٍ کہہ لائے گا۔
خَیْرَ اُمَّۃٍ یہ لقب پوری کی پوری مسلم اُمہ کے لئے ہے کسی خاص فرقہ کے لئے نہیں جو لوگ قرآن کی چند آیتیں ثواب کے لئے پڑھیں ،باقی قرآن کو سمجھ کر پڑھنا اس کی آیتوں کے لفظ پر غور و فکر کرنا ہر گز ضروری نہ سمجھیں ۔ فضائل اعمال یا انسانوں کی لکھی ہوئی دیگر مذہبی کتابوں کو اصلاح ، وفلاح اور نجات کا ذریعہ سمجھیں اور صرف لوگوں کی نماز یں او رکلمہ درست کرتے پھریں ، اور قرآن میں موجود جہاد کی آیت اور حکم کو منسوخ کہنے اور سمجھنے کی جرأت کریں اور خود کو نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے والا سمجھیں جب کہ اُن میں طاقت کی شدت سےبرائی کو روکنےکی ہمت اور جرأت ہی نہ ہو اور جہاد کے نام سے جب کی جان نکلتی ہو، جو جہاد پر جانے کےبجائے چلوں پر رواں دواں ہوں، یعنی جو لوگ بزدلی کی انتہاؤں پر ہوں، وہ اِس عظیم آیت کو اپنے فرقے کے وجود کے لئے بطور دلیل پیش کریں، یہ گمراہی اور خود فریبی نہیں تو پھر کیا ہے؟۔
انہیں اپنے اپنے مذہبی فرقہ مست لوگوں کو اِس بات کا ادراک ہی نہیں ہے کہ نماز اور درود کی پھونکوں سے دنیا میں پھیلے ہوئے ظلم اور بربریت کے بھڑکتے شعلے نہیں بجھیں گے ، نیکی کا حکم دینے اور برائی سےروکنے کے لئے یعنی ظالم کا ہاتھ توڑنے اور بربریت کی آگ بجھانے کے لئے ریاستی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے، محض وعظ و تقریر سے معاشرے سے برائیاں ختم نہیں کی جاسکتیں ‘‘عصا ء نہ تو کلیمی ہے کاربے بنیاد’’ یہ صحیح ہے کہ ایک داعیِ حق و صداقت کی پہلی آواز نرمی اور نصیحت کی ہوتی ہے لیکن جب وہ دیکھتا کہ اس سے سرکش قوتوں پرکچھ اثر نہیں ہورہا ہے ،بلکہ وہ اپنی سرکش میں اور زیادہ دلیر ہوتی چلی جارہی ہیں تو پھر ضرب کلیمی کی باری آتی ہے اس کے لئے عضا ء کی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ جو زخم مرہم سے ٹھیک نہ ہو اُس کاعلاج آپریشن کے سوا اور کچھ نہیں ، ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کے لئے شکنجوں میں کسنا ہی پڑتا ہے ۔ ذرا تصور میں لائیے کی ایک نبی کا مشن (مقصد زندگی) کیا ہوتا ہے؟ باطل کی ہر روش کے خلاف دعوت انقلاب ! ظاہر ہے کہ اِس دعوت کا نتیجہ ساری دنیا سے مخالف مول لینا ہے، اِس مخالفت میں ہر قسم کے حربے استعمال کئے جائیں گے کردار کشی، طعن وتشنیع کے نشتر سے لے کر تلوار کے گھاؤ تک کا سامنا کرنا پڑے گا۔
دیگر سابقہ اُمتوں ( یہود و نصارا ) کے مقابلے میں یہ مسلم اُمہ ایک الگ جماعت ہے، ۔ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ۔ خیر کے سر چشمہ کے حامل لوگو! تم سب باہر نکلو اِس مآخذ ( Source) کو ہاتھوں میں اُٹھا کر عوام الناس کی طرف پیش قدمی کرو عوام الناس کو اس خیر کےمنشور سے آگاہ کرو ،عوام الناس تک اسے پہنچاؤ ۔ كُنتُمْ کا لفظ تمام کی تمام مسلم اُمہ کے لئے ہے، مسلم اُمہ میں وحدت ہوتو یہ سب مل کر خَیْرَ اُمَّۃٍ بنتے ہیں ۔ اِس امت کو تاکید کی گئی ہے۔
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَىٰ شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنقَذَكُم مِّنْهَا كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( 3:103) مفہوم : تم سب مل کر اللہ کی رسی یعنی اللہ کی کتاب ‘‘ قرآن حکیم ’’ کو مضبوطی سے پکڑ لو او رہر گز اسےنہ چھوڑو، اس سے الگ نہ ہو، آپس میں انتشار اور تفریق ( باہمی تفرقہ) پیدا نہ کرو، اس کتاب کے ساتھ منسلک ہونے کے بعد تم پر جو اللہ کے احسانات ہیں انہیں پیش نظر رکھو، جو تمہیں اُس کی طرف سے یہ شرف، عزت و عظمت کی نعمت ملی ہے۔ اِس کی حفاظت کرو، اسے ضائع مت کرو، بطور مسلم اُمہ عظمت اور بڑائی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے کہ تم قرآن حکیم پر عملی طور پر ثابت قدم رہو، اللہ کے قوانین کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونےدو، انہیں ہمیشہ اپنے سامنے رکھو، تم اِس عروج کے ساتھ ساتھ اُس پستی او راپنےزوال کوبھی یاد رکھو جب تم میں پھوٹ تھی تم ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے ۔ پھر اللہ نے اس کتاب قرآن حکیم کے ذریعے تمہارے دلوں میں باہمی اُلفت ڈال دی اور اِس طر ح تم اُس کی نازل کردہ رحمت ( قرآن حکیم) کے سبب ہم مقصد ہوگئے، اس سے پہلے تم نفرت ، عداوت ،بغض ،شر ، وحشت اور فتنوں کی بھڑکائی ہوئی آگ کے سبب تباہی و بربادی کی آخری حد پر تھے ،تمہارے اعمال کے وہ تباہ کن نتائج کے سبب تمہاری متاع حیات جل کر راکھ کاڈھیر ہونے والی تھی کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا ۔ اس طرح اللہ نے اپنی نازل کردہ قرآنی آیات کے ذریعے تمہارے سامنے اپنی بات، اپنا پیغام واضع کیا تاکہ تم ہدایت پاؤ ۔
مندرجہ ذیل بالا آیت میں اللہ نے حَبل ( رسی) اپنی کتاب قرآن حکیم کوکہا ہے، رسی سوت سے بنتی ہے ، رسی کم از کم دو سوت پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ سوت رسی میں گم ہوجاتے ہیں ، ان دو سوتوں کی اپنی انفرادیت ختم ہوجاتی ہے اور اِن دو سوتوں کی وحدت انہیں ایک مضبوط شے بنا دیتی ہے ،جس چیز کو اس رسی سے باندھ دیا جائے یا جو چیز سے بندھ جائے اُس میں وحدت آجاتی ہے ۔ اس کے بکھرنے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا وہ محفوظ او رمضبوط ہوجاتی ہے ۔ رسی کی مثال سے بہتر کوئی وضاحت شائد ممکن نہیں ، ۔ تفرقہ سے مراد حَبْل ( رسی) کو کھول دینا ہے، دوستوں کی وحدت کو ختم کردینا ہے۔ پھر اسے ان میں تفریق ڈال دینا ، انہیں الگ الگ کر دینا ہے، تقسیم کردینا ہے ان دو سوتوں کی الگ الگ انفرادی حیثیت بحال و تسلیم کرلینا ہے۔ قرآن حکیم اللہ کی رسی ہے ۔ اللہ کی حبل ہے ۔ حبل اللہ ہے، جس عَبد کا کوئی اِلہٰ نہ ہو سوائے اللہ کے وہ عبداللہ ہے، اللہ کی رسی سے بندھ کر انسان عبداللہ بن جاتا یعنی ہر عبداللہ خود بھی حبل اللہ بن جاتا۔ ہر عبداللہ خود کو اللہ کی رسی سے باندھ کر اللہ کی حفاظت میں آکر مضبوط ہوجاتاہے ، جس نے اللہ کی اس رسی ( قانون الہٰی) کو مضبوطی سےتھام لیا اس ھُدًی لِّلْمْتَّقِیْنَ ( قرآن) سے رہنمائی لے لی، اُسے یقیناً زندگی کی متوازن راہ کی طرف رہنمائی مل گئی اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِیْعًا ۔
کے معنی یہی ہیں ۔ خود کو اللہ کی حَبْل ( رسی) سے باندھ لو اس سے بندھ جاؤکیونکہ اللہ اپنی ہستی میں یگانہ ہے اُس کا ہمسر ، مثیل اور نظیر کوئی نہیں، اللہ خود ہر ضر ورت سے بے نیاز ہے ، دنیا کی ہر شے اپنی زندگی کی بقاء ، نشو و نما اور تکمیل کے لئے اُس کی محتاج ہے۔ یاد رکھیے ! دین نہ انفرادی مسلک کا نام ہے ، نہ گروہ بندیوں کے الگ الگ طریقے کا ۔ لہٰذا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ یہ سب کے سب بلا استثناء اجتماعی طور پر اِس قرآن اور اس میں درج نظام کے ساتھ محکم طور پر وابستہ رہیں اور اُمت میں فرقہ پرستی او رپارٹی بازی کو وجود میں نہ آنے دیں کیونکہ ‘‘فرقہ پرستی شرک ہے ( 3:31:32) او رپارٹی بازی اللہ کا عذاب ( 2:65) ’’ جو لوگ چودہ سو سال پہلے قرآن کی ہدایت سےمستفید ہوئے قرآن اُن لوگوں سے مخاطب ہوکر کہتا ہے تم ذرا قرآن ملنے سے پہلے والی اپنی پچھلی حالت کو یاد کرو جب تم اجتماعی زندگی کے بجائے فرقوں ، گروہوں اور قبائل میں بٹے ہوئے تھے، تم ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے ، اللہ نےاُس حالت میں تمہیں قرآن عطاء کیا جس نے تمہیں ایک ایسی فکردی ، ایک ایسا نظام دیا جس سے تم لوگوں میں صرف ظاہری اتحاد ہی پیدا نہیں ہوا بلکہ تمہارے دل ایک دوسرے سے جڑ گئے ، تم ہم مقصد ہوگئے یعنی آپس میں بھائی بھائی بن گئے، بھائی بھائی بن جانے کامطلب بھی تو دشمنی مٹا کر ایک ہوجانا ہی ہے، اصل میں انسانوں کا ایک مستقیم پرچلنا اللہ کی رسی پکڑنا ہے۔ تمہارا اس طرح ایمان کے رشتے میں منسلک ہوکر ایک برادری ، ایک جماعت ایک اُمت بن جانا اللہ کا کتنابڑا انعام ہے ، تم اس قرآن کے ملنے سے پہلے ہلاکت اور تباہی کی آخری حد تک پہنچ چکے تھے، کہ اِس قرآن میں موجود ہدایت (نظام اِلٰہی) نے تمہیں تعصب کی آگ میں جلنے اور جھلسنے سے بچا لیا، اس قرآن کے ذریعہ اللہ اپنے قوانین و ضوابط اور اُن کے نتائج و ثمرات واضح طور پر بیان کرتا ہے تاکہ زندگی کا صحیح راستہ تمہارے سامنے رہے، قرآن کہتا ہے یاد رکھو ! تم کہیں ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو واضح قوانین الہٰیہ آجانے کےبعد فرقوں میں بٹ گئے اور آپس میں اختلاف کرنے لگے، یہ برا سنگین جرم ہے اس لئے اس کی سزا بھی بڑی سخت ہے، اس سے قومیں ذلیل و خوار اور تباہ برباد ہوجاتی ہے۔ مندرجہ ذیل بالا آیتوں کے عمیق مطالعے سے یہ نتائج سامنے آرہے ہیں کہ اللہ کی کتاب کو تھامنے کی تاکید تمام اُمت مسلمہ کو ہے جَمِیعًا کالفظ اس کی وضاحت کرتا ہے، لَا تَفَرَّ قُوْا آپس میں تفرقہ ( انتشار اور تفریق) نہ پیدا کرو ، یعنی مسلم اُمہ کے وجود میں اپنی الگ شناخت بناکر خود کو مسلم اُمہ سے جدانہ کرو، خود سے نئے راستے پر نہیں چلو، مسلم اُمہ سے الگ ہوکر اپنی ڈیڑھ اِینٹ کی مسجد مت بناؤ ، تمہارے اِس عمل سے فساد پھیلے گا انتشار پھیلے گا۔ الگ ہوجانے والا بد بخت گروہ مت بنو۔
قر آن کریم میں اللہ نے مسلم اُمہ کو ایک جماعت (ملت واحد) کہا ہے۔ اسی جماعت میں الگ الگ فرقوں اور پارٹیوں کا وجود ، قرآن کریم کے واضح الفاظ میں شرک ہے( 30:32) اور ایسا کرنے والے مشرکین ہیں ( 30:32) جن سے اللہ اور رسول کو کوئی واسطہ نہیں رہتا ( 6:160) قرآن کریم کے اس کھلے ہوئے فیصلے کے بعد فرقہ بندی او رپارٹی بازی کےمتعلق کچھ او رکہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وحدت خلق کا عملی ظہور و حدت انسانیت کی شکل میں ہونا لازمی ہے،لہٰذا جس طرح الوہیت کے ٹکڑے کرناشرک ہے اسی طرح وحدتِ اُمت کو پارہ پارہ کرنا بھی شرک ہے۔ اُمت کی وحدت کی بنیاد ایک اللہ کے ایک ضابطہ کے مطابق زندگی بسر کرنےپر ہوتی ہے۔ اُمت میں تفرقہ کے معنی یہ ہیں کہ مختلف فرقے، اپنی زندگی مختلف ضوابطہ کے ماتحت بسر کرتے ہیں، اور یہ شرک ہے۔ تَفرِیق کے معنی ہیں فساد کی غرض سے الگ الگ کردینا ، انتشار و تفریق پیدا کر دینا ۔ ظاہر ہے کہ فرقوں اور پارٹیوں میں بٹ جانے سےبڑھ کر ظلم او رکیا ہوسکتا ہے؟ تفرقہ سے باہمی عداوت پیدا ہوتی ہے جو عذاب النار یعنی انسانی معاشرے کو جھلسا دینے والی آگ میں لے جانے کا سبب بنتی ہے۔ تفرقہ سے بچا کر انہیں اُمت واحد بنا دینا اللہ کی نعمت ہے، مسلم اُمہ قرآن پر ایمان لانے والوں کے دِلوں کی باہمی اُلفت سے متشکل ہوتی ہے، اِس طرح یہ افرادِ مسلم اُمہ ، ایک دوسرے کے بھائی بن جاتےہیں ۔ یعنی تفرقہ کی جگہ جمعیت ، عداوت کی جگہ اُلفت ، انفرادیت کی جگہ اجتماعیت اور رسمی تعلقات کے بجائے اُخوت ، یہ ہیں اُس مسلم اُمہ کی خصوصیت جسے خَیْرَ اُمَّۃٍ کہا گیا ہے۔
‘‘ ہمارا کام صرف انسان کی تخلیق کرنا ہی نہیں یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم انسان کو ا س کی منزل کا شعور بخشیں بلکہ اسے منزل تک پہنچائیں ۔ انسانیت ، اِخلاق او ر تہذیب دین اسلام کے جزو ہیں ۔ بقول راشد شاز ‘‘ اسلام تو حنیف بننے کی دعوت ہے، ربانیین بننے کی دعوت ہے، مسلم حنیف بننے کا عمل تمام تہذیبی سرحدوں سے پرے ایک عالمگیری خیال ہے،اسلام کاممبر ( مسلم حنیف) صحیح معنوں میں ایک کائناتی شہری ہے، اسلام کے فلسفہ حیات میں عرب و عجم ، سیاہ و سفید اور رنگ و نسل کی دنیا میں رائج روایات کا کوئی دخل نہیں ہے انا اکرمکم عنداللہ اتقاکم کے عملی مظاہرے نےاسلام کو ایک رویے کے طور پر متعارف کرایا ہے ، شناخت کے طور پر نہیں ۔ اسلام ایک عالمگیر معاشرے کے قیام میں کھلے عام شمولیت کی دعوت ہے، زندہ ضمیر جہاں بھی ہو اسے دعوت ہے کہ رنگ و نسل سے مادرء سپردگی کی بنیاد پر وحدت انسانیت کے قافلے میں شامل ہوجائے ’’۔
اکتوبر، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/search-truth-/d/100076