(کروڑوں کتابوں میں ایک کتاب بھی قرآن جیسی نہیں ہے)
شیخ راشد احمد ( القرآن ٹرسٹ)
مطالعے سے حاصل کردہ موتی جو میرے حافظے میں محفوظ ہیں وہ قارئین صوت الحق کی خدمت میں پیش ہیں ۔ ہم نے مسجد کے منبروں سے وہ خطبے سنے ہیں کہ بس مت پوچھئے ! ایک مرتبہ مولوی صاحب نے جمعہ کے دن خطبے میں مسلمانوں کو خبر دار کیا کہ جھولا جھولنا ایک غیر اسلامی بلکہ شیطانی فعل ہے۔ مولوی صاحب کی یہ بات سن کر مسجد میں موجود لوگ بہت حیران ہوئے ۔ یہ بات تو سب ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولوی حضرات اسلام پر اتھارٹی کی حیثیت رکھتےہیں، ان سے نہ وال کیا جاسکتا ہے او رنہ ہی بحث کی جاسکتی ہے ۔ مولوی صاحب نے خود ہی جھولے کے مسئلے پر روشنی ڈالی او ر کہنے لگے ‘‘ نمرود نے ہی جھولا ایجاد کیا تھا، قصہ یوں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں ڈالنے کےلئے ایک بہت بڑا آگ کا الاؤ جلایا گیا ۔ وہ الاؤ اس قدر بڑا ہوگیا کہ اُس کے قریب جانامشکل ہوگیا ۔ کوئی بھی شخص حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اُس الاؤ میں دھکیلنے کے لئے تیار نہ تھا ، اُس وقت نمرود کو یہ سوجھی کہ اُس نے رَسےّ کا ایک جھولا درخت سے باندھا ۔ جھولے کا رُخ آگ کے الاؤ کی طرف کردیا ۔ نمرود نے کہا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جھولے پر بٹھا کر دھکا دو، جب جھولا الاؤ کے اُوپر جائے گا تو رسہ جل جائے گا اور ابراہیم علیہ السلام الاؤ میں گر پڑیں گے ۔ مولوی صاحب نے فرمایا ‘‘ جو جھولا لگاتے ہیں وہ نمرود کے پیروکار ہیں ، لوگوں ! خبر دار اِس بدعت میں نہ پڑو’’۔
اِن خطبوں میں اسلام کے متعلق کتنی ڈس انفارمیشن پھیلائی جاتی اور اسلام کا چہرہ مسخ کر کے پیش کیا جاتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ، یہ سلسلسہ روز ازل سے چل رہا ہے، جب بھی کوئی نیا مذہب آیا تو ساتھ ہی اِس کا اجارہ دار پیدا ہوگئے، ہندو ازم آیا تو برہمن پیدا ہوگئے ، عیسائیت آئی تو رہبانیت کا سلسلہ چل پڑا او رپادری اس قدر طاقتور ہوگئے کہ بادشاہوں سے ٹکر لینے سے بھی گریز نہ کیا۔ بدھ اِزم واحد مذہب تھا جس نے اللہ کے بارے میں اقرار کیا تھا نہ انکار، جس نے کوئی فلاسفی نہیں دی صرف نروان کی بات کی تھی، اجارہ داروں نے بد ھ ازم میں بھی رہنابیت کی رسم چلا دی اور خود اتھارٹی بن بیٹھے ، بدھ کے بھگشو برہمن بن گئے ۔ دِین اسلام میں پیشہ ور مولوی اور رہبانیت کا کوئی مقام ہے نہ اِن کی کوئی گنجائش اسلام نے مکمل طور پر مساوات دی ہے، جس کی مثال تاریخ میں کچھ یوں ہے حضرت عمر بن عاص رضی اللہ عنہ نے فسطاط کی مسجد میں ایک منبر بنوایا جس پر کھڑے ہوکر وہ لوگوں کو خطاب کرتے تھے، امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اِس کی اِطلاع ملی تو آپ نے اِنہیں ایک خط لکھا جس میں تحریر فرمایا کہ ‘‘ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم نے ایک منبر بنوایا ہے جس پر مسلمانوں سے اُونچے ہوکر بیٹھتے ہو، کیا یہ اعزاز تمہارے لئے کافی نہیں کہ تم مسلمانوں کے امیر ہو، لیکن اِس کے معنی یہ نہیں کہ تم اُونچے ہوکر بیٹھو اور دوسرے مسلمان تمہارے قدموں میں نیچے بیٹھے ہوں، منبرتڑوا دو او رلوگوں کو کھڑے ہوکر مخاطب کرو۔
حضرت عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ نے منبر تڑوا دیا یعنی حاکم کو رعایا سے اونچا نہیں بیٹھنا چاہئے، لیکن افسوس خلفائے راشدین کے بعد اسلام میں بھی اجارہ دار آپہنچے ۔ کہاوت ہے جہاں گڑ ہوگا وہاں چیونٹیاں آپہنچیں گی۔ اسلام جیسے سادہ اور صاف نظام حیات کو اجارہ داروں نے اپنے مفاد کے لئے اپنی برتری قائم کرنے کےلئے رسومات ( Ritual) میں بدل دیا ، اجارہ داروں نے صلوٰۃ کو نماز کا نام دے کر صرف ایک رسم ( Ritual) بناد یا ہے ، اب مسلمان نماز اِس لئے نہیں پڑھتے کہ وہ اللہ کا حکم بجالارہے ہیں، اِس لئے بھی نہیں کہ اللہ کے حضور حاضری دے رہے ہیں یا اللہ سے تعلق پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مذہبی اجارہ داروں نے مسلمانوں کی فکر اور ذہانت پر پہرے بٹھا دئیے ہیں تاکہ مسلمانوں کی سوچ ثواب اور گناہ تک محدود رہے،مسلمان نماز ثواب حاصل کرنے کے لئے پڑھتے ہیں، اجارہ داروں نے مسلمانوں کو خطبوں میں یہ بات بتائی ہے کہ ‘‘ نماز جنت کی گنجی’’ ہے، اِن کا کہنا ہے کہ نماز قائم کر لو۔ باقی سب باتیں از خود ٹھیک ہوجائیں گی ، کردار سنور جائیں گے، اخلاق بہتر ہوجائیں گے، معاملات ٹھیک ہوجائیں گے ، لین دین درست ہوجائیں گے، مطلب یہ کہ مسجد کو مرکز مان لو تو سب ٹھیک ہوجائے گا، کیونکہ اُس میں وہ خود دیوتا سمان براجمان ہیں۔
اسلام کی سادگی پر مجھے پڑھا ہوا ایک قصہ یاد آگیا قصہ کچھ یوں ہے کہ ‘‘ محمد فاضل جہلم کے کسی گاؤں کا رہنے والا ایک اَن پڑھ مسلمان تھا، قسمت آزمائی کے لئے وہ کسی نہ کسی طرح یورپ پہنچ گیا۔ پیرس میں کئی سال رہتا رہا، دن بھر ہوٹل میں برتن دھوتا، باورچی خانے میں جھاڑو دیتا ، رات کو فٹ پاتھ پر جاکر سو جاتا ۔ چند سالوں بعد پتہ چلا کہ محمد فاضل پیرس کے سب سے بڑے ہوٹل کا چیف شیف بن گیا ہے ۔ میں محمد فاضل کو جانتا تھا یہ خبر سن کر کہ وہ پیرس کے ایک ہوٹل کاچیف شیف بن گیا ہے، مجھے یقین نہ آیا، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک جہلم کا اَن پڑھ جوان چند سالوں میں اتنے اُونچے مقام پر پہنچ جائے ۔ میں نے اپنے فارن آفس کے ایک دوست سے پوچھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک اَن پڑھ شخص بڑے ہوٹل کا چیف شیف بن جائے؟۔
میرے دوست نے ہنس کر کہا یہ پاکستانی عجیب قوم ہیں، یہاں سست الوجود ہوتے ہیں ، جذباتی ہوتےہیں، منافقت اور کرپشن میں لت پت ہوتے ہیں، مگر مغربی ممالک میں جاکر پتہ نہیں کیا ہوجاتا ہے ، یہ لوگ جن بن جاتے ہیں ۔ کچھ دنوں کے بعد معلوم ہوا کہ محمد فاضل چھٹی پر گاؤں آیا ہوا ہے میں اس سےملنے کے لئے اس کے گاؤں چلا گیا۔ وہ بڑے تپاک سے ملا، باتوں کے دوران میں نے پوچھا ‘‘ فاضل کیا واقعی ہوٹل کا چیف شیف ہے؟ وہ ہنسا او ربولا ‘‘ ہاں شیف تھا ، چار سال شیف کا کام کیا، اب میں نے ایک ہوٹل خرید لیا ہے’’۔ میں نے پوچھا یہ بتا کہ تو کون کون سےکھانے پکانا جانتا ہے ، بولا سب۔ انگریزی، فرانسیسی، جرمنی، اطالوی، چینی، روسی ، عربی یعنی ہر ملک کے ڈش پکانا جانتا ہوں ۔
میں نے کہا ، یہ بتاسب سے عمدہ ڈش کونسی ہے؟ ایک منٹ کے لئے اُس نے توقف کیا ، سوچنے لگا، پھر بولا ۔۔ سچی بات پوچھتے ہوتو دُنیا کی کوئی ڈش ہماری ہانڈی روٹی کا مقابلہ نہیں کرسکتی ۔ میں نے پوچھا ‘‘ ہانڈی روٹی ’’ کا کیا مطلب ہے؟ بولا یہی ہانڈی روٹی جو ہم دیہاتی اپنے گھروں میں کھاتے ہیں ۔ حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا ۔ کہنے لگا آپ ذرا سوچئے وہ کتنا بڑا آدمی تھا جس نے ہانڈی رائج کی۔ آج صدیوں کے بعد یورپ والوں کو احساس ہوا کہ ہمیں متوازن غذا (Balanced Food ) کھانا چاہئے۔ ہانڈی کے موجد نے صدیوں پہلے اس بات کو جان کر ہانڈی ایجاد کی تھی جو متوازن غذا ( Balanced Diet ) کی بہترین شکل ہے۔ ہانڈی میں شوربہ ہوتاہے، گوشت ہوتاہے، سبزی ہوتی ہے، مرچ ہوتی ہے ، ہلدی ہوتی ہے ، ادرک ہوتی ہے، پیاز ہوتی ہے ، ہمیں آج پتہ چلاہے کہ لہسن دِل کے لئے کتنا بڑا ٹانک ہے۔ ہانڈی کے موجد کو یہ راز صدیوں پہلے معلوم ہوگیا تھا ۔ پھر مصالحے میں بڑی الائچی ، چھوٹی الائچی، دار چینی ، کالی مرچ، ابھی تک ہمیں علم نہیں کہ ان چیزوں کے کیا خواص ہیں، وہ ہمارے جسم کے لئے کس قدر مفید ہیں؟
وہ رُک گیا، پھر بولا بھائی جی ہانڈی صرف متوازن خوراک ہی نہیں اس میں جو ذائقہ ہے وہ ، چٹخارہ ہے اِس کا جواب نہیں مغرب والے تو پھیکی بے سواد، بےمزاڈشیں کھاتےہیں، اِنہیں کھانے کی تمیز نہیں ۔
پھر ایک اور بات ہے جس میں ہانڈی کا جواب نہیں ، وہ کہہ کر ہنسنے لگا۔ بولا جب میں شیف تھا تو ایک روز میں نے ہوٹل کے مالک سے کہا ‘‘ صاحب جی باورچی خانے میں پکانے کے لئے برتن چاہئے ’’ وہ حیران ہوا ، بولا ، باورچی کھانے میں پکانے کے لئے برتن تو سب نئے ہیں ہر برتن کے چار چار سیٹ ہیں، کسی برتن کی کمی نہیں ۔ پھر تم کونسا برتن مانگ رہے ہو؟۔ میں نے کہا ‘‘ صاحب جی’ میں ایسے برتن مانگ رہا ہوں جن میں پکائے ہوئے کھانوں میں چار گُنا لذت بڑھ جائےگی’’ اُس نے میری بات سمجھی نہیں مگر مان لی ۔ کیونکہ یہ مغرب والے ہیں، کھانے میں پیور یٹی مانگتے ہیں ، نفاست مانتے ہیں، اُنہیں لذت کا شعور ہی نہیں ۔ خیر جب میں نے اُسے بتایا کہ مجھے ایسے برتن چاہئیں جو مٹی کے بنے ہوئے ہوں تو اُس کاذہن فیوز ہوگیا۔ میں محمد فاضل کی بات سن کر حیران ہوا۔ میں نے پوچھا پھر کیا ہوا؟ فاضل بولابھائی جو لذت مٹی کےبرتن میں ہوتی ہے ، وہ کسی اور برتن میں نہیں ہوتی ۔ مٹی کی ہانڈی میں پائے ڈال دو، نیچے ہلکی آنچ جلادو ، ساری رات پکنے دو ، صبح اُس میں جو لذت پیدا ہوجاتی ہے اُس کا جواب نہیں ، پتہ نہیں مٹی کنٹرولڈہیٹ (Controled Heat) پیدا کرتی ہے یا کچھ اور ، بس کھانے میں لذت ہی لذت ہو جاتی ہے صرف گوشت ہی نہیں ثابت ماش پکالو ، حلیم پکالو، چنے پکالو۔ میں نے پوچھا وہاں ‘‘ مٹی کے برتنوں کی وجہ سے کیا فرق پڑا؟’’ کہنے لگا میں نے لوگوں کو لذت کی لت ڈال دی۔ وہ ہانڈیاں پکائیں کہ گوروں کے منہ سے رال ٹپک پڑی ۔ بس جی میں نے وہاں ایک بات سیکھی ہے ‘‘ کھانوں میں ہانڈی اور مذہبوں میں اسلام دونوں کا جواب نہیں ’’۔‘‘ ارے!’’ میں حیرت سے چلایا ‘‘ ہانڈی اور اسلام کا کیا جوڑ ہے؟۔ وہ بولا ‘‘ بھائی صاحب ہانڈی بیلنسڈفوڈ (Balanced Food ) ہے اور اسلام بیلینسڈ مذہب (Balanced Religion ) ہے’’ اسلام میں ہانڈی کی سب خوبیاں موجود ہیں۔ دنیا میں بھی ہے، اللہ بھی ہے ، اُس کی مخلوق بھی ہے، خدمت بھی ہے، مخدومی بھی ہے، محبت بھی ہے، جہاد بھی ہے، بدلہ بھی ہے، رحم بھی ہے، معافی بھی ہے، سزا بھی ہے۔ کیا Balanced Religion ( متوازن مذہب) ہے! بھائی جی ! دُنیا سے بھی تعلق قائم رہے ، اللہ سےبھی تعلق قائم رہے، کماؤ خوب کماؤ اور دولت کے ڈھیر لگادو۔ مگر پھر بانٹ کر کھاؤ ، اپنے لئے بنگلہ بناؤ تو کسی غریب کے لئے ایک جھونپڑا بنادو۔ اپنے لئے ریشمی سوٹ بناؤ تو کسی ضرورت مند کے لئے کھدڑ کا جوڑا بنوادو۔ اپنےبیٹے کی فیس دو تو کسی غریب طالب علم کی فیس بھی ادا کردو۔ فاضل جذباتی ہوگیا ‘‘ اسلام بھی کیا مذہب ! بے شک دولت کی ریل پیل ہو لیکن دولت ایک جگہ ڈھیر نہ ہو بلکہ چلتی پھرتی رہے ۔ بانٹنا سیکھ لوتو سرمایہ دارانہ نظام قائم نہیں ہوتا’’۔ فاضل سے مل کر میں واپس آرہا تھا تو میرے ذہن میں ہل چل ہورہی تھی، میں سوچ رہا تھا کہ ذہن میں ‘‘ دین اسلام’’ کی تصویر کتنی سادہ تھی ، لیکن اجارہ داروں نے خواہ مخواہ پیچیدگیاں پیدا کر رکھی ہیں ۔ مجھے یہا ں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ قول یاد آگیا جو اکثر وہ کہا کرتے تھے ‘‘ اللہ کے نزدیک سب سے بہتر کھانا وہ ہے جسے سب مل کر کھائیں’’۔
گھر پہنچا تو میرے دوست ڈاکٹر بیلا میرا انتظار کررہے تھے۔ وہ مجھے دیکھتے ہی چلائے ‘‘ کیوں کیا ہوا’’ میں نے جواب دیا ‘‘ کچھ بھی نہیں ’’ انہوں نے کہا تم جھوٹ بول رہے ہو، تمہارے اندر تو کھچڑی پک رہی ہے ، غدر مچا ہوا ہے اور تم کہتے ہو کچھ بھی نہیں ۔ میں نے کہا پیرس کے ایک باورچی کی باتیں سن کر آیا ہوں ، کہتاہے دنیا میں دو چیزیں لاجواب ہیں ‘‘ کھانوں میں ہانڈی اور مذہبوں میں اسلام ’’۔ ڈاکٹر ہنسا اور حیران ہوکر پوچھنے لگا ‘‘ ہانڈی کا کیا مطلب’’۔ میں نے کہا ہماری ہانڈی مٹی کی جس میں ہم آلوگوشت پکاتے ہیں ، کدو گوشت پکاتےہیں، جی ہاں وہ ہانڈی ’’۔ڈاکٹر بیلانے کہا ‘‘بات سمجھ نہیں آئی ’’ پھر میں نے تفصیل سے اُسے بات بتائی ۔ کہنے لگا یار ! جب ہم میڈیکل کالج میں تھے تو وہاں ایک پروفیسر تھے ڈاکٹر جدوں! وہ بھی ہانڈی کے بڑے قائل تھے ، اُن کے گھر میں بھی کھانا مٹی کے ہانڈی میں پکتا تھا اور وہ کچے گھڑے سے پانی پیتے تھے۔ پروفیسر صاحب کہتے تھے مٹی کا گھڑا پانی کی تمام ناپاکی (Impurities) کو چوس لیتا ہے ، عجیب خیالات تھے اُن کے ۔ بہت پڑھے لکھے تھے، یورپ اور امریکہ میں پندرہ سال گزار کر آئے تھے، ہم انہیں جدون کے بجائے پروفیسر جنون کہا کرتے تھے، وہ عجیب باتیں بتایا کرتے تھے ، یہ کہہ کر ڈاکٹر بیلا ہنستے ہوئے بولے ‘‘ اُن دِنوں ہم بھی اُنہیں جنونی سمجھتے تھے ’’ وہ کہتے تھے اگر ایک اللہ پر سچے دِل سےایمان لے آؤ تو تم پچاس فیصد بیماریوں سے Immune ( مستثنیٰ) ہو جاتے ہیں ۔ یعنی آپ پچاس فیصد بیمار یوں سے محفوظ ہوجاتے ہیں ۔ وہ کہتے تھے اگر تم اللہ سے تعلق پیدا کرلو تو پھر تم میں اتنی مدافعت (Resistance ) او رمقابلہ کرنے کی طاقت پیدا ہوجاتی ہے کہ بیماری حملہ کرے تو بھی تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ۔ میں نے کہا ‘‘ یہ بات حیران کن ’’ ہے۔ ڈاکٹر بیلا نے کہا اُس وقت میرے لئےبھی حیران کن تھی اب نہیں، پروفیشن میں آنے کے بعد بڑے راز کھل جاتے ہیں، وہ ہنسنے لگے پھر بولے۔
پروفیسر جنوب کبھی موڈ میں ہوتے تو کھل کر باتیں کیا کرتے تھے، کہتے ‘‘ بوائز! ہم بڑے احمق ہیں جو ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ جسم بیماری از خود پیدا (Generate) کرتاہے، یہ غلط ہے ، جسم نہیں دماغ بیماری پیدا (Generate) کرتا ہے، ہم صرف ظاہری عضاء کو اہمیت دیتے ہیں دل، جگر ، پھیپھڑے، گردے، یہ وہ اعضا ء ہیں جو ذہنی خیالات اور جذبات سے چلتے یا Activate ہوتے ہیں وہ ڈھکے چھپے ہوتے ہیں مثلا غدود ہیں ، جھلیاں ہیں، نسیں ہیں ، اِن سے عجیب و غریب قسم کے رطوبتیں نکلتی ہیں جو ہماری صحت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔پروفیسر کہا کرتے تھے ‘‘ جدید سائنس کےمطابق اب یہ بات طے شدہ ہے کہ انسانی جذبات میں سب سے زیادہ اثر کرنے والا بنیادی جذبہ ‘‘ خوف ’’ ہے ، پھر خوف کے بچو نگڑے ہیں، جس طرح ‘‘شیطان کے شتونگڑے ’’ ہوتے ہیں مثلاً کشمکش ہے، وہم، فکر، تذبذب ہیں۔ یہ سب جذبات انسان کے معدے پر اثر کرتے ہیں ۔ تیز ابیت پیدا کرتے ہیں، السر بناتے ہیں ، اگر ایک اللہ پر یقین کامل ہو، اگر دل میں یہ یقین ہو کہ نہیں خوف اور نہیں کوئی قوت ماسوائے اللہ کے، تو اِنسان اِن غیر منطقی خوف ( Irrational fears) او ربے عقلی سےنجات پا جاتا ہے۔
پروفیسر جدون کہا کرتے تھے ‘‘ اللہ ایک سرہانہ ( تکیہ) ہے جس پر سر رکھ دو تو تم تمام پریشانیوں سے آزاد ہوجاتے ہو اور اِسلام کیا؟ اِسلام انسان کو منفی خیالات سے محفوظ رکھتا ہے، شر سے بچاتا ہے، نفرت ، غصہ ، دُشمنی ، انتقام، حسد جیسے منفی جذبات سے محفوظ رکھتا ہے۔ منفی جذبات صحت مند رطوبت پیدا کرتے ہیں ۔ اپنے دوست ڈاکٹر بیلا کی باتیں سن کر میں مزید سوچوں میں پڑ گیا ۔پتہ نہیں یہ اجارہ دار ہمارے رہبر ہم میں خوف کا جذبہ کیوں پیدا کرتے ہیں، کیوں منفی باتوں پر زور دیتے رہتے ہیں ، انہوں نے کبھی اس بے اِنتہا حسن کی بات نہیں کی جو دُنیا میں ہمارے گرد چاروں طرف پھیلا ہوا ہے، یہ اُس خیر کے جذبے کی بات نہیں کرتے جو انسان کے دل میں جاگزیں ہے۔ اُس رحمت کرم اور اُن نعمتوں کی بات نہیں کرتے جو اللہ نے ہمیں عطاء کر رکھی ہے۔ اُس شرف کی بات نہیں کرتے جو باری تعالیٰ نے انسان کو عطا ء کر رکھا ہے ۔ دوستو! قرآن کے متعلق صاحب نظر کہتے ہیں کہ یہ کتاب گلاب کے پھول کے مصداق ہے، اوپر کی پتی اُٹھاؤ تو نیچے سے ایک اور پتی نکل آتی ہے، نچلی پتی کو اُٹھاؤ تو اُس کے نیچے سے ایک اور پتی نکل آتی ہے، پتی کے نیچے پتی، پتی کےنیچے پتی، پتی کے نیچے پتی، ایسے ہی قرآن حکیم میں مفہوم در مفہوم ہیں، جتنا غور کرو اتنا گہر ا مفہوم لیکن مذہب پرست اُوپر کے مفہوم سمجھتے ہیں اور اُس کا ڈنکا بجاتے رہتےہیں ۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ جگہ جگہ فرماتےہیں کہ ہماری کائنات کو دیکھو، سرسری طور پر نہیں غور سے ، دیکھو، خالی دیکھو نہیں فکر کرو، سمجھو۔۔ پھر دیکھو اور سوچو، پھر دیکھو اور سوچو۔۔ قرآن پڑھو ،سرسری طور پر نہیں ، غور و فکر سے پڑھو او رسمجھو۔ پھر پڑھو او رسمجھو ۔ پھر وہ لمحہ آئے گا کہ تم قرآن کے اِشارات کے حوالے سے کائنات کے راز پالوگے۔
افسوس مذہبی اجارہ داروں میں کائنات پر غور کرنے اور کائنات کے راز پانے کی خواہش نہیں، اِنہیں قرآن سمجھنے کی خواہش نہیں ہے، یہ تو قرآن کی تلاوت کرنے کے خواہش مند ہیں، صرف اِس لئے کہ ثواب کمائیں، جنت کے حق دار بن جائیں، دودھ کی نہریں بہہ رہی ہوں پھل دار درختوں کی ٹہنیاں اِشارے پر نیچے ہو جائیں اور پھر خوبصورت حوریں۔ مسلمانو! قرآن ایک حیرت انگیز کتاب ہے ، ایسی کتاب جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ آج دنیا بھر کی لائبریریاں کتابوں سے بھری ہوئی ہیں ، علم کے ہر شعبہ پر ہزارو ں لاکھوں کتابیں موجود ہیں۔ اِن لاکھوں ، کروڑوں کتابوں میں ایک کتاب بھی قرآن جیسی نہیں ہے۔ قرآن کا رویہ انوکھا ہے، اس کے موضوعات انوکھے ہیں، اِس کے اِشارے انوکھے ہیں۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن مسلمانوں کی کتاب ہے، قرآن میں اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے مخاطب ہے۔ نہیں ایسا نہیں ہے، یہ کتاب انسانوں کے لئے ہے اور بنی نوع انسان سے مخاطب ہے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ قرآن مذہبی کتاب ہے، یہ مسلمانوں کو تاہ فہمی ہے، قرآن تو کائناتی کتاب ہے، اِس میں کائنات کے ‘‘اِسرارورموز’’ پر اِشارے ہیں۔سائنسی تحقیق پر اِشارے ہیں، قرآن کے اِشارات کائناتی بھیدوں کا راستہ تلاش کرنے پر انسان کو اُکساتے ہیں ، راستہ دِکھاتے ہیں ۔ قرآن تاریخ کی کتاب ہے، اِس میں وہ واقعات درج ہیں جو تاریخ ریکارڈ کرنے کے زمانے سے پہلے وقوع پذیر ہوئے تھے ۔ قرآن اخلاقیات کی کتاب ہے جس میں انسانی برتاؤ ہیں اور اِخلاق کے اُصول ‘‘ عدل، مساوات، امن، رحم دِلی، دیانتداری ، خواتین، بچوں ، بزرگوں اور بیماروں کے ساتھ مہربانی ، وعدے، پابندی، شائستگی، دوسروں کے عقائد کا احترام ، دوسروں کے حقوق کا احترام اور برداشت کا درس درج ہیں ۔ یہ وہ اُصول ہیں جن کے بغیر کوئی معاشرہ معاشرہ نہیں بن سکتا اور نہ ہی ترقی کرسکتا ہے۔ یہاں ایک سچی اور تلخ بات کہتا چلو ں ، وہ یہ کہ ہم میں سے کسی نے قرآن کی عظمت کو نہیں سمجھتا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ قرآن ایک مذہبی موشگافیاں پیدا کرنے کےلئے ، اپنے خیالات کو تقویت دینے کے لئے او رعوام کو اللہ کے غیظ و غضب سے ڈرانے کے لئے ،جنہیں قرآن حفظ ہے، وہ صرف لفظ سے واقف ہیں، اہل قرأت صرف حسنِ قرأت کا خیال رکھتے ہیں ۔ جب کہ قرآن انسان کو غور فکر کی دعوت دیتا ہے، پوری بات نہیں بتاتا ، اشارے دیتاہے، راستہ سجھا تاہے، انسان کو حق کی تلاش پر مائل کرتاہے، قرآن برملا کہتا ہے لوگو! ذرا غور سے دیکھو، سمجھو، دیکھو تو سہی ہم نے کیا کیا تخلیق کیاہے، جان لو کہ یہ کائنات ہم نے اِس لئے اور اِس طرح تخلیق کی ہے کہ تم اِسے تسخیر کر سکو۔
یہ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم نے قرآن کے اِن حصوں کو کبھی اہمیت نہیں دی جو عقل و دانش اور سائنسی علم کےمتعلق ہیں ۔ مذہبی اجارہ داروں نے اپنے خطبوں میں کبھی قرآن کے اِن حصوں کا ذکر نہیں کیا او رنہ ہی کبھی اِن پر غور کیا ۔ یہ بیچارے بھی مجبور ہیں کیونکہ وہ خود اِن علوم سے واقفیت نہیں رکھتے، یہ بیچارے یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی گزارنے اور جنت تک جانے کے لئے یہ روائتی علم فقہ کافی ہے۔لیکن دانشور کہتےہیں ‘‘ دِین’’ تو صرف قرآن میں ہے جونسلِ انسانی کے لئے ایک ضابطہ حیات ہے جس کا عمل سے تعلق ہے، ایمان سے تعلق ہے، یہ روائتی قصے کہانیاں نہ علم ہیں نہ دِین ہیں۔ چونکہ قرآن نے علم کو فضیلت کامقام دیاہے اس لئے اسلام پر اجارہ داری قائم کرنے والوں نےمشہور کر رکھا ہے کہ علم سے قرآن کی مراد ‘‘ علم روایت فقہ’’ ہے ، روایتوں میں ہی سچا علم ہے،باقی علوم تو انسان کو کفر کادرس دیتےہیں، اپنی ذاتی اہمیت کو قائم کرنے کےلئے انسان کو کیا کیا حیلے بہانے کرنے پڑتے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کی عظمت کا احساس صرف اُن لوگوں کو ہے جو سائنسی علوم سے واقف ہیں۔ بات کہنے کی نہیں لیکن یہاں کہے بغیر چارہ بھی نہیں ، تلخ بات ہے لیکن بہت سچ، اتنی تلخ سچائی کہ ماننے کو جی نہیں چاہتا ، وہ یہ کہ چند افراد ہی ایسے ہوں گے جو قرآن پڑھتے ہیں، دو انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں ۔ باقی سب قرآن کو پڑھتے نہیں استعمال کرتے ہیں ۔ زیادہ تر لوگ تو ثواب کمانے کےلئے تلاوت کرتے ہیں ، کچھ اپنے اپنے عزیز و اقرباء کو ثواب پہنچانے کے لئے قرآن استعمال کرتے ہیں، کچھ لوگ قرآن کی آیات کو مال کمانے کے لئے تعویذ کے طور پر استعمال کرتےہیں۔ کچھ اپنی ذاتی خواہشات کو پورا کرنے کےلئے ورد کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔ مذہبی اجارہ دار اپنے نظریات کی تقویت کے لئے ، عوام کو مرعوب کرنے کے لئے ‘‘ شوکت نفس ’’ کے لئے قرآن کو استعمال کرتے ہیں۔ بہر صورت کوئی شخص قرآن کو سمجھنے اور جاننے کےلئے قرآن نہیں پڑھتا ، بلکہ اپنے مقصد میں استعمال کرتاہے۔ جب کہ قرآن پکار پکار کر کہتا ہے لوگو! مجھے پڑھو، سمجھو، غور و فکر کرو، پھر تمہیں ایسی ایسی عقل و دانش کی باتیں ملیں گی کہ تم حیران رہ جاؤگے ،عقل پر پڑے پردے اُٹھ جائیں گے ، بڑے بڑے راز کھلیں گے جو تمہیں تسخیر کائنات میں مدد دیں گے۔ قرآن کریم مکمل اور غیر متبدل محفوظ کتاب ہے اللہ نےخود فرمایا ہے کہ یہ انسانوں کے لئے کافی ہے۔
أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ ( 29:51) کیا لوگوں کےلئے یہ کافی نہیں کہ ہم نےتیری طرف یہ کتاب نازل کردی جسے اِن کےسامنے پیش کیا جاتاہے، حضرت عمررض اللہ عنہ نے اگر ‘‘حسبنا کتاب اللہ’’ فرمایا تھا تو وہ قرآن کریم کے اِسی سوال کا مثبت جواب تھا۔ یعنی اللہ نے یہ کہا تھا کہ کیا اِن کے لئے یہ کتاب کافی نہیں ، تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے کہا تھاکہ ‘‘ حسبنا کتاب اللہ’’ ہاں! ہم اِس کا اِقرار و اعلان کرتے ہیں کہ ہمارے لئے اللہ کی کتاب کافی ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے پہلے خطبہ خلافت میں اپنے لئے یہ دُعا مانگی تھی کہ ‘‘ یا اللہ! ، مجھے تفکر و تدبرِ قرآنی عطاء فرماتا کہ میں جو کچھ قرآن سے پڑھوں اسے اچھی طرح سمجھ سکو ں اور اُس کے نوادرات پر غور کر سکوں’’ اور سامعین سے کہا تھا ‘‘ قرآن پڑھا کرو ، اِسی سے تمہاری قدر و منزلت ہوگی اور اِسی پر عمل کرو تاکہ تم حاملِ قرآن ہو جاؤ’’ یہی اُن کی مملکت کا آئین و منشور تھا، وہ ہمیشہ آیاتِ قرآنی کی حکمت و غایت دریافت کرنے کی کوشش میں سرگرداں رہتے تھے ۔ قرآن کی اہمیت اور عظمت آپ رضی اللہ عنہ کے رگ و پے میں اِس شدت سے سرایت کئے ہوئی تھی کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کو وہ زخم لگا ہے جس سے آپ رضی اللہ عنہ کی شہادت واقعہ ہوگئی تو کیفیت یہ تھی کہ آپ رضی اللہ عنہ کی انتڑیاں کٹ کر باہر آچکی تھیں ، درد کی شدت انتہاء تک پہنچ چکی تھی۔ اِس حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ آپ رضی اللہ عنہ کے گرد جمع ہوئے اور آپ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ رضی اللہ عنہ اپنی وصیت فرما دیجئے ، تو آپ رضی اللہ عنہ نے اُن سے کہا ‘‘ میں تمہیں وصیت کرتاہوں کہ کتاب اللہ کو تھامے رہنا کیونکہ جب تک تم اسے تھامے رہوگے گمراہ نہیں ہوگے’’۔
قرآن ایک انقلابی کتاب ہے، اُس وقت بھی انقلابی تھی جب چودہ سو سال پہلے نازل ہوئی تھی، چودہ سو سال گزرجانے کے بعد آج بھی اِنقلابی ہے۔ قرآن نے انقلاب کاایک طوفان برپا کردیا ، تخریبی نہیں، تعمیری طوفان ۔ ذہنوں میں سوچوں کا طوفان، دِلوں میں جذبات کاطوفان۔ جب قرآن نازل ہوا، اُس وقت اہل یورپ ابھی رہنا سہنا سیکھ رہے تھے ، انہوں نے ابھی سوچ سمجھ کر دُنیا میں قدم نہیں رکھا تھا ، یورپ میں صرف ایک سرزمین ‘‘یونان’’ کی تھیں جہاں غور و فکر کے چشمے پھوٹے تھے ۔ وہاں برے بڑے صاحب فکر پیدا ہوئے تھے، ارسطو تھا، افلاطون تھا، لیکن یونان کے مفکر سب فلسفی تھے ، سوچوں کے شیدائی تھے، خواب دیکھنے کے متوالے ، اپنے اپنے خوابوں میں مگن اپنے اپنے نظریات کے دیوانے ۔ ان کے نظریات کے اثرات دور دور تک پھیلے ہوئے تھے ۔ قرآن نے آکر کہا، بس میاں بس، بہت خواب دیکھ لئے ، نظریات کے جُھن جھُنے بہت جھنجھنا لئےسوچوں کی آوارگی چھوڑ و۔ اب خواب مت دیکھو، آنکھیں کھولو حقائق کو دیکھو ( کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ) ، ہم نے تمہارے ارد گرد چاروں طرف حقائق کی بھیڑ لگا رکھی ہے کہ تم دیکھو، سوچو، سمجھو لیکن ایک بات کا خیال رکھنا او ریہ بات بھولنا نہیں کہ ہر چیز پر ہماری مہر لگی ہوئی ہے، ہر سبز پتے کے پیچھے ہم چھپے بیٹھے ہیں ، ہر ذرے پر قطرے میں ہماری حکمت ہے، کسی چیز کو ہمارے حوالے کےبغیر نہ دیکھنا۔ ہمارے حوالے سے دیکھو گے تو راستہ ملتا جائے گا،منزل پر پہنچ جاؤ گے ، ہمارے حوالے سے نہیں، دیکھو گے تو بھٹک جاؤ گے راستہ نہیں ملے گا۔ قرآن نےبند آنکھیں کھولنے کی دعوت دی ،دیکھنے کی دعوت دی، سوچوں کو آوارگی سے نکال کر ایک سمت بخشی ، ایک مقصدِ زندگی عطا ء کیا ، جمود سے نکالا، حرکت عطاء کی۔ قرآن نے انسانی ذہن پر ایسا اثر کیا جیسے نمک کی چٹکی سوڈے کی بوتل پر کرتی ہے، بلبلے ہی بلبلے ، حرکت ہی حرکت بامقصد حرکت، قرآن نے دو نئے نکور تخیل دے کر انسانی جذبات میں ایک تہلکہ مچا دیا، ایک توحید کا دوسرا مساوات۔ قرآن کی آمد اِنسانی ذہن کےلئے ایک دھماکہ جیسا کائنات کی پیدائش پر ہوا تھا اور جس کے اثرات آج تک جاری و ساری ہیں ۔ قرآن کےنزول کا یہ دھماکہ انسانی ذہن میں وقوع پذیر ہوا، اِس کے اثرات بھی جاری و ساری ہیں۔
قرآن کا نزول ایک بہت اہم واقعہ تھا ، قرآن سے پہلے کسی مذہبی کتاب نے عقل و خرد اور علم و تحقیق کو اتنابلند مرتبہ نہ بخشا تھا، بلکہ عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھاکہ مذہب اور عقل دو متضاد چیزیں ہیں۔ قرآن کا رویہ حیرت انگیز تھا ۔ وہ علم و حکمت کاخزانہ ہی نہیں تھا بلکہ سائنسی علوم کا سرچشمہ بھی تھا۔ قرآن نے عقل و خرد اور علم و تحقیق کی فضاء پیدا کردی۔جگہ جگہ علمی درس گاہیں بن گئیں۔ یونیورسٹیاں وجود میں آگئیں نوجوانوں میں علم حاصل کرنے کاشوق پیدا ہوا ۔ سائنسی تجربات کے لئے لیبارٹریاں بن گئیں ۔ جگہ جگہ کتب خانے بن گئے ۔علمی ترقی کے ساتھ ساتھ لوگوں میں مطالعہ کاشوق پیدا ہوا، کتابیں اکٹھی کرنافیشن بن گیا۔ ہر بڑے اور چھوٹے شہر میں کتب خانے بنا دیئے گئے ۔ صرف شہر بغداد میں چھ ہزار کتب خانے تھے، قرطبہ کے کتب خانے میں چار لاکھ نادر کتابیں موجودتھیں ، جس کا کیٹلاگ 44 جلدوں میں مکمل ہوا تھا، کہتےہیں بغداد کی ایک گلی میں کتابوں کی 100 دُکانیں تھیں۔ علم کے اس شوق کی وجہ سے 200 سال میں عرب علماء نے کئی ایک کتابیں تصنیف کر ڈالیں ۔ ان کتابوں نے چاروں طرف علم کی روشنی پھیلادی۔ جب عربوں نے اسپین فتح کرلیا تو علم کاذوق وہاں بھی پھیل گیا ۔ عربوں کی تحقیقاتی کتابیں اسپین، فرانس ، اِٹلی اور انگلستان میں پہنچ گئیں۔ کتابوں کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے ۔ بہت دیر بعد یورپ میں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں تواُن ہی عرب مفکروں کی کتابیں پڑھائی جانے لگیں، یوں مسلم مفکروں کی لکھی ہوئی سائنس اور فلکیات کی کتابیں یورپی درسگاہوں میں چار سو سال تک پڑھائی جاری رہیں ، اٹھارویں صدی عیسوی تک یہی کتابیں تعلیم کا مستند ذریعہ تھیں ۔
قرآن کے پیغام کے زِیر اثر صحر انشین عربوں کی زندگی ہی بدل کئی تھی، قرآن کی رہنمائی عرب ہر شعبہ میں آگے بڑھنے لگے اور نصف صدی کےاندر ہی اندر علم و عمل کے اُن متوالوں نے آدھی سے زیادہ دُنیا فتح کرلی۔ انہوں نے قیصرہ کسریٰ جیسی پر ہیبت سلطنتوں کو زیر نگوں کر ڈالا اور ساری دنیا میں علم و فکر کا ماحول پیدا کردیا ۔ اس غور و فکر کے ماحول کے زیر اثر سینکڑوں عرب مفکر پیدا ہوگئے ، انہوں نے مختلف علوم میں تحقیق کاکام شروع کردیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بہت سی ایجاد ات عمل میں آئیں ، ظاہر ہے جہاں ایجاد ات ہوں گی وہاں پروڈکشن بھی ہوگی، کارخانے بھی وجود میں آئیں گے ، اُن دنوں بغداد میں دھڑا دھڑکا رخانے بنے، یعنی قرآن نے علم حاصل کرنے کا شوق پیدا کیا، تحقیق کی جانب مائل کیا، سائنسی اسپرٹ پیدا کی اور انڈسٹریل انقلاب (Revolution) کی ابتداء کی ۔ قرآن نے جو ذہنی انقلاب برپا کیا اُس کےنتیجے میں علم اور تحقیق کو بڑا فروغ حاصل ہوا، کائناتی علوم پر تحقیق کا سلسلہ چل پڑا ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ سینکڑوں مسلمان سائنس دان میدان عمل میں آگئے ۔ انہوں نے سائنسی تحقیق کا بنیادی رویہ قائم کیا ۔ تمام علوم کے بنیادی حقائق پر تحقیق کر کے اُصول قائم کئے جس پر چل کر آج کے سائنس دان محققین نے ماڈرن سائنسی علوم کی بنیاد ڈالی، مثلاً فلپ کے ہٹی لکھتا ہے کہ عربوں نے علم ریاضی سے صفر کو ترقی دے کر اس مقام پر پہنچایا کہ آج کے ریاضی دان اس سے مستفید ہورہے ہیں ۔ علم طب کے حصول کے لئے درس گاہیں قائم کیں، عربوں نے وہ سب کچھ ایجاد کیا جس کو ہم آج اپنی ایجاد سمجھتے ہیں ۔ مثلاً رصدگاہیں بنائیں، ستاروں کے نقشے بنائے ، جیومیٹری کے اُصول بنائے، علم کیمیا کے اُصول بنائے ، سورج گرہن اور چاند گرہن کے اوقات متعین کئے ۔ پنڈت جواہر لال نہرو اپنی کتاب Glimpses of world history لکھتے ہیں کہ عربوں سےپہلے ہندوستان ، چین ، مصر کسی جگہ کوئی سائنٹیفک علم نہیں تھا، عربوں نے سائنٹیفک علم کی بنیاد ڈالی اور وہ ‘‘فارد آف ماڈرن سائنس’’ کہلانے کےمستحق ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے سلسلہ رُشد و ہدایت کامقصد انسانوں تک صحیح تعلیم پہنچا دینا ہی نہ تھا ، اس کا مقصد یہ تھا کہ انسانی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی ہر گوشے میں خوشگوار انقلاب پیدا کرکے کاروانِ انسانیت کو صحیح راستے پرگامزن کردیا جائے، تاکہ اس طرح زندگی رفتہ رفتہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ جائے۔
اگست، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: