شیخ اسحاق نومہ
16 فروری 2014
رواداری عصر حاضر میں انتہائی اہم ترین سماجی مسائل میں سے ایک ہے۔ رواداری کے گرتے ہوئے گراف نے اس دنیا کے مختلف گوشوں میں ایک سماجی انتشار پیدا کر دیا ہے۔
اس گلوبلائزڈ ماحول نے انسانی روابط میں سہولتیں فراہم کی ہیں اور انسانوں کی فطرت میں موجود تفریق و مغائرت سے پیدا ہونے والے والے خیالات اور نظریات کے تصادم کو بھی جنم دیا ہے۔
مندرجہ بالا مسائل میں "رواداری" کے موضوع کی اہمیت و افادیت پر احتیاط کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔
اور اس کے علاوہ یہ مذکورہ پس منظر کے خلاف ہے کہ اسلام نے سختی کے ساتھ روداری کے فروغ اور اس کے مظاہرہ کا مطالبہ کیا ہےاور اپنے آپ کو ایک مناسب صفت ‘‘رواداری کا مذہب’’ سے متصف کیا ہے۔
رواداری کا لغوی معنیٰ:
دی ورلڈ بک ڈکشنری میں روداری کا معنیٰ‘‘ان لوگوں کے تئیں صبر کا رویہ اختیار کرنے پر رضامند ہونا جن کے نظریات اور جن کا طرز حیات ہم سے مختلف ہے’’۔ اور روایتی طور پر صبر و تحمل رواداری کا ایک اظہار ہے۔
میری اس تحریر کا عنوان (مذہبی رواداری) کی وہ تعریف و توضیح ہے جو انسائیکلو پیڈیا برٹینکا (1983) نے پیش کیا ہے جو کہ اس طرح ہے، ‘‘اپنے ان مذہبی معتقدات کے مطابق زندگی گزارنے کے دوسروں کے حق کا عقلی اور عملی اعتراف جسے ہم خود قبول نہیں کرتے’’۔
مذکورہ بالا سطروں میں رواداری کی دو قسم کی تعریفیں پیش کی گئی جن میں سے ایک عقلی رواداری اور دوسرا عملی رواداری ہے۔ اس سے خیالات اور عمل اور تصورات اور معمولات کے درمیان تعلق پر ایک روشنی پڑتی ہے۔
جب کوئی روداری کی راہ پر چلتا ہے تو اسے یہ سچائی قبول کرنی پڑتی ہے کہ جو لوگ خود مجھ سے مختلف معتقداد کے حامل ہیں انہیں بھی اپنے اصول معتقدات پر عمل کرنے کا حق ہے۔ اور عملی طور پر کسی بھی انسان کو ایسا رویہ پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے کہ جو رواداری کے دانشورانہ اور فکری عنصر کے خلاف ہو، مثلاً دوسروں پر جسمانی طور پر حملے اس لیے کرنا کہ وہ ایک مختلف مذہبی اصول و معتقدا ت کے حامل ہیں۔
اسلام میں مذہبی روداری کا اصول:
اسلام میں مذہبی روداری کے اصول کو مختصراً ان نکات کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے:
‘‘قرآن مکمل طور پر یہ تسلیم کرتا ہے اور بیان بھی کرتا ہے کہ مذہب کے معاملے میں جبر و اکراہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے’’۔ (2:256) ‘‘اور اگر آپ کا رب چاہتا تو ضرور سب کے سب لوگ جو زمین میں آباد ہیں ایمان لے آتے، (جب رب نے انہیں جبراً مومن نہیں بنایا) تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہوجائیں’’۔ (10:99)
اسلام محض مذہبی اصول و معتقدات کی بنیاد پر دوسروں کا قتل کرنے اور انہیں مصائب و آلام کی راہوں سے گزارنے کی سخت مذمت کرتا ہےاور اس سے ناپسندیدگی کا اظہار بھی کرتا ہے۔ بلکہ لوگوں کو یہ حکم دیتا ہے کہ فلاح و بہبود کو فروغ دینے اور سماجی برائیوں کو ختم کرنے میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پیش کریں۔ ‘‘.......اور نیکی اور پرہیزگاری (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ (نافرمانی کرنے والوں کو) سخت سزا دینے والا ہے’’۔ (5:2)
تاہم قرآن کا یہ بیان ہےکہ مذہبی اصول و معمولات میں جو اختلافات اور تنوعات پائے جاتے ہیں ان کا فیصلہ قیامت کے دن خالق کائنات فرمائے گا۔
‘‘اور یہود کہتے ہیں کہ نصرانیوں کی بنیاد کسی شے (یعنی صحیح عقیدے) پر نہیں اور نصرانی کہتے ہیں کہ یہودیوں کی بنیاد کسی شے پر نہیں، حالانکہ وہ (سب اللہ کی نازل کردہ) کتاب پڑھتے ہیں، اسی طرح وہ (مشرک) لوگ جن کے پاس (سرے سے کوئی آسمانی) علم ہی نہیں وہ بھی انہی جیسی بات کرتے ہیں، پس اللہ ان کے درمیان قیامت کے دن اس معاملے میں (خود ہی) فیصلہ فرما دے گا جس میں وہ اختلاف کرتے رہتے ہیں’’۔ (2:113)
اس دنیاوی زندگی میں دوسروں پر برتری اور فوقیت کا پیمانہ محض تقویٰ ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور پیمانہ یا معیار ناقابل اعتبار ہے۔ ‘‘اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بیشک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بیشک اﷲ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والا ہے’’۔ (49:13)
مذہبی اصول و معتقدات میں اختلافات اور تنوعات کی وجہ سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور حسن معاشرت کا معاملہ پیش کرنے سے رک جائے۔
جب معاشرے میں لوگوں کے درمیان اختلافات پھیل جائیں تو وہ ایک دوسرے کے ساتھ مباحثہ مناظرہ کر سکتے ہیں لیکن پورے وقار، انتہائی شائستگی، امن و سکون اور باہمی احترام کے ساتھ۔
‘‘اور (اے مومنو!) اہلِ کتاب سے نہ جھگڑا کرو مگر ایسے طریقہ سے جو بہتر ہو’’۔ (29:46)
اور آخر کار قرآن مسلمانوں کو ایسے کسی بھی رویہ اور عمل سے گریز کرنے کا حکم دیتا ہے جس کی وجہ سے خالق کائنات پر ان کا خالص ایمان واضح طور پر ذلت و رسوائی کا شکار ہو جائے، خاص طور پر جب مشرکوں اور بت پرستی کے ان کے اس کریہہ عمل کا معاملہ در پیش ہو۔ ‘‘اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے’’۔ (6:108)
اس مرحلہ پر یہ جاننا ضروری ہےکہ مذہبی رواداری کا مطلب آنکھیں بند کر کے اطاعت قبول کر لینا نہیں ہے۔ مذہبی رواداری کے تعلق سے قرآن کے ایک سخت اور تحریک آمیز رویہ کے باوجود جب مسلمانوں پر ان کے مذہب کی وجہ سے ان پر حملے کیے گئے اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے تو قرآن انہیں مختلف ہدایات اور احکامات سے نوازتا ہے۔
قرآن کا یہ فرمان ہے کہ مسلمانوں کو اپنے مذہب کا دفاع کرنے کا حق حاصل ہے۔ ‘‘اور ان سے جنگ کرتے رہو حتٰی کہ کوئی فتنہ باقی نہ رہے اور دین (یعنی زندگی اور بندگی کا نظام عملًا) اﷲ ہی کے تابع ہو جائے، پھر اگر وہ باز آجائیں تو سوائے ظالموں کے کسی پر زیادتی روا نہیں’’۔ (2:193)
پوری تاریخ اسلام میں مختلف طریقوں سے مذہبی رواداری کے مظاہر عیاں ہیں۔ مندرجہ ذیل سطروں میں میں نے چند ایسے واقعات نقل کئے ہیں کہ جن سے اسلام میں مذہبی رواداری کے اصول کی عکاسی ہوتی ہے۔
جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو وہاں یہودیوں کی تعداد اچھی خاصی تھی۔ لہٰذا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اسلامی مملکت کے لیے جو کام سب سے پہلے کیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے مسلمانوں اور یہودیوں کے درمیان ایک معاہدہ کیا جس کی بنیاد پر یہودی معتقدات کا احترام کرنا اور انہیں ہر قسم کے نقصانات سے محفوظ کرنا اس اسلامی ریاست کا فریضہ بن گیا۔
جب کہ دوسری طرف مدینہ پر حملے کی صورت میں مسلمانوں کا ساتھ دینا بھی یہودیوں کی ذمہ داری ہو گئی۔ اور اس معاہدہ کے ذریعہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آغاز اسلام کے پہلے دن ہی اسلامی تہذیب میں مذہبی رواداری کے اصولوں اور عناصر کو شامل کر لیا۔
چند اہل کتاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسی بھی تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں تحائف پیش کر کے اور ان سے تحائف قبول کر کے ہمیشہ ان کے ساتھ مہربانی اور سخاوت کا رویہ پیش کیا۔
ایک مرتبہ نجران کے عیسائیوں کا ایک وفد مدینہ آیا۔ انہیں بھی مسجد میں ٹھہرایا گیا اور مسجد نبوی میں ان کے اپنے طریقوں سے انہیں اپنی عبادت کرنے کی بھی اجازت دی گئی، لہٰذا مسجد کے ایک گوشہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابیوں کے ساتھ نماز ادا کی اور ایک گوشے میں انہوں نے اپنی عبادت کی۔
جب ان لوگوں نے اپنے مذہب کی حمایت میں دلائل پیش کرتے ہوئے اپنے اصول و معتقدات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی باتیں بڑے دھیان کے ساتھ اور احترام کے ساتھ سماعت فرمائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی انکساری کے ساتھ ان کے مذہبی دلائل کے جوابات مرحمت فرمائے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مصر کے حاکم مقوقس کا بھیجا ہوا تحفہ قبول فرمایا اور اس باندی کو بھی قبول فرمایا جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کی ولادت کا شرف حاصل ہے جن کا انتقال چند ماہ کے بعد ہی ہو گیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ‘‘تمہیں قبطیوں کا خیر خواہ رہنا چاہیے اس لیے کہ ان کے درمیان تمہارے رشتہ دار ہیں’’۔
ایک مصری خاتون نے حضرت عمر کے پاس یہ شکایت درج کی کہ عمرو بن العاص نے مسجد کی توسیع کے لیے میری مرضی کے خلاف میرے گھر کے کچھ حصے پر قبضہ کر لیا ہے۔
عمرو بن العاص نے صفائی میں یہ کہا کہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے آتی ہے اور یہ تعداد مسجد کی وسعت سے کہیں زیادہ ہے۔
اس مصری خاتون کا گھر مسجد کے بغل میں ہی تھا اور اسے اس کے لیے اس کی اصل مالیت سے بہت زیادہ قیمت (معاوضے کے طور پر تاکہ وہ اپنی شکایت واپس لے لے) پیش کی گئی لیکن اس نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ لہٰذا مسجد کے اس حصے کو منہدم کر دیا گیا اور معاوضے کی اس رقم کو بیت المال میں جمع کر دیا گیا تاکہ جب کبھی اس کی مرضی ہو وہ اسے وہاں سے جا کر حاصل کر سکے۔
بظاہر عمرو بن العاص نے جو توجیہ پیش کی وہ معقول نظر آتی ہے اور ہمارا موجودہ قانون اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔ لیکن حضرت عمر کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں تھی اسی لیے انہوں نے اس عورت کی زمین پر تعمیر کی گئی مسجد کے اس حصے کو منہدم کرنے اور اس کے پرانے گھر کی تعمیر کرنے کا حکم دے دیا۔
شیخ اسحاق نومہ ایک ماہر دینیات اور ماہر تعلیم ہیں۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
http://www.ghanaweb.com/GhanaHomePage/religion/artikel.php?ID=300821
URL for English article: https://newageislam.com/islam-tolerance/islam-religious-tolerance/d/35795
URL for this article:https://newageislam.com/urdu-section/islam-religious-tolerance-/d/35834