مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
27 اکتوبر 2023
سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ کی
ولادت گیلان میں ۴۷۰ھ
میں ہوئی۔ آپ کا نسب دس واسطوں سے سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ پر منتہی ہوتا ہے۔
۱۸؍سال
کی عمر میں غالباً ۴۸۸ھ
میں بغداد تشریف لائے۔ یہی وہ سال ہے جس سال امام غزالی نے تلاش حق و حصول یقین کے
لئے بغداد کو خیرباد کہا تھا۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جب ایک جلیل القدر امام سے بغداد
محروم ہوا تو دوسرا جلیل القدر مصلح اور داعی الی اللہ کا وہاں ورود ہوا۔ آپ بغداد
میں پوری پوری عالی ہمتی اور بلند حوصلگی کے ساتھ تحصیل علم میں مشغول ہوگئے ۔ عبادت
و مجاہدات کی طرف طبعی کشش کے باوجود آپ نے تحصیل علم میں قناعت و زہد سے کام نہیں
لیا ، ہر علم کو اس کے باکمال استادوں اور صاحب ِ فن عالموں سے حاصل کیا اور اس میں
پوری دستگاہ پیدا کی۔ آپ کے اساتذہ میں ابوالوفا ابن عقیل محمد بن الحسن الباقلانی
اور ابوزکریا تبریزی جیسے نامور علماء و ائمہ ٔ فن کا نام نظر آتا ہے۔ طریقت کی تعلیم
شیخ ابوالخیر حماد بن مسلم الدباس سے حاصل کی اور قاضی ابوسعید مخرمی سے تکمیل کی اور
اجازت حاصل کی۔
اصلاح و ارشاد
اور رجوعِ عام
ظاہری و باطنی تکمیل کے بعد اصلاح
و ارشاد کی طرف متوجہ ہوئے۔ مسند درس اور مسند ارشاد کو بیک وقت زینت دی، اپنے استاذ
و شیخ شیخ مخرمی کے مدرسہ میں تدریس اور وعظ کا سلسلہ شروع کیا ، بہت جلد مدرسہ کی
توسیع کی ضرورت پیش آگئی۔ مخصلین نے عمارت میں اضافہ کرکے اس کو آپ کی مجالس کے قابل
بنادیا۔ لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوا کہ مدرسہ میں تل رکھنے کی جگہ نہ رہی۔ سارا بغداد
آپ کے مواعظ پر ٹوٹ پڑا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسی وجاہت و قبولیت عطا فرمائی جو
بڑے بڑے بادشاہوں کو نصیب نہیں ۔ شیخ موفق الدین ابن قدامہ صاحب ِ ’’مغنی‘‘ کہتے ہیں
کہ میں نے کسی شخص کی آپ سے بڑھ کر دین کی وجہ سے تعظیم ہوتے نہیں دیکھی، بادشاہ اور
وزراء آپ کی مجالس میں نیازمندانہ حاضر ہوتے اور ادب سے بیٹھ جاتے، علماء اور فقہاء
کا کچھ شمار نہ تھا، ایک ایک مجلس میں چار چار سو دواتیں شمار کی گئی ہیں جو آپ کا
ارشاد قلمبند کرنے کے لئے لائی جاتیں۔
محامد و اخلاق
بایں رفعت و منزلت حددرجہ
متواضع اور منکسر المزاج تھے۔ ایک بچہ اور ایک لڑکی بھی بات کرنے لگتی تو کھڑے ہوکر
سنتے اور اس کا کام کرتے۔ غریبوں اور فقراء کے پاس بیٹھتے اور ان کے کپڑوں کو صاف کرتے
، جوں نکالتے ، لیکن اس کے برخلاف کسی معزز آدمی اور اراکین سلطنت کی تعظیم میں کھڑے
نہ ہوتے (الطبقات الکبریٰ للشعرانی) ۔ خلیفہ کی آمد ہوتی تو قصداً دولت خانہ میں تشریف
لے جاتے یہاں تک کہ خلیفہ آکر بیٹھ جاتا، پھر برآمد ہوتے تاکہ تعظیماً کھڑا نہ ہونا
پڑے۔ کبھی کسی وزیر یا سلطان کے دروازہ پر نہیں گئے۔ آپ کے دیکھنے والے اور آپ کے
معاصرین آپ کے حسن اخلاق، علو، حوصلہ، تواضع و انکسار، سخاوت و ایثار اور اعلیٰ اخلاقی
اوصاف کی تعریف میں رطب اللساں ہیں۔ ایک بزرگ (حرادہ) جنہوں نے بڑی طویل عمر پائی اور
بہت سے بزرگوں اور ناموں کو دیکھا اور ان کی صحبت اٹھائی، فرماتے ہیں :
’’میری آنکھوں نے حضرت شیخ عبدالقادر سے بڑھ کر کوئی خوش اخلاق، فراخ
حوصلہ، کریم النفس، رقیق القلب، محبت اور تعلقات کا پاس کرنے والا نہیں دیکھا۔ آپ
عظمت اور علو مرتبت اور وسعت ِ علم کے باوجود چھوٹے کی رعایت فرماتے، بڑے کی توقیر
کرتے، سلام میں سبقت فرماتے، کمزوروں کے پاس اٹھتے بیٹھتے، غریبوں کے ساتھ تواضع و
انکساری سے پیش آتے، حالانکہ آپ کسی سربرآوردہ یا رئیس کے لئے تعظیماً کھڑے نہیں
ہوتے اور نہ کسی وزیر یا حاکم کے دروازہ پر گئے۔‘‘
الامام الحافظ ابوعبداللہ محمد
بن یوسف البرزالی الاشبیلی ان الفاظ میں آپ کی تعریف کرتے ہیں :
’’آپ مستجاب الدعوات تھے۔(اگر
کوئی عبرت اور رقت کی بات کی جاتی تو) جلد ہی آنکھوں میں آنسو آجاتے۔ ہمیشہ ذکر
و فکر میں مشغول رہتے۔ بڑے رقیق القلب تھے ، خندہ پیشانی، شگفتہ رو، کریم النفس، فراخ
دست ، وسیع العلم، بلند اخلاق، عالی نسب، عبادات اور مجاہدہ میں آپ کا پایہ بلند تھا۔‘‘
بھوکوں کو کھانا کھلانے اور ضرورتمندوں
پر بے دریغ خرچ کرنے کا خاص ذوق تھا۔ علامہ البن النجار آپ سے نقل کرتے ہیں کہ ’’اگر
ساری دنیا کی دولت میرے قبضہ میں ہو تو میں بھوکوں کو کھانا کھلادوں ۔‘‘
مردہ دلوں کی مسیحائی
سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ کی
کرامت کی کثرت پر مؤرخین کا اتفاق ہے۔ شیخ الاسلام عز الدین بن عبدالسلام اور امام
ابن تیمیہ کا قول ہے کہ شیخ کی کرامات تواتر کو پہنچ گئی ہیں ، ان میں سب سے بڑی کرامت
مردہ دلوں کی مسیحائی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کے قلب کی توجہ اور زبان کی تاثیر سے
لاکھوں انسانوں کو نئی ایمانی زندگی عطا فرمائی۔ آپ کا وجود اسلام کے لئے ایک بادِ
بہاری تھا جس نے دلوں کے قبرستان میں نئی جان ڈال دی اور عالم اسلام میں ایمان و روحانیت
کی ایک نئی لہر پیدا کردی۔
تعلیمی مشاغل و خدمات
اعلیٰ مراتب ولایت پر فائز ہونے
اور نفوس و اخلاق کی تربیت و اصلاح میں ہمہ تن مشغول ہونے کے ساتھ آپ درس و تدریس،
افتاء اور تصحیح اعتقاد اور مذہب اہلسنت کی نصرت و حمایت سے غافل نہ تھے۔ عقائد و اصول
میں امام احمد اور محدثین کے مسلک پر تھے۔ مذہب اہلسنت اور سلف کے مسلک کو آپ سے بڑی
تقویت حاصل ہوئی اور اس کے مقابلہ میں اعتقادی و عملی بدعات کا بازار سرد ہوگیا۔ ابن
السمعانی کہتے ہیں کہ متبعین سنت کی شان آپ کی وجہ سے بڑھ گئی اور ان کا پلڑا بھاری
ہوگیا۔مدرسہ میں ایک سبق تفسیر کا، ایک حدیث کا، ایک فقہ اور ایک اختلافات ِ ائمہ اور
ان کے دلائل کا پڑھاتے تھے۔ صبح شام تفسیر، حدیث فقہ، مذاہب ائمہ ، اصول فقہ اور نحو
کے اسباق ہوتے۔ ظہر کے بعد تجوید کی تعلیم ہوتی۔ اس کے علاوہ افتاء کی مشغولیت تھی۔
حضرت شیخ کا عہد اور ماحول
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ
نے بغداد میں ۷۳؍
سال گزارے اور عباسی خلفاء میں سے پانچ ان کی نظروں کے سامنے یکے بعد دیگرے مسند ِ
خلافت پر بیٹھے۔ جس وقت وہ بغداد میں رونق افروز ہوئے اس وقت خلیفہ مستظہر باللہ ابوالعباس
کا عہد تھا۔ شیخ کا یہ عہد بہت اہم تاریخی واقعات سے لبریز ہے۔ سلجوقی سلاطین اور عباسی
خلفاء کی باہمی کشمکش اس زمانہ میں پورے عروج پر تھی۔ یہ سلطانین عباسی حکومت پر اپنا
اقتدار قائم کرنے کے لئے دل و جان سے کوشاں تھے۔ کبھی خلیفہ کی رضامندی کے ساتھ اور
کبھی اس کی مخالفت و ناراضگی کے باوجود ۔کبھی کبھی خلیفہ اور سلطان کے لشکروں میں باقاعدہ
معرکہ آرائی بھی ہوتی اور مسلمان ایک دوسرے کا بے دریغ خون بہاتے۔ اس طرح کے واقعات
کئی مرتبہ پیش آئے۔ شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کی نگاہوں کے سامنے تمام الم انگیز واقعات
گزرے۔ انہوں نے مسلمانوں کے باہمی افتراق و خانہ جنگی اور دشمنی کو اپنی آنکھوں سے
دیکھا اور یہ بھی دیکھا کہ دنیا کی محبت کی خاطر اور ملک و سلطنت اور جاہ و مرتبہ کے
حصول کے لئے لوگ سب کچھ کر گزرنے پر آمادہ ہیں اور ان کو صرف دربار کی شان و شوکت
سے دلچسپی رہی ہے۔
حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا
مادی وجود خواہ ان واقعات سے علاحدہ اور دور رہا ہو لیکن اپنے شعور و احساس کے ساتھ
وہ اسی آگ میں جل رہے تھے اور اسی سوزِ دروں نے ان کو پوری ہمت و طاقت اور اخلاص کے
ساتھ وعظ و ارشاد ، دعوت و تربیت ، اصلاحِ نفوس اور تزکیہ ٔ قلوب کی طرف متوجہ کیا
۔ انہوں نے نفاق اور حب دنیا کی تحقیر و تذلیل، ایمانی شعور کے احیاء ، عقیدۂ آخرت
کی تذکیر اور اس سرائے فانی کی بے ثبانی کے مقابلہ اس حیات ِ جاودانی کی اہمیت ، تہذیب
اخلاق، توحید خالص اور اخلاص کامل کی دعوت پر سارا زور صرف کردیا۔ آپ کے مواعظ دلوں
پر بجلی کا اثر کرتےتھے اور وہ تاثیر آج بھی آپ کے کلام میں موجود ہے۔
زمانہ پر اثر
حضرت شیخ کا وجود اس مادیت
زدہ زمانہ میں اسلام کا ایک زندہ معجزہ تھا اور ایک بڑی تائید الٰہی آپ کی ذات ، آپ
کے کمالات ، آپ کی تاثیر ، اللہ تعالیٰ کے یہاں آپ کی مقبولیت کے آثار اور خلق اللہ
میں قبولیت و وجاہت کے کھلے ہوئے مناظر ، آپ کے تلامذہ اور تربیت یافتہ اصحاب کے اخلاق
اور ان کی سیرت و زندگی سب اسلام کی صداقت کی دلیل اور اس کی زندگی کا ثبوت تھا اور
اس حقیقت کا اظہار تھا کہ اسلام میں سچی روحانیت تہذیب ِ نفس اور تعلق مع اللہ پیدا
کرنے کی سب سے بڑی صلاحیت ہے اور اس کا خزانۂ عامرہ کبھی جواہرات و نادرات سےخالی
نہیں۔
27 اکتوبر 2023، بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی
-----------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic
Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism