شیخ عبدالباری الثبیثی
28 فروری 2014
اسلام میں علما کو عزت و احترام سے نوزا گیا ہےکیوں کہ علماء انبیاء (علیہم السلام) کے وارثین ہیں جو کہ ان انبیاء کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں۔ در اصل اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ اتنا عظیم ہے کہ اللہ علماء کا ذکر اپنے اور اپنے فرشتوں کے نام کے ساتھ اپنے کلام میں کرتا ہے: ‘‘ﷲ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے’’۔ (3:18)
اس سلسلے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘بے شک اللہ ان لوگوں پر رحمت نازل فرماتا ہے جو لوگوں کو نیکی سکھاتے ہیں۔ اور آسمانوں اور زمینوں میں تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخوں میں اور مچھلیاں سمندروں میں اللہ سے علماء کے لیے رحمت اور مغفرت و بخشش کے لیے دعائیں کرتی ہیں۔ (ترمذی)
علماء اللہ کے ولی ہوتے ہیں؛ ان کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ صحیح معنوں میں انہیں کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے۔ ‘‘بس ﷲ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں’’۔ (35:28) وہ ایسے اہل علم ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف ہوتا ہے، تب جا کر اللہ انہیں عظیم انعامات سے نوازتا ہے۔ اللہ کا فرمان ہے: ‘‘ان کی جزا ان کے رب کے حضور دائمی رہائش کے باغات ہیں جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں، وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اﷲ اُن سے راضی ہوگیا ہے اور وہ لوگ اس سے راضی ہیں، یہ (مقام) اس شخص کے لئے ہے جو اپنے رب سے خائف رہا’’ (98:8)۔
ابن القیم نے فرمایا: ‘‘لوگوں کے درمیان علماء اسلام اور وہ لوگ جن کی باتیں فتویٰ کی شکل اختیار کرتی ہیں؛ وہ لوگ جن کے اندر یہ قابلیت ہے کہ وہ قرآن و حدیث سے شرعی احکامات اخذ کر سکتے ہیں اور جن کی گہری سوچ و فکر اور استغراق کے نتیجے میں جائز و ناجائز کے احکام مرتب ہوتے ہیں، وہ زمین پر ایسے ہی ہیں جیسے آسمان میں تارے۔ ان ہیں کے ذریعہ گم گشتہ راہ ہدایت پاتے ہیں اور لوگوں کو ان کی ضرورت کھانے پینے کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے۔ ایک مقام پر اللہ نے ان کی فرما ں برداری کو والدین کی اطاعت گزاری سے عظیم قرار دیا ہے: ‘‘اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرو اوراپنے میں سے (اہلِ حق) صاحبانِ اَمر کی’’ (4:59)۔ علماء مصیبت کے اوقات میں لوگوں کی پناہ گاہیں ہیں۔ بے شمار گمراہوں کو انہوں نے راستہ دکھایا، بے شمار سنتوں کی انہوں نے تبلیغ و اشاعت کی اور بے شمار بدعات کو انہوں نے ختم کیا۔
متقی علماء تقویٰ میں سب کے سردار ہوتے ہیں، اگر انہوں نے دنیاوی جاہ حشمت اور عہدہ کی خواہش کی ہوتی تو تو وہ با آسانی ان کے قدموں میں ہوتے، لیکن وہ اپنے علم اور اعمال صالحہ کے ساتھ خوشی خوشی زندگی گزار رہے ہیں اور ان کی زندگی ان لوگوں سے بہت بہتر ہے جن کے پاس دنیاوی جاہ حشمت اور عہدہ ہے اور ایسا صرف اس لیے ہے کہ ان کی پوری زندگی اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے فرامین کے ارد گرد گردش کرتی ہے۔ وہ نام و نمود نہیں بلکہ اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے علم حاصل کرتے ہیں۔ ان کے اثرات اتنے زبر دست ہیں کہ اگر وہ بنجر زمین پر قدم رنجاں ہوں تو وہ سر سبزو شاداب ہو جائے،گمراہیت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی کسی میں بستی میں ان کے قدم پڑ جائیں تو وہ ہدایت کی نور سے روشن ہو اٹھے۔
صحیح معنوں میں عالم وہ نہیں ہے جس کے پاس بڑی بڑی سندیں اور القابات ہوں۔ بلکہ صحیح معنوں میں عالم وہ ہے جس کے پاس علم ہو، گہرا ایمان ہو، اللہ کی اطاعت ہو اور کثرت عبادت ہو۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ وہ تمام لوگوں سے نمایاں اور ممتاز ہیں: ‘‘کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟’’ (39:9)۔ ابن المبارک سے پوچھا گیا کہ: ‘‘ایک صحیح عالم کی پہچان کیا ہو سکتی ہے؟’’ اس پر انہوں نے جوب دیا کہ، ‘‘ایک سچا عالم وہ ہے جو دنیاوی معاملات سے کنارہ کش رہتا ہے اور ہمیشہ آخرت کی تیاری میں لگا رہتا ہے’’۔
پھر بھی علماء کو اتنا کامل نہیں گرداننا چاہیے کہ وہ تمام گناہوں سے محفوظ ہیں اور ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہو سکتا کیوں کہ ایسا ہونا نا ممکن ہے۔ تاہم لوگوں کو علماء کی غلطیوں کی تلاش میں نہیں رہنا چاہیے اس لیے کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس اس غلطی کی کوئی عذر ہو جس سے وہ شخص لاعلم ہو یا ہو سکتا ہے کہ اس غلطی کی کوئی معقول وجہ ہو جس کا شعور ہمیں نہ ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ، ‘‘بے شک علماء انبیا کے وارثین ہیں’’۔ (سنن ابو داؤد وغیرہ) اسی لیے ہمارے اوپر ضروری ہے کہ ہم ان سے محبت کریں، نیکی کی باتوں میں ان کی فرماں برداری کریں، ان کا دفاع کریں اور ان میں سے جو فوت ہو جائیں ان کے لیے اللہ کی رحمت اور مغفرت طلب کریں۔ ابن عباس نے فرمایا کہ جو شخص کسی عالم کو برہم کرتا ہے وہ اللہ کے پیغمبر کو برہم کرتا ہے؛ اور جو شخص اللہ کے پیغمبر کو پرہم کرتا ہے وہ اللہ کو ناراض کرتا ہے۔
علماء کی موت امت کا ایک ایسا خسارہ ہے جس کی کبھی تلافی نہیں کی جا سکتی۔ ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ جو علماء فوت ہو چکے ہیں اللہ ان کی مغفرت کرے اور جو زندہ ہیں ان کے علم سے ہیں نفع پہنچائے۔
ہاں! ایسا ہوتا ہے کہ آنکھیں نم ہو جاتی ہیں اور دل اداس ہو جاتے ہیں، لیکن اگر ہم سبھی اپنی آنکھیں نم کر کے بیٹھ جائیں تو اس سے حالات نہیں بدلنے والے یا اس سے نقصانات بھی نہیں دور ہونے والے۔ در اصل جب کوئی صاحب علم اس دنیا سے رخصت ہوتا ہے توں کمزور دماغ لوگوں کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ ان کی موت پر صرف آہ و زاری اور ماتم کرتے ہیں؛ جو لوگ روشن خیال ہوتے ہیں اور جن کے مقاصد عظیم ہوتے ہیں ان کا ردعمل اس کے علاوہ بھی ہوتا ہےاس لیے کہ انہیں اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان علماء کی بے لوث محبت کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم ان کے نقش قدم پر اپنی زندگی گزاریں؛ ان کے راستے پر چلتے ہوئے ہم اپنی موت سے جا ملیں؛ تا کہ ہم علم اور اعمال صالحہ کی ایک بہترین مثال بن سکیں؛ عجز و انکساری اور تقویٰ میں سب سے آگے جا سکیں؛ صبر و قناعت کا پیکر بن سکیں اور سخاوت اور قربانی میں دوسروں کے لیے نشان راہ چھوڑسکیں۔ ایک سچے عالم کی خصلتیں اور نشانیاں یہی ہیں اور جو لوگ علماء سے محبت کرتے ہیں ان کی بھی یہی علامتیں ہونی چاہیے۔
علماء ایسی کوئی شخصیات نہیں ہیں کہ جن کی صفات حسنہ کو صرف بول کر سنایا جائے یا ان سے افادہ حاصل کیئے بغیر ہی انہیں لکھ دیا جائے۔ ابراہیم ابن حبیب نے کہا: ‘‘میرے والد نے ایک مرتبہ مجھ سے کہا: ‘میرے بچے علماء کے پاس جایا کرو، ان سے علم حاصل کرو، ان کے عادات و اطوار، اخلاق اور رشد و ہدایات سے مستفیض ہوا کرو؛ یہ عمل میرے نزدیک (اخلاق کے بغیر) بے شمار احادیث سیکھنے سے بہتر ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
شیخ عبدالباری الثبیثی مسجد نبوی مدینہ، کے امام و خطیب ہیں
ماخذ: http://www.arabnews.com/news/532426
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/ulema-heirs-prophets/d/45974
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/ulema-heirs-prophets-/d/56000