عدنان فیضی، نیو ایج اسلام
8 اپریل 2025
شیخ عبدالقدوس گنگوہی (1456–1537) چشتی سلسلے کی صابری شاخ کے ایک بااثر صوفی اسکالر، شاعر، اور روحانی پیشوا تھے۔ ان کی فارسی شاعری اور کتاب مکتوبات قدوسیہ، جنوبی ایشیا میں صوفی نظریات کی تشکیل میں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ انہوں نے محبت الہی، رواداری، اور باطنی روحانیت پر توجہ مرکوز کی، اور اسلامی روحانیت پر دیرپا اثر ڈالا۔
اہم نکات:
1. وہ چشتی سلسلے کی صابری شاخ کی ایک عظیم شخصیت تھے، جو تزکیہ نفس اور محبت الہی پر زور دیتے تھے۔
2. اُن کے خطوط کے مجموعے روحانی رہنمائی، اخلاقی تعلیمات، اور صوفیانہ تصورات کی تشریحات سے بھرے پڑے ہیں۔
3. انہوں نے وحدت الوجود کی تعلیم دی اور ان کا ماننا تھا کہ عشق بہترین روحانی راستہ ہے۔
4. "الکھ-داس" کے طور پر لکھ کر، انہوں نے فارسی اور ہندی شاعری کی لسانی اور ثقافتی خلیج کو ختم کیا۔
5. انہوں نے قرون وسطی کے ہندوستانی معاشرے میں صوفیاء کے کردار کو اجاگر کرتے ہوئے، ابراہیم لودی جیسے حکمرانوں کو مشورہ دیا۔
-----
پیدائش اور ابتدائی حالاتِ زندگی
شیخ عبدالقدوس 860 ہجری (1457-1456 عیسوی) میں رودولی میں پیدا ہوئے، جو اب اتر پردیش، ہندوستان میں ہے۔ ان کا خاندان بڑا مذہبی اور علمی تھا اور امام ابو حنیفہ کا پیروکار تھا۔ ان کے والد شیخ محمد اسماعیل ایک بڑے عالم دین تھے۔ رودولی کے قریب آباد ہونے سے پہلے یہ خاندان غزنا سے دہلی منتقل ہوا تھا۔
نوجوانی کی عمر میں، عبدالقدوس کو مذہبی علوم میں بڑی دلچسپی تھی۔ ابتدائی طور پر، انہوں نے روایتی اسلامی علوم حاصل کیا، لیکن وہ جلد ہی گہری روحانیت کی تلاش میں تصوف کی طرف مائل ہو گئے۔ انہوں نے شیخ احمد عبدالحق کے پوتے شیخ محمد سے رہنمائی حاصل کی، جنہوں نے انہیں چشتی سلسلے کی صابری شاخ میں داخل کیا۔ صوفی معمولات سے اپنا تعلق مضبوط کرنے کے لیے، انہوں نے شیخ محمد کی بہن سے شادی کی۔
روحانی سفر اور تعلیمات
اس سلسلے میں شامل ہونے کے بعد عبدالقدوس نے سترہ سال رودولی کے قریب روحانی معمولات اور مراقبہ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے گزارے۔ انہون نے الٹی نماز (نمازِ مکوّس) اور اعلیٰ مراقبہ (سلطانِ ذکر) کی مشق کی، جو کہ تزکیہ نفس اور معرفت الٰہی کے لیے اونچے درجے کے صوفی طریقے ہیں۔ ان سب سے ان کا مقصد روحانیت کے حصول کے لیے جسمانی دنیا سے اوپر اٹھنا تھا۔
وہ وحدت الوجود پر یقین رکھتے تھے، یعنی تمام مخلوقات خدا کا عکس ہیں۔ ان کی تعلیم تھی کہ عشق بہترین روحانی راستہ ہے، اور مریدوں پر زور دیا کہ وہ محض رسومات کے بجائے، بے لوث عقیدت و محبت کے ذریعے خدا کو تلاش کریں۔ ان کی تعلیمات میں ان باتوں پر زور تھا:
ظاہری رسومات پر باطنی روحانیت کو ترجیح دینا
محبت اور رواداری اہم روحانی اقدار ہیں
معرفت الہی کے ساتھ ذاتی تجربہ
معرفت الٰہی کا راستہ تزکیہ نفس
وہ اپنے مریدوں کے لیےایک دور اندیش اور سنجیدہ روحانی رہنما تھے
تحریریں اور ادبی خدمات
شیخ عبدالقدوس اپنی فارسی شاعری اور روحانی خطوط کے لیے مشہور تھے۔ ان کی قابل ذکر تصنیف مکتوبات قدوسیہ، ان کے طلباء اور دیگر علماء کے نام، ان کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ ان کے خطوط میں ان مضامین پر روشنی ڈالی گئی ہے:
روحانی نظم و ضبط اور اخلاقیات
طلباء کی رہنمائی میں ایک صوفی شیخ کا کردار
صوفیانہ تصورات کی تشریح
اپنے دور کے سیاسی اور سماجی مسائل پر اظہار خیال
ان کی فارسی شاعری میں محبت الٰہی، اتحاد، اور خدا کی تلاش جیسے موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ "الکھ داس" کے طور پر لکھ کر انہوں نے ہندی میں بھی شاعری کی، لسانی اور ثقافتی خلیج کو ختم کیا۔ ان کی تحریریں اب بھی ان کی اعلی بصیرت اور شاعرانہ حسن و جمال کا منھ بولتا ثبوت ہیں۔
سیاسی مصروفیت اور تاریخی تناظر
شیخ عبدالقدوس کا زمانہ ہندوستان میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا زمانہ تھا، بشمول دہلی سلطنت کے سقوط اور مغلیہ سلطنت کے عروج کے۔ صوفی شیوخ اکثر حکمرانوں اور عوام کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا کرتے تھے۔
1526 میں، سلطان ابراہیم لودھی نے پانی پت کی پہلی جنگ سے پہلے ان سے فیض طلب کیا، جس کے نتیجے میں بابر کے ہاتھوں لودی خاندان اور مغلیہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اگرچہ وہ براہ راست سیاست میں شامل نہیں تھے، لیکن ان کا روحانی اثر حکمرانوں اور عام لوگوں میں مسلم تھا۔ مغل شہنشاہوں اور علاقائی سلاطین کے ساتھ ان کے معاملات سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے، کہ صوفی علماء کا اپنے اپنے دور میں حکمرانوں اور معاشرے پر کیسا نمایاں اثر تھا۔
وفات اور زندہ و جاوید میراث
شیخ عبدالقدوس گنگوہی کی وفات 23 جمادی الثانی 944ھ (28 نومبر 1537 عیسوی) کو گنگوہ، اتر پردیش میں ہوئی، جہاں ان کا مزار آج بھی زیارت گاہ عام و خاص ہے۔ ان کے طالب علموں نے ان کی تعلیمات کو پھیلانا جاری رکھا، اور اس بات کو یقینی بنایا کہ جنوبی ایشیا میں صوفی معمولات پر ان کا لازوال اثر زندہ و تابندہ رہے۔
محبت، تزکیہ نفس، اور روحانی بیداری پر ان کی توجہ دنیا بھر کے لوگوں کو متاثر کرتی رہتی ہے۔ ان کی تحریریں تصوف و روحانیت کا ایک اہم مصدر و منبع بنی ہوئی ہیں، اور ان کی میراث ان لوگوں میں زندہ ہے جو محبت الہی کے صوفیانہ راستے پر عمل پیرا ہیں۔
----
English Article: Shaykh Abdul Quddus Gangohi: A Sufi Scholar’s Legacy in South Asia
URL: https://newageislam.com/urdu-section/shaykh-quddus-gangohi-sufi-scholar-south-asia/d/135662
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism