ایمن ریاض، نیو ایج اسلام
29جنوری 2014
شریعت کا سب سے اہم مقصد لوگوں کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اس تعلق سے قرآن کا بڑا واضح اعلان ہے، ‘‘جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے یعنی خونریزی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کی سزا) کے (بغیر ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے اسے (ناحق مرنے سے بچا کر) زندہ رکھا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو زندہ رکھا (یعنی اس نے حیاتِ انسانی کا اجتماعی نظام بچا لیا)’’(5:32)۔
قرآن نے پیدا ہوتے ہی بچوں کو قتل کرنے اور خاص طور پر بچیوں کو زندہ درگور کرنے کی ایک انتہائی غیر انسانی روایت اور عمل کو ممنوع قرار دیکر آخر کار اس کا خاتمہ ہی کر دیا۔
‘‘اور جب زندہ دفن کی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا، کہ وہ کس گناہ کے باعث قتل کی گئی تھی؟’’ (81: 8-9)
‘‘اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو، اور مفلسی کے باعث اپنی اولاد کو قتل مت کرو۔ ہم ہی تمہیں رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی (دیں گے)’’۔ (6:151)
‘‘اور تم اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل مت کرو، ہم ہی انہیں (بھی) روزی دیتے ہیں اور تمہیں بھی، بیشک ان کو قتل کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔’’ (17:31)
بہت سارے مسلم فقہاء نے شریعت کے مقاصد میں صرف زندگی کے تحفظ کو ہی نہیں شامل کیا ہے بلکہ اگر آپ کسی خطرے کی زد میں ہیں تو شریعت کا مقصد ہے کہ آپ کو تحفظ فراہم کی جائے، اگر آپ بیمار پڑ جائیں تو شریعت کا مقصد ہے کہ آپ کی دیکھ بھال کی جائے، اگر آپ کے پاس کھانے کے لیے رزق اور رہنے کے لیے مکان نہیں ہے تو آپ کو کھانے کے لیے رزق اور رہنے کے لیے مکان مہیا کرائی جائے، یہ تمام مقاصد شرعیہ کے تحت ہی مندرج ہوتے ہیں۔
ان لوگوں کے لیے سزاؤں کا تعین بھی ضروری ہے جو دوسروں کے حق زندگی کی خلاف ورزی کرتے ہیں تاکہ مکمل طور پر حق زندگی کا تحفظ کیا جا سکے۔
شریعت کا ایک اور مقصد صفائے ذہن و قلب اور اس کا تحفظ ہے۔ ہم یہ پاتے ہیں کہ قرآن اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ذہن و دماغ کو غذائیت فراہم کرنے پر ابھارا گیا ہے اور مظاہر کائنات کے بارے میں سوچنے اور تدبر و تفکر کرنے پر آمادہ کیا گیا ہے۔ قرآن اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں آزادئ اظہار رائے اور ان مسائل پرگفتگو اور باہمی مکالمہ کا بھی ذکر ہے جو ایک تعمیری انداز میں معاشرے کے لیے فائدہ مند ہوں۔
میں اس بات کو دہرانا چاہوں گا کہ اگر اس کے نفاذ کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار اور لائحہ عمل نہ ہو تو اسے عملی جامہ نہیں عطاء کیا جا سکتا۔
قرآن الکحل (نشہ آور مشروبات) کو مکمل طور پر حرام قرار دیتا ہےاس لیے کہ نشہ آور مشروبات انسانوں کے شعور فکر کو منجمد اور دماغ کی صلاحیت کو ختم کر دیتے ہیں۔ قرآن کا فرمان ہے:
‘‘اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور (عبادت کے لئے) نصب کئے گئے بُت اور (قسمت معلوم کرنے کے لئے) فال کے تیر (سب) ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے (کلیتاً) پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ، شیطان یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعے تمہارے درمیان عداوت اور کینہ ڈلوا دے اور تمہیں اللہ کے ذکر سے اور نماز سے روک دے۔ کیا تم (ان شرانگیز باتوں سے) باز آؤ گے؟’’ (5:90-91)
‘‘آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے۔’’ (2:219)
اگر ہم اس لفظ یعنی فیملی اور لوگوں کی اولاد کے تحفظ کا ایک محدود معنیٰ بھی مراد لیں تو شریعت کا ایک اور مقصد لوگوں کی عزت اور نامو س کی حفاظت کرنا ہے، اس لیے کہ کسی بھی معاشرے میں فیملی اور خاندان سنگ میل کی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں۔ مثبت پہلو کی بات کریں تو ہم یہ پاتے ہیں کہ قرآن ان نوجوانوں کو شادی کر لینے کا حکم دیتا ہے جن کے اندر اس کی استطاعت موجود ہو۔ اگر اس کے منفی پہلو کی بات کریں تو اگر کوئی کسی انسان کی عفت اور عزت و عظمت کو غلط اور بے بنیاد طریقے سے داغدار کرتا ہے تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس پر قرآن کا رویہ بڑا ہی سخت ہے۔ قرآن عورتوں کی عفت اور عزت و عظمت کے تحفظ پر زیادہ زور دیتا ہے۔
شریعت کا پانچواں اور آخری مقصد لوگوں کی دولت کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اگر مثبت پہلو کو دیکھیں تو شریعت سرمایا کاری کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ شریعت میں یتیموں اور مخبوط الحواس وغیرہ لوگوں کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اور اس کا منفی پہلو یہ ہے کہ شریعت زکوٰۃ کا بھی نظام پیش کرتی ہے جس کی وجہ سے مال و غناء معاشرے کے ہر طبقہ تک پہنچتا ہےاور اس کا دائرہ صرف سرمایہ دار طبقے تک ہی محدود نہیں رہتا۔
شریعت کے تعلق سے ایک اور بڑی غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ شریعت اسلامیہ کی فطرت میں انتقام پروری ہےاور اس میں بخشش اور معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سب سے پہلے میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ شریعت میں ‘تعزیر’ کا تصور پایا جاتا ہے اور تعزیر کا مطلب کسی جرم پر مجرم کو صوابدید پر مبنی سزا دینا ہے، اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب کسی خاص جرم کے تعلق سے قرآن اور سنت رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) میں کسی واضح سزا کی صراحت نہیں ملتی تو اب اس جرم کی سزا کا تعین حاکم یا جج کی صوابدید پر منحصر ہوتا ہے۔ جرم کی سنگینی، جرم کا رکارڈ اور ان حالات جن میں اس جرم کا ارتکاب کیا گیا ہے، ان تمام امور پر ہر اعتبار سے غور و فکر کرنے کے بعد حاکم یا جج کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنی صوابدید پر مبنی کسی سزا کا تعین کرے اس کے علاوہ انہیں مجرم کو معاف کرنے کا بھی اختیار ہے۔
شریعت اسلامیہ میں سزا کے تعلق سے خاص طور پر زخمی ہونے یا قتل کے مسئلہ میں جو دوسرا تصور پایا جاتا ہے اسے ‘قصاص’ یا انتقام اور بدلہ کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اس مقام پر بھی ہم جھوٹ پر مبنی ایسی مبالغہ آرائیاں پاتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ میں معافی اور درگزر کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس مسئلہ کو ایک مثال سے یوں سمجھیں کہ اگر امریکہ میں کسی پر قتل کا الزام لگایا گیا اور مقتول کے گھر والوں نے قاتل کو معاف کر دیا تو (اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ) کیا اس صورت میں بھی اس قاتل کو سزا دی جائے گی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں اس صورت میں بھی اس قاتل کو سزا دی جائے گی اس لیے کہ یہ ایک ریاستی جرم ہے۔ لیکن (لمحہ فکریہ یہ ہے کہ) شریعت اسلامیہ میں اس حد تک گنجائش رکھی گئی ہے کہ اگر مقتول کے گھر والےقاتل کو معاف کر دیں تو مجرم کو بخشا جا سکتا ہے۔
سزاؤں کے تعلق سے شریعت اسلامیہ میں تیسرا تصور ‘حدود’ کا ہے حدود ان سزاؤں کو کہتے ہیں جن کے بارے میں کچھ خاص جرائم کے لیے قرآن میں بالکل واضح صراحت موجود ہے۔ اس میں زنا، لوگوں پر اور خاص طور سے عورتوں کی جنسی پاکبازی پر چھوٹا الزام لگانا اور چوری وغیرہ بھی شامل ہیں۔ یہ تمام جرائم ایسے ہیں جن کی سزائیں سخت ہیں اور ان کا تعین قرآن میں کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود اس میں بخشش اور درگزر اور یہاں تک کہ بازآبادکاری کے لیے حوصلہ افزائی کی بھی گنجائش ہے۔ قرآن کریم کا فرمان ہے:
‘‘بیشک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز رہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کئے جائیں یا پھانسی دیئے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیئے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لئے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لئے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے’’۔ (5:33)
لیکن اس کی اگلی آیت میں یہ بیان ہے کہ:
‘‘مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی، سو جان لو کہ اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے’’۔ (5:34)
بازآبادکاری کا یہ سب سے اچھا طریقہ ہے۔ یہ جرائم کو ختم کرنے کا ایک انتقام پرور طریقہ نہیں بلکہ جرائم کو کم کرنے کا ایک مثبت راستہ ہے۔ ایک اچھے معاشرے کی تعمیر کے لیے اس سے لوگوں کے اندر خلوص اور صفائے قلب و باطن کرنے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
شریعت اسلامیہ کے تعلق سے پوری دنیا میں پائے جانے والے یہ چند منفی تصورات ہیں اور اس کی وجہ صرف میڈیا ہی نہیں بلکہ نام نہاد ‘‘مسلم’’ ممالک جس طرح اس کا غلط استعمال کرتے ہیں وہ بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ انہوں نے شریعت اسلامیہ کا اس قدر غلط استعمال کیا ہےکہ یہ انتہائی انتقام پرور اور غیر انسانی لگتا ہے، جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔
(انگریزی سے ترجمہ: مصباح الہدیٰ، نیو ایج اسلام)
URL of Part 1:
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/sharia-its-objectives-(part-1)/d/35452URL for part 2:
https://newageislam.com/islamic-sharia-laws/sharia-its-objectives-(part-2)/d/35495
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/sharia-its-objectives-(part-2)/d/35881