غلام غوث ، نیو ایج اسلام
15 مئی 2013
اسلام تمام مذاہب کے درمیان پر امن بقائے باہم کو فروغ دیتا ہے۔ تمام بڑے مذاہب کی تعلیمات تقریباً یکساں ہیں ۔ لیکن مذاہب کی غلط تشریح اختلافات اور تنازعات کو ہوا دیتی ہے ۔ ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ مذاہب کےنام نہاد لیڈران اشتعال ، انتہا پسندی، جارحیت اور نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں اور یہی نہیں بلکہ وہ تشدد اور خونی تصادم کو قانونی جواز بھی فراہم کرتے ہیں ۔اکثر جبری سیاست کے خواب کو عملی جامہ عطا کرنے کے لئے مذہب کا غلط استعمال کیا جاتا ہے ۔ ماضی سے لیکر دور حاضر تک مسلسل ہم اس بات کا مشاہدہ کر سکتے ہیں کہ اکثر یہ پرتشدد سرگرمیاں مذہب کے نام پر انجام دی جاتی ہیں ۔
ہم نے سائنس میں بڑی کامیابیاں حاصل کر لی ہیں لیکن کمزور اقوام کو تحفظ فراہم کرنے میں ہم بری طرح ناکام ہو چکے ہیں ۔ ایسے اسلحے اور گولےبارود بنائے جا رہے ہیں جن سے نہ صرف یہ کہ کسی کمزور ملک کو تباہ کیا جا سکتا ہے بلکہ اس سے پوری انسانیت کا بھی خاتمہ ممکن ہے۔ لہٰذا ہم اسلام میں داخلی اور خارجی سطح پر جنگ و جدال کا حل پیش کرنے میں نا کام ہیں ۔ نتیجتاً مذہبی عدم رواداری کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی اور انسانوں کے قتل و غارت گری کے واقعات سامنے آرہے ہیں ۔ خاص طور پر عراق، افغانستان ، شام ، فلسطین اور پاکستان جیسے ممالک اس معاملے میں سر فہرست ہیں جہاں دہشت گردی ، مذہبی انتہا پسندی اور شیعوں ، احمدیوں اور دوسری مذہبی اقلیتوں کی نسل کشی اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی ثقافتی ورثے کا انہدام اور ان کی تباہی بھی اپنے عروج پر ہے ۔
اس مذاکرے سے مذاہب کے مہلک عناصر کو شکست دیتے ہوئے انتہائی ہوش مندی کے ساتھ پیش آنے کی ضرورت ہے ۔ مذاہب کے درمیان معمار امن عناصر کو فرو غ دینا چاہئے ۔ بہ الفاظ دیگر مذہبی نمائندوں کو امن کی تعمیر میں اپنا اخلاقی کردار ادا کرنا چاہئے ۔ اور باقی تمام لوگوں کو امن کی ترجمانی میں مذہبی قائدین کا تعاون کرنے کے لئے مذہبی عوامل کا ادراک کرنا چاہئے ۔
پوری دنیا میں مذہبی رنگا رنگی ہم سے ایک سے دوسرے کے تئیں رواداری اور احترام کا مطالبہ کرتی ہے ۔ قرآن و حدیث کا گہرا مطالعہ اس مطالبہ کو پورا کرتا ہے ۔
قرآن کا فرمان ‘‘اور اگر اﷲ چاہتا تو تم سب کو (ایک شریعت پر متفق) ایک ہی امّت بنا دیتا لیکن وہ تمہیں ان (الگ الگ احکام) میں آزمانا چاہتا ہے جو اس نے تمہیں (تمہارے حسبِ حال) دیئے ہیں، سو تم نیکیوں میں جلدی کرو۔ اﷲ ہی کی طرف تم سب کو پلٹنا ہے، پھر وہ تمہیں ان (سب باتوں میں حق و باطل) سے آگاہ فرمادے گا جن میں تم اختلاف کرتے رہتے تھے’’(5:48)
بہت سےلوگ یہ سوچتے ہیں کہ ہم کس طرح رواداری اور امن کو فروغ دے سکتے ہیں درآں حالیکہ مختلف مذاہب کے درمیان معتقدات کے معاملے میں بے شمار اختلافات ہیں ۔
اللہ عزوجل کا فرمان ہے ‘‘آپ فرما دیجئے: اے کافرو!،میں ان (بتوں) کی عبادت نہیں کرتا جنہیں تم پوجتے ہو،اور نہ تم اس (رب) کی عبادت کرنے والے ہو جس کی میں عبادت کرتا ہوں،اور نہ (ہی) میں (آئندہ کبھی) ان کی عبادت کرنے والا ہوں جن (بتوں) کی تم پرستش کرتے ہو،اور نہ (ہی) تم اس کی عبادت کرنے والے ہو جس (رب) کی میں عبادت کرتا ہوں،(سو) تمہارا دین تمہارے لئے اور میرا دین میرے لئے ہے،’’ یقیناً یہ دنیا کا سب سے سیکولر نظریہ ہے ۔
جہاں تک مسلم دنیا کا تعلق ہے انہیں ہمیشہ قرآن کی یہ آیت یاد رکھنی چاہئے :
‘‘دین میں کوئی زبردستی نہیں’’۔(2:256)
مسلمان تمام نبیوں پر ایمان رکھتے ہیں اور انہیں کسی بھی نبی اور مذہب کے تئیں ذرا سی بھی بے ادبی اور گستاخی کی اجازت نہیں ہے ۔یہ آیت مسلمانوں کو جبر و اکراہ سے روکتی ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو جبر و تشدد کے ساتھ اس زمین پر اسلام قائم کرنے کی اجازت نہیں ۔اور قرآن کا یہی اصول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات میں نمایاں تھا ۔ یہ عظیم آیت تمام مذہبی کمیونٹیز کو آزادیٔ عبادت کی ضمانت دیتی ہے ۔ اس سے اس قرآنی آیت کی حمایت ہوتی ہے جس میں اللہ کا فرمان ہے کہ اس نے لوگوں کو اقوام اور قبائل میں مختلف کر دیا تاکہ وہ ایک دوسرے کو جان سکیں اور مہربانی اور فراخ دلی کے ایک ہی مزاج کے ساتھ آپس میں معاملات انجام دے سکیں ۔
یہی وجہ ہے کہ مرکزی دھارے میں شامل مسلمان دوسرے مذاہب کو کھلے دل سے قبول کرتے ہیں چاہے اسلامی نقطہ نظر سے ان کا مذہب انہیں کتنا ہی غلط کیوں نہ لگے ۔
ہم اس واقعہ سے بھی اچھی طرح واقف ہیں کہ جب دوسرے مذہب کے ماننے والوں کا ایک وفد مدینہ کے مسجد نبوی میں آیا ۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کرنے سے پہلے انہوں نے مسجد نبوی میں ہی اپنی عبادت ادا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا جبکہ نماز کا وقت ختم ہو رہا تھا ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں پہلے اپنی عبادت ادا کرلینی چاہئے، نماز کا انتظار کیا جا سکتا ہے ۔اسی طرح ایک اور موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر مسلم کے جنازے کے احترام میں کھڑے ہو گئے اور فرمایا کہ ‘‘ اداب مجلس کے معاملےمیں مذہب سے کوئی فرق نہیں پڑتا ’’۔
بھگود گیتا میں ایسے بہت سارے مقامات ہیں جہاں کرشن نے ارجن کو دشمنوں سے لڑنے کا حکم دیا اگر چہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں ۔ اس میں دھرم کے لئے لڑائی کو فروغ دیا گیا جسے قرآن کی زبان میں جہاد کہا جاتا ہے ، لیکن آج اس کے تعلق سے غلط فہمی پائی جاتی ہے اور اس کی غلط تشریح کی گئی ہے ۔ مختلف مذاہب میں بنیادی اقدار مختلف نہیں ہوتے ۔ جو لوگ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ ناانصافی کی خواہش نہیں کر سکتے اس لئے کہ خالق انہیں دوسروں کے ساتھ مہربانی کا معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے ۔
اسلام تمام مسلمانوں پر دوسرے مذاہب کے احترام کو لازمی قرار دیتا ہے ۔ خود مسلمانوں کو بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ دوسرے لوگ بھی اسلام کو سمجھیں اور اس کا احترام کریں ۔انسانوں کی تخلیق کا بنیادی مقصد یہی ہے جس کی وضاحت قرآن (11.7) میں خود اللہ نے کی ہے ۔ اللہ کا فرمان ہے کہ اس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تاکہ انسانوں کو آزمایا جا سکے کہ کس کا اخلاق اچھا ہے ۔ اچھے اعمال میں انسانوں کے باہمی مسابقہ کو فروغ دینا اللہ کا مقصد ہے تاکہ انسان اس دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ بنا سکے ۔
جب خطے میں کسی خاص گروپ کے تئیں غربت و افلاس ، فساد ، امتیازی سلوک اور غیر منصفانہ رویہ اپنایا جاتا ہے تو ان میں مذہبی تشدد کا رجحان تیزی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ۔ ایسے وقت میں دوسرے مذاہب کے بارے میں علم اور ان کے اقدار اہم پہلو ہوتے ہیں اور ان پر تمام لوگوں کے ذریعہ روشنی ڈالے جانے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تمام مذاہب کی تعلیمات مساوات اور انصاف کی تعلیم دیتی ہیں ۔ تاکہ وہ ایک ساتھ مل کر ہر قسم کے جبر و تشدد کا مقابلہ کر سکیں خواہ ان کا تعلق اقتصادیات، سماجیات یا سیاسیات سے کیوں نہ ہو ۔
آج اکثر لوگ دوسروں کے بارے میں فیصلہ اپنے علم کے ذریعہ نہیں بلکہ صرف اندازے کے مطابق کرتے ہیں ۔دوسرے مذاہب کے بارے میں ہماری سمجھ بوجھ حقائق اور سچائی سے کوسوں دور ہے ۔ یہاں تک کہ بہت سارے لوگ خود اپنے مذہب کے بنیادی اصول سے ناواقف ہیں ۔ نتیجتاً غلط فہمیاں برے کاموں کا سبب بنتی ہیں ۔ لہٰذا بین المذاہب مکالمے ہمارے اندر اور دوسروں کے اندر بھی دوسرے مذاہب کے تئیں صحیح سمجھ بوجھ پیدا کرتے ہیں ۔
لہٰذا آج عالمی سطح پر ان سلگتے ہوئے مسائل کا حل پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ امن کے اصول کو فروغ دینے کے لئے بین المذاہب تعاون کو فروغ دینا ضروری ہے ۔ تمام مذہبی لوگوں کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایک دوسرے کو مذہبی حریف نہیں بلکہ دوستوں کے طور پر قبول کریں ۔
اب ہم تمام مذاہب کے بین المذاہب پہلوؤں پر توجہ کرتے ہیں ۔ اللہ تمام انسانوں کو ‘‘کلمۃٍ سواءٍ بیننا و بینکم ’’ یعنی سچائی اور مشترکہ امور کے تعاقب میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دینے اور کندھے سے کندھا ملانے کا حکم دیتا ہے ۔ ہر انسان خدا کی مخلوق ہے ۔ اس کے مذہب کا تعلق خدا اور اس شخص سے ہے ۔ اب وہ وقت آ پہنچا ہے کہ ہم سب مل کر آپس میں اتفاق و اتحاد پیدا کریں اور معنیٰ خیز گفتگو اور بحث و مباحثہ کے ذریعہ ایک دوسرے کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں ۔ اگر ہم ایسا کریں گے تبھی جا کر ہم ہر قسم کی حیوانیت کی مخالفت کرنے کے قابل ہوں گے اور امن ، انصاف اور اخوت و محبت قائم کرنے کے لئے جدو جہد کا آغاز کر سکیں گے ۔
ہر حساس انسان کو تصادم سے بچنا چاہئے ۔بلکہ انہیں بین ثقافتی اور بین المذاہب سطح پر امن قائم کرتے ہوئے گفتگو کی دعوت دینی چاہئے ۔ وہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان مشترکہ اقدار کو فروغ بھی دے سکتے ہیں اس لئے کہ ہر انسان خوش رہنا چاہتا ہے ۔تمام اقوام عالم کے درمیان اس وقت تک امن قائم نہیں ہو سکتا جب تک مذاہب کے درمیان امن قائم نہ ہو جائے ۔ اسی طرح مختلف مذاہب کے درمیان امن اس وقت تک دیر پا نہیں ہو سکتا جب تک معتبر اور مستند بین المذاہب مکالمے کا انعقاد نہ کیا جائے ۔
(انگریزی سے ترجمہ : مصباح الہدیٰ ، نیو ایج اسلام)
URL for English article:
https://newageislam.com/interfaith-dialogue/shared-values-among-religions-call/d/11584
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/shared-values-among-religions-call/d/34549