مولانا عبدالحمید نعمانی
21 اکتوبر، 2014
شنکر آچاریہ بنام سائیں بابا جو تنازعہ شروع ہوا تھا وہ بڑھتے بڑھتے سپریم کورٹ تک پہنچ گیا،لیکن ان کا فیصلہ سپریم کورٹ یا دیگر عدالتوں میں ہونے کاکوئی معنی مطلب نہیں ہے، اس لیے سپریم کورٹ نے مفاد عامہ کی ایک رٹ سماعت کرتے ہوئے جس طرح کابتصرہ کیا ہے ، وہ بالکل توقع کےمطابق ہے، جب ( ماہ جون 2014 میں) شنکر آچاریہ سوامی سرو پانند نے کچھ باتوں کو بنیاد بناکر سائیں بابا کے متعلق بیان دیا تھا تو راقم سطور کی بھی کئی ٹی وی چینلوں نے مذاکرات میں حصہ لینے کی دعوت دی تھی، مذاکرات میں دونوں فریق کی باتیں اور دلائل سننے کے بعد دونوں کی نظریاتی و فکری کمزوریاں صاف صاف نظر آئیں ، شنکر آچاریہ نے ہری دوار کے قیام کے دوران میں سنت سائیں بابا کی پوجا سےر وکنے اور ان کے نام پر مندروں کی تعمیر او ران میں دیگر ہندودیوں دیوتاؤں کی مورتیوں کےساتھ سائیں بابا کی مورتی رکھنے کی مخالفت کی تھی اس سے سائیں بابا کے بھگت مشتعل ہوگئے، انہوں نے سوامی سروپ آنند کا پتلا نذر آتش کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس تھانوں میں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے سے لے کر سپریم کورٹ میں ان گزراشات پر مبنی رٹ میں داخل کر کے امن و قانون کو بنائے رکھنے کامطالبہ کیا تھا کہ سائیں بابا کی مورتیاں مندر سے نہ ہٹائی جائیں اور اس کے متنازعہ بیان جاری کرنے پر روک لگائی جائے ، سروپانند سرسوتی سوال اٹھاتے ہیں کہ پھر سائیں کو مسلمان کیوں نہیں مانتے پوجتےہیں، وہ ہندو مسلم اتحاد کی علامت کیسے ہوسکتے ہیں۔
اس کے علاوہ شنکر آچاریہ اور ان کے پیروکار اور دیگر جن باتوں کے حوالے سے کہتے ہیں کہ اس لیے سائیں بابا قابل پرستش نہیں ہوسکتے ہیں، ان میں یہ بھی ہے کہ وہ ایک مسلمان فقیر اور گوشت خور انسان تھے نہ کہ اوتار یا دیوتا ، مختلف ذرائع ابلاغ کے ساتھ ٹی وی کیمرے کے سامنے اور مذاکرات جن میں راقم سطور بھی شریک تھا ، میں یہ تک کہا گیا کہ سائیں بابا ایک طوائف زادہ تھے لہٰذا جب وہ بھگوان یا اوتار یا دیوتا نہیں ہیں تو ان کو قابل پرستش مان کر کیوں پوجا جائے ، ان کو بھگوان سمجھتے ہوئے پوجنا سناتن دھرم کی تعلیمات و احکام کے خلاف ہے، ظاہر ہے کہ مذکورہ قسم کے ساری باتیں عقیدہ اور نظریاتی و علمی و روحانی بحث و تحقیق کے ذیل میں آتی ہیں، ان پرکوئی بھی عدالت فیصلہ کیسے کرسکتی تھی، اس معاملے میں سپریم کورٹ کی طرف سے مداخلت سے انکار پر متعلقہ فریقوں میں کئی جہات سے مزید تنازعات و مباحث کا دروازہ کھلے گا، اس کاامکان اس لیے بھی زیادہ پیدا ہوگیا ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں کو بنچ نے اپنے تبصرہ میں یہ بھی کہا ہے کہ عدالت آواز دبانے والا کوئی آرڈر نہیں دے سکتی ہے کہ ہر آدمی کو اپنا نظری و عقیدہ منتخب کرنے کا حق ہے، ہمارا تجزیہ اور خیال یہ ہے کہ اگر صحیح یا غلط، سائیں بابا کے ساتھ مسلم نام نہ جڑا ہوتا تو شنکر آچاریہ سروپا نند سرسوتی اور ان کے پیروکار ، سائیں پوجا وغیرہ کی اتنی شدت سے مخالفت نہ کرتے، وہ سائیں بابا کے ساتھ مسلم کی بات کرکے ہندو اکثریتی سماج کو ایک مخصوص سمت میں لے جانا اور ایک خاص مقام پر کھڑا کرنا چاہتے ہیں ، اور اس کے اندر پیدا شدہ نظریاتی و تہذیبی بحران اورطبقاتی تقسیم او رسماجی اونچ نیچ کو لے کر جو سوالات شدت کے ساتھ سامنے آرہے ہیں ،ان سے توجہ بھی ہٹانامقصود ہے، ورنہ اصلا سائیں کی پوجا اور ان کے نام مندروں کی تعمیر سے مسلم سماج کا سرے سے کوئی لینا دینانہیں ہے تاہم سائیں بابا کے سلسلے میں کئی امور ایسے ہیں جو ہماری توجہ مبذول کراتے ہوئے کچھ باتوں کی تہہ میں جانے کی دعوت دیتے ہیں۔
ان کے متعلق جو بھی تحریری و زبانی مواد او رمعلومات ہیں ان سے یقینی طور سے پتا نہیں چلتا ہے کہ وہ کون تھے اور سلسلہ خاندان و نسب کیا تھا؟ دستیاب مواد پر یہ حتمی و قطعی فیصلہ بھی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سائیں بابا ہند و یا مسلمان تھے ، ان کے بھگت عموماً اس کے منکر ہیں کہ وہ مسلمان تھے، البتہ وہ ایک سنت، فقیر ضرور تھے، جو ہندوؤں ، مسلمانوں میں فرق نہیں کرتے تھے او رکہتے تھے کہ ‘‘ سب کا مالک ایک ہے’’ لیکن کچھ باتوں سے ان کے صوفیانہ تصور و فکر او رمسلم روایات سے وابستگی بھی ظاہر ہوتی ہے، سائیں بابا نے نہ تو خود کو قابل پرستش کبھی سمجھا اور نہ ہی لوگوں کو اپنی پوجا کی ترغیب و دعوت ہی دی ہے، ان کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پانچوں وقت کی نماز پڑھتے تھے، زندگی کا بڑا حصہ ا س مسجد کے حجرے میں بسر کیا، جس کی تعمیر انہوں نے خود کی تھی اور ہندو مسلم اتحاد کی علامت کے طور پر اسے دوار کا مائی مسجد کا نام دیا تھا، قرآنی آیات کے ساتھ گیتا اور ویدوں کے اشلوک بھی یاد تھے، طبی معلومات بھی خاصی تھی ، یہ کہا جاتا ہے کہ وہ مالیگاؤں کی شاہ برادری سے تھے اور اصل نام عبدالرحمٰن تھا، وہ جھانسی کی رانی کی فوج میں تھے جب انگریزوں کے مقابلے میں رانی شکست ہوئی تو وہ دل برداشتہ ہوکر فوج سے الگ ہوکر جنگل جنگل بھٹکتے ہوئے احمد نگر پہنچ گئے اور شرڈی کے لوگوں کی عقیدتوں کا مرکز بن گئے، شرڈی اور اس کے قرب و جوار میں مسلم آبادی بہت کم ہے،سائیں بابا کی فقیرانہ زندگی او ر کراماتی مظاہر سے ہندو اکثر یتی سماج کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کی طرف مائل ہوگئی ، گرچہ ان کے انتقال کے بعد سے آج تک ان کو بھگوان مان کر پوجا جارہا ہے ، لیکن ان کےمتعلق جو بات متفقہ طور سےمانی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ سائیں بابا پوری زندگی خدا کی و حدانیت کااعلان کرتے ہوئے یہی کہتے رہے کہ سب کا مالک ایک ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ سائیں بابا کو معبود، بھگوان بنا کر پوجنے کاسلسلہ کس نے شروع کیا، اور ایسا کس ذہنیت و مقصد سےکیا گیا، کہیں یہ تصوف اور صوفیانہ سلسلے اور صوفیہ کا ہندو کرن تو نہیں ہے، ایسا ہندوستان کی برہمن وادی چالوں اور روایات کو دیکھتے ہوئے کوئی بعید از امکان بھی نہیں ہے ، گوتم بدھ اور بودھ تحریک کو اصل جگہ سے ہٹانے کی مثال ہمارے سامنے ہے، سائیں بابا سے جب کوئی کہتا کہ فلاں کام کیسے ہوگا تو وہ جواب میں کہتے تھے کہ اللہ مالک ہے، ان کے انتقال کے بعد مسجد کے قریب ہی دفن کیا گیا تھا ۔
سوال ہے کہ ان کے مزار کو مندر کیسے اور کس نے بدلا، سائیں بابا کو مسلمان فقیر کے بجائے، ہندو دیوتا بنا کر پیش کرنے کامقصد کیا تھا، ان کے نام کے ساتھ رام لگا کر سائیں رام کیوں کہا گیا ؟ انہوں نے تو کبھی ہندو بھگوان ہونے اور اوتار لینے کی بات نہیں کہی تھی، وہ خود کو اللہ کا بندہ ہی کہتے تھے ، تو بندہ ، معبود اور بھگوان کیسے ہوسکتا ہے ، یہ کم از کم اسلامی تصور اور مسلم روایات کے تو بالکل خلاف ہے، تقریباً سو سال سے ان کے مزار کو مندر میں بدل کر اصل شناخت کو چھپانے کی کوشش کے پس پشت کیا مقصد کار فرما ہے، اس کا جواب شرڈی مندر کی آمد نی اور اور چڑھاوا میں تلاش کیا جاسکتا ہے، قبر کو سمادھی اور سائیں بابا کی مورتی نصب کرنا اور پھر ملک میں جگہ جگہ اور ملک سے باہر بھی مورتیاں مجسمے نصب کرنے کےعمل میں اصل مقصد کو تلاش کرنے کی ضرورت ہے، مذکورہ باتوں میں شنکر آچاریہ نےاپنے مقاصد کو تلاش کرنے کی کوشش کی ہے اور سازش کی تھیوری میں جان اور دم پیدا کرنے کے لیے مسلمان فقیر کا ٹکراؤ بھی جوڑ دیا ہے ، مگر سائیں بابا کے ہندو مسلم اتحاد کی علامت کی بات اتنی وزن دار ہےکہ اس سے شنکر آچاریہ کا طبقاتی نظام پر مبنی فلسفے کا زیادہ وزن نہیں رہ جاتا ہے اور ان کا یہ سوال بالکل بے معنی ہوجاتاہے کہ سائیں بابا ہندو مسلم اتحاد کی علامت کیسے ہوسکتے ہیں، جب کہ مسلمان ان کو نہیں مانتے پوجتے ہیں۔
اور صرف ہندو پوجتے ہیں ، سائیں بابا کے متعلق ہندو، مسلم ، سنت ، فقیر ہونے کے سلسلے میں تو سوال تحقیق اور جواب طلب ہوسکتا ہے، لیکن ہندو مسلم اتحاد اور بھائی چارہ کے سلسلے میں کوئی شبہ و سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا ہے، اور واقعہ یہ ہے کہ شنکر آچاریہ اور ان کے پیرو کار ، جن باتوں کو بنیاد بنا کر سائیں پوجا کی مخالفت کرتے ہیں، وہ سناتن دھرم اور اکثریتی سماج کی لاتعداد معبودوں کی پرستش اور لائق پر ستش بنانے کی روایات میں پوری پوری گنجائش ہے، اسی لیے اس کے اکثر مکاتب فکر اور اداروں سے وابستہ افراد نے شنکر آچاریہ کی تھیوری کی مخالفت کرتے ہوئے سائیں سے متعلق بیان کو سیاست اور سائیں مندروں ، مٹھوں پر چڑھاوے کی مالیہ سے جوڑ کر دیکھا ہے ، حتی کہ آر ایس ایس اور اس سے نظریاتی و فکری وابستگی رکھنے والے اہل قلم ، صحافیوں اور دانشوروں نےبھی شنکر آچاریہ کی زبردست مخالفت کی ہے، سنگھ کے ہندی، انگریزی ترجمان پانچ جنیہ اور آرگنائزر میں اس کے اعلیٰ منصب داروں نے باقاعدہ تحریر طور سے سائیں مخالف تھیوری کی تردید و تغلیط کی ہے ، ایک اعلیٰ منصب دار نے تو والمیکی رامائن کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ رام چندر خود کو انسان کہا تھا،بھگوان نہیں، پھر بھی لوگ انہیں پوج رہے ہیں تو پھر سائیں بابا کو پوجنے سے سناتن دھرم کس طرح خطرے میں پڑ سکتا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ لاتعداد اشیاء اور دیوی دیوتا اور عظیم شخصیات کی پوجا ہوتے ہوئے، سائیں پوجا کی مخالفت کی کوئی اصولی بنیاد نظر نہیں آتی ہے۔
اس سلسلے میں آریہ سماج والے البتہ اپنے اصول کے مطابق کثرت پرستی کی مخالفت کا اصولی جواز رکھتے ہیں، ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک سائیں پوجا کو تو ہم پرستی قرار دیتے ہیں، تو بات سمجھ میں آتی ہے ، لیکن اگر کوئی سناتن دھرمی سائیں جیسی شخصیت کی پوجا کی مخالفت کرے گا تو سوال و شبہ پیدا ہونا ایک فطری بات ہے، سوامی سروپانند سرسوتی سوسال کے ہورہے ہیں، اور تقریباً اتنے دنوں سے ہی سائیں پوجا سے گریز اور خاموشی کس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے، اگر سائیں بابا کے بھگتوں کے سامنے کچھ سوالات ہیں کہ جب بابا نے بھگوان یا اوتار ہونے کا نہ دعویٰ کیا تھا، اور نہ اپنی پوجا پر ستش کی دعوت و ترغیب دی تھی تو پھر ان کو کس بنیاد پر قابل پرستش اور بھگوان بنا کر پوجا جارہا ہے ، تو شنکر آچاریہ کے سامنے بھی یہ سوالات ہیں کہ معبود وں کی کثرت اور پوجے جانے کی موجودگی میں ایک سائیں پوجا کی ہی مخالفت کے پس پشت کیا مقصد و سیاست ہے، اگر سائیں بابا کا ہندو دھرم شاستروں میں کوئی ذکر نہیں ہے اور نہ اوتار لینے کی بات ہے تو اکثریتی سماج میں جتنی چیزوں کی پوجا کی جارہی ہے اور جن جن کو قابل پرستش سمجھ کر پوجا جارہا ہے ، ان کو بطور معبود یا اوتار کے دھرم شاستروں میں ذکر ہے؟ آدمی شنکر کے ادویت وادی ( وحدت الوجودی) اصول کے مطابق جب پوری کائنات میں حق اورسچ صرف ایک ہے، تو پھر کروڑوں قابل پرستش کیسے ہوسکتے ہیں ، اگر ادویت واد کا یہ معنی مطلب لیا جائے کہ ہر ذرّے اور چیز میں بر ہم اور خدا ہے تو یہ تھیوری بے معنی ہوجاتی ہے کہ سب فریب او روہم ہے ، اور حق اور سچ صرف ایک ہے، پہلے معنی کے حساب سے سائیں کو باہر کیسے نکالا جاسکتا ہے ، یہ اہل علم و تحقیق جانتے ہیں کہ ادویت واد اور کائنات سے متعلق ، آدمی شنکر آچاریہ کے تصور و تھیوری پر زبردست اعتراضات و تنقید ہوئی ہیں، و حدت والوجود ( ادویت واد) کے نظریے میں برہمن اور شودر کی تقسیم کے لیے کیا کوئی جگہ ہے؟
اگر کائنات اور اس کی اشیاء کو بے و جود اور وہم تسلیم کرلیا جائے تو انسانی جد و جہد اور تعمیر جہاں کی کوشش لا حاصل او ربے معنی ہوجائے گی، اس کے مدنظر آچاریہ رجنیش اور آچاریہ سوامی دھیان سندیش نے شنکر آچاریہ کو ہندوستان کی بد قسمتی قرار دیتے ہوئے سب سے برباد آدمی بتایا ہے، ( دیکھیں ڈاکٹر امبیڈکر اور اوشو، از ڈاکٹر سندیش بھالیکر صفحہ 79 تا 82 مطبوعہ دہلی) اسی طرح مدرا راکشش نے اپنی کتاب ‘‘ استری دلت اور جاتیہ دنش ’’ میں شامل ‘‘ تاریکی کے خالق ’’ کے عنوان سے ایک تحریر میں آدی شنکر آچاریہ کے ساتھ موجودہ شنکر آچاریوں پر بہت سوالات کے ساتھ سخت تنقیدات کی ہیں، ان کا جواب آج تک نہیں دیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں اس سناتن دھرم کی مقبولیت میں مسلسل کمی آرہی ہے ، خاص طور سے نئی نسل اس سے دور ہورہی ہے ، اور اس کی ایک بڑی تعداد سائیں بابا وغیرہ کی طرف جارہی ہے، 1980 سے اس رجحان میں تیزی آئی ہے، اس کے متعلق میڈیا میں بہت کچھ آچکا ہے ، اسی سے متاثر ہوکر شنکر آچاریہ وغیرہ نے سائیں بابا کے ساتھ مسلم کی بات کاٹکڑا جوڑ کر معاملے کو دوسرا رخ دینے کی کوشش کی ہے، لیکن ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے اصل سوالات نہ تو ختم ہوں گے او رنہ اصل صورت حال میں بنیادی تبدیلی آئے گی ۔ ملک کی عدلیہ کو اس کا احساس ہے کہ جس نوعیت کے مسائل ہیں وہ عدالتوں سے حل نہیں ہوسکتے ہیں، جب تک کہ مذہبی سماجی اور فکر عقیدہ کی جہت سے ان پر غور و فکر کر کے ایمانداری سے حل کی طرف نہیں بڑھا جائے گا، شنکر آچاریہ بنام سائیں نوعیت کےتنازعات میں بہت سی باتیں ایسی ہیں، جن پر آنے والے دنوں میں مزید بحث و گفتگو ہوگی، اس سلسلے میں تھانہ، کچہری اور عدالتوں میں معاملے کو لے جانے سے کوئی زیادہ مثبت اوربہتر نتائج نہیں نکل سکتے ہیں، بلکہ مثبت بنیادوں پر سنجیدگی سے دلائل اور حقائق پر مبنی بحث و گفتگو ہی زیادہ نتیجہ خیز ہوگی۔
21 اکتوبر، 2014 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/shankarayacharya-vs-sai-baba-supreme/d/99635