شکیل شمسی
کبھی مسلکی اختلاُفات صرف شیعہ سنی تک محدود تھے، پھر یہ آگے بڑھ کر وہابی خانقاہی کی حدوں میں پہنچے ، اختلافات کاکارواں یہیں نہیں ٹھہرا اس نے بریلوی دیوبندی کا رنگ اختیار کیا، لیکن اب یہ کارواں ایسی پر خار راہوں کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں امت مسلمہ کی تکالیف میں مزید اضافہ ہونا یقینی ہے، جی ہاں ان دنوں سو شل میڈیا پر اجمیر کے صوفیوں اور اعلیٰ حضرت کے مریدوں کے درمیان زبانی جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ملک کی دو بڑی خانقاہوں یعنی کچھوچھہ شریف اور اجمیر شریف کے درمیان بھی اختلافات کو ہوا دینے والے میسیج خوب وائرل ہورہے ہیں۔ ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی حدوں کو پار کرتے ہوئے بات یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ کچھ ویڈیوز صرف اس لئے جاری کئے گئے ہیں کہ دوسرے مسلک کو خارج از اسلام، کافر، مشرک ، بد عقیدہ اور بھٹکا ہوا قرار دیا جائے ۔ ایک دوسرے کو دھمکیاں دینے میں بھی کوئی کسی سے پیچھے نہیں ہے، یہ بھی دھونس جمائی جارہی ہے کہ ہمارے مسلک کے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دوسرے مسلک والوں کے لئے مصیبت کھڑی ہوسکتی ہے اور اب تو صورتحال اتنی سنگین ہوگئی ہے کہ ایک گروپ نے دوسرے گروپ کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کے لئے دہلی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا یا ہے ۔ ظاہر ہے کہ جگ ہنسائی کے مواقع تو ہم لوگ خود ہی فراہم کرتے آئے ہیں دنیا کو ، تو یہ ایک موقع اور سہی۔ اس وقت ملت اسلامیہ جن سنگین حالات سے دوچار ہے اس میں ضرورت تو اس بات کی تھی کہ ہر مسلم بستی سے اتحاد اتفاق کا پیغام دنیا میں بھیجا جاتا، تاکہ سب کو معلوم ہوتا کہ ہم ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں، مگر افسوس صد افسوس کہ کچھ لوگ یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس ملت کا شیرازہ اتناکمزور ہے کہ ہوا کا کوئی بھی جھونکا اس کے اوراق کو ہوا میں بکھیر سکتا ہے۔
جو لوگ سوشل میڈیا پر مباحثوں میں مصروف ہیں ان سے یہ سوا ل کیا جانا چاہئے کہ کیا چودہ سو ال پرانے تنازعات کو آج حل کیا جاسکتا ہے؟ کیا بحث مباحثے او رمناظرے بازی سے کوئی فرقہ اپنا عقیدہ بدل دے گا؟ کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنے مسلک کی تعریف و ستائش تو کریں، لیکن دوسرے فرقے کی توہین و تضحیک نہ کریں؟ کیا دوسرے کو کافر کہے بغیر ہمارا اسلام ثابت نہیں ہوسکتا؟ کیا دوسرے کے عقیدوں پر سوالیہ نشان لگائے بغیر ہمارے عقیدے مکمل نہیں ہوسکتے؟ قبر میں ہمارے عقیدے کے بارے میں ہم سے سوال ہوں گے یا پاس میں مدفون دوسرے مسلمان کے عقیدے کے بارے میں منکر نکیر ہم سے پوچھیں گے ؟ جب ہم ہی اپنے عقیدے او راپنے عمل کے ذمہ دار ہیں تو پھر دوسرے کے لئے ہم کیوں پریشان ہیں؟ کیوں ہم دوسرے کو راہ حق سے بھٹکا کر کے سکون محسوس کرتے ہیں؟ کیوں ہم ایک دوسرے کو اسلام سے خارج کرنے کا موقع ڈھونڈا کرتے ہیں۔ ذرا کبھی ٹھنڈے دل سے غور کیجئے ہمارے ہندوستان میں کتنے فرقے ایسے ہیں جو کہتے ہیں ہم ہندو نہیں لیکن ہندوتو کے علمبردار ان کو ہندو قرار دینے پر مسلسل بضد ہیں ۔ مثال کے طور پر سکھ ، بودھ اور جین فرقے ہندو نہیں ہیں مگر آر ایس ایس ان سب کو ہندو مذہب کا ہی حصہ قرار دینے پر بضد ہے ، یہاں تک کہ کرناٹک میں لنگایت نے کہا وہ ہندو نہیں ہیں لیکن سنگھ پریوار ان کو ہندو ازم سے الگ نہیں مانتا ،مگر اس کو مسلمانوں کی بدقسمتی کے سوا کیا کہا جاسکتا ہے کہ ان کے یہاں مختلف فرقے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں مگر دوسرے فرقے کہتے ہیں تم کافر ہو۔
بات تو یہاں تک پہنچ گئی کہ باقاعدہ طور پر ایک تکفیر ی فرقہ وجود میں آگیا جو اپنے علاوہ تمام مسلمانوں کو کافر کہتا ہے ۔ خدا کا شکر ہے کہ ہندوستان میں ابھی اس فرقے کا وجود نہیں ہے۔ لیکن کفر و شرک کے فتاویٰ جاری کرنے والی فیکٹریا ں یہاں بھی کافی دنوں سے چل رہی ہیں ۔ ہمارا تو یہی کہنا ہے کہ مسلمانوں کے اختلافات کو مدرسوں ، مسجدوں، خانقاہوں، درگاہوں، امام باڑوں تک ہی محدود رکھا جائے اس کو سوشل میڈیا کے ذریعہ نفاق و فساد کی شکل دے کر اپنی اپنی بستیوں میں نہ پہنچا یا جائے تو بہتر ہے۔ مسلکی معاملات میں عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹانے کے بھی بہت سنگین نتائج ہوسکتے ہیں ، یہ سلسلہ چلا تو سارے ملک کے میڈیا کو مسلمانوں کا مذاق اڑانے کا ایک اور مواقع مل جائے گا۔
بشکریہ انقلاب ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism