شکیل شمسی
17 دسمبر، 2014
اف میرے خدا ! کیا یہ بھی ممکن ہے ؟ کیا ایسے بھی ہوسکتےہیں مسلمان؟ کیا ایسے بھی ظالم آج دنیا میں موجود ہیں جو ننھے ننھے بچوں کو قتل کرنے کےبعد بڑے فخر سےاس کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کو تیار ہیں؟ کیا ایسابھی ممکن ہے کہ اللہ کی کبریائی اور اللہ کی عظمت کےاظہار کے لئے بار بار ادا کیا جانے والا نعرۂ تکبیر لگا کر کوئی بچوں کے درمیان خود کش دھماکہ کرسکتاہے؟ کیا ایسے لوگوں کو بھی خود کو مسلمان کہنے کا حق ہے جو بے قصوروں کو قتل کر کےاپنے ناپاک مقاصد کو پورا کرناچاہتے ہیں؟ پیر کی صبح ہوئی تو سڈنی کے ایک کیفے میں ایک درندہ کچھ بے قصور شہریوں کو یرغمال بناکر اللہ اور رسول کے نام کا پرچم لہرا کر ان کی تعلیمات کا مذاق اڑا رہا تھا ۔ منگل کی صبح کو ٹی وی کھولا تو دیکھا کہ پاکستان میں افراتفری مچی ہوئی ہے۔ برقع پوش مائیں ، چادروں سے بدن ڈھانکے اسلامی بہنیں اور چھوٹی چھوٹی بچیاں بد حواسی کے عالم میں اس اسکول کی طرف بھاگتی ہوئی نظر آرہی تھیں جہاں سے خبر آئی تھی کہ وہاں دہشت گرد گھس گئے ہیں ۔ ہر ایک کی کوشش یہی تھی کہ صرف اتنامعلوم ہوجائے کہ ان کے گھر کا چشم و چراغ تو خیرت سے ہے۔ پیشاور چھاؤنی کے علاقے میں واقع آرمی اسکول پر دن میں گیارہ بجے طالبان کے نامرد سپاہیوں نے حملہ بول کر سیکڑوں بچوں کو نہ صرف یرغمال بنالیا بلکہ جس بچے نےبھی بھاگنے کی کوشش کی اس کو گولی سے اڑا دیا۔ تقریباً ڈیڑھ سو ماؤں کی گود آن واحد میں سونی ہوگئی ، دو سو سےزیادہ بچے اسپتال پہنچ گئے۔ ان میں سے نہ جانے کتنے ایسے ہوں گے جو ہمیشہ کے لئے اپاہج ہوجائیں گے، لیکن طالبان کے چہروں پر مسکراہٹ ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ ہم نے اس لئے بچوں کو قتل کیا ہے کہ تاکہ پاکستانی حکام کو ہمارے درد کا احساس ہو۔
اصل میں دہشت گردی کی بنیاد ہی اسی فلسفے پر پڑی ہے کہ اگر کسی کے ساتھ نا انصافی ہورہی ہے تو وہ اس کا انتقام ایسے لوگوں سے لیتی ہے جن کامعاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ۔لڑائی فوج سے یا سیکورٹی فورسز کےساتھ چل رہی ہوتی ہے اور دہشت گردی کانشانہ بنتےہیں نہتے شہری، زیادتیاں حکومتیں کرتی ہیں اور قیمت وصولی جاتی ہے راہگیروں سے ، مخالفت حکومت کی کرنا مقصود ہوتی ہے، لیکن دہشت گردی ٹوٹ پڑتی ہے مسجدوں میں محوسجدہ لوگوں پر ، ظلم و زیادتی کی شکایت ہوتی ہے ایک ایسی طاقت سے جس کو زیر کرنامشکل ہوتاہے اور دہشت گردی اپنے انتقام کی آگ بجھاتی ہے بے گناہوں کے خون سے اور دہشت گردی لبادہ اختیار کرتی ہے مسلمانوں سے اور کام انجام دیتی ہے ملعونوں والے ۔ پاکستان میں ان لوگوں نے اس سے پہلے بھی نہ جانے کتنے اسکولوں کو بموں سےاڑایا، لیکن اسکول کےبچوں کو نشانہ نہیں بنایا تھا ۔ ان ہی دہشت گردوں نے ملالہ جیسی بے قصور لڑکی کو نشانہ بنایا او رجب اس کو اہل مغرب نے پناہ دی تو پاکستان کےبہت سے پڑھے لکھے جاہلوں نے بھی ملالہ کی طرح تعلیم کو فروغ دینے کی کوئی مہم نہیں چلائی تھی ، پھر کیوں ان کےپھول جیسے جسموں کو لہولہان کر دیا گیا؟ ویسے یہ بات صحیح ہے کہ اسکولوں پر حملہ کرنے کا یہ واقعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ طالبان کے ہی بھائیوں نے نائیجریا میں کئی بار اسکول بچوں کا خون بہایا ہے۔ شام میں بھی اسکول کے اندر خود کش بمبار نے گھس کر وہاں پڑھ رہے بے گناہ بچوں کو اسی طرح قتل کیا تھا ۔ انسانی تاریخ میں آج سے پہلے بھی ایک بچے کو لشکر وں کے ظلم و ستم کانشانہ بنایا گیا تھا، لیکن اس کی خاص بات یہ تھی کہ لشکر نےبچے کو قتل کرنے کے بعد اس قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی، کربلا میں امام حسین کے ہاتھوں پر علی اصغر کو شہید کیا تو اہل ستم نے یہ کہہ کر دنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی کہ حسین وقت رخصت اپنے بچے کو پیار کررہے تھے، اس لئے اتفاقاً تیر لگ گیا یعنی اہل ظلم نے جھوٹ کےذریعہ اپنے مظالم کو چھپانے کی کوشش کی لیکن بو کو حرام، طالبان، انصرہ فرنٹ اور داعش نے درندگی کی ایسی حدیں پار کردی ہیں کہ بچوں کے قتل کی ذمہ داری لینے کو بھی باعث افتخار سمجھتے ہیں ۔
17 دسمبر، 2014 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/pakistan-dipped-blood-children-/d/100524