شکیل شمسی
18اپریل،2017
مسلم پرسنل لاء بورڈ یقیناًمسلمانوں کا ایک ایسا واحد ادارہ ہے جس میں سبھی مسالک کی بھر نمائندگی ہے اور دوسری خاص بات یہ ہے کہ اس کے اندر پھوٹ نہیں ہے۔ اس کے تمام ذمہ داران ایک زبان میں بولتے ہیں ۔ اس ادارے پر مسلمانوں کی اکثریت کو اعتماد بھی ہے کہ جو کچھ یہ بورڈ کہے گا وہ ہندوستانی مسلمانوں کے حق میں ہوگا، مگرایسا لگتا ہے کہ ہندوستانی میڈیا کے زبردست دباؤ کی وجہ سے مسلم پرسنل لاء کے ذمہ داران بھی کنفیوژن کا شکار ہو کر ایسی باتیں کہہ رہے ہیں کہ جو عام مسلمان کے حلق سے نہیں اتر رہی ہیں ۔ لکھنؤ میں ہفتہ اور اتوار کوہونے والے دو روزہ کنونشن کے بعدبورڈ نے طلاق ثلاثہ کے ذریعہ بیوی کو چھوڑنے والے لوگوں کا جو سماجی بائیکاٹ کرنے کی اپیل کی ہے اس کو عام مسلمان سمجھ نہیں پا رہے ہیں او ریہ سوال کررہے ہیں کہ شریعت کے مطابق انجام دیا گیا کوئی عمل کسی پابند شریعت انسان کو بائیکاٹ کا مستحق کیسے بنا سکتا ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ ہندوستان کا قانون کیا کسی مذہب ، کسی ذات یا قبیلے کے لوگوں کو اس بات کا حق دیتا ہے کہ وہ کسی کا بائیکاٹ ( یعنی پانی بند) کریں؟ تیسرا سوال یہ ہے کہ اس شخص کا بائیکاٹ کرنے کے لئے اپیل کو ن جاری کرے گا؟ مسلم پرسنل لاء بورڈ؟ اگر ایسا ہوا تو مسلم پرسنل لاء بورڈ او رکھاپ پنچایتوں میں فرق کیا رہ جائے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ بورڈ کے ممبران اور عہد یداران طلاق ثلاثہ پر سرکار ، عدالت اور میڈیا کی طرف سے پڑنے والے دباؤ کی وجہ سے اتناپریشان ہیں کہ انہوں نے ایک شرعی معاملہ کو بھی قابل بائیکاٹ قرار دے کر فرارکا شاٹ کٹ ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔ وہاٹس ایپ پر طلاق دیئے جانے کو صحیح قرار دینا ہمارے خیال میں مناسب نہیں ہے اس سے مسلم خواتین کی مصیبتوں میں اضافہ ہوگا۔
بہر کیف بورڈ کے کنونشن میں سب سے جرأ ت مند انہ بات یہ کہی گئی کہ حلالہ غیر شرعی ہے حالانکہ یہ فیصلہ نافذ کرنے میں بھی بورڈ کو لوہے کہ چنے چبانا پڑیں گے۔ واضح ہو کہ حلالہ کااسلامی نظام طلاق ثلاثہ کے باعث ہی خواتین کے استحصال میں تبدیل ہوگیا ہے۔ حلالہ ایک مشکل عمل تھا، یعنی تین بار طلاق پا چکی ایک خاتون اگر اسی مرد سے پھر شادی کرنے پر آمادہ تھی تو اسلام نے شرط لگادی تھی کہ وہ کسی دوسرے مرد سے نکاح کرے، طلاق لے عدت کے دن گزارے اور پھر شادی کرے، لیکن اب یہ اسلامی شرط ایک گھناؤنے کاروبار میں بدل گئی ہے۔حال یہ ہوگیا کہ نکاح پڑھانے والے کچھ لوگ تو حلالہ کی سہولت دینے پر ہمہ وقت آمادہ رہتے ہیں ۔ لکھنؤ میں تو ایک ایسے صاحب ہیں جو خواتین کو حلالہ کی خدمات فراہم کرنے کے لئے اتنا مشہور ہوگئے کہ اہل محلہ ان کو مولوی حلالہ کہتے ہیں ۔ اتنا ہی نہیں اب تو طلاق شدہ خواتین کو حلالہ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے آن لائن خدمات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔ ہماری بات پر یقین نہ ہو تو گوگل سرچ پر جائیے اور Halala on lineٹائپ کیجئے آپ کو لاہور سے لے کر لندن تک اور حیدر آباد سے لے کر کراچی تک ’اسلامک حلالہ سروس‘ والی درجنوں ویب سائٹ نظر آئیں گی۔
کچھ دنوں پہلے بی بی سی نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں حلالہ کرانے والوں کی جانب سے خواتین کے جنسی استحصال ، بلیک میل او رموٹی موٹی رقمیں اینٹھے جانے کے واقعات کا ذکر کیا تھا۔ اصل میں ہمارے معاشرے کی ایک خامی نے حلالہ کی خواہشمند عورت کو سڑک پر پڑے ہوئے اس گوشت کے ٹکڑے میں بدل دیا ہے جس پر چیل کوّے اوپر سے او رکتے نیچے سے جھپٹتے ہیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کی جانب سے حلالہ کو غیر شرعی قرار دئے جانے کے بعد خواتین کو کوئی فائدہ پہنچے گا یا نہیں ، لیکن بورڈ نے بہت ہمت کے ساتھ جو صحیح بات کہی ہے، اس کے لئے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے، لیکن آخر میں ایک سوال بورڈ کے ذمہ داروں سے ضرور پوچھنا چاہوں گا کہ اس ماڈل نکاح نامہ کا کیا حشر ہوا جس کو لانچ کرنے کا اعلان 2004میں بہت شور شرابے کے ساتھ ہوا تھا؟ وہ نکاح نامہ کہاں کہاں دستیاب ہے؟ آن لائن مل سکتا ہے کیا؟ بورڈ کے کسی دفتر سے خریدا جاسکتا ہے؟ یا اس کو یاد ماضی سمجھ کر یہی دعا کی جائے کہ چھین لے مجھ سے حافظ میرا؟
18اپریل،2017 بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/media-pressure-muslim-personal-law/d/110858
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism