شکیل شمسی
21مئی،2017
میں کافی دنوں سے دیکھ رہاں ہو کہ سوشل میڈیا پر ایک خاص ذہنیت رکھنے والے لوگ نہایت دل آزار قسم کے جملے تحریر کرتے ہیں، اسلامی عقائد کا مذاق اڑاتے ہیں او ریہاں تک کہ مقدس افراد کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی بد تمیزیوں کا جواب دینے کیلئے مسلم نوجوان بھی فوراً نکل پڑتے ہیں اور ’’کی بورڈ‘‘ پر ان کی انگلیاں بھی زہر اگلنے میں لگ جاتی ہیں۔ جذباتی اور جوشیلے مسلم نوجوان ہندوازم کے بارے میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسی باتیں نکال کر لاتے ہیں جن سے ہندوؤں کی دل آزاری ہو۔ پھر ادھر سے جواب آتا ہے ، ادھر سے بھی سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور بدکلامی اپنے عروج پر پہنچ جاتی ہے پھر اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہوجاتے ہیں جو درحقیقت فرقہ پرست نہیں ہوتے ہیں، لیکن اپنے مذہب کیلئے استعمال ہونے والے توہین آمیز جملوں کی وجہ سے ان کے دل پر بھی زخم لگنے لگتے ہیں اور وہ بھی اپنے مذہب کے دفاع کے لئے مورچہ سنبھال لیتے ہیں ، اس طرح فرقہ پرستوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتاہے۔
ہمارے خیال میں مسلم لڑکوں کو بھڑکانے والے فسطائی ٹولے کامقصد بھی یہی ہے کہ فرقہ پرستوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ ان کو معلوم ہے کہ جب تک ہندوستان کے ہندوؤں کی اکثریت فرقہ پرستی اختیار نہیں کرے گی تب تک ہندو راشٹر کی تکمیل کا کام ادھورا رہے گا۔ ہم کو لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ہندوؤں او رمسلمانوں کے درمیان نفرت کی دیواروں کو مزید مضبوط کرنے کا کام ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے، اس لئے مسلم نوجوانوں سے تو ہم یہی اپیل کریں گے کہ وہ اس معاملے میں جذباتیت اور جوش و جنون اختیار کرنے کے بجائے گالم گلوج کرنے والوں کے کمنٹس کو ڈیلیٹ کریں ان کو نظر انداز کریں، بلاک کریں اور ان فرینڈکریں۔ ایسے کسی شخص کے کمنٹ کا جواب نہ دیں جو آپ کی فرینڈ لسٹ میں نہیں ہیں۔ اس سازش کے بارے میں یوں بھی آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ کچھ سال پہلے یہودیوں اور عیسائیوں نے مسلمانوں کے خلاف اسی قسم کی تحریک انٹر نیشنل پیمانے پر سو شل میڈیا میں چھیڑ دی تھی، جس سائٹ کو کھولنے تھے وہاں اسلام پر کوئی نہ کوئی تلخ تبصرہ ملتا تھا اورہر مسلمان اس کا جواب دینے کے لئے بے چین رہتا تھا۔ اس تحریک کا نتیجہ یہ ہوا کہ تمام مغربی ممالک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی ایک لہر پیدا ہوگئی جو اسلامو فوبیا کو پھیلانے میں بہت مددگار ثابت ہوئی۔
اس تحریک کی کامیابی کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ امریکہ جیسے جمہوری ملک میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانے کی باتیں کرنے والے شخص منصب صدارت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ اس سے قبل شام کی خانہ جنگی کو شیعہ سنی مسالک کی عالمی جنگ میں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ چار پانچ سال پہلے تو یہ عالم تھا کہ جیسے لگتا تھا کہ شام میں امریکی مفادات کی جنگ نہیں ہے بلکہ حقیقت میں اسلامی جہا دچل رہا ہے ، تو کہئے داعش اور النصرہ کا دماغ ایسا پھرا کہ انہوں نے امریکیوں کا گیم خراب کر دیا ورنہ جنگ پوری طرح مسلکی جنگ بن جاتی۔ یہ سوشل میڈیا کا ہی اثر تھا کہ اس جنگ میں حصہ لینے کے لئے بر صغیر کے چندمسلمان بھی نکل پڑے تھے، لیکن عام مسلمانوں نے اس قضیہ میں دلچسپی نہیں دکھائی تو سو شل میڈیا کی یہ مہم ناکام ہوگئی ۔ اب مسلمانوں کے اذہان کو متاثر کرنے کیلئے ہندوستان کی سرزمین پر فرقہ پرستی کا گیم کھیلا جارہا ہے ۔ فرقہ پرستوں کی ٹولیاں ایک دوسرے کی بخیہ ادھیڑ نے میں لگی ہیں۔ اس کو روکنے کا آسان طریقہ یہ ہے جب بھی کوئی آپ کو مسلم بادشاہوں کے نام پر طعنہ دے تو اس سے پوچھئے کہ سائیں بابا کو جانتے ہوں ؟ کروڑوں ہندوؤں کی آستھا کا مرکز کیوں ہے ایک مسلم فقیر؟ اس کو بتائے کہ مسلمانوں نے لال قلعہ، تاج محل اور جامع مسجد ہی تحفے میں نہیں دےئے ہیں ایسے ہزاروں صوفی دیئے ہیں جن کی درگاہیں لاکھوں ہندوؤں کی روحانی سکون بخشتی ہیں اور سائیں بابا کو تو ہندوؤں نے اپنا اوتار بھی تسلیم کرلیا، لیکن کیا کبھی کسی مسلمان نے سائیں بابا پر اپنا حق جتایا؟ ہمارا تو یہی مشورہ ہے کہ ملک کے ماحول کو خراب کرنے کی جو کوششیں چل رہی ہیں اس پر مسلم نوجوان ٹھنڈے دل سے غور کریں اور نفرت کے بجائے محبت بڑھانے والی پوسٹ سوشل میڈیا پر ڈالیں تو یہ اسلام کی خدمت ہوگی اور انسانیت کی بھی ۔
21مئی،2017 بشکریہ : انقلاب ، نئی دہلی
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism