New Age Islam
Sun Sep 15 2024, 02:48 AM

Urdu Section ( 14 March 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Allah is All-Aware of Everything Human Being Does اللہ انسان کے ہر کام سے با خبر ہے

 

شیخ راشد احمد ( القرآن ٹر سٹ)

انسان کے ہر کام یعنی عمل کا نتیجہ اِس کی شخصیت پر مرتب ہوتاچلا جاتا ہے،اور اس طرح انسان کی شخصیت اس کے تمام اعمال کو اپنے اندر دستاویزی شکل میں محفوظ کرلیتی ہے ۔ انسان کی شخصیت پر مرتب شدہ نفوش، انسان کااعمال نامہ ہے، یوں سمجھئے کہ انسانی زندگی کی ہر نقل و حرکت حتیٰ کہ اس کے دل میں گزرنے والے خیالات تک کی ایک فلم ساتھ ہی ساتھ تیار ہوتی چلی جاتی ہے اور ظہور و نتائج کے وقت یہی فلم پردہ (Screen) پر سامنے آجائے گی ۔لیکن چونکہ قرآن کریم میں اِس طریقہ کار کو دنیاوی نظام عدل کی تشبیہات کی رُو سے سمجھایا گیا ہے، اس لئے کہیں یہ کہا گیا ہے کہ تمہارا کوئی عمل اللہ کی نگاہوں سےپوشیدہ نہیں ، ظاہر ہے جس جرم کے معتبر گواہ موجود ہوں، اِسے ثابت کرنے میں کوئی دِقت پیش نہیں آتی۔ کہیں کہا گیا ہے کہ ہماری خفیہ پولیس کے نہایت دیانتدارپرچہ نویس ساتھ کے ساتھ تمہارے کاموں کی ڈائری مرتب کرتے چلے جارہے ہیں ۔ یہ سارا قلم بند محفوظ دستاوِیزی ثبوت ( Record) بلآخر اللہ کی عدالت میں پیش ہوگا اور اس قلم بند دستاویزی ثبوت کی رو سے تمہارے مقدمے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے اللہ کے علم کی بات سامنے آتی ہے جس میں اللہ نے خود کو ایک عینی گواہ کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ سب سے پہلے قرآن حکیم نے انسان کی اس بنیادی غلط فہمی و نگہی کولیا جس کی وجہ سے وہ ارتکاب جرم کرتا ہے ۔ اس نے کہا أَيَحْسَبُ أَن لَّمْ يَرَهُ أَحَدٌ ( 90:7) کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ اسے کوئی دیکھ ہی نہیں رہا ہے۔

یعنی کوئی اِس سے پوچھنے والا ہی نہیں ۔ اس کے بعد کہا کہ یہ غلط ہے کہ انسان کبھی تنہا بھی ہوتا ہے جس وقت انسان سمجھتا ہے  کہ وہ بالکل تنہا ہے، اس کے پاس کوئی او رنہیں ، اس وقت بھی  اس کے پاس ‘‘کوئی’’ ہوتا ہے ۔ اور یہ دوسری ہستی خود ‘‘اللہ’’ کی ذات ہے ۔ وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ ۚ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ( 57:4) تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ تمہارے ساتھ ہوتاہے، اور جو کچھ تم کرتے ہو سب اس کی نگاہوں کےسامنے ہوتاہے ۔ ذرا غور کیجئے! اگر انسان کو اِس بات کا یقین ہوکہ میں جہا ں بھی ہوں اور جو کچھ بھی کروں اسے اللہ دیکھ رہا ہے ، تو ایسا انسان کبھی دانستہ سرکشی یا قانون شکنی کرہی نہیں کرسکتا ۔ جرم کا ارتکاب تو بالعموم اِس یقین کے تحت ہی کیا جاتاہے کہ مجھے کوئی نہیں دیکھ رہا ہے ۔ مگر قرآنِ حکیم کہتا ہے  إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ( 3:120) اللہ انسان کو ہر طرف سےگھیرے ہوئے ہے۔

پھر یہی نہیں کہ جس وقت انسان سے کوئی عمل محسوس طور پر سر زد ہوتا ہے تو اللہ اُسے اُس وقت دیکھتا ہے بلکہ اللہ تو انسان کے دل میں گزرنے والے خیالات تک کاعلم رکھتا ہے ، سورۃ ق میں ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ (50:16) ہم نے انسان کو پیدا کیا او رہم اِس کے دل میں گزرنے والے خیالات تک سے واقف ہیں ، دوسری جگہ ہے يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ ( 40:19) وہ نگاہ کی خیانتوں  اور دل کے رازوں تک کو جانتا ہے ۔ انسان خواہ کتنے ہی خفیہ مشورے کرے ، وہ اللہ سےپوشیدہ  نہیں رہ سکتے، اس لئے کہ جب تم تین مل کر خفیہ مشورہ کرتے ہو وہاں چوتھا ‘‘اللہ’’ موجود ہوتا ہے اور جب تم پانچ مل کر مشورہ کرتے ہو تو وہاں چھٹا ‘‘اللہ’’ موجود ہوتا ہے ، یہ ‘‘پانچ اور چھ’’ تو محض بات سمجھانے کے  لئے کہا گیا ہے، مشورہ یا سازش کرنے والے کتنے ہی کیوں نہ ہوں اللہ ا ن کے ساتھ ہوتاہے ، اس لئے انسان کا کوئی راز بھی اللہ کی نگاہوں سے پوشیدہ رہ سکتا ہے ( 69:18) اس لئے کہ اللہ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ( 62:8) اس کے نزدیک پوشیدہ اور ظاہر سب یکساں ہے۔ کوئی اُونچی آواز میں بات کرے یا چپکے سے، کوئی دِن کی روشنی میں چلے یا رات کی تاریکی  میں دبے پاؤں ۔ اس کے نزدیک اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا ۔ اللہ کا دیکھنا ایسا ہے کہ لَّا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ ۖ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ( 6:103) انسان کا علم محسوسات تک محدود ہے اس کی نگاہیں غیر محدود یا غیر محسوس ہستی کی حقیقت تک پہنچ ہی نہیں سکتیں ۔ اِس کےبرعکس اللہ کا علم تمام نگاہوں پر محیط  ہے، وہ ایسا لطیف ہے کہ محسوسات کے دائرے میں آہی نہیں سکتا، اِس کے ساتھ ایسا با خبر کہ تمام اشیائے کائنات کے احوال و کوائف سے واقف ہے۔ کوئی آنکھ اسےنہیں  دیکھ سکتی اس کا اِدراک تک نہیں کرسکتی لیکن وہ ہر آنکھ کا اِدراک کرتاہے، اس لئے وہ انسانی اعمال کے ایک ایک ذرے کو سامنے لے آئے گا۔ خواہ زمین و آسمان میں کسی جگہ ہو اور پتھر کی چٹانوں کے اندر بھی چھپا ہو ا کیوں نہ ہو ، اس لئے کہ وہ اللہ کائنات کے تمام سربستہ اسرار سے واقف ہے، وہ ہر شے کا علم رکھتاہے او رہر انسان کے ہر عمل  کا علم بھی ہے کہ ‘‘ کو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے غافل نہیں ’’ کہیں کہا ہے کہ ‘‘ اللہ لوگوں کے اعمال کو دیکھتا ہے، کہیں کہا ہے کہ ‘‘ اللہ تمہارے اعمال سے باخبر ہے ’’ او ر کہیں یہ کہا کہ ‘‘ اللہ تمہارے دل کی باتوں سےبھی باخبر ہے’’ اِس طرح کے الفاظ قرآن حکیم میں کئی مقامات پر سامنے لائے گئے ہیں ۔

اللہ نے قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر یہ بات بھی کہی ہےکہ جو کچھ انسان کہتا ہے ہم اسے لکھ لیتے ہیں ۔ سورۃ یٰسین میں إِنَّا نَحْنُ نُحْيِي الْمَوْتَىٰ وَنَكْتُبُ مَا قَدَّمُوا وَآثَارَهُمْ ۚ وَكُلَّ شَيْءٍ أَحْصَيْنَاهُ فِي إِمَامٍ مُّبِينٍ ( 36:12) جو کچھ انسان اپنے اعمال آگے بھیج دیتا ہے ہم اسے بھی لکھ لیتے ہیں اور جو نقوش اپنے اعمال اپنے پیچھے چھوڑ جاتاہے انہیں بھی محفوظ کرلیا جاتاہے، ہم اس کی ہر بات کو ایک کھلے ہوئے رجسٹر میں درج کرتے جاتے ہیں ۔ انسان تو بھول جاتاہے کہ اس نے کیا کہا اور  کیا کیا تھا لیکن اللہ کے اس قلم بند محفوظ دستاویزی ثبوت ( Record) سے ایک حرف بھی محو نہیں ہوتا ۔ کہیں اس حقیقت کو اس انداز سے بیان کیا گیا ہے کہ ہر انسان کے ساتھ ہمارے مقرر ہیں جو اس کی ہر بات کو بحکم اللہ محفوظ کئے جاتے ہیں ۔ کوئی لفظ اس زبان سےنہیں نکلتا کہ یہ ٹیپ ریکارڈ ا سے ریکارڈ نہ کر لیتا ہو ۔ سورۃ انفطار میں اِن ریکارڈ کر نے والوں کو کراماً کا تبین ( 82:11) کہہ کر پکارا گیا ہے، یعنی نہایت واجب التکریم دستاویزی ثبوت محفوظ ( Recordkeeper) کرنےوالے۔ یہی وہ پہرے دار ہیں جن کی نگاہوں سے انسان کاکوئی عمل پوشیدہ نہیں رہتا ۔ یہ رجسٹر کہیں چھپا کر نہیں رکھا گیا  ، نہ ہی اس کے اندراجات ایسی پوشیدہ زبان میں کئے گئے ہیں جنہیں ہر کوئی پڑھ نہ سکے۔ یہ رجسٹر تو کتاب  مبین ہے یعنی با لکل صاف، واضح کھلی ہوئی کتاب ، جو کچھ بھی لوگ کرتے ہیں وہ ان کی کتابوں میں درج ہوجاتاہے ، ہر چھوٹا اور بڑا عمل ضبط تحریر میں آجاتاہے ۔ جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا کہ ہمارے جو اسلاف پہلے گزر چکے ہیں وہ کس حالت میں ہیں ، تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے متعلق میرے اللہ کے ہاں ایک دفتر میں سب کچھ درج ہے ، نہ تو وہ کچھ بھولتا ہی ہے کہ درج ہونےسے رہ جائے او رنہ ہی حساب  کرنے میں غلطی کرتاہے۔

یہی وہ رجسٹر ( اعمال نامہ) ہے کہ اُسے جن کے ‘‘سیدھے ہاتھ ’’ میں دیا جائے گا وہ صاحب ایمان و سعادت ہوں گے او رزندگی کی خوش بختیوں اور سرفرازیوں کے حامل ہوں گے اور جن کے ‘‘اُلٹے ہاتھ ’’ میں دیا جائے گا وہ سر پیٹ کر رہ جائیں گے اور کہیں گے، اےکاش! یہ اعمال نامہ نہ ہی ملا ہوتا تو اچھا تھا ۔ یہ میرا حساب سامنے کیوں آگیا، اِس کا مجھے علم نہ ہوتا تو ٹھیک تھا ۔ اُس وقت انسان کے سارے بھید کھل جائیں گے ، اور دلوں کے راز (Secret) باہر آجائیں گے۔اِس مقام پر سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اِ س دنیا میں ہزاروں اشخاص  سے ملتےہیں، ہم کریکٹر کے اعتبار سےاندر سے کچھ او رہوتے ہیں لیکن بظاہر ان سے کسی اور طرح معاملہ کرتے ہیں اور اس طرح ان کی نظروں میں بڑے معتبر بنے رہتےہیں ، ہم اپنے دوستوں کو اپنے خلوص اور دیانت کا یقین دلاتے رہتے ہیں ، لیکن دل میں ان کے متعلق کچھ اور ہی خیالات رکھتے ہیں، ہم اپنے ملنے والوں کی نگاہوں میں بڑے مقدس اور پاکباز بنے رہتےہیں کیونکہ ہماری حقیقت ان کے سامنے نہیں آنے پاتی، ہم اسی طرح معتبر بنےدنیا سے رخصت ہوجاتےہیں ۔ اب ذرا تصور میں لائیے اُس منظر کو کہ وہ تمام لوگ ہمارے سامنے بیٹھے ہوں جن کی نگاہوں میں ہم نے اپنے آپ کو اس قدر دیانتدار، پاکیزہ، مقدس، پر خلوص، صادق بن کر دکھایا تھا اور ان کی موجودگی میں ہماری اصل حقیقت اس طرح واضح طور پر سامنے آجائے کہ کسی کو اس میں کسی طرح کاشک و شبہ نہ رہے ، تو سوچئے کہ اس وقت ہمارا حشر کیا ہوگا ؟ کیا اس سے بڑھ کر کوئی اور عذاب بھی ہوسکتا ہے کہ انسان اُن کی نظروں میں بے نقاب ہوجائے جن میں وہ بڑا معتبر بناہوا تھا ؟ یہ ہے وہ منظر جو کچھ انسان کا یہ قلم بند دستاویزی محفوظ ‘‘اعمال نامہ’’ کرے گا۔

لیکن یہ اعمال نامہ کہیں باہر نہیں ہے ہر انسان کا اعمال نامہ خود اس کی گردن میں لٹک رہاہے، فرق صرف اتنا ہے کہ اِس وقت وہ لپٹا ہوا ہے، ظہور ِ نتائج کے وقت اسے کھول دیا جائے گا ۔ خیر و شر کی کشمکش خود انسانی نفسیات میں سر گرم عمل رہتی ہے وَكُلَّ إِنسَانٍ أَلْزَمْنَاهُ طَائِرَهُ فِي عُنُقِهِ ۖ وَنُخْرِجُ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كِتَابًا يَلْقَاهُ مَنشُورًا ( 17:13) اس سے ہر انسان کا اعمال نامہ مرتب ہوکر اِس کی گردن میں لٹکا رہتا ہے جس کے نتائج بدلنے پر اُسے کوئی اختیار نہیں ہوتا جب تک اُن نتائج کے ظہور کا وقت نہیں آتا، انسان کا اعمال نامہ گویا لپٹا رہتا ہے، جب نتائج  کے ظاہر ہونے کا وقت آجاتا ہے تو لپٹا ہوا اعمال نامہ ایک کھلی کتاب کی  شکل میں سامنے آجائے گا اور انسان سے کہا جائے گا ۔ تو اپنا اعمال نامہ خود پڑھ اور اپنا حساب بھی آپ  ہی کرنے کےلئے آج تو خود ہی کافی ہے ۔ اس کے لئے کہیں باہر سے محاسب  (Accountant/ Auditor) بلانے کی ضرورت نہیں اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا ( 17:14) اور انسان سے کہا جاتا ہے کہ لو! اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لو، تمہارا حساب کرنے کے لئے باہر سے کسی محاسب کو بلانے کی ضرورت نہیں، خود تمہارا اپنا وجود تمہارے خلاف محاسبہ کرنے کےلئے کافی ہے ۔ یہ اعمال نامہ انسان کی اپنی شخصیت ہے جس  پر اس کے ہر اچھے یا برے کام کا نتیجہ منقش ہوتاچلا جاتا ہے ۔ اس لئے انسان اپنےاعمال  کا مصنف  یا کاتب (Writer) بھی خود ہے اور محاسب بھی خود، یہی وہ اعمال نامہ ہے جس کے بے نقاب ہوجانے سے مجرمین چیخ اُٹھیں گے اِس وقت انسان کی یہ کیفیت  ہے کہ وہ دوسرے لوگوں سے اپنی حقیقت کو چھپاتا ہے اور اگر اس کا کوئی عیب ظاہر ہونے لگتا ہے تو ایسے گواہ ( Witnes) بھی خود ہے جو اس کی پاک بازی کی شہادت دیدیں، یہ سب کچھ تو وہ دوسروں کو دھوکا دینے کے لئے کرتا ہے جہاں تک اس کی اپنی شخصیت کا تعلق  ہے اس کی اپنی ‘‘فریبی عقل ’’ اس کے ہر غلط کام کے جواز  کے لئے ہزاروں نگاہ فریب دلیلیں  تراش کر اسے دھوکے میں رکھتی ہے ۔ یایوں کہئے کہ وہ اس طرح خود اپنے آپ کو دھوکا دے لیتا ہے ۔ لیکن ظہورِ نتائج کے وقت صورت حال اس کے بالکل برعکس ہوگی ۔ اُس وقت انسان خود اپنے خلاف گواہی دے گا اور خود فریبی  کے لئے جو جھوٹے بہانے اس نےپہلے تراشے تھے ان سب کی تردید خود ہی کردے گا ۔ یوں انسان کاہر عمل نتیجہ خیز ہوکررہے گا ۔ افراد کا بھی اور اقوام کا بھی ۔

جب حقیقت یہ ہے کہ انسان کی زندگی اس کے اپنے کاموں سےجنت اور جہنم بنتی ہے تو انسان کو اپنے اعمال کامحاسبہ کرتے رہنا چاہئے ، دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہنے سے اس کا اپنا کیا سنور جائے گا؟ یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم مومنین  سے بار بار تاکید کرتا ہے کہ وہ مخالفین  سے اس معاملے میں اُلجھیں نہیں  بلکہ اُن سے دوٹوک الفاظ میں کہہ دیں کہ ‘‘ ہمارے اعمال کے نتائج  ہمارے لئے ہوں گے، تمہارے اعمال کے نتائج تمہارے لئے ، نہ تم سے پوچھا جائے گا کہ ہم نے کیا جرم کئے تھے او رنہ ہم سے سوال ہوگاکہ تم نے کس قسم کے کام کئے تھے ’’۔ چونکہ انسان سے عمل پہلے سر زد ہوتاہے اور اِس کا نتیجہ بعد میں مرتب ہوتاہے، اِس لئے قرآن حکیم نے سورۃ حشر میں کہا ہے ‘‘ ہر شخص کو یہ چاہئے کہ یہ دیکھے کہ اس نے ‘‘کل’’ کے لئے آگے کیا بھیجا ہے؟’’ آگے بھیجنے  سے مراد ہی کئے ہوئے اعمال اور اُن کے نتائج ہیں ۔ یہ اصطلاح کئی اور دیگر مقامات پر بھی آئی ہے۔ سورۃ الفجر میں اس کے ساتھ  ایک اور لفظ کا اِضافہ ہوا ہے جس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آگئی ہے کہا کہ اہل جہنم اس تباہی کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اٹھیں گے کہ  يَقُولُ يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي ( 89:24) اے کاش! میں نے اپنی زندگی کے لئے کچھ پہلے بھیج دیا ہوتا ،یعنی اس وقت انسان بصد حسرت پکار اٹھے گا کہ اے کاش میں نے بھی ایسا پہلے کچھ کیا ہوتا ، جو مجھے آج حقیقی  زندگی عطاء کردیتا، اِس سے واضح ہے کہ زندگی کی اگلی منزل تعمیر ہوگی انسان کے اپنے اعمال کے نتائج سے، اس کے غلط اعمال کے نتائج اس دنیا میں بھی اس کی انسانی  صلاحیتوں پر زنگ بن چمٹ جاتےہیں جس سے صلاحیتیں اُبھر نے ہی نہیں پاتیں ،او ریہی نتائج اگلی زندگی کی تعمیر میں اس کی صحیح زندگی کےراستے میں سنگ گراں بن کر حائل ہوجاتےہیں۔

موجودہ سطح پر انسانی زندگی کا مقصد و منتٰہی یہ ہے کہ اس کی نفسیات اس حد تک نشو و نما پاجائے کہ وہ اس سےاگلی ارتقائی منزل طے کرنے کے قابل ہوجائے ۔ موت درحقیقت اس بات کی پرکھ (Test) کےلئے ہے کہ انفرادی طور پر انسانی نفسیات میں کس حد تک استحکام پیدا ہوچکا ہے ، اللہ نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ انسان کے حسن عمل کےلئے مواقع بہم پہنچائے ،لہٰذا اس دنیا میں اپنی کوششوں سےجس کا جی چاہے آگے بڑھ جائے، جس کا جی چاہے پیچھے رہ جائے ۔ قرآن حکیم نے مکافات عمل کا سارا فلسفہ ایک لفظ میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے کہا کہ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ رَهِينَةٌ ( 74:38) ہر نفس نے اپنے اعمال کے عوض رِہن ( Mortgage) رکھاہوا ہے ۔ ہر شخص اعمال کے شکنجے میں جکڑ اہوتاہے اور اِن ہی اعمال کی وجہ سےاس پر مصیبتیں آتی ہیں ۔ جو شخص جو کام کرتاہے اس کام کا نیتجہ اسے بھگتنا ہوگا ۔ اس لئے اس حد تک اس کی آزادی سلب ہوجاتی ہے کہ انسان اپنے اس کام کے نتیجے کے ہاتھوں رہن رکھا جاتا ہے ۔  اس سے اسے کوئی دوسرا چھڑا نہیں سکتا ۔ اسی نکتہ کی وضاحت کے لئے کہا کہ تم نہ تو اللہ کی مملکت سے بھاگ کر کسی اور مملکت میں جا سکتے ہو کہ وہاں جاکر بچ جاؤ ، او رنہ ہی اس کی مملکت میں رہتے ہوئے اس کے خلاف جنگ کر کے اسے شکست دے سکتے اور اس طرح اس کی گرفت سے چھوٹ سکتے ہو ۔ یہ نا ممکن ہے۔ اس کا قانون مکافات عمل انسان کو اِس طرح پکڑ لے گا جس طرح گھوڑے کو اس کی پیشانی کے بالوں سے پکڑ لیا جاتاہے اور اس طرح وہ بےبس او رمجبور ہوجاتاہے ۔ یہ ہوسکتا ہے کہ انسان غلط معاشرے میں اپنے جرائم کی پاداش (سزا) سے اپنے آپ کو بچالے، لیکن یہ سب کچھ انسان صرف اِس دنیا کی زندگی  میں کرسکتا ہے ، اور دنیا کی زندگی تو بہر حال ایک مدتِ معینہ تک کے لئے ہے۔ اس کے بعد یہاں کی حفاظتی تدابیر انسان کے کسی کام نہیں آسکیں گی ۔ لہٰذا اگر انسان کی عمر ہزار برس کی بھی ہوجائے تو بھی انسان اِس گرفت سے بچ نہیں سکتا ۔ حساب کے لئے اللہ نے عدل کے ترازو کھڑے کر رکھے ہیں ، کسی پر کوئی ظلم و زیادتی نہیں ہوگی ۔ اُن ترازوؤں  کی کیفیت  یہ ہوگی کہ غلط اور صحیح اعمال کا ایک ایک ذرہ سامنے آجائے گا۔ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ ‘‘حسن کا رانہ انداز سے زندگی بسر کرنے والوں کا اجر ضائع نہیں کرتے ’’ہر شخص کو اس کے عمل کاپورا پورا بدلہ ملے گا ، اور کسی پر کسی قسم کا ظلم نہیں ہوگا ، کیونکہ کسی کے کام کا پوراپورا بدلہ نہ دینا ظلم ہے، اور اللہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ ظلم کرنا تو ایک طرف اللہ کے قانونِ مکافات کے رُو سے جو بدلہ ملے گا وہ  اِنسان کے اپنے اندازے سے بھی زیادہ ہوگا، لیکن بلا سعی و عمل کسی کو کچھ نہیں ملے گا کہ قانونِ مکافات کا بنیادی اُصول یہ ہے کہ  ‘‘ انسان کےلئے صرف وہ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے’’۔ جنت میں جانے والوں کےمتعلق کہا کہ ‘‘ کام کرنے والوں کے کام کا  بدلہ کیسا اچھا ہے؟’’مدارج کے تعین کا معیار بھی لوگوں کے اِس دنیا میں کردہ کام ہی ہوں گے جس کا جتنا اور جس قدر اچھا کام ، اس کا اتنا ہی درجہ بلند ، وہاں ہر ایک درجہ اس کے کام کے مطابق متعین  کیا جائے گا، اللہ کو سب معلوم ہے کہ کس نے کیا کیا اور کیسے کیسے کام کئے ہیں۔

اللہ نے ہر کام کا ایک متعین نتیجہ مقرر کر رکھا ہے اِس لئے انسان کا عمل ساتھ ساتھ اپنانتیجہ پیداکرتا رہتا ہے ۔ انسان اور دیگر اشیائے کائنات میں جن میں تمام ذی حیات شامل ہیں بنیادی فرق یہ ہے کہ انسان کو اختیار و اِرادہ دیا گیا ہے اور دیگر مخلوقات  مجبور پیدا کی گئی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مخلوق خود کو ودیعت  کردہ وحی کی خلاف ورزی نہیں کرتیں کیونکہ وہ ایسا کرہی نہیں سکتی، جس وحی  کے مطابق زندگی بسر کرنے ےلئے انہیں پیدا کیا گیا ہے۔ لیکن انسان کو اس کا اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جس روش کو چاہے اِختیار  کرے، اس کا صاحب اختیار و اِرادہ ہوناہی ایسے اِس کے اعمال کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے ، اور اِسی ذمہ داری کی  وجہ سے سزا و جزا ، یعنی  نتائج اعمال کا سوال پیدا ہوتا ہے ۔ اگر یہ بھی دیگر اشیائے کائنات کی طرح ایک ہی روش پر چلنے کےلئے مجبور پیداکیا جاتا تو اس کے لئے نہ غلط اور صحیح کاسوال پیدا ہوتا ، نہ جنت اور جہنم کی تفریق ، اس حقیقت کو قرآن حکیم نے متعدد مقامات میں مختلف انداز سے واضح  کیا ہے مثلا سورہ ہود میں ہے۔ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً (11:118) اگر تمہارے نشو و نما دینے والے کی مشیت ایسی ہوتی تو وہ انسانوں کو پیدا ہی اس طرح کرتا کہ یہ سب ایک ہی روش پر چلتے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا اس نے انسان کو راستے کے انتخاب ( Choice) کا اِختیار دیا ہے۔ اس کا نتیجہ ہے کہ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ ان میں ہمیشہ اختلاف رہتا ہے ۔ کوئی ایک روش پر چلتا ہے کوئی دوسری پر إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ البتہ وہ گروہ جو اللہ کی نازل کردہ الکتاب کی ہدایت کےمطابق زندگی بسر کرتےہیں، اِن میں باہمی اِختلافات نہیں ہوتے وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ انسان  کے پیدا کئے جانے کا مقصد ہی تھا کہ وہ اپنے اِختیار و اِرادہ سے صحیح راستے کااِنتخاب کرے وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ اللہ کا یہی قانون تخلیق انسانی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ انسانوں سےجہنم بھرا جائے گا۔ یعنی  جواپنے اِختیار و اِرادہ سے غلط راستہ منتخب کریں گے وہ جہنم میں جائیں گے۔

دوسرے مقام پر اللہ نے فرمایا ہے وَلَوْ شِئْنَا لَآتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدَاهَا وَلَٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّي لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ( 32:13) اگر ہماری مشیت ہوتی تو ہم ایسا بھی کرسکتے تھے کہ ہر انسان سیدھے راستےپر چلتا ۔ لیکن اس سے انسان کا اِختیار و ارادہ سلب ہوجاتا، اس لئے ہم نے ایسا نہیں کیا اور اِسے اپنے لئے راستہ منتخب  کرنے کا اِختیار دے دیا ۔ اپنے اِختیار و ارادہ کےغلط استعمال سے انسان اپنے لئے جہنم تیار کرتا رہتا ہے  ۔ اللہ نے اپنے مجموعہ وحی یعنی قرآن کے ذریعے بتادیا کہ غلط راستہ کون سا ہے اور صحیح کون سا ۔ اس کے بعد اسے انسانوں کے اپنے فیصلے پر چھوڑ دیا کہ اُس کاجو دِل چاہے راستہ اِختیار کرے۔

فروری، 2015  بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/allah-all-aware-everything-human/d/101948

 

Loading..

Loading..