شیخ راشد احمد
(مذہبی پیشواؤں کی شریعت ،مغربی جمہوریت ،عسکری آمریت)
جولائی ، 2013
پاکستان میں ‘‘نظام حکومت ’’ کے سلسلے میں پچھلے 65 سالوں سے بحث جاری ہے، اس ملک، کی اکثریت مسلمانوں کی ہے مگر یہ مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہیں، ایک گروہ مغرب زدہ ہے اور دوسرا گروہ مذہب زدہ ہیں۔ مغرب زدہ گروہ خود کو لبرل یعنی روشن خیال کہتا ہے اس گروہ کے معاشی مفادات نظام جمہوریت سے وابستہ ہیں، اس لئے یہ گروہ اس نظام کو قائم رکھنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا ئے ہوئے ہے ۔ جبکہ مذہب زدہ گروہ نے اپنے معاشی مفادات کو قرآن و سنت اور فقہ کی مکس پلیٹ کے نعرے کے ذریعے محفوظ بنا رکھا ہے ۔ اس طرح یہ گروہ مذہب کی آڑ میں اپنا سیاسی کھیل جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس طرح جمہوریت میں کئی پارٹیاں ایک دوسرے کے مد مقابل ہوتی ہیں اور اپنا اپنا منشور پیش کرکے انسانوں کو دھوکا دیتی ہیں، اسی طرح مذہب زدہ گروہ بھی کئی فرقوں میں منقسم ہیں، ہر فرقے کے اپنے اپنے مذہبی نظریات و عقائد ہیں، یہ تمام فرقے اپنے فرقے کے رہنماؤں کے نظریات و عقائد کو ‘‘ دین اسلام’’ سمجھتے ہیں ، اور اپنے نظریات و عقائد کو ‘‘ مذہب اسلام’’ کے نام سے پیش کرتے ہیں اور زبردستی دُنیا کے ہر شخص پر مسلط کرنا چاہتے تھے ۔
مذہب زدہ افراد نظام جمہوریت کو کفر کا نظام کہتے ہیں ، اور حیرانگی کی بات یہ بھی ہے کہ ہر مذہبی فرقہ اپنے مد مقابل دوسرے مذہبی فرقے کی فکر و فلسفے کو کفر قرار دیتا ہے، اور دوسرے فرقے کے نظر یات، عقائد اور فقہ کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ تمام مذہبی فرقے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مذہبی فرقوں کی موجودگی کوئی ایسا ضابطہ قوانین یا دستور مرتب نہیں کیا جاسکتا جسے تمام فرقے متفقہ طور پر تسلیم کرلیں، مگر مفادات کا ایک کھیل ہے جو جاری ہے ، حقیقت یہ ہے کہ ان سب کی تعلیمات ،ان کی فکر، ان کے نظریات ، ان کے عقائد ان کے طرز زندگی اور ان کی صورت اور سیرت کا ‘‘ دین اسلام’’ سےدور کا بھی واسطہ نہیں، یہ دونوں گروہ (مذہب زدہ اور مغرب زدہ) دنیا کی آسائشیں اکھٹا کرنے میں اس قدر اندھے ہوچکے ہیں کہ پا کستان میں اِن دونوں گروپس نے فساد پھیلا رکھا ہے، ایک رسہ کشی ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے وہ یہ کہ کون سے نظام حکومت کو نافذ کیا جائے ؟ ملاّ کی خود ساختہ شریعت ، مغربی جمہوریت، عسکری آمریت یا پھر اللہ کی حاکمیت ۔
نام نہاد مسلمان خواہ مذہب پسند ہوں یا جمہوریت پسند ان کی خدمت میں ایک حقیقت گوش گزار کی جارہی ہے وہ یہ کہ قرآن کی رُو سے پوری پوری اُمت غیر مسلموں کے مقابلہ میں ایک جماعت ( پارٹی) ہے،اس اُمت کے اندر پارٹیوں کا وجود ، خواہ مذہبی فرقوں کی شکل میں ہو یا سیاسی پارٹیوں کی صورت میں شرک ہے، ارشاد ربّانی ہے :مُنِيبِينَ إِلَيْہِ وَاتَّقُوہُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاة وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ۔ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَھمْ وَكَانُوا شِيَعًاكُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْھمْ فَرِحُونَ (32۔31۔30) اللہ کی طرف رجوع کرنے والو ڈرو اللہ سے اور اُس کے درس ( تعلیمات قرآن) پر ڈٹ کر کھڑے ہو جاؤ تم مشرک نہ ہو جانا یعنی ان لوگوں میں سے نہ ہوجانا جنہو ں نے دین میں تفرقہ پیدا کردیا اور خود ایک فرقہ یا پارٹی بن گئے ، اس صورت میں ہوتا یہ ہے کہ ہر فرقہ اپنے اپنے مسلک میں مگن رہتاہے( اور دین ختم ہوجاتا ہے) اسی قسم کی ہدایات قرآن میں اور بھی ہیں جن سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ جب اُمت فرقوں اور پارٹیوں میں بٹ جائے تو نہ دین باقی رہتاہے، نہ اسلامی مملکت وجود میں آسکتی ہے۔
دین اسلام یا اسلامی مملکت تو نام ہی اس راستے ( صراط مستقیم ) کا ہے کہ ایک ضابطہ ہدایت ( کتاب اللہ ) اور اس کی حامل ایک اُمت ۔ اور اس مملکت کی ایک مرکزی اتھارٹی ،اس مملکت میں ‘‘ قرآن کے مرکز’’ کے گرد پوری اُمت ایک جماعت کی حیثیت سے مرکوز ہوگی۔یہ منفرق کتابوں پر ایمان، ایمان میں اختلاف ، دین میں فرقے ، امت میں لسانی اور صوبائی بنیادیں ، سیاسی پارٹیاں ،ملاوٹ شدہ عقائد ،نظریات اور فکر و فلسفہ رکھنے والے لوگ مشرک تو ہوسکتے ہیں مسلم نہیں ۔ یہ راستہ شرک کا تو ہوسکتا ہے ،دین اسلام کا ہر گز نہیں ہے۔ کیونکہ دین نہ انفرادی نظریات کا نام ہے نہ بندیوں کا ۔ لہٰذا کم از کم پاکستان کی سطح پر مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ یہ سب کے سب بلا استثناء اجتماعی طور پر اللہ کی کتاب ( قرآن حکیم) کے ساتھ محکم طور پر وابستہ ہو جائیں او ر قوم کو فرقہ پرستی اور پارٹی بازی کے شرک و عذاب سےبچائیں ، جس کی آگ میں پورا ملک جل رہا ہے ،پوری قوم مذہبی فرقوں، لسانی گروہوں اور سیاسی پارٹیوں میں بٹ کر ایک دوسرے کی جانی دشمن بنی ہوئی ہے ۔ قرآن مجید نے فرعون کے خلاف سب سے بڑی فردِ جرم یہی عائد کی ہے کہ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَھْلَھَا شِيَعًا (4۔28) فرعون نے قوم کو پارٹیوں میں تقسیم کر رکھاتھا ۔
اب کچھ بات اُن سےہوجائے جو دن رات جمہوریت کا راگ الاپتے ہیں۔ بات کچھ یوں ہے کہ انسانوں نے حکومت کا تصور اس لئے پیدا کیا تھاکہ افراد کے جبلی تقاضوں ( جذبات اور ہوس) کی تسکین کے لئے حدو دعائد کی جاسکیں ،لیکن یہ انسان کی بد نصیبی ہے کہ انسان آج تک کوئی ایسا نظام حکومت نہیں بنا سکا جو اِس اہم مقصد کو پورا کر سکے۔ تاریخ گواہ ہے اِس اہم مقصد کو پورا کرنا تو ایک طرف انسان کا بنایا ہوا ہر نظام ، تعمیر کے بجائے تخریب کا موجب بنتا رہا ہے، انسان کی کاوش اِس سلسلے میں جہاں تک پہنچی ہے فی الحال اس کی آخری کڑی ‘‘نظام جمہوریت’’ ہے۔ جس کا ڈھنڈ ورایہ کہہ کر پیٹا جاتا ہے کہ یہ وہ جنسی نظام ہے جسےابن آدم نے کھودیا تھا اور صدیوں کی ٹھوکریں کھانے کے بعد ، اب اس نے اسے دوبارہ پا لیا ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ نظام چار قدم بھی چلنے نہیں پایا تھا کہ خود اقوام مغرب کے مفکرین نے اِس حقیقت کا اعتراف کرلیا تھا کہ یہ نظام بھی بے حد ناکام رہا ۔
کیونکہ آمرانہ نظام حکومت ( بادشاہت) کواس لئے مردو د قرار دیا جاتا تھا کہ اس میں ایک شخص کے ارادے او رمرضی کو اقتدار مطلق حاصل ہوتا تھا، اس پر کوئی حدو دعائد نہیں ہوتی تھیں۔ یہی بنیادی نقص ‘‘ نظام جمہوریت’’ میں بھی موجود ہے ۔ یعنی اس میں بھی بر سر اقتدار پارٹی کے ارادوں اور سو چ کو اقتدار مطلق حاصل ہوتا ہے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں ہو تی ہے، سیاسی اصطلاح میں اس پارٹی کو حتمی حاکمیت (Sovereignty) حاصل ہوتی ہے ۔ اس بنیادی نقص کے اعتبار سے ، شخصی نظام، آمرانہ نظام ( بادشاہت) اور جمہوری نظام میں کوئی فرق نہیں،یعنی آمرانہ نظام ہو یا جمہوری نظام دونوں ایک جیسے ہیں ۔ بلکہ جمہوری نظام حکومت اس لحاظ سےآمرانہ نظام حکومت سے زیادہ نقصان دہ ،خراب اور بد تر ہے کہ عوام الناس کا آمرانہ نظام حکومت میں ایک ‘‘ پاگل’’ سےواسطہ پڑتاہے جب کہ جمہوری نظام حکومت میں سو ‘‘ پاگل’’ اکھٹے ہوکر ظلم اور بر بریت کا بازار گرم رکھتے ہیں۔
جمہوریت کے حامی افراد کہیں گے کہ آمرانہ نظام اور جمہوری نظام میں اِس قسم کی مماثلت ،یہ ایک مغالطہ ہے ؟ کیونکہ جمہوری نظام میں بر سرِ اقتدار پارٹی، اپنے اختیارات پر پابندی عائد کرتی ہیں، اِن کا اقتدار بلا حدود نہیں ہوتا ہے، یہ ٹھیک ہے ، لیکن ذرا سوچئے کہ جس پارٹی کو یہ حق حاصل ہو کہ وہ جس قسم کی جی چاہے اپنے اوپر پابندیاں لگائے اور جب جی چاہے ان میں رد و بدل کردے، کیا اس نظام کے اختیارات کو محدود اورپابند شدہ قرار دیا جاسکتا ہے ؟ یہ پابندیاں لگتی کب اور کس طرح ہیں ، اسےتو کوئی ‘‘ دیدہ دریا صاحب بصیرت ’’ ہی جان سکتا ہے ۔ چونکہ یہ پابندیاں آئین کی رو سے ان پارٹیوں پر عائد ہوتی ہیں لیکن آئین تو خود انہی پارٹیوں کے سر براہوں یعنی فرعونوں ، ہامانوں، قارونوں اور آزروں ، آج کی اصطلاح میں ان زمینداروں ، سرمایہ داروں ، صنعتکارو ں ،ملاؤں ،پیروں او رمعاشرے کے طاقتوں افراد کا بنایا ہوا ہوتا ہے اور یہ جب چاہیں اس میں ترمیم و تنسیخ بھی کرسکتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ تماشہ ہم پاکستان میں اپنی آنکھوں سے مسلسل دیکھ بھی رہے ہیں ۔ ہر آمریا سیاسی پارٹی اپنے دورِ اقتدار میں یہ ترامیم کرتی ہیں، ابھی پچھلے دنو ں ملک کے تمام فرعونوں ، ہامانوں ،قارونوں اور آزروں ( جو آج کی اصلطلاح میں اپنے آپ کو سیاستدان کہتےہیں) نے مل کر اپنے سیاسی مستقبل اور اپنے طبقے کے مفادات اور ان کو حاصل مراعات کو محفوظ بنانے کے لئے اٹھارویں ، اُنیسویں اور بیسویں ترمیم کے نام سے ترامیم کی ہیں۔ مگر افسوس پرنٹ اور الیکٹر نک میڈیا تشہیر کے ذریعے یہ طاقتور لوگ عوام الناس کو یہ تاثر پہنچاتے رہے کہ جیسے عوام الناس کی فلاح و بہبو کے لئے کوئی عظیم کارنامہ یہ مفاد پرستوں کا ٹولہ انجام دے رہاہے۔
یہ دونوں گروہ ( مغرب زدہ اور مذہب زدہ) بحیثیت مسلم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ انسان کی فکر پر مبنی دنیا کا کوئی نظام حکومت بھی لیجئے ، خواہ مذہبی ہو، سیکولر ہو یا اشترا کی ،تمام نظاموں میں کسی نہ کسی شکل میں ،طاقتور انسانوں کا کمزور انسانوں پر اقتدار ضرور قائم رہتاہے ، قرآن کریم اس تصور زندگی کو وجہ تذلیل انسانیت قرار دیتا ہے کہ کسی انسان کا دوسرےانسان پر اقتدار ہو یا انسان پر حکومت کرے، وہ اسے مساوات انسانیہ کے خلاف اور احترام آدمیت کے منافی ٹھہراتا ہے ۔ وہ انسانوں کی انسانوں پر حکومت کے تصور کو باطل قرار دیتا ہے ۔ کیونکہ اس سے فرد اُس آزادی سے محروم ہوجاتا ہے جو اُسے انسان ہونے کی حیثیت سے منجانب اللہ حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نظام حکومت کے بغیر تو انسانوں کا معاشرہ قائم نہیں رہ سکتا ۔ اس سےیہ سوال سامنےآئے گا کہ قرآن ، اس مسئلہ کا کیا حل بتاتا ہے ۔ وہ اس کا حل یہ بتاتا ہے کہ انسانوں پر حق حکومت کسی انسان یا انسانوں کے گروہ کو حاصل نہیں، حق حکومت صرف اللہ ربّ العزت کو حاصل ہے۔ اس سے ذہن فوری طور پر اس طرف منتقل ہوجاتاہے کہ اس طرح تو پھر پھر اکر ہم وہیں جا کر پہنچنے جہاں ہم تھیا کریسی ( مذہبی حکومت) کے گرد اب میں پھنسے ہوئے تھے ۔ وہاں بھی حق حکومت ان قوتوں کو بتا یا جاتاتھا جن کا تعلق عالم محسوسات سے نہیں، یہاں بھی انسانوں کو اس ہستی کے زیر اقتدار لایا جاتاہے جسے نہ دیکھ سکے ہیں، نہ اس کی بات سن سکتے ہیں ، نہ اُس سے کچھ کہہ سکتے ہیں کہ جو کچھ ہم سے کہا جاتاہے کیا وہ آپ کا ارشاد ہے ،اورکچھ ہم سے مانگا جاتاہے، کیا وہ آپ ہی کا مطالبہ ہے؟
یہ سوال بڑی معقول ہے لیکن اس کا جواب معقول تر ۔ وہ کہتا ہے کہ اس نظام حکومت میں بے شک تعلق ایک غیر مرئی ہستی ( اللہ) سے ہوتا لیکن اس نےاپنے نظام حکومت کے لئے ایک ضابطہ حیات دے دیا ہے جس میں حدود ، قوانین و اقدار موجود ہیں جو محسو س بھی ہے اور مرئی بھی ! اُسے تم دیکھ سکتے ہو پڑھ سکتے ہو، سمجھ سکتے ہو، اللہ کی حاکمیت سےمراد اس ضابطہ حیات اور اس میں درج اقدار کی اطاعت ہے۔ یہ دستور مکمل بھی ہے اور غیر متبدل بھی ۔ اس لئے اس میں کوئی نہ کوئی مذہبی پیشوائیت کسی قسم کا اضافہ کرسکتی ہے ، نہ کوئی سیاسی اعتبار سےاقتدار کی حامل پارٹی کسی قسم کا ر دو بدل نہیں کرسکتی ۔ اللہ نے اور تو اورخود اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کہہ دیا کہ فَا حْکُمْ بَیْنَھْمْ بِمَآ اَنُزَلَ اللہ ُ (48۔5)اِن لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کرو۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اس بات کا اعلان کردو کہ مَا یَکُوْنُ لِی اَن ابَدِ لَہ مِنْ تِلْقَا یٔ نِفسِیْ() مجھے اس کا کوئی اختیار نہیں کہ میں اس میں کسی قسم کا رد وبدل کر سکوں ۔ کتنا بڑاہے یہ اطمینان جو اس طرح افرادِ معاشرہ بلکہ نوع انسانی کو حاصل ہوگیا کہ ہم پر حکومت صرف اللہ کی ہوگی جس کاذریعہ کتاب اللہ ۔ حکم صرف اس کتاب کاچلے گا۔ اس سے ہٹ کر کوئی ہم سے کسی قسم کاحکم منوانے کا اختیار و اقتدار نہیں رکھےگا ۔ حتیٰ کہ جو ہم سےاس کے قوانین کی اطاعت کرائے گا وہ پہلے خود اس کی اطاعت کرے گا۔ اس اعتبار سے نہ کوئی حاکم ہوگا نہ کوئی محکوم ۔
اب بات یہاں تک پہنچی ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کی نشو و نما اور آبرومندی کے لئے ضروری ہے کہ انسان کے ‘‘ جذبات اور ہوس’’ کی تسکین پر پابندیاں عائد ہوں۔ یعنی ایسی حد بندیاں جن کے اندر رہتے ہوئے ہر فرد اپنے جبلی تقاضوں کو پورا کر سکے ۔ او ربات یہاں تک پہنچی کہ انسانی عقل و فکر آج تک کوئی ایسا نظام نہیں بنا سکتی جس سےیہ بنیاد ی مقصد حاصل ہوسکے ۔ اس نے جو نظام بھی بنایا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو بنانے والے اور ان کے پیرو کار کچھ یکسر حدود فراموش ہوگئے ، اور اکثریت کا اس طرح گلا دبا دیا گیا جس سے ان کے یہ تقاضے پورے ہی نہ ہو سکیں ۔ یہ انسان کی انتہائی ناکامی ہے اور اس کا نتیجہ مسلسل تباہی ، بربادی اور جہنمی زندگی ہے ، حقیقت یہ ہے کہ انسان کی تمدنی زندگی کا سب سے اہم اور مشکل ترین مسئلہ ہی یہ ہے کہ اس کے ‘‘ جذبات اور ہوس’’ پر کس قسم کی پابندیاں عائد کی جائیں اور ان پابندیوں کے عائد کرنے کا حق کسے حاصل ہے، اور انسان ان کی نگہداشت کس طرح کرسکتا ہے۔
انسانی فکر اس اہم ترین مسئلہ کے حل کی تلاش میں اب تک مسلسل سر گرداں چلی آرہی ہے ۔ اللہ کی نازل کردہ کتاب قرآن عظیم نےکہا کہ ایسا سوچنا اور فرض کرناہی غلط ہے کہ انسانی فکر اس قسم کا کوئی نظام بنا سکتی ہے جس میں تمام نسل انسانی کے افراد ِ کے یہ تقاضے ،اس طرح پورے ہوتے چلے جائیں کہ نہ کوئی سرکش ہونے پائے او رنہ ہی مجبور ۔ نہ کوئی حدود فراموشی کے سرسام کی وجہ سے پاگل ہوجائے، اور نہ ہی ایسے آہنی شکنجو ں میں قید کہ اس کا دم ہی گھٹ جائے ۔ اس نے کہا کہ اس قسم کا نظام اللہ کے سوا کوئی نہیں دے سکتا ۔ وہ جو اس نے کہا ہے کہ ۔إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّہ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (40۔12) حکم صرف اللہ کا چلے گا ۔ معاملہ صرف یہ ہےکہ اللہ کے حکم کے سواء کسی کی تابعداری نہیں کرو، یہی وہ نظام ہے جس پر ڈٹ کر کھڑے رہنا ہے لیکن انسانوں کی اکثریت اللہ کے اس حکم سے بے خبر ہے۔
انسان کی بنیادی خصوصیت اختیار وار ادہ ہے، اور حاکم و محکوم کی تفریق کا میدان وہ ہے جہاں ایک فرد کا اختیار و ارادہ دوسرے فرد کے اختیار و ارادہ سے ٹکرا تا ہے، انسانی فکر نے بڑی کوشش کی ہے کہ حاکم و محکوم کی تفریق مٹادی جائے لیکن وہ اس میں کامیا ب نہیں ہوسکا، اس کی اس کوشش کی آخری کڑی جمہوری نظام ہے لیکن جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ جمہوری نظام کے داعیان کو خود اعتراف ہے کہ اس نظام سے بھی یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکا ، یہ تفریق بد ستور باقی ہے ۔ لہٰذا حاکم او رمحکوموں کی بہ نظر حقارت دیکھا ہے جب موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام اللہ کا پیغام لے کر فرعون کے پاس گئے تو اس نے یہ کہہ کر ان کی بات سننے سے انکار کردیا کہ ‘‘ یہ ہماری محکوم قوم کے افراد ہیں اس لئے ان کی بات سننے کے قابل کیسے ہوسکتی ہے’’ جو بات چار ہزار سال پہلے فرعون ( بادشاہ) نے کہی تھی ، اس کی صدائے باز گشت آج بھی ہر ایوان حکومت سے برابر سنائی دیتی ہے خواہ اس کے الفاظ کتنے ہی بدلے ہوئے کیو ں نہ ہوں۔ یہی وہ احساس تھا جس نے جھلا کر کمیونیزم کے بانی مارکس نے کہا تھا کہ جب تک دنیا میں حکومت کا ادارہ (Institution of Government ) باقی ہے، انسانی طبقات کی تفریق ختم نہیں ہوسکتی ۔
بات تو اُس نےٹھیک سمجھتی تھی لیکن نہ وہ بتاسکا نہ اسکے پیر وکار کہ اس کے تصور کو عمل میں لانے کی صورت کیا ہوسکتی ہے ۔ اس کا جواب آج سے چودہ سو سال پہلے حکم دینے والے نے قرآن حکیم میں دیا تھا۔ اس نے کہا کہ حکومت کے ادارے کا وجود تو بہر حال باقی رہے گا کیونکہ اس کے بغیر انسانی معاشرہ میں انار کی پھیل جائے گی، لیکن قرآن میں محفوظ اللہ کے دیئے ہوئے احکامات کے تحت معاشرتی اور معاشی نظام کو چلانے سے حاکم اور محکوم کی تفریق باقی نہیں رہے گی ۔ اس تفریق کو مٹانے کے لئے اس نے اعلان کیا کہ ۔ مَا كَانَ لِبَشَرٍ أَن يُؤْتِيَہُ اللَّہ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةثُمَّ يَقُولَ لِلنَّاسِ كُونُوا عِبَادًا لِّي مِن دُونِ اللَّہ (79۔3) کسی بشر کو اس کا حق حاصل نہیں خواہ اسے ضابطہ حیات، نظام حکومت یا نبوت تک بھی کیوں نہ مل جائے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ تم میرے محکوم بن جاؤں ۔ اس سے قرآن حکیم نے حاکم و محکوم کا تصور ختم کردیا ۔ اس کے بعد سوال پیدا ہوا کہ پھر معاشرتی او رمعاشی نظام حکومت کی صورت کیا ہوگی، اس کے لئے قرآن نے کہا کہ اس نظام کا فریضہ صرف ان حدود کی پابندی کرانا ہوگا۔ جو کسی انسان کی نہیں بلکہ خالق کائنات یعنی اللہ ربّ العزت کی (متعین ) کردہ اور غیر متبدل (جن حدود کو تبدیل نہیں کی جاسکتا ) ہیں ۔
چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ ۔ وَلَٰكِن كُونُوا رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ (79۔3) اسے یہی کہنا چاہیے کہ تم اس کتاب کی رو سے جس سے تم تعلیمات ،درس اور سبق لیتے ( پڑھتے ، پڑھاتے اور سمجھتے ، سمجھاتے )ہو، ربانی بن جاؤ۔ اسی کا نام اسلامی حکومت ، ربّانی حکومت یا اللہ کی حاکمیت ہے، اس مقام پر قرآن ایک ایسا لطیف اور عمیق نکتہ سامنے لاتا ہے ۔ کہ جوں جوں نگہ بصیرت اس پر غور کرتی ہے ، تو انسان جھوم اٹھتا ہے ، اللہ نے اس معاشرتی اور معاشی نظام کا ‘‘ مرکز اوّل’’ اپنی کتاب قرآن حکیم کو الرَّسول ( وہ رسول جس نے تا قیامت انسانوں کے درمیان رہنا ہے)قرار دے کر اس کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔ يَا أَيُّھا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللّہ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهإِلَی اللّہ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللّہ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا (59۔4) اے ماننے والے لو گو اللہ کی اطاعت کرو، الرسول ( رسالے) کی اطاعت کے ذریعے ، اور اُن کی جو تمہار ے درمیان اس کے مطابق معاملہ ،نظم نسق چلانے کیے صلاحیت رکھتے ہیں پس اگر کسی معاملے میں تمہارا آپس میں تنازعہ ہو پس اسے لوٹاؤ ( Come back or send back ) اللہ کی طرف اور الرسول کی طرف یعنی قرآن کی طرف اگر تم اللہ اور یوم آخرت کو مانتے یو یہی بہتر ہے اور خوب اچھا انجام ہے۔
اِس آیت میں الرسول کی اطاعت سے مراد ‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ’’ کی بطور شخصیت اطاعت نہیں ہے کیونکہ وہ اب موجود نہیں ہیں بلکہ اللہ کے اس الرسول ( رسالے اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت ہے ، جسے نہیں ہے جو روز قیامت تک بغیر کسی ردو بدل کے اپنی اصل حالت میں باقی رہے گا ۔کیونکہ اس آیت میں آپس کے تنازعے کے حتمی فیصلے کے لئے اللہ اور الرسول کی عدالت کی طرف لے جانے کا حکم ہے ، اللہ کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت بحیثیت انسان اپنی طبعی عمر کے بعد دُنیا سے چلی گئی ہے۔ اب ہر زمانے میں اللہ اپنے ارسال کردہ الرسول ( رسالہ) جسے اُس نے پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ارسال کیا ہے یعنی قرآن کے ذریعے انسانوں کے درمیان موجود ہے رہ کر انسانوں سے مخاطب ہوکر رہنما ئی کرتا رہے گا ،اور یہ کتاب بحیثیت الرسولہ رہتی دُنیا تک اللہ کا پیغام انسانوں تک پہنچاتی رہے گی، اللہ انسانوں کو انسانوں کے درمیان ہر تنازعے کے حتمی حل کے لئے اپنے رسالے ( قرآن) کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس رسالے کے ذریعے حتمی حل اور حتمی فیصلہ پیش کرتا ہے۔
اس دنیا میں الرسول ( اللہ کے رسالے ‘‘ قرآن ’’) کی حیثیت اس آئین و دستور (Constitution) کی ہے جس کے ذریعے انسانی معاشرے میں اللہ کی حتمی حاکمیت ہر دور میں قائم کی جاسکتی ہے ۔قرآن کریم نے جہاں جہاں اَطِیْعْو ا اللہ وَاَطِیعوا الرَّسولَ کی اصطلاح استعمال کی ہے ، اس سے مراد اللہ اور اس کا رسالہ قرآن حکیم ہے ، حاکم جب حکم دیتا ہے تو وہ حکیم کہلاتا ہے کیونکہ اللہ کی کتاب ہی اللہ کاحکم اپنے محفوظ رکھ کر انسانوں تک پہنچا رہی ہے ، اس لئے یہ کتاب حکیم ہے، اس لئے اس کی حاکمیت ہی اللہ کی حاکمیت ہے، اس کی اطاعت ہی اللہ کی اطاعت ہے ۔ اس طرح قرآن حکیم ‘‘ نظام حکومت’’ کو باقی رکھتے ہوئے حاکم و محکوم کی تفریق مٹا دیتا ہے ان دونوں کے تعلق کی نوعیت بدل دیتا ہے ۔ حاکم و محکوم کے متعلق اوپر بتایا جا چکا ہے کہ ‘‘ حاکم وہ ہوتا ہے جسے قانون سازی کا اختیار ہو’’ قرآن کریم نےیہ تفریق اس طرح مٹادی کہ قانون سازی کا اختیار کسی انسان کو دیا ہےہی نہیں ۔ اس نے کہا انسان کی ہوس اور جذبات پر پابندی عائد کرنے کےلئے اور دیگر انسانی معاشرے کے لئے ‘‘ حدود و اقدار ’’ اس کتاب (قرآن حکیم) کے اندر محفوظ ہیں اور انہیں کوئی تبدیل بھی نہیں کرسکتا ۔ نظام مملکت کا فریضہ ان حدود کاتحفظ اور افراد کو ( جن میں معاشرے کا نظم و نسق چلانے کےذمہ دار لوگ سب سے پہلے شامل ہوتے ہیں) ان حدود کے اندر زندگی بسر کرنے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ اس لئے اس نظام حکومت میں نہ کوئی حاکم ہوتاہے نہ محکوم ،سب اللہ کے عبد ( فرمانبردار) ہوتے ہیں ، کیونکہ تیری درگاہ میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ۔
تیرا طریق نہیں ہے کتاب سے دوری
تیرا وجود تو مشروط اک کتاب سے ہے
جولائی، 2013 بشکریہ : صوت الحق ،کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/is-sovereignty-god-/d/12687